گلیاں بدل گئی ہیں کہ وہ گھر بدل گئے
بینائی بجھ گئی ہے کہ منظر بدل گئے
آنسو بنے ہوئے تھے زمانے کی رونقیں
ہم کیا ہنسے کہ وقت کے تیور بدل گئے
پہلے سے اب کہاں وہ تراشے ہوئے بدن
آذر بدل گیا ہے کہ پتھر بدل گئے
مشکل پڑی تو وقت کی نظریں بدل گئیں
جتنے بھی دوست یارتھے یکسر بدل گئے
قاتل کہاں وہ اب نہ ہیں پہلے سے اب طبیب
نشتر بدل گیا ہے کہ خنجر بدل گئے
ہے کاروانِ شعر و سخن آج بھی رواں
اتنا ضرور ہے کہ سخنور بدل گئے
دار و رسن کی رونقیں سب ماند پڑ گئیں
جو سارے حق پرست تھے خودسر، بدل گئے
وہ اپنی انجمن میں کبھی بزمِ غیر میں
آکر بدل گئے کبھی جاکر بدل گئے
کوئی بدل سکا نہ جنھیں آج تک کبھی
حیران ہوں کہ آپ سے کیوں کر بدل گئے
ظاہر سے جن کے پیار بہت تھا حبیبؔ کو
ہائے وہ اپنے آپ کا اندر بدل گئے
نعت
آج آقا کی بات ہو جائے
میرے سرور کی نعت ہو جائے
غم سناؤں میں جا کے آقا کو
غم سے میری نجات ہو جائے
پڑھ رہی ہوں درود آقا پر
اب اندھیروں کو مات ہو جائے
دن کٹے آپ کی ثنا لکھتے
اور یوں ہی یہ رات ہو جائے
ٹھہری قسمت یہ چل پڑے میری
مہرباں ان کی ذات ہو جائے
میں کنیزِ بتولِ ہوں خانمؔ
کیسے ممکن ہے مات ہو جائے
طوبیٰ نور خانمؔ
جگر دریدہ وہ ایک جگنو
اداس تاریکیوں کے گھر میں
جہاں پہ تازہ سحر کی کرنیں
برہنہ پا بھی
پہنچ نہ پائیں
کہ روشنی کی ذرا سی جنبش بھی
ظلمتوں کی نظر میں آئے
ہر ایک روزن ہر ایک در پہ
دبیز پردے ہوں بے حسی کے
جہاں پہ آرائشوں کی خاطر
فریبِ دنیا لٹک رہا ہو
جہاں کی ہر ایک راہداری
مہیب لالچ سے اٹ گئی ہو
اک ایسے اجڑے سیاہ گھر میں
جگر دریدہ وہ ایک جگنو
کئی مہینوں سے جی رہا ہے!
اک خواب جو شاعر نے دیکھا،تعبیرکے سچے رستے کا
اک رازکہ اس میں پنہاں تھا تعمیر کے بستے نقشے کا
ایمان کے عزم و ہمت نے کردار کی اعلیٰ طاقت نے
تعبیر کو اس کا روپ دیا،سرشارسی ایک صداقت نے
تصویر کا نقشہ خوب دیا افکار نہاں کی جرأت نے
بنیاد میں جس کی کلمہ تھا لاریب یہ وہی خطہ ہے
اس کلمے کا ہی صدقہ ہے اب جو بھی روشن رستہ ہے
قربان کیے تھے جان و تن تب جا کے ہؤاآزاد وطن
ہر آن لٹاتے لعل و گہر کیا شعر و سخن کیا فکروفن
سب رکھتے تھے بس ایک لگن کیا پیر و جواں کیا مردوزن
تاریخِ وطن یہ کہتی ہے آسان نہ تھا کچھ اتنا بھی
اک لمبے سفر پہ نکلے تھے سامان نہ تھا کچھ اتنا بھی
اک عشق میں تھا بس مر جانا اک آتش میں تھا جل جا نا
یہ کلمہ گویا دیپک تھا اور ہر ایک تھا بس پروانہ
آزاد نگر کے جذبے سے کس کس نے کیا کیا وار دیا
آباد نگر کے صدقے میں سر نذر کیے گھر بار دیا
تب جا کے ملا تھا پاک وطن تھی ارضِ وطن ہر دل کی لگن
کچھ رنگ و زباں کے پرچم تھے لگتے جو اپنے ہمدم تھے
کچھ رزق کے موقع کم کم تھے دشمن کے اونچے دم خم تھے
اغیار کی سازش اور فتنے اک جنگ و جدل کا عالم تھے
کچھ غفلت نے کچھ عسرت نے خلقت کو یوں مجبور کیا
کچھ رنگ رنگیلی شدت نے پھر منزل سے بھی دور کیا
