۲۰۲۲ بتول نومبرہم نے تمہیں جوڑوں میں پیدا کیا – بتول نومبر ۲۰۲۲

ہم نے تمہیں جوڑوں میں پیدا کیا – بتول نومبر ۲۰۲۲

اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق مالک اور فرمانروا ہے۔ اس کی کائنات بہت وسیع ہے، جس کے ایک حصّے میں اس نے انسانوں کو پیدا کیا، اور انہیں ’’خلیفۃ اللہ فی الارض‘‘ قرار دیا۔اس نے انسانوں کو عقل و شعور اور علم سے مزین کیا، تاکہ وہ جاننے بوجھنے والی سمجھدار مخلوق بن جائیں۔اس نے انہیں زمین پر اسی شعور کے ساتھ اتارا، اور گاہے گاہے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ان کی ہدایت کا اہتمام بھی کرتا رہا۔اس نے برائی اور بھالائی کی تمیز ان کے اپنے نفوس میں بھی رکھ دی تاکہ وہ کسی کے بہکاوے میں آنے سے بچیں۔ اس نے پورے اختیار اور ارادے کی قوت کے ساتھ انہیں بھیجا تاکہ وہ اپنے اعمال کے ذمہ دار بنیں۔
یہ عالم ِ بالا کی خاص مشیت ہے کہ اس کائنات میں پیدا کیے جانے والے انسان کو اس زمین کے اختیارات دے دیے جائیں، اور اسے اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیا جائے، اور انسان کو اس زمین کی تحلیل و ترکیب، اس کی تبدیلی و ترقی اور اس کے خزانوں کا کھوج لگانے اور اس کے خام ذخائر کا پتا لگانے اور انہیں مسخر کرنے کے کام پر لگا دیا جائے۔ یہ سب کام اللہ کے حکم سے ہو اور انسان کی اس عظیم مہم کا ایک حصّہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اس انسان کے سپرد کی۔
یہ ایک اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان کو دیا۔ یہ وہ شرف ہے جو انسان کے خالقِ رحیم اور خداوند کریم نے اس کے لیے پسند فرمایا اور کیا ہی بلند ہے یہ مقام!! (دیکھیے: فی ظلال القرآن، البقرۃ، ۳۰)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘۔ (التین،۴)
اللہ تعالیٰ نے انبیاؑ کے مقامِ ظہور کی قسم کھا کر فرمایا کہ انسان بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے، یعنی نوعِ انسانی کو اتنی بہتر ساخت عطا کی گئی کہ اس کے اندر نبوت جیسے بلند ترین منصب کے حامل لوگ پیدا ہوئے، جس سے اونچا منصب خدا کی کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں ہؤا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعلی درجے کا جسم عطا کیا جو کسی دوسری جاندار مخلوق کو نہیں دیا گیا۔ اسے فکر و فہم اور علم و عقل کی وہ بلند پایہ قابلیتیں بخشی گئی ہیں جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں بخشی گئی ہیں۔ (تفہیم القرآن، ج۶،ص۳۸۷)
ارشاد الٰہی ہے: ’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی ….. اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی‘‘۔ (بنی اسرائیل،۷۰)
انسان کی سب سے بڑی تکریم یہ ہے کہ انسان خود اپنا ناظم اور کنٹرولر ہو۔ وہ ذمہ دار ہو اور اپنے افعال و اعمال کے نتائج بھگتے۔ یعنی وہ آزاد ہے جو چاہے کرے اور جو بھی کرے اس کے نتائج و عواقب کا بھی ذمہ دار ہو اور جو بوئے اسے کاٹے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس دار العمل میں اللہ کا خلیفہ قرار پایا ہے۔ لہٰذا عدل و انصاف کا بھی تقاضا یہی ہے کہ دار الحساب اور یوم الحساب میں وہ اپنے کیے کا ذمہ دار ہو اور اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تربیت اور رہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے اور یہ تربیت زندگی کے ہر میدان میں کی، جس کے نتیجے میں ایک اسلامی معاشرہ پروان چڑھا۔ اللہ تعالیٰ مختلف سوچ اور فکر کے انسانوں کی اپنے ربانی نظامِ حیات کے ذریعے رہنمائی کرتا ہے اور انسان کا ہاتھ پکڑ کر قدم قدم پر اسے صحیح راستہ دکھاتا ہے تاکہ اگر وہ راہ ِ ہدایت سے بھٹک جائے تو اس کی گری ہوئی حالت سے نکال کر اسے مقامِ بلند تک لے جائے۔

