گھر کے ایک بعید ترین کمرے میں جو خاصا روشن اور ہوا دار تھا اور بہت قرینے اور طریقے سے جیسا کہ کسی موذی مرض میں مبتلا قریب المرگ خاتون کے شایان شان ہونا چاہیے ، سجایا گیا تھا اور ہر قسم کی آسائش مہیا کی گئی تھیں ، مریضہ کھٹکے سے اونچا نیچا ہو جانے والے بیڈ پر منہ نیوڑائے کروٹ لیے اس طرح پڑی تھیں، گویا انہوںنے ابھی سے زندگی اوراس کے نام جھام سے منہ موڑ نے کا ارادہ کر ہی لیا ہو۔گوا بھی وہ اس دنیا سے رخصت ہونے کے موڈ میں قطعی نہ تھیں ۔ ابھی چند سال قبل ہی تو وہ اپنی ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھی تھیں اور اب یہ مژدہ سننے میںآیا تھا ۔ ورنہ ابھی تو چند گھنٹوں پہلے وہ اپنی گاڑی خود چلا کر کلنیک تک گئی تھیں ۔ ان کی بہو روشن آراء ان کے ساتھ گئی تھی ۔ اُس کو انہوں نے گاڑی اس لیے چلانے نہیں دی تھی کہ وہ پورے دنوں سے تھی ،اور وہ اُس کو اس حالت میں گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دے سکتی تھیں۔
قصہ دراصل یہ تھا کہ چند دن یعنی تقریباً دو ہفتے پہلے انہوں نے اپنی دا ہنی پسلی سے کچھ نیچے کی طرف درد کی شکایت محسوس کی اور وہی اپنے گھریلو ٹوٹکے خاموشی سے آزماتی رہیں ۔ایک دن تو فقط سر سوں کا تیل انگلیوں میں لگا کر دھیرے دھیرے مالش کرلی ۔ وقتی طور پر افاقہ بھی محسوس ہؤا۔ اگلے دن کچھ زیادہ بے کلی سی محسوس ہوئی تو اوپر کے کام والی لڑکی سے ہاٹ واٹر بوٹل( گرم پانی کی بوتل) میں گرم پانی منگوا کر سکائی بھی کی۔ بچی جو نو عمر اور اسی جدید دَور کی پیدا وار تھی ، گرم پانی کی بوتل سن کر سر کے کی خالی بوتل میں گرم پانی لا کر دے گئی ۔ بڑی راز داری سے اس کو سمجھایا گیا ، اری پگلی میرا مطلب ہاٹ واٹر بوٹل سے تھا ۔ سو وہ دوبارہ بوٹل دے گئی ۔ سکائی کے بعد آرام آیا تو سو گئیں۔
دراصل وہ اپنے ان تمام ٹوٹکوں سے اپنی بہو روشن آراء کو اس لیے بے خبر رکھنا چاہ رہی تھیں کہ وہ Lumsسے گریجویشن کر کے ابھی فارغ ہی ہوئی تھی اور اس کے میکے کا ماحول کچھ زیادہ ہی ڈاکٹرانہ تھا ۔ وہ اگر ایک پھانس بھی چبھ جائے تو چیک اپ اور سکیننگ وغیرہ کی سختی سے قائل اور پابند تھی ۔ جبکہ وہ خود اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہم سرکاری ادارے کی تازہ بہ تازہ پنشنر تھیں ، ان حرکتوںکو فضول اور ڈھکو سلوں میں گردانتی تھیں۔شام کو سو کر اٹھیں ، کسک کچھ زیادہ محسوس ہوئی تو انہوں نے خاموشی سے آیوڈیکس سے ہلکا ہلکا مساج بھی کیا ۔ عجب بات کہ مساج یا سکائی سے بالکل آرام آجاتا ، پھر وہی تکلیف شروع ہو جاتی ۔ سو اگلی صبح اس کا ذکر یوں کرنا پڑا کہ ناشتے کے وقت روشن آراء خود پوچھ بیٹھی ، امی جان آج بہت چپ چاپ ہیں آپ کا چہرہ بھی اترا اترا ساہو رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے رات آپ کو نیند نہیں آئی اور اچھی طرح سوئی نہیں … تو پھر ان کو بتانا پڑا کہ تکلیف محسوس کر رہی تھی کل سے ۔ پسلی کے کچھ نیچے کسک سی ہے … اتنا سننا تھا کہ وہ تو ہمیشہ کی طرح حول جول میں پڑ گئی ۔ مارے وحشت کے بولتی چلی گئی ۔’’ کمال کرتی ہیں آپ بھی ۔ تین دن سے تکلیف اٹھا رہی ہیںاور کسی کو نہیں بتایا ۔ اسی وقت چیک اپ کروانا تھا ۔ آپ نہ معلوم کیوں اپنی تکلیف چھپا جاتی ہیں ۔ اتنا بھی نہیں سوچتیں کوئی کو مپلی کیشن ہو گئی تو بھگتنا تو آپ کے بچوں کو ہی پڑے گی اور وہ سب تو … ہمیں ہی …‘‘ اتنا کہتے کہتے وہ چپ ہو گئی۔
ناشتہ چھوڑ کر اس نے سپیشلسٹ کو فون کر کے ٹائم لیا جس نے عمر رسیدہ لوگوں کے امراض میں سپیشلائز کیا ہؤا تھا۔
’’ بس اب چلیں ، تیار ہو جائیں ۔ اس نے گیارہ بجے کا ٹائم دیا ‘‘۔
’’ ارے بیٹی ، اب ایسی بھی کیا وحشت ۔ خیر اب ٹائم لے ہی چکی ہو تو چلو میں تیار ہوں‘‘۔
روشن آراء بڑی پنکچوئل اور مستعد لڑکی… مارے وحشت کے ڈاکٹر کے دیے ہوئے وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے ہی کلینک جا پہنچی تھی ۔ اب وہ ڈاکٹر کے الٹرا موڈ رن کلینک میں بیٹھی بیٹھی اکتا رہی تھیں ۔ اندر ہی اندر ایک تو یہ نا گواری ایک ذرا سے درد کا بتنگڑ بنا دیا اس لڑکی نے اور پھر مزید وحشت کہ اتنی دیر پہلے لا کر ویٹنگ روم میں کرسی پر بٹھا کر ٹانگ دیا اور خود ڈھنگ سے ناشتہ بھی نہیں کیا ۔ طبیعت پر یہ بھی بوجھ کرمیری وجہ سے چائے کی پیالی بھی پوری نہ کر سکی اور اب مجھے شرمندگی ہو رہی ہے ۔ اندر ہی اندر غصے اور شرمندگی سے چہرے پر کچھ زیادہ ہی تکدر اور تمتماہٹ صاف نظر آ رہی تھی ۔ گھڑی گھڑی اپنی گھڑی پر نظر ڈال کر زیر لب بڑ بڑاتی بھی جا رہی تھیں ۔ ایسی بھی کیا وحشت… ایک دفعہ جو روشن آراء کی نظر ان کے چہرے پر پڑی تو گھبرا کر کھڑی ہو گئی ۔’’ آپ کا چہرہ تو تمتمایا ہؤا ہے۔ لگتا ہے آپ کو تو ٹمپریچر بھی ہو گیا ہے ‘‘۔ مارے غصے کے بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ ڈاکٹر صاحب گیارہ بجے کی بجائے ساڑھے گیارہ بجے گھبرائے بوکھلائے داخل ہوئے ۔’’ سوری۔ معاف کیجیے ایک سیریس کیس اٹینڈ کرنے میں دیر ہو گئی ‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کا اپنا پرائیویٹ کلینک تھا ۔ دو تین کمروں میں سیریس قسم کے مریض داخل تھے۔
