جناب حسرت موہانی خیر سے فرما چکے:
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
یقیناً شاعر کے ممدوح محترم کو بھری دوپہروں میں یہ جرأت اس وجہ سے عنایت ہوتی تھی کہ گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں گھروں کی چھتیں ،جو عرف عام میں کوٹھے کہلاتی تھیں۔ڈھنڈار خالی ،خانۂ ویراں کی تصویر پیش کرتی تھیں۔ اہلِ خانہ ٹھنڈے کمروں میں کواڑ بھیڑے استراحت فرماتے تھے۔ کسی کسی چھت پہ پتنگیں لوٹنے کے درپے لونڈے لپاڑوں یا کبوتر بازوں کی موجودگی کا احتمال ممکن تو ہے لیکن ایسا خال خال ہی ہوتا ہو گا۔ سو یہ کوٹھے شاعر اور اس کے محبوب کے لیے بطور سہولت کار ہمیشہ میسر رہتے۔
پنجاب کے دیہاتوں میں یہی ویران کوٹھے البتہ شام پڑتے ہی آباد ہونا شروع ہوجاتے۔اور یوں آباد ہوتے کہ بقول سلیم احمد :
اپنے سینے میں جو آباد ہے چاکیواڑہ
پختہ ونیم پختہ کوٹھوں کے اندر محبوس ہو کر دوپہریں گزارنے والے دیہاتی حشرات الارض کی طرح چھتوں کی جانب سمٹنے لگتے۔ مرد کھیتوں اور دیہاڑیوں سے لوٹتے، اورنہا دھو کر اوپر کا رخ کرتے ۔ ضرورت کی چیزیں ایک ایک کرکے اوپر پہنچائی جاتیں۔روٹیوں سے بھری چنگیر،گوشت،ترکاری کی ہانڈی،برتنوں کا تسلہ،صراحی، پیالہ اور ہتھ پنکھے ایک سے دو چکروں میں اوپر پہنچ جاتے اور چھتوں پہ میلہ سا لگ جاتا۔
خال خال ہی کوئی مکان دو یا سہ منزلہ ہوتا تھا۔عموما ًیک منزلہ گھر کی چھت پہ کچی یا پکی ایک،ڈیڑھ اینٹ چوڑی منڈیر باندھی جاتی۔ جس کے زور پہ چارپائیاں بلامشقت نیچے سے اوپر منتقل ہو جاتیں۔
طریقہ اس کا یہ تھاکہ ایک آدمی نیچے صحن میں کھڑا ہو کر چارپائی اوپر اٹھاتا اور اس کے دو پائے لمبائی کے رخ اونچے کرکے منڈیر پہ اٹکا دیتا۔اوپر کھڑا شخص بلا تکلف اسے پکڑ کے اوپر کھینچ لیتا۔یوں سیڑھیاں چڑھنے کی مشقت جھیلے بغیر چھت پہ چارپائیوں کی قطار لگ جاتی۔
سورج غروب ہوتا، گرمی کا زور ٹوٹتا،تازہ ہواؤں کے جھونکے آتے اور طبیعت کا اضمحلال آپوں آپ دور ہونے لگتا ۔
ایک ایک کرکے گھر کے تمام افراد چھت پہ پہنچ جاتے…مغرب کے فورا ًبعد کھانا پروس دیا جاتا ۔عشاء سے پہلے پانی کی بالٹیوں میں ڈوبے ٹھنڈے ،رسیلے آم نکال نکال کے چوسے جاتے۔ اور کچی لسی پی کر نیند سے بند ہوتی آنکھوں کو زبردستی کھول کھول کر دن بھر کی روداد کہی ،سنی جاتی۔ بعض پردہ دار گھرانوں میں چھتوں پہ چھوٹے چھوٹے جنگلے بھی ہوتے تھے۔ جن کے موکھوں سے آنکھ لگا کر گھر کی عورتیں ،ہمسائیوں کی چھت پہ دھرے بستی ،محلے کے اکلوتے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پہ متحرک مورتیں دیکھ کر محظوظ ہؤا کرتیں۔ کسی کسی کوٹھے پہ کوئی باذوق سامع سبز غلاف میں لپٹے ریڈیو کی کلی مخصوص سٹیشن پہ سیٹ کرکے گھماتا اور بی بی سی لندن کی اردو نشریات میں شفیع نقی جامعی کی گھمبیر آواز کھیلتے،کودتے بچوں کے شور میں ڈوبتی،ابھرتی رہتی۔ چاندنی راتوں میں یہ بچے کوٹھے پہ کوٹھا پھلانگتے، آنکھ مچولی کھیلتے ،اور اماوس کی راتوں میں لالٹین کی روشنی میں درختوں کی شاخوں پہ خود ساختہ بھوتوں کے پیکر تراشتے۔ تاآنکہ ماحول پہ مکمل خاموشی کی چادر تن جاتی اور دن بھر کے تھکے ماندے لوگ بنا چاند سے باتیں کیے اور تارے گنے نیند کی آغوش میں چلے جاتے ۔تاروں کی زرد چھاؤں تاحد نظر پھیل جاتی ،رات بھیگنے لگتی اور نمی نمی اوس بستر کی چادروں اور مچھر دانیوں پہ گرتی رہتی۔
فجر کی اذان کے اردگرد گھر کی عورتیں نیچے اتر جاتیں،چاٹیوں میں مدھانیاں پڑتیں،کسان بیل ہانکتے کھیتوں کو نکلتے اور دیگر افراد خانہ بھی رفتہ رفتہ آنکھیں ملتے،جمائیاں لیتے نیچے اتر آتے۔ البتہ برسات کے دنوں میں یہ صورتحال قدرے مختلف ہو جاتی۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتاکہ ادھر سوئے ہوئے ایک آدھ گھنٹہ ہی گزرا ہے۔ ادھر پچھم سے زور کی آندھی اٹھتی ہے۔ کالی گھٹائیں لہراتی ہیں۔ یکایک مینہ پڑنے لگتا ہے اس زور کا جھالا بندھتا ہے کہ پانی کے تریڑوں میں سامان سمیٹنے، چارپائیاں نیچے اتارنے کا موقع ہی نہ ملتااور بہت کچھ بھیگ جاتا ۔جن لوگوں کی چھتوں پہ چھتر چھایا، یا چھوٹے موٹے برآمدے کی سہولت موجود ہوتی ۔ وہ چارپائیاں گھسیٹ گھساٹ کے اندردھکیل دیتے۔باقی اسی دیسی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے چارپائیاں منڈیر سے لٹکانے لگتے۔ اوراس اکھاڑ پچھاڑ کے دوران اونگھتے،جاگتے بچے کھیس ،چادریں سینوں سے لگائے لشتم پشتم سیڑھیوں سے لڑھکتے رہتے۔
بعض ہلکی پھلکی چیزیں ،جن کے ٹوٹنے کا ڈر نہ ہوتا ،انہیں منگھ کے ذریعے نیچے کمروں میں پھینک دیا جاتا۔یہ منگھ ایسے گول یا چوکور سوراخ تھے جو چھت ڈالتے ہوئے عین وسط میں خالی چھوڑ دیے جاتے۔ ان کے بنانے کا مقصد چھت پہ سکھائے گئے اناج کو اٹھا کر نیچے لے جانے کی مشقت سے بچنا ہوتا تھا۔ منگھ کے عین نیچے کمرے میں کوئی کپڑا یا چادر بچھا دی جاتی ۔ اور سوراخ کے ذریعے اس پہ اناج کا ہن برستا ۔
بیٹھے بٹھائے جو بچوں کے دماغ کی چرخی گھومتی تو وہ ماؤں سے پوچھ بیٹھتے۔
اماں اماں! بتاؤ تو ہم دنیا میں کیسے آئے تھے۔مائیں پہلے پہل تو اس سوال پہ جھجک جایا کرتی تھیں ۔بعد میں دماغ لڑا کے جو دور کی کوڑی لاتیں تو اس کے مطابق:
تم اس منگھ سے نیچے گرے تھے میرے لعل!