کیونکہ دنیا کی زندگی جو انسان کے لیے دار الامتحان ہے اس میں قدم قدم پر اس کے لیے خطرات ہیں، کہیں ابلیسِ لعین کے پھیلائے ہوئے برائی کے جال ہیں، کہیں انسانی خواہشاتِ نفس ہیں، کہیں مرغوباتِ جسمانی اور کہیں زینت بھری ترغیبات! انسان خوف و خطر میں گھرا کھڑا ہے۔ اس کی راہ میں قدم قدم پر کانٹے بچھے ہیں، اس کے دشمن اس کی گھات میں ہیں لیکن اللہ اس کی رہنمائی کر رہا ہے۔
نظامِ خاندان
قرآنِ کریم میں اسلامی سوسائٹی کی تنظیم کے لیے ہدایات دی گئی ہیں کہ مسلمان اپنی زندگی کس طرح بسر کریں، اسی حوالے سے فرمایا:
’’لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیے‘‘۔ (النساء،۱)
یعنی تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا ہے اور وہ ایک ہی خاندان سے بکھرے ہیں، انسانی نفس ہی دراصل اصل انسانیت ہے اور انسانی خاندان ہی دراصل انسانی معاشرے کی اکائی ہے۔عورت اور مرد دونوں انسان ہیں، دونوں ایک ایک جان ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو دوسری جان کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ انسانیت کا ایک حصّہ ہے لیکن وہ دوسرے حصے کے لیے تکمیلی ہے، مرد اور عورت مل کر ایک جوڑا ہیں اور ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حیثیت کے حامل ہیں۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ زندگی کا ابتدائی سیل (خلیہ) خاندان ہے۔دنیا میں منشائے الٰہی یہ ہے کہ یہ انسانی پودا ایک خاندان میں پھلے پھولے، لہٰذا اس نے ایک جوڑے سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں۔اور ان سے بہت سے خاندان وجود میں آئے۔ان تمام افراد کے درمیان پہلا رابطہ وحدانیت ِربوبیت اور اس کے بعد وحدتِ خاندان کا ہے۔جس کے اوپر انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے، لیکن عقیدہ اور نظریہ اس خاندانی رابطے سے بھی پہلے نمبر پر آتا ہے۔اسلامی نظامِ زندگی میں خاندان کی شیرازہ بندی اور پختگی کے لیے تمام تدابیر اختیار کی جاتی ہیں اور اس کی اساس کو مستحکم کیا جاتا ہے اور اسے ان تمام عوامل اور موثرات سے بچایا جاتا ہے، جو کسی بھی طرح اس کی کمزوری کا باعث ہوں۔ (دیکھیے: فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
خاندانی نظام کی تباہی
خاندانی نظام کی تباہی میں سب سے موثر عامل یہ ہوتا ہے کہ انسان فطری روش کے خلاف طریقِ کار اختیار کرے۔ اور مرد کی صلاحیتو ں اور عورت کی صلاحیتوں کا اچھی طرح ادراک نہ کرے نیز مرد اور عورت دونوں کی صلاحیتوں کے اندر توازن پیدا نہ کیا جائے اور ان قوتوں کو مرد اور عورت پر مشتمل خاندان کی تشکیل اور تعمیر میں استعمال نہ کیا جائے۔
معاشرے کی اساس خاندان ہے اور خاندان کی تنظیم نکاح سے ہوتی ہے۔نکاح باہمی رضامندی سے کچھ شرائط اور قیود کے ساتھ ہوتا ہے۔نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے، جو اعلانیہ کیا جانا ضروری ہے، خفیہ عہد و پیمان سے منع کیا گیا ہے۔