روشن آراء نے اپنے طور پر ان کی تکلیف کی تشخیص جو بھی کی ہو، پہلے ہی فون پر ان کی بریفنگ از خود کردی تھی ۔ سو انہوں نے اسی بریفنگ کی بنیاد بنا کر چندایک سوال کیے ۔ انہوں نے بڑے سکون سے ان کے سوالات کے جو جواب دیے ، ڈاکٹر صاحب نے ان کو قطعی قابل اعتنا نہیں گردانا۔ تشویشناک سی صورت، دھیمی آواز سے ہوں ہاں کرتے رہے اور دوسرے کمرے میں معائنے کے لیے لے گئے ۔ ان کی صورت میں برستی تشویش کو دیکھ کر روشن آرا ء مزیدبوکھلا گئی ۔ تقریباً آدھ گھنٹہ سے بھی چند منٹ اوپر معائنہ کرتے رہے ۔ باہر آنے پر روشن آراء جہاں ، پھٹک چہرہ لیے سر گوشی میں پوچھنے لگی تو ہاتھ سے اس کو خاموشی کا اشارہ کر کے اُن کو کمرہ انتظار میں بٹھا کر روشن آراء کو باہر لے جا کر اتنا بولے ’’ فی الحال کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔ یہ میں چار ٹیسٹ لکھ رہا ہوں۔یہ کروا لیجیے ۔ رپورٹ دیکھ کر ہی کچھ … اور ہاں وقتی طور پر یہ انجکشن لگوائے دیتا ہوں ‘‘۔
روشن آراء کی فکرمندی اورڈاکٹر کے چہرے کے تاثرات نے اب ان کو بھی متاثر کر دیا تھا ۔ چہرہ کمھلایاگیا تھا ، ہونٹ خشک ہو رہے تھے ۔ نرس جب ہاتھ میں انجکشن کی سرنج اور تھرما میٹرکی ٹرے پکڑے اندر داخل ہوئی توان کو بھی یقین ہو گیا کہ روشن آراء ٹھیک تو کہہ رہی تھی۔ آخر وہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں ، اتنا تو جانتی تھیں کہ ان سب باتوں کا کیا مطلب ہو سکتا ہے ۔ نرس نے ٹمپریچر لے کر کچھ لکھا اور ان کی بانہہ پکڑ کر بازو میں انجکشن لگادیا جو خاصا بڑا تھا ۔ نرس کے جانے کے بعد روشن آراء نے کائونٹر پر جا کر فیس ادا کی ۔ خاموشی سے آکر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا ،چلیے ۔ اس کا بجھا بجھا سا چہرہ دیکھ کر کچھ پوچھے بغیر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ویسے بھی انجکشن کااثر شروع ہونے لگا تھا اور غنودگی سی محسوس کر رہی تھیں۔
سارے راستے گاڑی میں خاموشی سی محسوس کر رہی تھیں۔ البتہ گاڑی چلاتے ہوئے موبائل پر شوہر کو دھیمی زیر لب آواز میں کچھ بتاتی رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے ڈاکٹر کے کلینک میں انتظار کے دوران زبیر کو مطلع کر دیا تھا کہ وہ چیک اپ کے لیے ان کویہاں لے آئی ہے ، وغیرہ وغیرہ … وہ گھر آیا بیٹھا تھا ۔ ماں کے بارے میں اچانک اور غیر متوقع خبر پریشان کن تھی۔
کمھلائی ہوئی نڈھال سی شکل ، غنودگی کے عالم میں روشن آراء کا سہارا لیے آتا دیکھ کر وہ بلبلا گیا ۔ لپک کر اٹھا اور ان کے گلے سے چمٹ کر کہنے لگا ، ’’ ماں میری۔ امو جانی یہ تم نے کیا کرلیا اپنے آپ کو ۔ اندر ہی اندر دکھ اٹھاتی رہیں اور مجھے خبر نہ کی ‘‘۔ آنسو بہہ بہہ کر ان کے کندھے پر گرے ۔ غنودگی سے ذرا چونکیں ۔ اس کا کندھا پیار سے تھپ تھپایا ، ’’ میں ٹھیک ہوں بیٹے …‘‘ اس کی پیشانی پر دھیرے سے پیار کیا ، ’’ تم اتنے پریشان تو نہ ہو ‘‘۔
پھر اسی غنودگی کے عالم میں لڑکھڑا سی گئیں ۔ روشن آراء نے شوہر کو جھڑکی دی ۔
’’ ہٹونا، چھوڑو انہیں زبیر ، دیکھ نہیں رہے وہ انجکشن کے اثر میں ہیں‘‘۔
اسی عالم میں چلتی ہوئی اپنی خواب گاہ میں گئیں تو بیڈ پر جیسے گر سی گئیں ۔ نیند میں بے سدھ سی ہو کر تکیہ پر سر رکھ دیا ۔ وہ پھر بے قراری سے اندر آیا ۔ ان کو کیا ہؤا جا رہا ہے … ان پر جھک کر آواز دینے لگا ۔’’میری امو جانی کیا ہوگا تمہیں ۔ مجھ سے ناراض ہو ‘‘۔ اور پھر ان سے چمٹ کر رونے لگا۔
اس مرتبہ روشن آراء چیخ پڑی تھی۔’’ پاگل تو نہیں ہوگئے ہو۔ دیکھتے نہیں ، وہ سو رہی ہیں پورے سکون سے … ہوش کرو، بچے سکول سے آتے ہوں گے ۔ چلو چلوجائو اپنے کمرے میں ، چینج کرو۔ دیکھو سلیمان کھانا لگا رہاہے ۔ میں بھی آتی ہوں ۔ صبح سے Exhaust ہو گئی ہوں‘‘۔
’’بس ایک بار تم مجھے اتنا بتا دو روشن کہ ڈاکٹرنے بتایا کیا ہے؟‘‘
’’ ابھی تو چار پانچ ٹیسٹ لکھ کردیے ۔ رپورٹ آنے پر کوئی حتمی بات بتائیں گے اور جب ہی علاج شروع ہوگا… اچھا، اب میرا سر نہ کھپائو۔ مجھے سخت بھوک لگی ہے ۔ صبح چائے کی آدھی پیالی پی کر نکل گئی تھی ۔ اطمینان رکھو۔ ہو سکتا ہے رپورٹ تسلی بخش ہو‘‘۔
زبیر کو روشن کی کسی بات پر اعتبار نہ تھا ۔ بمشکل کھانا کھا کر وہ اپنی سٹڈی میں جا کر فیس بک پر جا بیٹھا ۔ فیس بک ، موبائل اور ای میل پر اپنے بہن بھائیوں سے رابطہ کرنے لگا ۔ کبھی بڑے بھائی سے امریکہ اور کبھی بڑی بہن سے جرمنی میں رابطہ کرتا رہا ۔ منجھلے بھیا سے براہِ راست کینیڈا میں فون پر امی آن ( امی جان) کی بیماری کے بابت تفصیلی بات ۔ سب سے چھوٹی بہن کو جدہ کال کی اور فوری طور پر حرم شریف جا کران کی صحت اور سلامتی کی دعا کرنے کی التجا کی۔
آناً فاناً پورے خاندان یعنی بہن بھائیوں میں تھر تھلی مچ گئی ۔ اس تمام رات فون موبائل اور کمپیوٹر کی گھنٹیاں بجتی رہیں ۔ چھوٹی بہن البتہ سمجھ دار اور اللہ پر بھروسہ رکھتی تھی ۔ اس نے بھائی کو تسلی دی اور کہا کہ جس قدر جلد ممکن ہؤا میںا می آن( امی جان)کے پاس آکر رہوں گی۔ بس ذرا ان بچوں کے امتحان ہو لینے دیں ۔ اس کے علاوہ جتنے بھی SMSاور ای میل آئے، وہ بیماری اور تیمار داری کے سلسلے اور تجاویز سے بھرے ہوئے تھے۔بڑی آپا نے اپنے ای میل میں اپنی مجبوری کے بارے میں تفصیل سے لکھا کہ کاش میں تم لوگوں کے پاس پہنچ سکتی لیکن میری تو یہ مجبوری ہے کہ میری ساس پر جوڑوں کے درد کا شدید حملہ ہؤا ہے ۔ بے چاری بے دست و پاپلنگ پر پڑی ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بیٹے کی یہ مرضی نہیں کہ ان کو ہسپتال میں ڈال دیا جائے ۔ یہ دائمی بیماری ہے ،کتنے دن ہسپتال والے رکھیں گے اور یہاں تو بیمار اور بے حد ضعیف لوگوں کو گھر میں رکھنا خلافِ قانون ہے ۔ بڑی راز داری سے ہم نے ان کو بیسمنٹ میںرکھا ہؤا ہے ۔ امی جان کی طرف سے یہ تو اطمینان ہے کہ روشن اور تم ان کی دیکھ بھال ہم سے بہتر طرح کر سکو گے ۔