اور بچےچونکہ بھلے وقتوں کے تھے سو کٹ حجتی کی عادت نہ تھی۔ بلا چوں چرا ماؤں کے کہے پہ ایمان لے آتے ۔ترنگ میں ہوتے تو ننھی ننھی کھٹولیاں کھینچ کر منگھ کے نیچے گھسیٹ لاتے اور اوپر دیکھ دیکھ کر باآواز بلند دعائیں کرتے۔
پیارے اللہ….ایک بھائی اور پھینک دے۔
یہ چھتیں چونکہ نیل کے ساحل سے لے کے تابخاک کاشغر اک دوجے سے جڑ کےکھڑی ہوتی تھیں۔ لہٰذا گاؤں بھر کی خواتین اور بچوں کے لیے شارٹ کٹ راستوں کا کام دیتی تھیں۔ جب زمینی فاصلے کم کرنا مقصود ہوتا تو جلتی،بلتی گلیوں میں خاک اڑانے کی بجائے لوگ ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری چھت الانگتے مطلوبہ صحن میں طلوع ہوتے جاتے۔ یوں منٹوں کا راستہ سیکنڈوں میں طے کرتے۔
بچے منڈیروں پہ جھکی درختوں کی چھتنار شاخوں سے پکے گولر، سرخ بیر ،اور شیریں لسوڑھے اتار اتار کے کھاتے۔ جن سے پیٹ تو خدا جانے بھرتا یا نہیں البتہ منہ ،ہاتھ بری طرح چپچپا جاتے ۔آم کے پیڑوں سے کیریاں اتارتے یہ بچے سارا دن لنگوروں کی طرح شاخوں پہ جھولتے چھتوں پہ چڑھتے،نیچے اترتے رہتے۔
مہمانوں کی آمد ورفت کا ان چھتوں سے گہرا تعلق ہؤا کرتا تھا۔منڈیر پہ کوا بولنے کی علت سے قطع نظر، واقفان حال خوب جانتے ہیں کہ چھت پہ کھڑے ہو کر آنے والوں کی راہ تکنے کا اپنا الگ لطف ہؤا کرتا تھا۔کھیتوں کے بیچوں بیچ کشادہ پگڈنڈیاں اور ہموار سولنگ پہ رہوار چلتے تانگے دور سے پہچان لیے جاتے، تانگوں کی آمد گویا میلوں دور اسٹیشن پہ ریل کے آ جانے کا اعلان ہوتا تھا۔تانگوں کے گلیوں میں داخل ہونے سے پہلے مہمان کی مدارت کی خاطر تندرست مرغا قابو کر کے ذبح کی خاطر بھیج دیا جاتا۔لسی میں شکر گھول لی جاتی ۔ اوربچے خالہ ،پھوپی اور ماموں کے استقبال کے لیے کچے پہ جا کے کھڑے ہو جاتے۔
برسات کی آمد سے کئی روز پہلے عورتیں مل کر باری باری محلے کے تمام گھروں کی چھتیں پوتتیں۔ بورے بھر بھر کے چکنی مٹی لائی جاتی ۔مصلی کئی دنوں تک اسے بھگو کے مضبوط قدموں سے اچھی طرح لتاڑتا، جب ’’کہانی ‘‘اچھی طرح تیار ہو جاتی تو لڑکے ،بالے تغاروں میں تیار گارا بھر کر اوپر پہنچاتے اور ماہر عورتوں کا ایک گروپ گھنٹے ڈیڑھ میں لمبی ،چوڑی چھت پوت کر فارغ ہو جاتا۔ بہار کے موسم میں یہ لپی تپی ستھری چھتیں کیکر کے پیلے پھولوں اور برسات میں کچی جامن اور آم کے مہکتےبور سے بھر جاتیں۔
