گھریلو باغیچے کو اکثر باورچی خانہ باغیچہ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس باغیچے سے باورچی خانےکی ضرورت کے لیےتازہ سبزی گھر ہی سے حاصل کی جاتی ہے ۔ مدتوں سے انسان اپنی اور اپنے خاندان کی خوراک کا بندوبست اسی طرح کرتا آیا ہے۔ آج بھی بہترین ،تازہ اور صاف ستھری سبزیوں کے حصول کے لیے گھر وں میں زمین یا گملوں، پرانے ڈبوں، ٹب ،بالٹی یا لکڑی کے کریٹ وغیرہ میں اپنی من پسند سبزیاں لگائی جاسکتی ہیں اور کئی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
گھریلو باغیچے سے آپ کو صرف تازہ اور سستی سبزی ہی نہیں ملے گی بلکہ گھر میں باغیچہ لگانے کے انسانی صحت اور ماحول دونوں پر بڑے نفع بخش اثرات پڑتے ہیں۔ ان میں سے چند فوائد کا ذکر یہاں ہے۔
غذائی و طبی فوائد کا حصول
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں کی زمین بھی اکثر فصلوں کے لیے بہترین ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس ملک کے زیادہ تر علاقوں میں سب ہی موسم پائے جاتے ہیں ۔ سردی، گرمی ، خزاں اور بہار اور ان موسموں میں مختلف اقسام کی پیداوار ممکن ہوتی ہے۔ یعنی زیادہ تر علاقوں میں ہر ماہ میں کوئی نہ کوئی سبزی اگائی اور حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری آبادی کی اکثریت سبزیوں اور پھلوں کی کمی کے باعث اچھی صحت کو برقرار رکھنے سے محروم رہتی ہے۔ گھریلو باغیچہ اسی مسئلے کو حل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
سبزیاں ہماری صحت کو برقرار رکھنے ، جسم کی بہترین نشوونما کرنے، بیماریوں سے بچانےاور علاج کرنے کے لیے اہم ہیں ۔ یہ جسم سے فاضل مادوں کے اخراج میں مدد دیتی ہیں ، آنتوں میں کولیسٹرول کی تہوں کی صفائی کرتی ہیں اور دماغ کی نشوونما کے لیے اکسیرہیں۔ ان کا متوازن استعمال جسم میں مختلف بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے اور معدے کی تیزابیت کو بھی ختم کرتا ہے۔ اسی بنا پر ماہرینِ خوراک ا نہیں انسانی غذا کا بنیادی جزو قرار دیتے ہیں۔
قرآن و حدیث میں سبزیوں کا ذکر ملتا ہے۔ ادرک جو کہ ایک بہترین سبزی ہے اس کا ذکر قرآن مجید میں ملتا ہے کہ جنّت والوں کے مشروبات میں زنجبیل (ادرک) کی ملاوٹ ہوگی جیسا کہ سورہ الدھر میں ہے ، ’’اور جنت میں ان کو ایسے جام پلائے جائیں گے جس میں زنجبیل ملا ہوا ہوگا ‘‘ (الدھر: 17)۔نبیﷺ کی احادیث میں مختلف سبزیوں کی اہمیت کے بارے میں ارشادات موجود ہیں ۔جیسا کہ میتھی کے بارے میں حضرت قاسم بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ؐنے فرمایا’’ میتھی‘‘ سے شفا حاصل کرو (ابنِ قیم، طبِ نبوی) ۔ اسی طرح کدو کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپؐ کی پسندیدہ سبزی تھی۔ جیسا کہ سیدنا انَس رضی اللہ عنہ کےبیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’میں ایک مرتبہ آپ ؐکے ہمراہ ایک دعوت میں گیا تو صاحبِ خانہ نے جَو کی روٹی اور کدّو گوشت کا سالن پیش کیا۔میں نے دیکھا کہ آپ ؐ چُن چُن کر کدّو تناول فرما رہے تھے لہٰذا اس دن سے میں بھی کدّوشوق سے کھانے لگا‘‘(بخاری )۔ نبی ؐنے ایک بار حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ارشاد فرمایا کہ ’’اے عائشہؓ جب تم ہانڈی پکایا کرو تو اس میں کدو ڈال لیا کرو کیونکہ یہ غمگین دلوں کے لیے تقویت ہے‘‘۔آج کئی بیماریوں سے بچاؤاور علاج کے لیےمختلف سبزیوں کےاستعمال پر زور دیا جارہا ہے۔