تاریخ کا بھی تہذیب کا بھی ہررشتہ چکنا چور کیا
بدحال ہؤا یوں سارا وطن پامال ہؤا یوں پیارا وطن
جو مقصد سے بے گانہ ہوئے ہم کون تھے کیا سے کیا نہ ہوئے
سب وعدے جذبے اور رستے اک خواب ہوئے افسانہ ہوئے
تجدیدِ وفا کے موقع پہ یہ پوچھ رہی ہے ارضِ خدا
کیونکر نہ ہم کو یادرہاتوحید ِالٰہ ہے ایک پناہ
یہ ارض ِوطن یوں ہم کو ملا قائم ہو یہاں بس اس کی رضا
اس عہدوفا کو توڑ کے سب برباد ہوئے ناشاد ہوئے
مقصد سے ایسا ہٹنے پہ کیا کیا نہ ستم ایجاد ہوئے
مقصد وہ ہیرا موتی ہے ہردل میں چھپاکے رکھنا ہے
یہ مقصد سچا کلمہ ہےیہ جھنڈا اونچا رکھنا ہے
کرشکر بچالو آزادی یہ گھر تو اب بھی اپنا ہے
چلو خواب سینچیں
چلو خواب دیکھیں
اخوت کی شبنم میں بھیگے ہوئے قیمتی خواب دیکھیں
عزیمت کے تیشے سے سینچے ہوئے آ ہنی خواب دیکھیں
حوا و آدم کے دیکھے ہوئے اوّلیں خواب دیکھیں
چلو خواب سینچیں
چلو خواب دیکھیں
خواب آ دم کی فطرت کا روشن نشاں
خواب تخلیقی لمحوں کے ہیں پاسباں
خواب پیہم جواں، زندگی کا نشاں
خواب کلیہ ، نظریہ اور افکار بھی
خواب ورثہ، اثاثہ اور آ ثار بھی
خواب قدرت کے سانجھے قلمکار بھی
خواب زنداں میں پھیلی ہوئی روشنی
خواب انساں کے اندر کی ہیں آ گہی
خواب تقدیر سازی کی پہلی کڑی
خواب غارِ حرا، خواب کوہِ صفا
خوب بدر و احد ،خواب کرب و بلا
خواب کی انتہا عرشِ ربِِّ عُلیٰ
خواب دستِ قضا کی جفا سے پرے
وقت کی مانگ میں مثلِ موتی جڑے
خوں کا غازہ ملے،دشتِ آ لام میں کس ادا سے کھڑے
چلو خواب سینچیں
چلو خواب دیکھیں
وقت کاکربلا
آگ کی بارشوں میں جھلستی فضا
رقص اموات کا الاماں الاماں
ننھے بچوں کی چیخوں میں ہے التجا
العطش العطش کی بلکتی صدا
بھوک کی موت سے پیاس کے سوز سے
دم بہ دم جابجاکیسا محشر بپا
پھر بھی ہے آفریں ان کا صبرورضا
عزم شبیر سے مل گیا سلسلہ
کربلا جب بھی تھا اب بھی ہے کربلا
ہرشقی نے کیا مل کے یہ فیصلہ
سارے فرعون وہامان ویزید اب
ہوکے یکجا رکھیں گے ستم کو روا
کتنے عون ومحمد تڑپتے ہوئے
ماؤں کی گود یوںمیں بلکتے ہوئے
سوکھے ہونٹوں سے کہتے ہوئے لا الٰہ
وقت تُودیکھ لےپھر ہے ڈٹ کے کھڑا
آج زینب کی جرأت کا لہجہ کڑا
وقت کا کربلابن گیا ہے غزہ
المدد المدد یا سمیع الدعا!
غزل
ہولے ہولے ڈھانپ رہی ہےرات ہمیں انجانے میں
لوگ بہت مصروف ہیں سارے اک دوجے کوجگانے میں
تم کیا جانو بند آنکھوں پر کیا کیا صدمے ٹوٹتے ہیں
عمر گزر جاتی ہے صاحب خواب کا بوجھ اٹھانے میں
ورنہ خاک پہ نقش گری ہی کرتے عمر گزاری ہے
آپ آئے تو رنگوں کی بھی بات چلی ویرانے میں
یہ لمحہ جو آخرِ شب کی وحشت میں مجھ تک پہنچا
جانے کتنی عمر لگے گی اس لمحے کو بتانے میں
موج ہوا، ساحل کی حیرت سے آگے بھی دنیا ہے
جیسے موتی سیپ میں ، جیسے خوشبو اُس کاشانے میں
اندر اندر سے اب اُس کی یاد کا رستہ ڈھونڈ لیا ہے
یونہی تکلف سا رہتا تھا آنکھ کے رستے جانے میں