اسلامی نظامِ زندگی ایسے تصورات پر مبنی نہیں ہے جو فطرتِ انسانی سے متصادم ہو، نہ ایسے تصورات پر مبنی ہے جن کا انسان کے حالات و واقعات سے کوئی جوڑ نہ ہو، اور وہ بخارات کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جائے، بلکہ وہ ایسا نظام ہے جو انسانی تخلیق کو سامنے رکھتا ہے، اور وہ اسلامی معاشرے میں پاکیزگی کا داعی ہے۔اس لیے وہ انسانی معاشرے میں صرف مادیت کو رواج نہیں دیتا۔ ایسی مادیت جو انسان کے چہرے بشرے کو خراب کر دے، اور انسانی معاشرہ کو آلودہ کر دے۔ وہ ہدایت کرتا ہے کہ ایسی صورتِ حال پیدا کی جائے جس میں تخلیقِ انسانی محفوظ ہو۔جس میں معاشرہ پاکیزہ ہو اور یہ سب کچھ بسہولت اور بہت تھوڑی جد و جہد سے حاصل ہو جائے۔
نکاح نسل ِ انسانی کی بقا کا پاکیزہ طریقہ ہے، یہ نکاح کی برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے مستقبل یعنی اولاد سے نوازتا ہے۔ اور یہ انسان کا نصیب ہے کہ وہ اسے کیا عطا فرماتا ہے، ارشاد ِ الٰہی ہے:
’’اللہ زمین و آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے،جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے ، اور جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے

بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ (الشوری، ۴۹۔۵۰)
یہاں اولاد کو زندہ کرنے اور عطا کرنے کا مضمون ہے۔ اس کے ساتھ صفتِ تخلیق کا ذکر کیا ہے اور انسان کو بتایا ہے کہ جو تم پسند کرتے ہو، ان کو بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور جن کو تم ناپسند کرتے ہو ان کو بھی اللہ پیدا کرتا ہے۔ وہی دینے والا اور وہی محروم کرنے والا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
مزید فرمایا:
’’وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ (فاطر،۱)
یوں اللہ کی مشیت بے قیدہے اور وہ خود اپنی بنائی ہوئی اشکال کا پابند نہیں ہے، اس کی مخلوقات کی لاتعداد شکلیں ہیں اور بہت سی ایسی ہیں جن جو ابھی تک ہمارے علم سے باہر ہیں۔اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔یہ بہت وسیع اور جامع تبصرہ ہے، لہذا کسی صورت کے تعین کی ضرورت نہیں ہے، یعنی تمام شکلیں اللہ کی قدرت کے دائرے میں آتی ہیں۔ ہر قدم کا تغیر و تبدل اللہ کی قدرت کے تحت ہے۔ (فی ظلال القرآن)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے، کبھی یہ آزمائش عطا، عطیہ اور اس کے فضل اور رحمت کے ساتھ بھی ہوتی ہے کہ وہ شکر ادا کرتا ہے یا کفران ِ نعمت۔ اور کبھی یہ آزمائش کسی کمی اور عدم عطا کے ساتھ بھی ہوتی ہے، ارشاد ہے:
’’ہم ضرور تمہیں خوف خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اور خوش خبری سنا دیں صبر کرنے والوں کو‘‘۔ (البقرۃ،۱۵۵)
اللہ تعالیٰ انسان کو مصائب کی بھٹی سے گزارتے ہیں، اور سچے فرمانبردار کے عزمِ صمیم کا امتحان لیتے ہیں۔ یہ آزمائشیں انسان کا ایک نفسیاتی امتحان ہیں کہ وہ بخوشی ان مصائب و شدائد پر صبر کرتے ہیں یا نہیں۔ یہ آزمائش صبر کرنے والوں کو انعام و اکرام کی خوش خبری بن جاتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کسی قدر خوف ،بھوک اور مال اور جان کی کمی سے آزماتا ہے۔ یعنی یہ آزمائش کچھ حصّے کی ہوتی ہے۔ اگر خوف ہے تو وہ اسی خوف سے امن بھی دیتا ہے، اور بھوک کے بعد کھانا بھی عطا کرتا ہے۔ اور انفس کی کمی یہ ہے کہ اللہ بعض محبوب رشتوں سے عارضی جدائی (موت) پیدا کر دیتا ہے۔اولاد، عزیز و اقارب اور دوستوں سے جدائی۔ یا انسانی جسم میں کوئی مرض یا معذوری۔ اور ایسی ہی کمی پھلوں، غلّے اور اموال میں واقع ہو جاتی ہے۔اسی طرح کی کمی انسان میں پیدائشی طور پر ہو سکتی ہے۔
خنثیٰٰ یا انٹرسکیس ولادت
اللہ تعالیٰ تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
’’اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم اس سے سبق لو‘‘ ۔ (الذاریات، ۴۹)