گھریلو باغیچہ بچت کرنے کا ذریعہ ہے
ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں آمدنی کا بڑا حصہ کچن کی اشیا خریدنے کے کام آتا ہے۔ جب اس میں سےروزانہ کی سبزی نکال دی جائے گی تو کافی پیسہ بچ جائے گا جسے کسی اور ضروری جگہ استعمال کیا جا سکے گا۔ یعنی گھر میں اُگائی گئی ان سبزیوں کی پیداوار سے گھر یلو اخراجات میں کافی کمی کی جا سکتی ہے۔
پودے موسم پر اثرانداز ہوتے ہیں
یہ ماحول کو خوبصوت بنانے کے ساتھ ساتھ اسے ٹھنڈا رکھنے میں بےمثال ہیں ۔ درختوں کی کمی دنیا بھر میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً ایک بڑا مسئلہ ہے اسی لیے موجودہ حکومت نے اس پر قابو پانے کی مختلف کوششیں کی ہیں انہی میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان بھر میں ’’دس بلین درخت لگاؤ ‘‘مہم جاری کی جس پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ درختوں کی کمی سے ماحول میں گرمی بڑھنے کی وجہ سے جہاں ایک طرف پہاڑوں پر جمی ہوئی برف کے تودے (گلیشئرز) تیزی سے پگھل رہے ہیں اور پانی کے ذخیرے ختم ہوسکتے ہیں۔ وہیں دوسری طرف پانی کی کمی سے خشک سالی اورزراعت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ موسم کی یہ تبدیلی بے وقت اور شدید بارشوں ، سیلابوں ا ور طوفانوں سے تباہیوں کا سبب بھی بن رہی ہے۔مثلا ًپاکستان میں پچھلے کئی برسوں سے وقت سے پہلے یا معمول سے زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے کھیتوں میں فصلیں برباد ہوجاتی ہیں ۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر لوگوں کو اس بات کی تعلیم دینا شروع کریں کہ وہ اپنے گھر وں میں اونچی زمین پر زیادہ سے زیادہ مختلف اقسام کے پھل اور سبزیاں اگائیں اور مرغیاں رکھیں۔تو کم سے کم وہ اور ان کے خاندان والے خوراک کی کمی کا شکار نہ ہوں گے۔درخت اور پودے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ایک ہتھیار ہیں اور گھروں میں پودے لگا کر اس جنگ کے خلاف آسانی سے لڑا جاسکتا ہے۔
پودےماحول میں بہتری لاتے ہیں
درخت رب تعالیٰ کی طرف سے انسانی زندگی کے لیےایک بہترین تحفہ ہیں۔ صدیوں سے یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ قدرت نے بہت سے ایسے درخت پیدا کیے ہیں جن سے مختلف زراعتی اور ماحولیاتی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں اور انہی فوائد کو جدید تحقیق نے بھی ثابت کیا ہے۔ یہاں چند عام سے پودوں کا ذکر ہے جو ماحول کو محفوظ بناتے ہیں اور انہیں اپنے گھرمیں باآسانی اگا یا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں پودینے کی جو ہر گھر میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی سبزی ہے جو کئی اقسام کے کیڑے مکوڑوں سے نجات کے لیےبے مثال ہے۔ پودینہ کھانے کے جہاں کئی فائدے ہیں وہیں اس کی خوشبو مکھی ،مچھر کو بھگانے میں کارآمد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پودینے کو زمانہ قدیم سے مچھر کو دور رکھنے کے لیے استعمال کیاجا تا ہے۔ جس کمرے میں اس کا گملا رکھا ہو مچھر وہاں سے بھاگ جائے گا۔اس کے علاوہ اکثر گھروں میں پایا جانے والا نیاز بو کا پودا بھی کیڑے مکوڑوں کو بھگانے کے کام آتا ہے۔اسی طرح نیم ایک بہت ہی فائدہ مند درخت ہے۔اکثر حکیم حضرات اپنی ادویات میں نیم کے درخت کے پتے، اور چھال استعمال کرتے ہیں۔ اس کی مسواک دانتوں کے مسائل کے حل کے لیےبے مثال ہے۔ اس درخت کے پتوں کی دھونی مختلف کیڑوں مکوڑوں اور مچھروں کو بھگانے کےلیے اکسیر ہے۔ اپنے گھروں کے اندر یا باہر نیم کے درخت کی شجرکاری اس مقصد کے لیے کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں اگر ان پودوں کی گھروں میں شجرکاری کی جائے تو کیڑے مکوڑوں اور خاص طور پر مچھروں سے تحفظ مل سکتا ہے یعنی ان درختوں کی پیداوار سے ملیریا اور ڈینگی سے مستقل چھٹکارا ممکن ہے۔ موسم گرما میں جب مچھروں کی بہتات ہو تو ان تمام پودوں کو زمین یا گملوں میں باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازین بہت سے ایسے پودے ہیں جو ہوا کو صاف کرتے ہیں جیسے کہ’ منی پلانٹ‘ ۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت پودا ہے جسے آسانی سے گملوں یا بوتلوں میں لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کمروں میں بھی رکھا جاسکتا ہے جہاں یہ نہ صرف کمرے کو خوبصورت بنائے گا بلکہ رات کے وقت جب گھر کے لوگ سو رہے ہوں گے اور باقی درخت اور پودے فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ یعنی’’ گندی ہوا‘‘خارج کر رہے ہوں گے، وہیں منی پلانٹ رات کو زیادہ مقدار میں آکسیجن خارج کر کے ماحول کو محفوظ بناتے ہیں اور گھر کی فضا کو آلودگی سے پاک کرتے ہیں۔ اس کی ایک شاخ کسی دوست سے لے لیں یا نرسری سے سستے داموں خرید لیں اور پھر گھروں کے اندر یا باہر بلکہ کمروں اور کچن میں بھی کسی گملے یا بوتل میں صرف پانی میں ڈال کر لٹکا دیں۔ اسی طرح ایلو ویرا ایک اور عام استعمال کا پودا ہے جو ماحولیاتی حفاظت فراہم کرتا ہے۔ ایلو ویرا کے کئی اور غذائی اور طبی فوائد ہیں اسے ضرور اپنے باغیچے میں لگائیں۔
درخت پودے لگانا صدقہ جاریہ ہے
درخت انسان کے لیےصدقہ ء جاریہ بن جاتے ہیں کیونکہ جب تک ان سے اللہ کی مخلوق کسی بھی قسم کا نفع حاصل کرتی رہے گی یہ اجر پودے لگانے والے کے اعمال نامے میں لکھا جاتا رہے گا۔ حتیٰ کہ اس کی موت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ حدیث میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ؐنے فرمایا: ”جس مسلمان نے کوئی درخت لگایا اور اس کا پھل آدمیوں اور جانوروں نے کھایا تو اس لگانے والے کے لیے صدقہ کا ثواب ہے “(بخاری)۔ یعنی درخت صرف ہماری دنیا ہی نہی بلکہ آخرت سنوارنے کے لیے بھی ضروری ہیں۔ نبی ؐ نے درخت لگانے کی بڑی تاکید کی ہے اور انہیں بلاوجہ کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا،’’اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لیے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہئے‘‘( بخاری )۔