یہ چھتیں بیک وقت ایندھن دھرنے کے لیے سٹور ،بلی ،بلونگڑوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں اور بھولے بھٹکے پلوں کے لیے ہڈیاں چچوڑنے کامرکز بھی تھیں۔سردیوں کی لمبی راتوں میں چوروں کے لیے جائے واردات تک پہنچنے اور موقع سے فرار ہونے کا ذریعہ تھیں۔ ویری اور دشمن دار لوگ انہیں بطور مورچہ اور بنکر استعمال کرتے۔
ان کے کشادہ سینوں پہ گندم،دھان اور کپاس کی فصلیں پھیلائی اور سکھائی جاتیں۔کپڑوں کے لیے تاریں اور الگنیاں باندھی جاتیں۔ وقت ، ناوقت گر کر گوڈے گٹے اور بازو تڑوائے جاتے۔اور ذرا ذرا سی بات پہ’’کیا گائے کوٹھے چڑھ گئی ؟‘‘کہہ کے بات کے معمولی ہونے کا احساس دلایا جاتا۔
عید شب برات کے موقعے پہ نئے مہینے کا چاند دیکھا جاتا اور کن انکھیوں سے اردگرد کی چھتوں کو تاڑتے ہوئے بعض اوقات کئی نئے چاند بھی چڑھا لیے جاتے۔
عورتیں چھتوں پہ چڑھ کے ہمسائیوں سے لڑتیں اور محلے والیاں چھتوں سے ہی ان جنگجو جتھوں کا نظارہ کرتیں۔ہانڈی چولہے میں تاخیر کے پیش نظر لڑائی وقتی طور پہ موقوف کی جاتی تو برائے یاددہانی انہی چھتوں کی منڈیروں پہ پرانی ہانڈیاں اوندھا دی جاتیں۔ نیا گھر تعمیر ہوتا تو گھر کی پیشانی پہ ھذا من فضل ربی لکھنے کے ساتھ ساتھ ایک کالی بھجنگ ہانڈی جنگلے کے کونے میں نظر بد کے توڑ کی خاطر اوندھی کرکے رکھی جاتی۔
عورتیں چھتوں پہ چڑھ کے باراتوں کا استقبال کرتیں اور دلہن کی سہیلیاں اوپر سےباراتیوں پہ گوبر کے اپلے نچھاور کرتیں۔
لڑکیاں مہندی،مایوں پہ لہک لہک کے ماہیے اور ٹپے گاتیں۔
کوٹھے تے سیک پیا
ہک دم ماہی دا
او وی پردیس گیا
الغرض یہ کوٹھے دیہی زندگی کی معدوم ہوتی تہذیب کا اہم حصہ تھے۔
کوٹھے اب بھی موجود ہیں لیکن ان کی ہیئت بہت حد تک بدل چکی ہے۔ کئی کئی منزلہ کنکریٹ کی عمارتوں نے تازہ ہوا کے جھونکوں کو گاؤں سے باہر روک دیا ہے۔ نئی روشنی کے پروردہ لوگ چھتوں پہ سونا معیوب اور غیر مہذب افراد کا وطیرہ سمجھتے ہیں ۔چھتیں اردو شاعری میں موجود ناکام عاشق کے دل کی طرح خالی ہیں۔ موبائل فونوں پہ تیز تر رابطوں کی وجہ سے دوپہروں میں ننگے پاؤں چھت پہ آنے کی حاجت باقی نہیں رہی۔ برسات کی راتوں میں ساری ساری رات مینہہ برستا ہے لیکن لوگوں کو صبح گیلے صحن دیکھ کر بارش کی خبر ہوتی ہے….پنکھے،اے سی اور ہر گھر میں موجود ائیر کولر تازہ ہوا کی لذت کو کھا گئے ہیں۔ اور تاروں کی زرد چھاؤں نمی نمی اوس میں رات بھر چھتوں پہ تنہاروتی رہتی ہے۔
٭ ٭ ٭