یہ واقعہ کہ پردیسی تارکین وطن جو اپنی ہی مجبوریاں یا ڈالر اور پائونڈ سٹرلنگ کمانے کی تگ و دو میں گھروں سے دُور بیٹھے ہوتے ہیں ، ان کے بارے میں جو اپنے وطن میں برے بھلے حالات میں بھی بے فکری سے بیٹھے ہوتے ہیں ، ان کی مجبوریوں اور دیارِ غیر کی پابندیوں کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتے ۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان پرڈالر برس رہے ہیں ، عیش کر رہے ہیں ۔ اسی غلط خیال کے تحت زبیر نے ان کی پہلے ہی دن کی بیماری کیا، ایک تکلیف سے آگا ہ ہوتے ہی یہاں سے وہاںبلکہ دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک خبر پہنچا دی تھی ۔ سب اپنی اپنی جگہ بلبلا کر رہ گئے۔
البتہ منجھلے بھیا کی بڑی بات تھی ۔ ان کے حالات اور تھے۔ ان کا سٹیٹس دوسروں سے مختلف تھا ، کچھ اپنے کاروبار میں غیر متوقع کامیابی اور کچھ بشارت بھابی کے والد اوربھائیوں کی گارمنٹ بزنس کے علاوہ پُراسرار قسم کی مصروفیات اور تعلقات کے سبب ان کا لائف سٹائل عام تارکین وطن اور اپنے دوسرے بہن بھائیوں سے بہت مختلف اور اونچا تھا۔ انہوں نے زبیر کے فون کاجواب ایک طویل ای میل سے دیا جس میں ان کی علالت کے بارے میں جو ابھی پورے طور سے تشخیص بھی نہ ہوئی پائی تھی ، ایک ہدایت نامہ ، علاج ، پرہیز اور مریض کی نگہداشت کے سلسلے میں جاری کر دیا ۔ مزید مطلع کیا کہ میں اور بشارت بہت جلد پہنچنے والے ہیں ۔ آج ہی سے ہم اپنے سفر کے ڈاکو منٹس اور ٹکٹ کا انتظام کر رہے ہیں ۔ کچھ ڈالر ز تم کو دور چار دن میں مل جائیں گے … ڈالرز زبیر کو مطلوب نہ تھے ۔ بس اس کی تو یہ خواہش تھی کہ اپنی پریشانی میں اپنے بہن بھائیوں کو بھی شامل کرلے۔
اس رات کی افرا تفری اور موبائلوں اور فون کی گھنٹیوں سے گزر کر ، صبح صادق جب اس گھر کے دروبام پر اتری تو ان کی آنکھ کھل گئی ۔ دُور کہیں اذان کی آواز سنی تو کلمہ پڑھتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئیں ۔ تمام رات انجکشن کے اثر کوغنودگی کے باوجود ، موبائل اور فون کی گھنٹیوں کی آواز بھی رہ رہ کر کانوں میں پڑتی رہنے سے طبیعت مضحمل اور افسردہ تھی ۔ اٹھ کر غسل خانے جا کر غسل کیا ، نمازِ فجر اداکی۔ کچھ دیر خاموشی سے تلاوت کرتی رہیں ۔ غسل ،نماز اور تلاوت سے طبیعت کے اضمحلال میں افاقہ محسوس ہؤا۔ کھانے کے کمرے سے برتن کھڑکنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔ لگتا ہے سلیمان ناشتہ لگا رہا ہے … چائے کی طلب محسوس کی تو اٹھ کر کھانے کے کمرے میں چلی گئیں ۔’’ سلیمان ، آج کچھ جلدی ناشتہ نہیں لگا رہے ہو؟‘‘
’’ جی بڑی بیگم صاحب، وہ رات صاحب نے کھانا تو ٹھیک سے کھایا نہ تھا … سویرے سویرے مجھے جگا کر کہا، مجھے گرم گرم چائے پلا دو ۔ میں نماز پڑھ کر آتا ہوں ‘‘۔
مسکرائیں ۔’’ واقعی آج تمہارے صاحب کو نماز پڑھنے کا خیال آہی گیا ۔ چلو پھر اسی خوشی میں ہمیں ایک پیالی اچھی سی چائے تو پلا دو ‘‘۔
’’ بیگم صاحبہ، آپ نے بھی تو کل سے کھانا نہیں کھایا ہے ۔ میں آپ کے لیے بھی ناشتہ بناتا ہوں ۔ آپ کا خاص بل دار پر اٹھا تیار کر کے لاتا ہوں ‘‘۔
درد کی کسک تو پسلی کے نیچے محسوس ہو رہی تھی ۔ معدے میں تو کوئی تکلیف نہ تھی ۔ نماز پڑھ کر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے زبیر نے کچھ خیریت اور کچھ فکر مندی سے ان کو ناشتہ کرتے دیکھا ۔
’’ السلام علیکم امی جان ۔ آپ یہاں ناشتہ کرنے آگئیں ۔ سلیمان سے اپنے کمرے میں منگوا لیتیں ‘‘۔
ہلکا سا تبسم کیا اور پھر بڑے سکون سے گویا ہوئیں ۔’’ تو کیا ڈاکٹر نے میرے لیے ایسے مہلک مرض کی توثیق کردی ہے کہ جس کے خطرات اور اندیشے کے پیش نظر عام زندگی سے کنارہ کر کے صرف بستر تک محدود رہ کر باقی وقت گزارنا ہے ۔ ویسے صبح ہی صبح سلیمان نے ایک اچھی خبر سنائی ہے …‘‘ زبیر نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا …’’ کہ صاحب نماز پڑھنے گئے ہیں ۔ تو اس کا مطلب یہ ہؤا کہ میرے بیٹے کو آج اللہ میاں یاد آہی گئے ہیں …‘‘
’’ سچ امی جان ، صبح صبح غسل کر کے نماز پڑھ کر بڑا سکون ملا ۔ میں پوری رات بڑا ہی پریشان اور خوف زدہ رہا تھا ۔ ایسا لگتا ہے یہ نماز بھی Sedativeہے ایک طرح کی …‘‘
’’ہاں یہ تو ہے ۔ تب ہی ایک مفکر کا قول ہے کہ انسان سے خدا کے تصور کو چھین لینا انسانیت پر سب سے بڑا ظلم ہے ‘‘۔
سلیمان گرم پراٹھا اور انڈے لے کر آیا تو زبیر نے ایک دم نعرہ لگایا۔’’ سلیمان خان زندہ باد‘‘۔ وہ مسکرائیں ۔ ’’ زبیر تم چھوٹے تھے توجب مرحوم غفار تمہارا پراٹھا تمہارے سامنے لگاتے تھے تو تم یہی نعرہ لگایا کرتے تھے ‘‘۔
’’ امی ، مجھے اپنے بچپن کے وہ دن کبھی کبھی بہت یاد آتے ہیں اور خاص طور سے جب میں آپ کے پاس اکیلا بیٹھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں پھر سے اپنے ماضی میں پہنچ گیا ہوں … آپ کا وجود ایک ایسا سایہ دار درخت ہے کہ جس کے چھائوں تلے بیٹھ کر یوں لگتا ہے کہ کڑی دھوپ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی ‘‘۔ یہ کہتے کہتے وہ آبدیدہ ہو گیا ۔ انہوں نے اس کے کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھا۔