گھریلو باغیچے میں سبزیوں کی کاشکاری کے سلسلے میں چند اہم باتوں کا جاننا ضروری ہے تاکہ کم خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے یعنی کم خرچ بالا نشین پر عمل ہو سکے۔
۱) پودوں کےلیے کھاد گھر پر تیار کریں
پودوں کی بڑھوتری کے لیےکھاد بہت اہم ہوتی ہے۔ پرانا اور اور گلا سڑا گوبر سب سے اچھی کھاد ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں پودوں کے لیے تین اہم عناصر (نائٹروجن، فاسفورس، پوٹاشیم) وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ نائٹروجن پتوں اورپودوں کے قد اور پھیلاؤ کے لیے، فاسفورس پودوں کی جڑوں کی مضبوطی اور پھیلاؤ کے لیے اور پوٹاشیم سبزی اور بیج کی صحت مند بڑھوتری اور کوالٹی کے لیے انتہائی ضروری عناصر ہیں۔ فاسفورس پودوں میں مختلف بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بھی پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح سے پوٹاشیم کی موجودگی سے پودا نائٹروجن اور فاسفورس کا صحیح فائدہ لے سکتا ہے۔ علاوہ ازیں بعض دیگر عناصر مثلاً کیلشیم، آئرن، بوران، وغیرہ بھی انتہائی قلیل مقدار میں پودوں کی ضرورت ہوتے ہیں اور قدرت نے یہ تمام عناصر گوبر کی کھاد میں یکجا کیے ہیں۔ قدرتی کھادیں (گوبر اور پتوں کی کھادیں) نہ صرف پودوں کو ضروری غذائی اجزا فراہم کرتی ہیں بلکہ زمین کی ساخت کو بھی بہتر بناتی ہیں۔
لیکن اگر آپ کو گوبر کی کھاد میسر نہیں تو آپ اپنے باورچی خانے کا کچرا مثلاًسبزیوں اور پھلوں کے چھلکے، انڈوں کے چھلکے، چائے کی استعمال شدہ پتی، ردی کاغذ ، اخبار، کاغذ کے گتے ، درختوں کے سوکھے پتے اور ٹہنیاں وغیرہ استعمال کرسکتی ہیں۔ گھریلو کھاد کی تیاری ایک آسان اور دلچسپ عمل ہے۔ اس کے لیےزمین میں ایک تین سے چار فٹ گہرا گڑھا کھودیں اور کچن کے کچرے کی ہلکی تہہ لگا دیں۔ اس تہہ کے اوپر گوبر کی کھاد کی ہلکی تہہ لگائیں( گوبر سے کھاد زیادہ جلدی اور بہتر بنے گی لیکن اگر گوبر نہیں ہے تو اس کے بغیر بنالیں )۔ اس طرح سے کئی تہیں لگا کر گڑھا بھر لیں۔ آخر میں گڑھے کو مٹی کی موٹی تہہ سے بند کر دیں۔ تقریباً دو ماہ میں یہ کھاد استعمال کے لیے تیار ہو جائے گی۔
یہی عمل آپ کسی گملے، ڈبے یا پرانے ٹب کے ساتھ بھی دہرا سکتے ہیں۔ مگر اس گملے کی تہہ میں لازماً پہلے کچھ چھوٹے پتھر اور ان پر ایک تہہ مٹی کی ڈال دیں ۔ اب اس پر آپ اپنے کچن کا کچرا ڈالتی جائیں ۔ جب گملا بھر جائے تو اسپر کچھ مٹی ڈال کر اتنا پانی ڈالیں کہ کچھ پانی گملے کی تہہ سے باہر بہہ جائے۔ اب اس گملے کو کسی سایہ دار جگہ پر ڈھک کر رکھ دیں ۔ دوسے تین مہینے میں بہترین کھاد استعمال کےلیے تیار ہوگی ۔ آپ کھاد بنانے کے اس طریقے کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ۔
اس گھریلو کھاد سے جہاں آپ کو مفت نامیاتی کھاد میسر ہو گی وہیں گھر سے باہر پھینکے جانے والے کچرے میں بھی کمی ہوگی اور یہ ہمارے ملک کے لوگوں کے لیے ایک نہایت مفید عمل ہوگا کہ اس طرح کچرے کے ڈھیروں میں بھی کمی آئے گی اور ان سے پیدا ہونے والی غلاظتوں ،مکھیوں ،مچھروں اور کیڑے مکوڑوں سے بچاؤ بھی ہوگا۔ اس عمل کو دل و جاں سے کریں کیونکہ آپ کی یہ محنت پورے معاشرے کے لیے آپ کی طرف سے ایک چھپا صدقہ ہوگی ۔انشااللہ!