یعنی ساری کائنات کو اللہ نے تزویج کے اصول پر بنایا ہے۔ دنیا میں ہر شے کا جوڑا ہے۔ یہاں کوئی شے بھی ایسی منفرد نہیں ہے کہ دوسری کوئی شے اس کا جوڑ نہ ہو۔
مزید فرمایا:
’’پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں ، یا خود ان کی اپنی جنس (نوعِ انسانی) میں سے، یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں‘‘۔ (یٰس،۳۶)
صرف عورت اور مرد ہی کا جوڑا نہیں ہے بلکہ حیوانات کی نسلیں بھی نر ومادہ کے ازدواج سے چل رہی ہیں۔ نباتات میں بھی ترویج کا اصول کام کرتا ہے حتیٰ کہ بے جان مادوں تک میں مختلف اشیاء جب ایک دوسرے سے جوڑ کھاتی ہیں تب کہیں ان سے طرح طرح کے مرکبات وجود میں آتے ہیں۔ (دیکھیے: تفہیم القرآن، نفس الآیۃ)
جس طرح مخلوقات میں کسی کی صفات افضل اور کسی کی کم تر ہوتی ہیں اسی طرح انسانوں میں کچھ مکمل اور کچھ عیب دار ہوتے ہیں۔ انسانی حیات کے ہر دور میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو پیدائشی طور پر کسی عضویاتی محرومی یا نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔، اور معاشرے میں پیدائشی اندھے، گونگے، بہرے، لنگڑے، ہوتے ہیں۔ جس طرح آنکھ، کان، زبان میں کوئی پیدائشی نقص واقع ہو سکتا ہے اسی طرح بعض اوقات

صنفی اعضاء میں بھی نقص یا کمی واقع ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض نقائص ایسے ہوتے ہیں کہ علاج سے درست ہو جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو ناقابلِ علاج ہوتے ہیں۔ جیسے بظاہر ایک مکمل مرد اور عورت نسلِ انسانی کے فروغ کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں اور بے اولاد اور بانجھ بھی ہو سکتے ہیں۔ کچھ کمزوریوں اور نقائص کا علاج ممکن ہے اور کچھ لا علاج ہوتے ہیں۔
جس طرح ہر معذوری کے باوجود انسان بحیثیت انسان زندگی کا حق رکھتا ہے اسی طرح انٹر سیکس اور خنثیٰ بھی معاشرے کا مفید عنصر بن سکتے ہیں اور شریعت حقوق و فرائض کے معاملے میں ان سے ایک انسان کا سا برتاؤ کرتی ہے۔
انٹر سیکس اور خنثیٰٰ تین اقسام کے ہیں:
(۱ )جن کے اعضاء میں نقص ہے مگر وہ مرد یا عورت میں سے کسی ایک جانب نظر آتے ہیں۔ (ان میں سے بعض علاج سے اور بعض بالغ ہونے تک واضح طور پر مرد یا عورت سے مماثلت اختیار کر لیتے ہیں)۔
(۲) جن میں کوئی صنف واضح نہیں ہے، یعنی نہ مرد کی شباہت ہے نہ عورت کی۔ (تو جس جانب زیادہ جھکاؤ ہو گا، اس خنثیٰ سے اس کی مانند برتاؤ کیا جائے گا)
(۳) خنثیٰ مشکل یعنی جس میں مرد اور عورت دونوں کے اعضاء موجود ہوں ، اگرچہ نا مکمل حالت میں ہوں تو اس کا مشاہدہ فعال عضو کی حیثیت سے کرے گا، یعنی اگر اس کا پیشاب مردانہ عضو سے نکلے گا تو اسے مرد کے برابر حقوق ملیں گے اور اگر زنانہ عضو فعال ہو گا تو عورت کے حقوق ملیں گے۔جس میں مسجد اور مردانہ محافل میں جانے کا حق اور وراثت میں لڑکے کا حق یعنی دوہرا حصّہ ملے گا۔ اور جس کے صنفی اعضاء میں زنانہ پن غالب ہو گا (حرکتوں کا یا سوچ کا اعتبار نہیں ہو گا)، اسے نسواں جیسے حقوق ملیں گے جیسے وراثت کا حق۔
خنثیٰ یا انٹر سیکس مردانہ غالب خصوصیات کا حامل ہو یا زنانہ، اس کی حیثیت مختلف ہو گی، جیسے غالب مردانہ صفات کے باوجود وہ مسجد میں امامت نہیں کروا سکتا ، البتہ عورتوں کو صف میں کھڑا ہو کر نماز پڑھا سکتا ہے۔ اگر وہ بالغ ہو کر یا قریب البلوغ وفات پا جائے تو اسے غسل نہیں دیا جائے گا اور دستانہ پہن کر تیمم کروایا جائے گا۔اور بہتر ہے کہ اس کا کوئی محرم تیمم کروائے۔(المغنی، دار الفکر)
اور خنثیٰ مردانہ صفات کا حامل ہو یا زنانہ، وہ کسی میت کو غسل نہیں دے سکتا۔
