کیا تم درد خریدو گی
تپتا دن سنسان گلی تھی
دیر سے کوئل کوک رہی تھی
سبز کریلے، تازہ بھنڈی
سوندھے بھٹے ، ٹھنڈی قلفی
گول گپے اور میٹھی چٹنی
گزر چکے سب پھیری والے
اپنا اپنا رزق سنبھالے
بستر پر میں یونہی لیٹی
کب سے کروٹ بدل رہی تھی
دل سے سکوں.،نیند آنکھ سے اوجھل
برسوں سے دل بوجھل بوجھل
سناٹے میں پڑی دراڑ
نا مانوس سی ایک پکار
دکھ کا امبر غم کی ڈار
انجانی آواز اور لہجہ
جانے کیا کیا بول رہا تھا
جانے کتنے مول لگا کر
کیا کیا کچھ وہ تول رہا تھا
کھڑکی کھول کے میں نے دیکھا
وہ تو بالکل پاس کھڑا تھا
سر پر اک خالی سی ڈلیا
پھٹا پرانا پیر میں جوتا
اپنے لمبے قد کو جھکا کر
کھڑکی پر چہرے کو ٹکا کر
سرگوشی میں پوچھ رہا تھا
کیا تم درد خریدو گی؟
لمحہ بھر کو میں نے سوچا
لمحہ گویا ٹھہر گیا تھا
صدیاں بن کے بیٹھ گیا تھا
میں نے چاہا کہیں چھپ جاؤں
پھر یہ سوچا اسے بتاؤں
ساحل پر وہ شامی بچہ
ننھی زینب اور فرشتہ
مرسی اور اخوان کا قصہ
بنگلہ دیش کے قادر مولا
روہنگیا، اوغور کا قضیہ
غزہ اور کشمیر کا نوحہ
افغانوں کا تورا بورا
اے پی ایس میں خون سے رنگیں
کتنے جگر گوشوں کا چہرہ
اور سوات کے ننھے شہدا
ان ننھوں میں میرا بیٹا
برسوں سے سب درد کے دریا
دکھ کے سمندر میں گرتے ہیں
درد کے دریا دکھ کے سمندر
سب کچھ میرے من کے اندر
آنکھوں میں کیسی ویرانی
خشک کنواں یا سوکھا تال
بجھتی راکھ میں اک چنگاری
چبھتا ہؤا بس ایک سوال
کیا تم درد خریدو گی؟
جانے کہاں سے ہمت پا کر
کھڑکی سے آنچل پھیلا کر
اس سے اپنے اشک چھپا کر
بند مٹھی اس اور بڑھا کر
میں نے کہا نظروں کو جھکا کر
کچھ بھی نہیں لے جا نا بچا کر
ساری ڈلیا تول دو بھائی
بن مول نہیں، انمول دو بھائی
بند مٹھی میں ساری پونجی
لعل مرا پہلی کلکاری
مسکاتی وہ نظریں پیاری
ہنستے نین چمکتے گال
غوں غاں کرتے سر اور تال
بند مٹھی میں ساری پونجی
نیا نیا جب چلنا سیکھا
گرنے پڑنے کی آواز
ننھے پاؤں کی ننھی چاپ
جگ مگ ہیرے جیسی آنکھیں
ان ہیروں کی رنگیں کرنیں
بند مٹھی میں ساری پونجی
اس کی ضدیں اور اس کامچلنا
چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر
موٹے موٹے آنسو گرنا
اس کے آنسو لیے سنبھال
بند مٹھی میں ساری پونجی
آخری بار وہ اس کا جانا
مڑ مڑ کر وہ ہاتھ ہلانا
ننھا ہاتھ اور مدھم چال
کوئی کیا جانے دل کا حال
بند مٹھی میں ساری پونجی!