2) گھر پر کیڑے مار محلول بنائیں
سبزیوں کی غذائیت برقرار رکھنے کےلیے سبزیوں کومختلف نقصان رساں کیڑوں اور بیماریوں کے حملہ سے بروقت بچائیں تاکہ سبزیوں کی پیداوار بھی متاثر نہ ہو اور غذائیت بھی برقرار رہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ بازاری ادویات کا استعمال کم سے کم کریں۔ اگر آپ کے آس پاس نیم کے درخت ہیں تو آپ آسانی سے نیم کے پتوں کو ابال کر اس پانی سے پودوں پر چھڑکاؤکرسکتے ہیں اس طرح پودے مختلف کیڑوں سے محفوظ رہیں گے۔ اگر نیم کا درخت نہیںہے تو لگا لیں کسی بھی نرسری سے بہت سستا مل جائے گا اور یہ بنا کسی جھنجٹ کے جلد بڑا ہو جاتا ہے ۔ نیم کا درخت بڑے فائدہ کا ہے۔ اس کا تنا، چھال، پتے، ٹہنیاں اور نمکولیاں (پھل) سب ہی مختلف ادویات کی تیاری میں کام آتے ہیں۔آپ ان میں سے کچھ بھی لےکر اس کی راکھ بنا لیں اور وہ اپنے پودوں پر ڈالیں۔ یہ پودا بہت سے کیڑوں مکوڑوں کو بھی سبزیات سے دور رکھنے میں کارآمد ہے۔ اور آپ مچھروں اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں مثلاً ملیریا اور ڈینگی سے بھی بچیں گی ۔ اس کی مسواک بھی فائدہ مند ہے ۔
لیکن اگر نیم نہیں ہے تو کسی بھی قسم کی راکھ کواس مقصد کے لیے پودوں کی جڑوں میں ڈالا جاسکتا ہے اور یہ ان کی جڑوں میں پہنچ کر انہیں کیڑوں سے محفوظ کرتی ہے۔ اسی طرح پانی میں ایک چمچ برتن دھونے کا لیکوڈ یا برتن دھونے کے صابن کا محلول لیں اس میں سرکہ اور پسی ہوئی مرچیں ملا لیں اور پودوں پر وقتاً فوقتاً چھڑکاؤ کرتی رہیں۔ اس چھڑکاؤ سے کیڑے پودوں سے دور رہیں گے اور یہ محفوظ چھڑکاؤ ہے۔ آخری حل کے طور پر کیڑوں اور بیماریوں کے انسداد کےلیے نئی تحقیق شدہ بازاری جدید دوائیں استعمال کریں۔ ایسی زہروں کا استعمال کریں جن کا اثر 24 گھنٹے سے زائد نہ ہو۔ ایسی سبزیوں کواچھی طرح دھو کر استعمال کریں۔
3) پانی کی بچت کے گھریلو طریقے اپنائیں
اس کے لیے دو طریقے کارآمد ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ کہ پانی کو ضائع ہونے سے بچانا ہیں۔ باغیچے میں پانی احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اسراف کرنے والے پسند نہیں ہیں( سورہ الانعام: 141) ۔ اور دوسری بات یہ کہ پودوں کو گھر کا استعمال شدہ پانی دیں جس میں کوئی کیمیکل مثلاً صابن یا سرف وغیرہ نہ ملا ہو۔ اس کام کے لیےسبزیوں اور پھلوں کو دھونے والا پانی اور وضو کا پانی بےمثال ہے اسے پھینکنے کے بجائے پودوں میں ڈالیں۔ آج دنیا بھر میں کئی ممالک میں پودوں کی آبیاری کے لیےایسا ہی پانی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال سعودی عرب ہے جہاں حرمین شرفین میں وضو کا پانی جمع کیا جاتا ہے اور اس سے کھجوروں اور دوسرے پھلوں کے باغات سیراب کیے جاتے ہیں ۔