زبیر تم اتنی سی تکلیف کا سن کر حوصلہ ہار گئے ۔ تمام رات موبائل اور فیس بک پر بیٹھے خود کو بھی ہلکان کرتے رہے اور ان غریبوں کو بھی جو سات سمندر پار پردیس میں بیٹھے ہیں ، پریشان کرتے رہے ۔ ابھی تو ٹیسٹ ہوئے نہیں ، ان کا نتیجہ ملا نہیں ، ابھی تو ڈاکٹر کو ایک شبہ سا ہؤا ہے اور اگر ٹیسٹ ہونے کے بعدحتمی نتیجہ سے اس کے شبہ کی تصدیق ہو جائے تو تم کیا کرو گے ۔ مجھے دیکھو ، اکہتر (71)کی جنگ میں تمہارے بابا شہید ہوئے تو ہمیں ان کی صورت بھی دیکھنا نصیب نہ ہوئی ۔ تم سب کتنے چھوٹے چھوٹے تھے ۔ بس یہاں ان کی خبر ہی مل گئی تھی ۔ جس وقت یہ اطلاع ملی ، میں جا نماز پر بیٹھی تھی اور میرے سامنے رحل پر قرآن پاک دھرا تھا اور میری نظر اس آیت پر تھی جس کے ذریعہ ہمیں ایک خوب صورت مشورہ دیا گیا تھا … جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو ( یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دیا کرو) ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے ‘‘۔
زبیر چونک سا گیا ۔’’ آپ کہتی ہیں کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے جنگ کرتا ہؤامرے تو وہ شہید نہیں ہوتا ، تو پھر ہمارے بابا کیوں کر شہید ہوئے مشرقی پاکستان کی جنگ میں ۔ مسلمانوں ہی سے تو لڑ رہے تھے اور ہمارے ایک پروفیسر ہوتے تھے ، ہماری آرمی سے بڑی نفرت کرتے تھے ، وہ یہی کہا کرتے تھے کہ کوئی شہید و ہید نہیں ۔ جو اپنوں ہی کی گولی سے مرے ، وہ شہید تو کیا … بس آگے میری طرف دیکھ کر کہتے تھے … ’’ تمہاری دل آزاری ہو گی کیا کہوں ‘‘۔ اور یہ کہتے کہتے وہ بڑی حقارت سے مسکرا کر خاموش ہو جاتے تھے ‘‘۔
ایک لحظہ خاموش رہنے کے بعد وہ بولیں ،’’ مگر زبیر ، تمہارے بابا کسی اپنے کی گولی سے شہید نہیں ہوئے‘‘۔
’’ پھر ؟ ‘‘ زبیرنے سوالیہ نگاہ ان کی طرف کی تو وہ افسردگی سے کہنے لگیں ، ’’ پھر کیا بتائوں ،یہ تو تم کو اب معلوم ہی ہو گیا ہے کہ مکتی باہنی نے اگر تلہ سازش کے تحت بھارت کے بنگالی نوجوانوں کی فوجی تربیت کے جو مرکز قائم کیے تھے ، وہ کلکتہ کے ان مضافاتی اور سرحدی علاقوں میںقائم تھے جن کی سرحدیں ہمارے مشرقی پاکستان کے علاقوں کے ساتھ تھیں ۔ چنانچہ سلہٹ کے مختلف علاقوں ہی میں فرنٹیر فورس کی کمپنی نے جس میں تمہارے بابا کی پوسٹنگ تھی، مختلف محاذ قائم کیے تھے ۔ پہلے سلہٹ میں ڈھلوئی کا محاذ تھا ، جہاں وہ اوپی کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ اب بھارتی فوج کھل کر خود مقابلے پر آچکی تھی ۔ تمام رات یعنی اکتوبر کی تیس تاریخ کودشمن کی فوجیں آگ اگلتی رہیں ۔ ان کے گولے ہر طرف برس رہے تھے ۔ ایک گولہ ان کے بنکر کے ساتھ آکر پھٹا تو ان کا وائر لیس سیٹ تباہ ہو چکا تھا ۔ اور اس رات ان کو تیز بخار تھا ، وہ مچھروں اورملیریا کا علاقہ تھا ۔ جنگ کی شدت اور تباہی کے نتیجے میں کھانے کا سامان اورضروری دوائیں تک ختم ہو چکی تھیں ۔ وہ دو دن سے درختوں کے پتے کھا کر گزاراکرتے رہے۔ مختصر یہ کہ اس محاذ سے کامیابی کے ساتھ واپسی پر ان کا تبادلہ مکروٹ نگر ہو گیااور پھر شمشیر نگر ہو گیا ۔ وہیں کی پوسٹ سے ان کی طرف سے بھیجا ہؤا عید کا آخری عید کارڈ مجھے ملا تھا ، جس میں عید مبارک کے بعد صرف ایک سطر لکھی ہوئی تھی:
’’ میرے بچوں کو عید اچھی سے اچھی طرح منوانا ‘‘۔
اور اس کے بعد تمہارے بابا نہ رہے ۔ وہ اس لحاظ سے خوش نصیب تھے کہ انہوں نے مشرقی پاکستان کے سقوط کا 16دسمبر والا واقعہ نہیں دیکھا ۔ مشرقی پاکستان کے رکھوالوں سے ہتھیار ڈلوانے کی وہ تقریب نہ دیکھی کہ وہ تو اس سے پہلے دسمبر کی 16تاریخ کا سورج نکلنے سے پہلے …‘‘یہ کہتے کہتے ان کی آواز ٹوٹ گئی۔
’’ مگر امی جان ! آپ نے ہمیں کبھی نہ بتایا کہ ہمارے بابا پراپنے فرائض انجام دیتے ہوئے کیا گزری ۔ وہ فرائض جن کے انجام دینے کا صلہ یہ ملا کہ آج ان کے اپنے ہی لوگ ملزم ، مجرم اورظالم قرار دیتے ہیں ۔ امی وہ تو اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ایک فرض کی ادائیگی کے لیے اتنی سختی اپنی جان پر جھیل رہے تھے ‘‘۔
’’ہاں وہ بھی اوران کے وہ تمام ساتھی بھی جوشہادت کے مستحق قرار دیے جانے کی بجائے مردود اورجنگی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے کیے جاتے رہے ہیں … اور کیے جاتے رہیں گے ‘‘۔
’’ آخر کب تک ؟ کب تک امی جان ؟… اور آپ نے ہم کو ان سچائیوں سے بے خبر کیوں رکھا … کہ …کہ ہم اس وقت سے آج تک شرم سا رہی رہے ہیں کہ ہم جنگی مجرموں ، ظالم اور جابر لوگوں کی اولاد ہیں جنہوںنے مظلوم مکتی باہنی کے خلاف ہتھیار اٹھائے ۔ خود خاک و خون کارزق بنے۔ پیچھے ہمیںشرمسار کرنے کوچھوڑ دیا ‘‘۔
’’ نہیں بیٹا ، ایسی کوئی بات نہیں … نہ وہ ظالم اور جنگی مجرم تھے اورنہ وہ ،جنہوں نے اپنے ایک مشترک دشمن کی اعانت بے خبری اور زبردست غلط فہمی میں کی ‘‘۔
’’ تو پھر … پھر… واقعی امی جان، آپ نے ہم کو بے خبر رکھ کر ظلم ہی تو کیا ۔ اب تو آپ کو ہمیں کھل کر بتا دینا چاہیے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ بھی ایسا جس نے ہمیں مستقل فریب خوردہ کیے رکھا اور ہم ہمیشہ شرمسارہی رہے ‘‘۔
’’ وہ سچ! اتنا تلخ اورنا قابل یقین تھا … کہ اس وقت تمہارے معصوم اور ننھے سے ذہن اس پر یقین کرنے پر تیار نہ ہوتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ تم اکیلے ہی نہیں ، ہماری پوری قوم فریب خوردہ ہے … میں سوچتی تھی کہ کبھی وقت آنے پر تم لوگوں پر یہ بات تو واضح کر دوں گی کہ تمہارے بابا اور ان کے ساتھی جنگی مجرم نہیں تھے ۔ اور مردود نہیں بلکہ شہید ہی ہیں ۔ لیکن وقت اتنا تیز گام تھا اور تم سب کے مسائل اور کاموں میں الجھی ہوئی رہی اس درجہ کہ مجھے اس مناسب وقت کا پتہ ہی نہ چلا کہ وہ آیا بھی کہ نہیں … ہاں ، اب اس وقت تمہاری باتوں سے مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ وقت آگیاہے … بلکہ وہ تو ہمیشہ ہی سے موجود تھا … یہ تو ہماری بزدلی اور کئی ناگفتہ بہ خوف تھے کہ جن کے ڈر سے ہم جھوٹ پر جھوٹ بول کر حقیقت پر دبائو ڈالتے رہے ‘‘۔