خنثیٰٰ کا علاج
اگر خنثیٰ مرد یا عورت جس کے اعضانامکمل ہوں، اور بلوغت کی عمر تک پہنچنے کے بعد جب اس کے اعضا زیادہ واضح ہو جائیں تو اس کا طبی معائنہ اور مناسب علاج کیا جا سکے گا۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں، اگرچہ وہ اس سے پہلے مختلف شناخت کے ساتھ زندگی گزار چکا ہو۔
اسی طرح مشکل خنثیٰ جس میں مردانہ اور زنانہ دونوں اعضا نا مکمل حالت میں پائے جاتے ہوں اسے بھی بلوغت پر مردانہ یا زنانہ خنثیٰٰ قرار دیا جاسکے گا، اور اسی کے مطابق اس سے معاشرتی طور پر معاملہ کیا جائے گا، اور وہ وراثت میں حصّہ پائے گا۔
مصیبت پر صبر
مومن بندے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان رکھے اور ہر خیر و شر کو اللہ کی جانب سے تقدیر سمجھے۔ہر تلخ و شیریں پر سر تسلیم خم کر دے۔ اگر اسے کوئی ناپسندیدہ شے بھی ملے تو اس پر اجر کی نیت سے صبر کرے، دنیا میں ایسے جوڑے بھی ہیں جنہیں کثرت سے اولاد کی نعمت ملی اور ایسے بھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے بانجھ بنا دیا، اسی طرح اس نے ایسے انسان بھی تخلیق کیے جو کسی جسمانی، یا ذہنی عذر کے ساتھ پیدا کیے گئے، اور انہیں میں وہ بھی ہیں جنہیں جنسی طور پر کمزور یا معذور پیدا کیا گیا۔ اگر وہ اس کمی پر صبر کریں گے اور جو کچھ اللہ نے انہیں صلاحیتیں اور وسائل عطا کیے ہیں انہیں بہترین مصرف میں لائیں گے، اور جو نہیں دیا اس پر شکوہ اور جزع فزع نہیں کریں گے، کہ یہ کیفیت ایمان کو کمزور کر دیتی ہے، اور گناہ کی جانب مائل کرتی ہے، اور شکر گزاروں کے لیے ان کے رب کے ہاں بہترین اجر ہے۔
خنثیٰٰ کے خاص احکام
خنثیٰ غیر مشکل (جس کی کوئی ایک صنف کی جانب غالب علامات موجود ہیں) سے اسی صنف کے مطابق مردانہ یا زنانہ طور پر معا ملا ت

کیے جائیں گے۔اور وہ اسی کے مطابق وراثت پائے گا۔
خنثیٰ مشکل میں چونکہ مرد یا عورت کسی کی بھی غالب صفات نہیں ہیں یا اس میں دونوں کے نامکمل اعضا ہیں یا اس میں متعارض علامات ہیں؛ تو اس کی بلوغت کے بعد نمایاں صنف کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔یہ دیکھا جائے گا کہ اس کا پیشاب کس عضو سے پہلے باہر آتا ہے، اور اگر اسے حیض آئے یا سینے میں ابھار ہو تو عورت کا معاملہ اور اگر داڑھی آ جائے تو مرد کا سا معاملہ کیا جائے گا، اور زائد عضو کو آپریشن سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ (الموسوعہ الفقیھہ الکویتیہ،۲۰۔۲۲)
اگر کسی خنثیٰ میں دونوں اعضاء پائے جاتے ہیں تو بلوغت کے بعد طبی ماہرین کی رائے سے اسے راجح صنف کا حق دیا جائے گا اور عملِ جراعی سے زائد عضو کو ہٹا دیا جائے گا۔ (مجموعہ الفتاوی والمقالات، الشیخ ابن باز)
احکامِ نماز
کیا خنثیٰ مشکل پر باجماعت نماز لازم ہے یا وہ گھر میں نماز ادا کرے گا؟
علامہ ابن ِ عثیمینؒ فرماتے ہیں:
جو خنثیٰ یہ نہیں جانتا کہ وہ مرد ہے یا عورت ، تو اس پر با جماعت نماز فرض نہیں ہے کیونکہ ابھی اس کی جنس کا تعین نہیں ہو سکاہے۔(الشرح الممتع،۴۰۔۱۴۰)
اگر وہ مسجد میں نماز ادا کرے تو اس کی نماز درست ہے البتہ اس کی صف مردوں کے بعد اور عورتوں سے آگے ہو گی۔ اور ایک رائے میں پہلے مرد، پھر بچے پھر خنثیٰ اور آخر میں عورتوں کی صف بندی کی جائے گی۔اور اگر وہ مردوں کی صف میں ہو تو مرد کی نماز فاسد ہو جائے گی۔
۔ خنثیٰ دوپٹہ اوڑھ کر نماز ادا کرے ، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ عورت کی صفات کی حامل ہو۔