کاشت کاری کا منصوبہ اور عملی اقدام
کسی بھی کام کو بہتر انداز میں کرنے اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اس پر سوچ بچار کر کے ایک منصوبہ (پلان) بنانا اہم ہوتا ہے۔تاکہ ہم اس پیسے، وقت اور محنت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ اسی طرح آپ پہلے سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کا منصوبہ بنائیں اور پھر اپنے منصوبے پر عمل کریں ۔
کسی بھی قسم کے درختوں یا پودوں کو کاشت کرنے کے 6 اقدام ہیں۔
1)باغیچے کی جگہ کا انتخاب کرنا
سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ آپ اپنا باغیچہ کہاں لگانا/ بنانا چاہتے ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ پودے زمین میں لگانے ہیں یا گملوں وغیرہ میں ۔ دونوں حالتوں میں چند باتوں کا خیال رکھیں۔ اکثر پودوں کو روزانہ 6 سے 8 گھنٹوں کی دھوپ درکار ہوتی ہے لہٰذا ایسی جگہ منتخب کریں جہاں انہیں مناسب دھوپ مل سکے۔ پودوں کی کیاریوں کے درمیان راستہ چھوڑیں تاکہ ان کی صفائی ستھرائی کرنا اور پانی دینا آسان ہو۔
2) سبزیوں کا انتخاب کرنا
آغاز میں چند ضروری پودے لگائیں جو آسانی سے اگائے جا سکیں ۔ بعد میں ضرورت کے مطابق اضافہ کرتے رہیں۔ ایسی سبزیاں منتخب کریں جو اس موسم کے مطابق ہوں، آپ کو پسند ہوں اور گھر میں ان کی ضرورت ہو۔ سردیوں میں پھول گوبھی، بند گوبھی، میتھی،گا جر، شلجم ،مولی، سرسوں ، سبز مرچ ،لہسن، دھنیہ ، پیاز ، چقندر اور شکرقندی کاشت کی جاسکتی ہیں لیکن ستمبر اور اکتوبر کے مہینے ان کی کاشت کے لیےبہترین ہیں ۔ جنوری سے مارچ تک ان سبزیوں کی برداشت ( اُترانے/ توڑنے) کے لیےزیادہ بہترین وقت ہے۔ پودینہ اور آلو پورے سال کاشت اور برداشت کیے جاسکتے ہیں۔
گرمیوں کی سبزیوں میں کریلا، گھیا کدو، کدو، توری، بھنڈی، گھیاتوری، بینگن ، ٹماٹر ، سبز مرچ، شملہ مرچ ، تر ، کھیرا، ہرادھنیا ، ہلدی، ادرک، سونف، اروی، تربوز، خربوزہ، حلوہ کدو، پیٹھا کدو ، ٹینڈا اور ادرک ہیں۔ ان کی کاشت فروری اور مارچ میں کی جاسکتی ہے اور ستمبر سے اکتوبر تک سبزیاں اتارنے کے قابل ہوجاتی ہیں۔
3) زمین تیار کرنا