’’ اچھا تو اب بتائیے نا ، وہ ہیبت ناک سچ کیا ہے ؟‘‘
اور یہی کہ ان کا وہ آخری مسقر تھا ، جہاں انہوںنے اپنی زندگی کی آخری عید کا چاند اپنے بنکر میں دیکھا ۔دیکھا کیا تھا ، سنا تھا … انہوں نے چاند ہونے کی خبر ملتے ہی وہ آخری خط تمہارے دادا ابو کے نام لکھا تھا ، ’’سورج غروب ہو رہا ہے ، اندھیر ے سے پھیل رہے ہیں ۔ اپنے اندھیر ے مورچے میں ابھی ابھی عید کا چاند نظر آنے کی خبر ملی ہے ۔مجھے معلوم ہے کہ آپ کو اپنے ملک اور وطن کی سلامتی کی شدید ترین فکر ہو گی … کہ آپ اور آپ کی نسل کے بزرگوں نے اس وطن کے حصول کی خاطر اپنی جوانیاں نذر کیں … آپ لوگوں سے ہماری ایک عرض کہ ہم اگر آپ کے اس گراں بہا تحفے کو جو آپ لوگوں نے اپنی نئی نسل کو دیا ہے ، اس کی سلامتی اور یگانگت کو برقرار نہ رکھ سکیں تو ہمیں موردِ الزام نہ ٹھہرائیں ۔ ہم آخری سانس تک اس کی سلامتی اور آزادی کے لیے اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے ۔کل انشاء اللہ آپ سب اور ہم لوگ بھی عید منائیں گے ۔آپ کو ہم سب ( یہ میرے ساتھ بھی تو آپ کے بیٹے ہیں) بیٹوں کی طرف سے عید مبارک ہو … اور پھر اس خط کے ساتھ ہی انہوں نے میرے نام وہ عید کارڈ جو خود ہی مورچے میں بیٹھ کر بنایا تھا ، لکھا ہوگا جس کی فقط ایک سطر میںلکھا تھا ، ’’ میرے بچوںکوبہت اچھی سی عید منوانا ۔‘‘
یہ کہتے کہتے ان کی آواز بھرا گئی تھی ۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد انہوں نے سر اٹھا کر زبیر کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر آئے تھے …’’ اچھا ،تم ایسا کرو کہ ناشتہ ختم کر لو ۔ بچوں کے سکول جانے کا وقت ہو رہا ہے ۔ میں بھی کچھ دیر آرام کروں گی ۔ آج ٹیسٹوں کی رپورٹ لینے جانا ہے ‘‘۔
’’ٹیسٹوں کی رپورٹ روشن لے آئے گی ۔ آپ نہ جائیں ‘‘۔
’’ نہیں ، میں روشن آرا ء کو اکیلے کسی حال میں جانے نہیں دے سکتی۔ میں اس کے ساتھ جائوں گی۔ ایک تو میری وجہ سے اس کو ایسی حالت میں بھاگ دوڑ کرنا پڑ رہی ہے اور پھر ہے بھی تو نروس قسم کی ۔ رپورٹ ٹھیک نہ ہوئی تو ایک دم اوسان خطا ہوجائیں گے ۔‘‘ یہ کہتی ہوئی وہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔
اگلے چار روز عجب افرا تفری میں گزرے ۔ ڈاکٹر ہر رپورٹ دیکھ کر کچھ دیر گم سم بیٹھا رہنے کے بعد دو تین کچھ اور ٹیسٹ لکھ کردے دیتا ۔ اسی افرا تفری میں اضافہ بشارت بھابی کے گھبرائے ہوئے SMSسے ہؤا اور ای میل دن میں ایک بار سے زیادہ ہی مل رہے تھے جن کا لب لباب اور زیر تحریرمقصد یہ ہوتا کہ بتائو مرض کیا تشخیص ہؤا؟ ڈاکٹر کتنا ٹائم دے رہے ہیں ، کون سی سٹیج ہے ۔ در پردہ عندیہ یہ تھا کہ اگر سٹیج نا قابل علاج ہے تو یہ خیال ہی فضول ہے کہ ان کو اتنا لمبا سفر کروا کر یہاں یعنی امریکہ لایاجائے ۔ فضول کی زحمت دی جائے اُن کو اور پھروہاں سے باکس میں واپسی… خیر ویسے بھی اس عمر میں لوگ اپنی آخری سانسیں اپنے ہی وطن میں لینے کے خیال کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ سارے کے سارے ای میل روشن آراء ہی کے نام آ رے تھے ۔ وہ غریب ایک تو دوسرے حال سے ، اوپر سے ساری بھاگ دوڑ اسی کو کرنا پڑ رہی تھی ۔ ڈاکٹر الگ اپنا مال بنانے کی فکر میں اس کیس کو زیادہ سے زیادہ لٹکائے جا رہا تھا۔ وہ ایسے ای میل اور SMS سب چپ چاپ ردی کی ٹوکری میں ڈالتی SMSفوراً ہی مٹا دیتی ، ’’ کہیں امی جان یا زبیر کی نظر پڑ گئی توزبیر تو ایک قیامت ڈھا دیں گے کہ محض ایک وہم اورخیال کے تحت ابھی سے میری ماں کی باکس میں واپسی کی باتیں ہونے لگیں اور امی جان بھی توکتنا ہرٹ ہو جائیں گی … حد کرتی ہیں بشارت بھابی بھی ، آدمی کو اتنا بھی میٹر آف فیکٹ نہیں ہونا چاہیے ‘‘۔
گھبرا کر وہ ڈاکٹر سے پوچھنے لگتی ،’’ آپ کا کیا خیال ہے ؟ ہم ان کوشوکت خانم نہ لے جائیں ؟‘‘ شوکت خانم کا نام سنتے ہی وہ ایک لمبی تقریر کرنے بیٹھ جاتا ۔’’ تو کیاکرلیں گے وہ بھی ۔ آپ نے پھر نئے سرے سے ان کے بتائے ہوئے ٹیسٹوں کی کھپ میں پڑنا ہے تومرضی آپ کی … اور ان کا تو یہ ہے کہ کیمو تھراپی قبل از وقت کروا دیں گے ۔‘‘یہ تقریر اس نے اُن کے سامنے ہی کر ڈالی ، بہت درد مندانہ لہجے میں … اتنی جذبات سے مملو اور ہمدردانہ مگر ان خطرات کے اندیشے سے بھر پور الفاظ کہ دو تعلیم یافتہ ہوش مند خواتین کو شوکت خانم کا خیال ترک کر کے بوکھلا کر انہیںکچھ دن اور اسی ڈاکٹر کے زیر علاج رکھنے کا فیصلہ کرلیا گیا ۔اس وقت تک اپنے خیال میںنام نہاد مریضہ سمجھنے والی کامورال اس درجہ نیچے گرنے لگا تھا کہ ان پر نیم غشی کی حالت طاری ہو نے لگی تھی ۔ تب ہی ڈاکٹر نے سنبھال لیا اوربڑے ہی مطمئن انداز میں ان کا کندھا تھپتھپایا۔’’ فکر ہی نہ کریں ۔ اتنی بھی پریشان نہ ہوں ۔ میں یہ دوائیں لکھ رہا ہوں ۔ تین دن بعد ان کا ری ایکشن ظاہر ہوگا ۔ انشاء اللہ سب کھل کر سامنے آجائے گا ۔ اب ایسا کرتے ہیںکہ ان دوائوں کا اثر دیکھ لیں ۔
پھر آپ کو ایک ہفتہ کے لیے میں اپنے کلینک میں داخل کر لیتا ہوں پوری تفتیش کے بعد ‘‘۔ تفتیش کا لفظ روشن آراء کے لیے نامانوس اور قطعی اجنبی تھا ۔ گھبرا کر سوالیہ صورت چہرہ ڈاکٹر پر مرکوز کیا تو اس نے فوراً بات صاف کردی ۔ ’’ میرا مطلب انوسٹی گیشن سے ہے ۔ تو پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ آگے ہمیں کیا کرنا ہے ‘‘۔