۔ خنثیٰ مشکل امامت نہیں کروا سکتا، کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ وہ عورت ہو اور اس کے مقتدی مرد ہوں۔البتہ وہ عورتوں کی امامت کروا سکتا ہے حنفیہ ، شافیہ اور حنابلہ اس پر متفق ہیں، کیونکہ عورت عورتوں کو نماز(صف میں کھڑی ہو کر)پڑھا سکتی ہے۔البتہ اس کے امام بننے میں اختلاف ہے۔
احکام پردہ
حنفیہ اور شافیہ کے نزدیک خنثیٰ مشکل اپنے تمام جسم اور سر کے بالوں کو چہرے اور کلائیوں کے سوا ڈھانپ کر رکھے گی۔مالکیہ کہتے ہیں وہ نماز اور حج میں عورت کا ستر ڈھانپے گی جبکہ حنابلہ کی رائے میں وہ مرد کا ستر ڈھانپے ، کیونکہ ابھی اس کے غالب میلان کا تعین نہیں ہؤا۔
خنثیٰ سے پردہ
زینب بنت امّ سلمہ سے روایت کرتی ہیں کہ میرے گھر میں ایک ہیجڑا (خنثیٰ) تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ گھر میں موجود تھے اس نے ام سلمہؓ کے بھائی عبد اللہ بن ابی امیہؓ سے کہا کہ اگر کل اللہ طائف کو فتح دے تو میں تجھے دختر غیلان دکھاؤں گی، وہ اتنی موٹی ہے کہ جب سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ پر بٹیں پڑ جاتی ہیں اور جب پیٹھ موڑ کر جاتی ہے تو آٹھ سلوٹیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: اے بیویو، یہ مخنث آئندہ تمہارے پاس نہ آنے پائیں‘‘۔ (رواہ البخاری، ۲۱۹)
خنثیٰ کی شادی
جس خنثیٰ کی جنس عورت یا مرد کی حیثیت سے ظاہر ہو جائے اسے اپنی مخالف جنس سے شادی کا حق حاصل ہے، البتہ ایسے خنثیٰ جو مشکل ہیں، یعنی جن کی کوئی ایک شناخت واضح نہیں ہے ان کی شادی نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس سے احتمال ہے کہ اگر وہ مردانہ صفات کا حامل ہے تو کسی مرد سے اس کی شادی نہ ہو جائے اور اسی طرح اگر وہ نسوانی خصائص کا حامل ہے تو اس کی کسی عورت سے شادی نہ ہو جائے۔ایسی صورت میں مشکل خنثیٰ کیا کرے؟
امام ابن العثیمینؒ فرماتے ہیں: کہ جس خنثیٰ کی جنس واضح نہ ہو اور وہ اپنے اندر شہوت پاتا ہو تو اسے ہم وہی کہیں گے جو رسول اللہؐ نے ان لوگوں سے کہا تھا جو نکاح کی مقدرت نہیں رکھتے؛ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص نکاح کی مقدرت پائے وہ نکاح کر لے کیونکہ یہ نگاہوں کو پست رکھنے والا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا ہے، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزہ رکھے‘‘۔تو ہم اسے بھی یہی کہیں گے کہ روزہ رکھ لو۔اگر

وہ کہے کہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتا تو اسے ایسی ادویات دی جائیں گی جو اس کی شہوت کو کم کر دے۔ (الشرح الممتع، ۱۲۔۱۶۱)
جو شخص نامرد ہو یا کمزور ہو شرعاً اسے نکاح سے منع نہیں کیا گیا مگرفریق ِ ثانی کو اس کی کیفیت معلوم ہونا ضروری ہے۔اسے بے خبری میں رکھ کر نکاح کرنا گناہ ہے اور عورت کو فسخِ نکاح کا حق ہے کیونکہ جماع اور اولاد عورت اور مرد کا مشترک حق ہیں۔
جو شخص جماع پر قادر نہیں، حنابلہ اور ابنِ تیمیہؒ کی رائے میں فوری طور پر نکاح فسخ کروایا جائے، اور جمہور علما جن میں حضرت عمرؓ بھی ہیں کی رائے میں مرد کو ایک سال کی مہلت دی جائے۔(الموسوعۃ الفقیہہ،۱۲۔۱۶)
خنثیٰ مرد ہو یا عورت اس کے جنس کے تعین اور طبی ماہر کی رائے کے بعد اسے نکاح کی اجازت دی جا ئے گی۔مشکل خنثیٰ کے معاملے میں اس قدر احتیاط کا مقصد یہی ہے کہ اسے غلط جنس کا حامل قرار نہ دیا جائے، کیونکہ اس سے وراثت غلط تقسیم ہونے کا خطرہ ہے اور ایسے نکاح کی صورت میں مرد کے مرد سے نکاح اور عورت کے عورت سے نکاح کا خدشہ موجود ہے جو بہت بڑا گناہ ہے اور اس گناہ کی سزا دنیا کی سب سے بڑی سزا ہے، یہ بڑا فحش کام ہے۔