زمین کے بالائی حصے کی تیاری بہت اہمیت کی حامل ہے۔ چونکہ اسی حصہ سے پودے نے خوراک اور پانی حاصل کرنا ہے۔سبزی کی کاشت کے لیے عام نرم زمین انتہائی موزوں خیال کی جاتی ہے۔ اگر آپ کے علاقے میں زمین چکنی مٹی والی یا سخت ہے تو اسے ریت اور گوبر کھاد وافر مقدار میں ملا کر قابل کاشت بنا ئیں اگر زمین ریتلی ہے تو اس میں کچھ چکنی مٹی اور گوبر کی کھاد ملالیں یعنی ایک حصہ مقامی مٹی، ایک حصہ ریت یا چکنی مٹی اور ایک حصہ گوبر کھاد۔زمین کی اچھی تیاری کے لیے ایک فٹ گہرائی تک زمین کی اچھی طرح کھدائی کیجیے اور کنکر، پتھر، پلاسٹک وغیرہ باہر نکال دیں۔ مٹی کے ڈھیلوں کو توڑ کر نرم اور ہموار کر لیں۔ اس طرح مٹی بھربھری اور نرم ہوجا ئے گی اور پودوں کی جڑیں اچھی طرح پھیل کر زمین سے وافر مقدار میں خوراک و پانی حاصل کر سکیں گی۔ بیج ڈالنے یا پودے لگانے سے پہلےایک مرتبہ زمین کو پانی دے دیں ۔ انہی اصولوں کو گملوں، بالٹیوں یا ڈبوں وغیرہ میں بیج یا پودے لگانے کے لیےاپنانا ہوگا۔
4) پودوں کو لگانا
اپنے پسندیدہ پودے یا بیج وغیرہ آپ کو باآسانی قریبی نرسری یا دوکانوں سے مل جائیں گے ۔ کچھ بیج آپ کے گھر پر پہلے ہی موجود ہوں گے جیسے کہ ثابت مرچ، ٹماٹر ، دھنیہ، میتھی دانہ اورلیموں(تربوز، خربوزہ، آم، کینو) وغیرہ ۔ کچھ پودوں کو آپ اپنے ساتھیوں یا جان پہچان والوں سے لے سکتے ہیں جیسے کہ تازہ پودینےکی شاخیں آسانی سے لگ جاتی ہیں۔ یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ آپ صرف بیجوں سے کاشت کرنا چاہتے ہیں یا پودوں کو لگانا آپ کا مقصد ہے۔ آپ دونوں ملا جلا کر لگا سکتےہیں یعنی کچھ پودے نرسری سے لیں وہ جلدی بڑے ہوتے ہیں اور کچھ پودے جیسے کہ ٹماٹر آپ بیجوں سے اگا سکتی ہیں۔اعلیٰ کوالٹی کا ٹماٹر کاٹ کر اس کے بیج پھیلا کر ڈال لیں۔ اس کے علاوہ کچھ سبزیاں جڑوں سے لگائی جاتی ہیں جیسے کہ چقندر، گاجر اور شلجم۔
پودے لگانے کے کچھ مخصوص طریقے ہیں ان کا یہاں مختصراً ذکر ہے اور بہت کچھ آپ اپنے تجربے سے آئندہ کے لیےسیکھ سکتے ہیں۔سب سے پہلےیہ کہ آپ نے جو زمین تیار کی ہے اس میں بیج یا پودے لگانے سے پہلے اسے پانی دے کر گیلا کر لیں ۔ اس سے پودے بہتر لگیں گے اور جلدی جان پکڑ لیں گے۔ دوسرا یہ کہ کیاریوں / گملوں کی سیدھی لائینیں بنا لیں اور ان کے درمیان مناسب جگہ چھوڑتے جائیں ۔ کیاریا ں اور گملے اگر ترتیب سے ہوں تو کام بھی آسان رہتا ہے اور خوبصوتی بھی قائم رہتی ہے۔تیسرا یہ کہ جو بھی بیج یا پودے آپ جس کیاری (لائن )میں ڈالیں اسے لیبل کر لیں تاکہ معلوم ہو کہ کہاں پر کیا لگایا ہے۔ بیجوں کو ان کی ہدایات کے مطابق لگائیں۔چوتھا یہ کہ مناسب وقت اور گہرائی سے سبزیوں کے بیج ڈالیں یا پودے لگائیں ۔ اکثر بیجوں اورپودوں کو لگانے کےلیے عصر کا وقت بہتر ین ہے۔اگر آپ کے ساتھ کسی کو اس کا تجربہ ہو تو ضرور مدد لیں۔پانچواں یہ کہ تمام پودے یا بیج ڈالنے کے بعد انہیں احتیاط سے پانی دیں۔ اس پانی سے انہیں بڑھنے میں مدد ملے گی۔آغاز میں پودوں کو روزانہ چیک کریں اور مناسب پانی دیتے رہیں کیونکہ اگر بیج / پودے سوکھ گئے تو مر جائیں گے۔