ڈاکٹر جس کے نام کے ساتھ سپیشلسٹ ، سرجن وغیرہ کے آگے تقریباً آدھے درجن امریکی یونیورسٹی کے نام اور ڈگریوں کی تفصیل درج تھی ، دونوں ہوش مند ساس اور بہو کی مت مار کھا گئی ہوئی تھی ۔ سو وہ اس کے ہر مشورے اور حکم کی تعمیل پر بلا چون وچرا راضی تھیں … اور جب یہ آخری مرحلہ بھی طے ہو چکا تو ڈاکٹر کلینک سے ڈسچارج ہونے والی صبح، انہوں نے روشن آرا ء سے مخاطب ہو کر بڑے سکون سے کہا :
’’ بھئی سن لو روشن آراء اب ہمارا بھی ایک فیصلہ ہے ۔ اور یہ قطعی فیصلہ ہے ‘‘۔
’’ جی بتائیے ؟‘‘ روشن آراء خود بھی کسی فیصلے اور حتمی نتیجے کی خواہاں تھی کہ اس تگ و دو میں خود بھی مضمحل اور پست ہوتی جا رہی تھی۔
’’ پہلے وعدہ کرو کہ پھر ہم کو کسی بحث و مباحثہ سے قائل نہیں کرو گی بلکہ جو ہم کہیں گے ، اسی پر عمل کرو گی اور زبیر کے علاوہ کسی اور کو اس فیصلے سے آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں ‘‘۔
’’ اور اگر زبیر نہ مانے تو ؟‘‘
روشن آراء کی بات انہوں نے کاٹ دی ۔’’ مجھے معلوم ہے ، زبیر میری بات سے اتفاق کر لے گا ۔ ان لوگوں کی بھی مجبوری ہے کہ وہ جہاں ہیں وہاں اتنا عرصہ گزارنے کے بعد ، ان کی سوچ ، ان کی اقدار ، معیار اور احساسات ہم سے بہت مختلف ہو چکے ہیں ۔ یہ ان کی غلطی نہیں بلکہ ایک مخصوص ماحول کا منطقی نتیجہ ہے …‘‘ قدرے توقف کے بعد انہوں نے کہا ’’ اب گھر چلو ۔ وہاں بیٹھ کر تسلی سے میری بات سنو گی ، تب ہی عمل کر سکو گی‘‘۔
گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے ڈاکٹر نے ان کو مخاطب کیا ۔’’ اماں جی … آپ نے سب کچھ تو دیکھ لیا ہے ۔اچھی زندگی گزار لی ہے ۔ اپنے سارے کام پورے کر لیے ہیں ۔ فکر کا ہے کی ۔ اب آرام سے اللہ کو یاد کریں ۔ ہمارے لیے بھی دعا کریں ۔ بیماری دکھ کا کیا ہے جس کے حکم سے آتی ہے، اُسی کی رضا سے جاتی ہے ۔ ہم تو کوشش ہی کرنے والے ہیں ۔ سو دوا استعمال کرتی رہیں ، آگے اس اوپر والے کی مرضی‘‘۔
اب روشن آراء کوان کے فیصلے سے آگاہی کا دھڑکا لگا تھا … دیکھو ! کیا کہتی ہیں ان کو ۔
ان کے کمرے میں لٹا کرکچن میں چلی گئی ۔ اسی پریشانی اور سوچ میں دو کپ کافی کے بنا کر لائی ۔ٹرے سائیڈٹیبل پررکھ کر ان کومخاطب کیا۔’’ امی جان ، لیجیے اپنی کافی تو پی لیں اور بتائیں ، ہمارے لیے کیا فیصلے ہیں ۔ کیا حکم ہے ‘‘۔
’’ اچھا، آئو ادھر ، میرے پاس سکون سے بیٹھ جائو ۔’’ اٹھ کر بیٹھیں بڑے پیار سے اس کے کندھے پر رکھا ۔’’ تم تومیری بڑی پیاری بیٹی ہو اور ہم دوست بھی تو ہیں ۔ یہ حکم تو نہیں ہے اپنی بیٹی او دوست سے ایک Requestایک درخواست ہے ‘‘۔
روشن آراء بہت معصوم اور محبت کرنے والی لڑکی تھی ۔ اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو ڈبڈباتے دیکھ کر کافی کا بڑا سا گھونٹ بھرا۔’’’ کافی تو بس روشن ہی بنانا جانتی ہے … ہاں تو بس حکم یہ ہے ، اب روز روشن ہی ہمارے لیے کافی بنائے گی …‘‘
’’ اچھا ! اب مجھے باتوں میں نہ ٹالیے ۔ بتائیے اپنی Request‘‘۔
’’ تو سنو… تم نے سنا ڈاکٹر کیا کہہ رہا تھا ‘‘۔
’’ جی! سنا …‘‘ روشن نے سر جھکایا۔
’’تو پھر میرا یہ فیصلہ ہے کہ آج کے بعد ہم کسی ٹیسٹ اور انوسٹی گیشن اور اس کے بعد کیمو تھراپی اور اس سے بھی زیادہ ہولناک ٹیسٹوں اور رپورٹوں کے چکر میں نہیں پڑیں گے ۔ تم مجھے سکون سے اپنے کمرے میں رہ کر اپنے وقت موعود کا انتظار کرنے دو … اور ہاں یہ اب فون ، ای میل ، اور موبائلوں کا سلسلہ کم کردو… مجھے معلوم ہے ، وہ بھی میری طرف سے فکر مند اور پریشان ہیں اور ان کی پریشانی مجھے اور بھی بے چین رکھتی ہے ۔ میری خاطر تم ان کی تسلی کرو ادو کہ رپورٹ ٹھیک آئی ہے ، کوئی پریشانی کی بات نہیں … امریکہ جا کر علاج کروانا مجھے منظور نہیں ، نہ ہی میں وہاں سے لکڑی کے نفیس اور قیمتی بکس میں لیٹ کر واپس آنا چاہتی ہوں ۔ جس خاک سے میرا خمیرا اٹھا ہے ، اسی خاک میں مل جانا چاہوں گی … جیسے ہمارے بچپن میں ولایتی چینی کی گڑیاں بھوسے میں دبی مضبوط اور خوب صورت ڈبوں میں لیٹی ہوئی آیا کرتی تھیں ، مجھے اسی طرح وطن واپسی منظور نہیں ‘‘۔
’’ ارے اللہ نہ کرے ، اب آپ ایسی باتیں بھی تو نہ کریں …‘‘ روشن آراء ایسے بوکھلا گئی تھی کہ وہ اس کی شکل دیکھ کر ہنس پڑیں۔
’’ ارے بیٹی یہ باتیں تو اصل اوراٹل حقیقت ہیں اور ہم ان سے اسی قدر گھبراتے اورگریز کرتے ہیں ۔ یہ وقت تو ایک نہ ایک دن…‘‘
اس نے پھر بوکھلا کر ان کو آگے بات کرنے سے روک دیا ۔’’ اچھا تو پھر ٹھیک ہے ۔ آپ جیسا کہیں گی، ہم ویسا ہی کریں گے ۔ آگے کل سے ہمارا کیا پروگرام ہونا چاہیے‘‘۔
’’ ہاں تو کل سے ڈاکٹر کے کلینک کے چکر لگانے اور وہاں گھنٹوں بیٹھ کر بور ہونے کی بجائے ہم دونوں سکر یبل کھیلیں گے ۔ میں تم کو شطرنج کھیلنا سکھائوں گی اور تم پرانے میوزک کے ریکارڈ لگاکر ہمیں سنوائو گی‘‘۔
’’ وائو کتنا خوبصورت پروگرام رہے گا‘‘۔ روشن آراء افسردگی سے کافی کی خالی پیالیاں ٹرے میں لگاتے ہوئے سوچ رہی تھی اور پھر یہ وقت بھی گزر جائے گا اوران کا بنایا ہؤا یہ خوب صورت پروگرام بھی ایک اور Episode میں تبدیل ہو کر داستان کا ایک حصہ بن کر رہ جائے گا اور بہت سے ان گنتEpisodes سے مل کر بننے والی داستان کے وہ سارے کردار جن میں یہ بھی شامل ہیں اور میں بھی ہوں، کہاں ہوں گے ۔
؎ ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے
ان ہی کے سنائے ہوئے شعر اکا ایک مصرعہ اس کے اندر کے کمپیوٹر کی سکرین پر ایک جھمکا سا مارتا تھا ۔ ٹرے اٹھاکرروشن آراء کچن کی طرف چلی گئی تھی۔