ازواج کی ترکیب
اللہ تعالیٰ نے تمام ذی حیات انواع میں نر ومادہ کا فرق محض تناسل اور بقاعِ نوع کے لیے رکھا ہے۔ نوعِ انسانی میں دونوں صنف کے افراد مل کر خاندان بناتے ہیںاور اسی سے تمدن فروغ پاتا ہے۔اسی مقصد کے لیے عورت اور م رد کی صنفیں الگ الگ بنائیں اور ان میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش رکھ دی گئی۔ ان کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرے کے جواب میں مقاصدِ زوجیت کے عین مطابق بنائی گئی ہے۔اور ان کے جذب و انجذاب میں وہ لذت رکھی گئی ہے جو فطرت کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورتوں کو دو مختلف وظائف کے لیے پیدا کیا تو ان کے حلیے اور لباس کو بھی مختلف اور ممیز بنایا۔اور انہیں ایک دوسرے کا حلیہ اختیار کرنے سے منع کیا۔
عورت اور مرد کا ایک دوسرے کی مشابہت کرنا
نبی اکرم ؐ نے فرمایا: ’’عورت کے لیے مرد کا لباس پہننا اور مرد کے لیے عورت کا لباس پہننا ممنوع ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد،۴۰۹۸)
آپؐ نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (الطبرانی،۸۔ ۲۰۴)
مشابہت کے مفہوم میں بات چیت، حرکت، چال اور لباس وغیرہ شامل ہیں۔
انسانی زندگی میں شر کے پیدا ہونے اور معاشرہ کے بگاڑ میں مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت سے انحراف اور طبعی امور کے خلاف رویہ اختیار کرتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کی الگ خصوصیات بنائی ہیں اور عورتوں کی الگ! ان میں سے جو بھی دوسری صنف کا حلیہ یا صفات اختیار کرے گا، اس کا نتیجہ بگاڑ اور اخلاقی گراوٹ کی صورت میں نکلے گا۔
نبی اکرم ؐ نے ایسے شخص کو ملعون قرار دیا جس نے اپنے آپ کو مؤنث بنا لیا اور عورتوں سے مشابہت کرنے لگا، حالانکہ اللہ نے اسے مرد بنایا تھا، اور وہ عورت بھی جسے اللہ نے مؤنث بنایا تھا لیکن وہ مذکر بن کر مردوں کی مشابہت کرنے لگی۔ (الطبرانی، ۷۸۲۷)
جو دین ظاہر اطوار میں دوسری جنس کی شباہت اختیار کرنے میں شدت سے منع کرتاہے وہ غلط ازواجی معاملات میں بھی ایسی ہی واضح ہدایات دیتا ہے۔
ارشاد ِ الٰہی ہے:
’’جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملکِ یمین میں ہوں….جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں‘‘۔ (المؤمنون،۵۔۷)
اس فقرے نے مذکورہ بالا دوجائز صورتوں کے علاوہ خواہشِ نفس پوری کرنے کی تمام دوسری صورتوں کو حرام کر دیا، خواہ وہ زنا ہو، یا

عملِ قومِ لوط، یا وطی بہائم یا کچھ اور( صرف استمنا بالید کے معاملے میں اختلاف ہے، بعض اسے جائز ٹھہراتے ہیں اور بعض حرام) ۔
خدائی ساخت میں تبدیلی
شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ ہر طریقے سے انسانوں کو صراطِ مستقیم سے ہٹانا چاہتا ہے، اور جو لوگ اپنی باگیں اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں وہ انہیں انتہائی فحش اور شرمناک کاموں پر لگا دیتا ہے:
’’وہ اس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے، جس نے اللہ سے کہا تھا کہ ’’میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصّہ لے کر رہوں گا….اور میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردو بدل کریں گے‘‘۔(النساء، ۱۱۸۔۱۱۹)