5) باغیچے کا خیال رکھنا
لیجیے جناب آپ کا باغیچہ تو لگ گیا لیکن اب آپ کو چند باتوں کا خیال رکھنا ہے ۔ اول ، پانی مناسب مقدار اور وقفے سے ڈالتےرہیں۔ پانی کا وقت مقرر کریں ۔ فجر اور عصر کے بعد کےوقت بہترین ہیں ۔ بدلتے موسم کے ساتھ پانی کی مقدار کم یا زیادہ کرتے جائیں ۔ شروع میں پھوار والے برتن سے پانی دینا بہتر ہے۔ اسی طرح کھاد بھی مناسب وقت اور مقدار میں صرف اسی وقت دیں جب آپ کو محسوس ہو کہ پودوں کو اس کی ضرورت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جاننے میں آسانی ہو جائے گی۔ شروع میں کسی تجربہ کار شخص کی مدد لی جاسکتی ہے۔ دوم، زمین کی گوڈی بھی مناسب طریقے سے وقفے وقفے سےکرتےرہیں اور اس دوران بےکار گھاس پھوس جو پودوں کے ارد گرد خود بخود اگ آتی ہے اسے باقاعدگی سے نکالتے رہیں تاکہ آپ کے پودے کو ضروری خوراک ملتی رہے۔سوم، کیڑے مکوڑوں اور پالتو جانوروں خصوصاً مرغیوں اور بلیوں سے اپنے پودوں کو محفوظ رکھیں۔ کیڑوں کےلیے آپ کیڑے مار محلول گھر پر تیار کر کے باقاعدگی سے استعمال کرسکتی ہیں۔ اپنے پودوں کا معائنہ بھی باقاعدگی سے کریں۔ خاص طور پر پتوں کو الٹ پلٹ کر دیکھیں۔ اگر کو ئی بیماری کے آثار نظر آئیں تو ضرور کسی تجربہ کار شخص کی مدد سے اس پر قابو پائیں۔ پالتو جانوروں کےلیے کو ئی باڑ ھ وغیرہ نصب کرنا بہتر ہے۔ چہارم، موسم کی شدت مثلاً بہت تیز دھوپ ، بارش یا اولوں سے بچانے کا اہتمام کریں ۔ یہ کام کسی پرانے کپڑےیا پرانے ٹینٹ کے ٹکڑوں سے لیا جا سکتا ہے۔
6) سبزیوں کو برداشت کرنا ( فصل اتارنا)
الحمد للہ، اب اپنی محنت کا پھل وصول کرنے کا یعنی اپنی سبزیاں پودوں سے اتارنے کا وقت ہے ۔ جب سبزیاں اتاریں تو اپنے ارد گرد ضرورت مند لوگوں کا خیال کریں اور اپنی فصل میں سے کچھ نہ کچھ ضرور دوسروں کو دیں۔ اگر مقدار کم ہے تو بھی اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے ضرور شیئر کریں۔ یہ عمل انشااللہ ایک طرف آپ کو خوشی بخشے گا اور دوسری طرف اس سے برکت اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ قرآن میں حکم ہے،’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو‘‘(البقرہ: 267)۔
انشااللہ آپ کی محنت ، وقت اور صبر کا پھل آپ کو بہترین سبزیوں کی شکل میں ملے گا۔ کھائیں اور بہترین صحت پائیں۔ بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے اور لگے رہنا ہے ۔
٭ ٭ ٭