زبیر اس دوران کئی بار ان سے ’’سقوطِ مشرقی پاکستان‘‘ سے متعلق ان سچائیوں کے بارے میں سننا چاہتا تھا … اتنے ماہ وصال اوراتنی برساتوں کے گزرنے کے بعد ، بہت سی سچائیوں کے بارے میں جاننے والوں نے اس حقیقت کو دبا دینے میں ہی مصلحت سمجھی تھی اور اگر کسی نے کبھی اس کے بارے میں لب کھولنے کی جرأت بھی کی تو ایسے دبے دبے محتاط انداز میں کہ جن کو پڑھنے والی نئی نسلوں کو کچھ زیادہ ہی شرمساری اور کنفیوژن سے اس درجے دو چار کردیا کہ وہ اپنی پوری قوم کوجرمن نازیوں سے بھی بڑھ کر ظالم اور جابرسمجھنے پرمجبور ہوئے اور جو کچھ بھی اس نے سنا ، پڑھا اور جانا تھا ،اب اس کے بارے میں ماں سے اس کا نقطۂ نظر جاننا چاہتا تھا۔
وہ اب اپنے ہی بتائے ہوئے پروگرام ، سکریبل ، شطرنج کی بازیوں اور پرانے میوزک اور گانوں کی ریکارڈ کی روز مرہ تکرار سے اکتا چکی تھیں اور اب وہ زیادہ وقت اخبار بینی اور کسی نہ کسی کتاب کے مطالعے میں گزارنے کے علاوہ گھر کے رہائشی کمروں میں الگ تھلگ روشن آراء کے آراستہ کیے ہوئے سک روم یعنی کمرۂ علالت میں سرنیہواڑئے( سرنگوں) پڑی گھر کے روز مرہ سے متعلق آوازوںاورصدائوں سے اپنا رابطہ حیات متعلق رکھے ہوتیں ۔ یہ جھاڑو کی سرر سر بتا رہی ہے کہ صفائی والی آچکی ہے ، کمروں کے فرشوں اور قالینوں کی صفائی میں جتی ہوئی ، بالٹیوں کی کھڑ بڑ اور ڈیٹول کی تیز مہک بتا رہی ہے کہ ٹاکی پوچے سے فارغ ہوچکنے کے بعد بڑے فاتحانہ انداز میں اس کمرۂ علالت میں داخل ہو کرڈیٹول کے محلول اور پوچے والے ڈنڈے کو پُر شور انداز میں فرش پردھڑ سے پٹخ کر پوچھے گی ، ’’ ہاں جی اماں جی ، سنائو کیہہ حال اے ‘‘۔ بھر پور بلند آواز سے … اسے اپنی صحت اور فٹنس پر ناز ہے ۔ حالاں کہ سن وسال کے حساب سے چند سال ہی ان سے کم ہے عمر میں ۔ عجلت میں جھٹا جھٹ کام کرنے کے سبب کمرے میں خاصی کھڑ بڑ اورشور سا پیدا ہو گیا ہے … جو اُن کو ناگوار محسوس ہونے کی بجائے اچھا لگ رہا ہے کہ زندگی اور اس کے معمولات سے ایک مانوس ساربط اورتعلق پیدا ہوتا محسوس ہو رہا ہے ۔ وہ اب غسل خانے میں گھسی ہوئی ہے۔ تمام نل پورے زور شور سے کھول رکھے ہیں ۔ شٹر شٹر فرش دھونے اور بالٹیاں اِدھر اُدھر کھسکانے کی آوازوں کا شور ، جیتی جاگتی زندگی کا سہانا راگ بن بن کر ان کے مضحمل اور دوائوں کے اثر سے غنودگی میں ڈوبے وجودکے اندر اتر رہا ہے ۔ وہ اس تمام شور اور کھڑ بڑ سے پراگندہ اور مکدر ہونے کی بجائے ایک خوش گوار توانائی سی محسول کر رہی ہیں ۔ اپنے بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی ہیں ۔ وہ اب باہر نکل آئی ہے اور احسان جتاتے ہوئے ،’’ لو جی اماں جی ، تمہارا واش روم بہت ستھرا صاف کردیا ہے ‘‘ کہتے کہتے ، اب ان کی صحت اور توانائی کے بارے میں تقریر شروع کردی ہے ۔
’’ ہاں جی ، اٹھا بیٹھا بھی کرو، تھوڑا اترا پھر ابھی کرو۔ بستر سے لگے لگے بندہ اوکھا بھی ہوجاتا ہے … کچھ کھایا پیا کرو۔ کچھ جان بنے ۔دیکھو جی تم نے ایک دو ہفتے میں اپنا کیہہ حال بنالیا…‘‘
وہ ہنس پڑیں ۔ ’’ بندہ اپنا حال خود تو نہیں بنا لیتا ہے بی بی ۔ روز میں اٹھتی بیٹھتی بھی ہوں۔ ترتی پھرتی بھی ہوں ۔ صبح صبح نماز کے بعد باغ میں جا کرتھوڑی بہت دیکھ بھال بھی کرتی ہوں ۔پرنہیں معلوم کیوں یا پھر شاید دوائوں کااثر ہے کہ نیند سی آئی رہتی ہے ۔ جیسے جی ہار گیا ہو ۔ ہو سکتا ہے ، کچھ دن میں ٹھیک ہو جائے ‘‘۔
’’ نا جی ہن کی ٹھیک ہونا ۔ بندہ ایک بار ہارا سو ہارا … بندے کا آخیر ( آخر) ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اس مالک کی مرضی … تسی ساڈے واسطے بھی دعا کیا کرو۔ کہتے ہیں بیمار بندے کی دعا وہ جلدی سنتاہے ۔ اوپر جانے والے کی دعا‘‘۔
اس وقت اس کی یہ بات انہیں اچھی نہیں لگی ۔ اس وقت کیا ، یہ تو جب سامنے آتی ہے ایسی ہی باتیں کرتی ہے ۔’’ تمہارا کیاپوچھنا ہن تُسی پروہنے جو ٹھہرے‘‘۔
وہ اپنے نام جھام ، جھاڑو پوچے اور اونچی اونچی فاتحانہ آواز میں کرنے والی باتوں سمیت کمرے سے نکل گئی تو اس کے ساتھ ہی کمرے کی وہ رونق اور گہما گہمی بھی رخصت ہوئی ۔ ایک گہرے ملال اورافسردگی کی کیفیت سے نجات پانے کے خیال سے انہوں نے پھر ایک بار گھر کے مختلف کونوں سے آنے والی آوازوں سے اپنا رابطہ جوڑ لیا ۔ سب سے پہلے تو کچن سے آتی ہوئی پکتے ہوئے کھانوں کی اشتہا انگیز مہک نے ان کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔’’ سو یہ بھی زندگی کی ایک صحت مند علامت ہوئی نا اور یہ بھی کتنی دلچسپ بات ہے ، پکتے ہوئے کھانوں میں سے جتنی اشتہا انگیز مہک آتی ہے ، وہ تیار پلیٹوںمیں رکھے کھانے میں کب ہو سکتی ہے … اب سلیمان کھانے کی میز لگا رہا ہے ۔ چینی کے چھوٹے بڑے برتنوںکو رکھنے اٹھانے کی یہ آوازیں آج کتنی دل آویز محسوس ہو رہی ہیں … زندگی سے استوار رشتوں کا ایک سلسلہ … آج سے پہلے اس تعلق اوراستواری پر کب دھیان دیا تھا … بہت حیران ہوئیں ۔ گاڑی کے ڈرائیووے پر آنے اور دروازہ کھلنے کی آواز کے ساتھ بچوں کے ہنستے بولتے ہوئے اندر آنے کی آوازوں کے ساتھ روشن کی تنبیہہ …شی شی کی صدا … شور بالکل نہیں کرنا … بڑی امی آرام کر رہی ہیں ۔ چپ چاپ جا کر چینج کرو … شرمندگی اور اپنی بے چارگی کا احساس ایک بار پھر سر اٹھانے لگا تھا ۔’’ میری وجہ سے گھر کے روز مرہ میں کتنا خلل پڑ رہاہے ۔ میں اس لڑکی کو کس طرح سمجھائوں کہ ان کا ہنسنا بولنا ، شور مچانا ان دنوں حیات اور موت ، عدم اور وجود کے درمیان کس قدر خوب صورت حد فاصل قائم رکھتا اور احساس دلاتا ہے ‘‘۔
موسم رُت بدلتا تھا ۔ جانی رُتیں ، آنے والی اگلی رتوں کے لیے نئے منظر تجویز کرتی تھیں ۔بوجھل اور افسردہ دل سے دبے دبے قدموں سے پیچھے ہٹتی آنے والی رتوں کے راستے صاف کرتی ہوئی جیسے بیابان سے آتی صدا سنتی ہو…
خدا وند کی راہ تیار کرو…
اس کے راستے سیدھے بنائو!