یعنی انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا نہیں کیا ہے، اور کسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے، بالفاظِ دیگر وہ انسانوں سے اور اشیا سے ان کی فطرت کے خلاف کام لے۔ وہ تمام صورتیں جو منشائے فطرت سے گریز کے لیے وہ اختیار کرتا ہے اس آیت کی رو سے شیطان کی گمراہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں، مثلاً عملِ قومِ لوط، ضبطِ ولادت، رہبانیت، برہمچرج، مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنانا، مردوں کو خواجہ سرا بناناوغیرہ۔ (تفہیم القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
عملِ قومِ لوطؑ
قومِ لوطؑ دنیا کی وہ قوم ہے جس نے شیطان کے اتباع کی ایسی تاریخ رقم کی کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہ تھی جس نے یہ عمل کیا ہو۔اللہ کے حکم سے حضرت لوطؑ نے انہیں کہا: ’’کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو‘‘۔ (الاعراف،۸۰۔۸۱)
یہ شرق ِ اردن کے علاقے سدوم اور قریبی چار شہروںمیں رہنے والی قوم تھی۔یہ قابلِ نفرت فعل جس کی بدولت اس قوم نے شہرتِ دوام حاصل کی ہے اس کے ارتکاب سے تو بد کردار انسان کبھی باز نہیں آئے، لیکن یہ فخر صرف فلاسفہء یونان کو حاصل ہے کہ انہوں نے اس گھناؤنے جرم کو اخلاقی خوبی کے مرتبے تک اٹھانے کی کوشش کی ، اور اس کے بعد جو کسر رہ گئی اسے جدید مغرب نے پورا کیا کہ علانیہ اس کے حق میں پروپیگنڈا کیا گیا، یہاں تک کہ بعض ملکوں کی مجالسِ قانون ساز نے اسے باقاعدہ جائز ٹھہرا دیا۔ حالانکہ یہ بالکل ایک صریح حقیقت ہے کہ’’ مباشرتِ ہم جنس ‘‘ قطعی طور پر فطرت کے خلاف ہے۔
اس جرم کا فاعل اپنی ہی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب سے جنگ کرتا ہے جس سے اس کے جسم اور نفسیات دونوں پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔وہ فطرت کے ساتھ خیانت اور غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت کے لیے نا اہل بناتا ہے، اور کم از کم دو اور لوگوں کی ازدواجی زندگی کے حق پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔اور ان کے لیے صنفی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا دروازہ کھولتا ہے۔(تفہیم القرآن)
قومِ لوط کا عذاب
عمل ِقومِ لوط ایک بدترین گناہ ہے جس پر ایک قوم اللہ کے غضب کا شکار ہوئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ہم نے اس قوم پر برسائی ایک بارش، پھر دیکھو کہ ان مجرموں کا کیا انجام ہؤا‘‘۔ (الاعراف،۸۴)
’’پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آگیا تو ہم نے اس بستی کو تلپٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے، جن میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں نشان زدہ تھا۔ اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دور نہیں ہے‘‘۔ (ھود،۸۲۔۸۳)
آج جو لوگ قومِ لوط جیسی ظالمانہ روش پر چل رہے ہیں ، وہ بھی عذاب کو اپنے سے دور نہ سمجھیں۔ عذاب اگر قومِ لوط پر آسکتا تھا تو ان پر بھی آسکتا ہے۔ خدا کو نہ لوطؑ کی قوم عاجز کر سکی تھی نہ یہ کر سکتے ہیں۔قومِ لوطؑ کا یہ تباہ شدہ علاقہ آج بھی عبرت کے نشانات لیے ہوئے موجود ہے ، اور انسانوں کی جدید آبادیوں میں بسنے والے شیطان کے پجاریوں اور ہوس پرستوں کو پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ آزادی کے نام پر مرد مردوں سے شہوت پوری کرنے لگیں یا عورتیں عورتوں سے، یا جانوروں کی مانند

حیوانیت پر اتر آئیں، بحرِ لوط (بحیرہِ مردار یا ڈیڈ سی) کا ایک نظر تصور کر لیں جس کے بارے میں جغرافیہ دانوں کا بیان ہے کہ یہاں اس درجہ ویرانی پائی جاتی ہے جس کی نظیر روئے زمین پر کہیں اور نہیں دیکھی گئی۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here