جیسے خود بھی یہ صدا سنتی ہوں… افسردگی سے خیال کیا ۔ وقت ! ہاں وقت ہی تو خدا وند کا راستہ ہے ، آنے والا زمانہ اور گیا وقت بھی … زمانے کو برانہ کہو۔زمانہ وقت ہے اور وقت ہی تو خدا وند کا سیدھا راستہ ہے ۔
بدلتی رت کا یہ دن دھندلا دھندلا اورسو گوار محسوس ہؤا تھا ۔صبح ہی سے دھوپ گہنائی اورملگجی سی لگ رہی تھی ۔ یا شاید یہ میرے اندر کسی آنے والے ناروا لمحے کا احساس ہو … اور یہ احساس کتنا خوف زدہ کردینے والا ہوتا ہے ، نہیں معلوم کہ ہم نے اپنے ذمے ہونے والے کتنے فرض ادا کیے اور کتنوں ہی کو نظر انداز کیا …۔
وہ خاموشی اور گہرے ملال کے عالم میں اٹھ کر باہر کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے سامنے جا کرکھڑی ہوئیں۔
دریچے کے مقابل املتاس کے بلند و بالا پیڑ کی ڈالوں سے لٹکے قندیل نما پھولوں کے گچھوں کے غصب سے جیسے کسی نے جھانک کر کہا ہو … صبح بخیر ! صبح بخیر !
جیسے دھیمی سی مہر بان صدا آتی ہو … سلم قولاً من رب الرحیم
وہ کمرۂ علالت اسی طور آراستہ تھا جیسے ابھی ابھی کوئی یہاں سے اٹھ کر گیا ہو ۔ ہر چیز اپنی جگہ پر قائم اور موجود تھی ۔ سائیڈ ٹیبل پر رکھا ٹیبل لیمپ ، اس کے نزدیک گُل دان میں سجے پھولوں کی مہک اسی طرح اپنے ہونے کا احساس دلاتی تھی… وہ اپنی محزون نگاہوں سے انہیں دیکھتا تھا ۔
آج سے تین روز قبل وہ اپنی ماں کو اس کی آخری آرام گاہ کے سپرد کرنے لگا تو ایک نگاہ واپس ڈالی …کتنے سکون سے وہ اپنی لحد میں مسکرائی تھیں۔
خاموشی سے اٹھ کر لیمپ اور گلدان کے درمیان رکھی ڈائری اٹھائی۔ اس کو آنکھوں سے یوںچوما جیسے وہ کوئی مقدس تحریر ہو۔
’’مجھے اعتراف ہے کہ میں نے تم سے کیا ہؤا وعدہ پورا نہ کیا ۔ تمہارے کیے ہوئے سوالوں کا جواب نہ دیا … مگر تم ہی بتائو کہ تم خدا اور اس کے درمیان ہونے والے عہدو پیمان اور معاملوں کے بارے میں کوئی حتمی قولِ فیصل کیسے دے سکتے ہو اور قربانی دینے والوں کی شہادت کے بارے میں کوئی کب کوئی تعینی حکم صادر کر سکتاہے ۔ جب کوئی معاہدہ ،کوئی مشروط عہد و پیمان ہؤا ہی نہ ہو ، قربانی دینے والوں کے ذہنوں میں کسی صلے کی تمنا ہی نہ ہو ۔ بس ایک ہی جنون جذب و مستی ہو …’’ یہ میری سرحدیں ہیں،یہ وہ سرزمین ہے جسے حاصل کرنے کی خاطر ہم نے اپنے پچھلوں کی عزتوں کی ، جانوں کی اور آزادی کی ہوائوں میں سانس لینے کی تمنائوںاور حسرتوں کی قربانی دی اور میں ان کی ساری حسرتوں اور خواہشوں کا امین ہوں۔ مجھے اپنی امانتوں کی حفاظت کرنا ہے…‘‘
زبیر ! تمہارا باپ بھی ان دنوںاور زمانوں میں ایک نو خیز اورجذبہ شوق و مستی سے لبریز مالا مال نوجوان تھا ۔ اسے تو کسی صلے کسی منصب کی تمنا نہ تھی ۔ بس اس کو تو سرحدوں اور زمین کے تقدس کی امانت کو آخر دم تک سینے سے لگائے رکھنا تھا ۔ جس کی پشت پر کسی گولی کے زخم کا نشان نہ تھا ۔ اس کا تو سینہ ان گولیوں سے چھلتی تھا جواس کی ہتھیار نہ ڈالنے کی ضد پر گولیوں کے پر خون نشانوں سے سجا دیا گیا تھا ۔ ان کے گولیوں سے چھدے جسد خاکی کوان کی یونٹ کے حوالے کرتے وقت اس کرنل نے یہی کہا تھا،’’ میں نے ایسا جی دار نوجوان نہیںدیکھا ‘‘۔مگر یہ اس کا خیال تھا۔ جن کے سینے گولیوں کے نشانوں سے چھلنی نہ ہوئے تھے ، ان کے بھی نو خیز معصوم سینوں میں وہی امانت تھی جسے وہ اپنے سینوں میں دبائے ہوئے تھے ۔ انہوں نے اپنی خودی کے علاوہ اپنے وجودِ خاکی کو دشمن کے حوالے کیا اور پابہ جولاں ہوئے۔
زبیر ! اتفاق سے آج وہی تاریخ ہے ۔ ویسا ہی سرد ، دھند لکوں میں لپٹا ہؤا دن ہے اور آج میں تم سے اپنے ایفائے عہد کی شکستگی کا اعتراف کرتی ہوں کہ میں اپنے اندر اس قسم کے فیصلے کا حوصلہ نہیں پاتی ۔ یہ وہی تو دن ہے … اس دن ہم نے تمہاری پہلی سالگرہ منائی تھی … اس وقت اور آج کے دن کے درمیان چالیس سال ہو چکے ہیںاور آج تمہاری چالیسیویں سالگرہ ہے ۔ تم خود فیصلے کرنے کے اہل ہو … میں اتنا ضرور کہوں گی کہ ہم نے ابھی تک اپنی آزادی کی پوری قیمت ادا نہیں کی … اور جب ہی تو ہر طرف صدائیں ہیں ۔ آوازیں ہیں ۔ بہتان اور الزامات … کبھی طالبان اور کبھی داعش ہیں کہ اب نا معلوم ان کے بھیس میں کون ہم سے یہ قیمت معہ سود ادا کروانے آتا ہے ۔ ہم کبھی اپنے گیارہ افسروں کے سروں کا نذرانہ دے کر کہ لو ان سے فٹ بال کھیل کر Battle of Balaksarکی یاد تازہ کرو اور کبھی گیاری کے برف کی سلوں کی تہوں میں سوئے افسروں ، جوانوں کی رقم بمعہ سود ادا کرتے ہیں ۔ پر سود ہے کہ بڑھتا چلا جاتا ہے … اور اب آج کی وہی تاریخ ہے ، رقم کی بمعہ سود ادائیگی ہم نے اپنے ایک سوباون بچوں اور ان کے استادوں کی کچلی ہوئی شکلوں اور خون سے نہائے جسموں کی صورت میں ادا کی ہے …
اوراب توآسمان بھی جیسے صدا دیتا ہو…
وامنا زوا الیوم ایھا المحرمون
٭…٭…٭