نام کتاب: گوشہِ تسنیم
قیمت: 400 روپے
پبلشرز:ادارہ بتول لاہور
منگوانے کاآرڈر37424409-042
ہمارے اطراف بہت سے لوگ بہت سے کام ’’شوقیہ‘‘کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن شوق کی ایک مدت اور موڈ ہوتا ہے۔آپ نے سنا ہوگا کہ:
یہ اس وقت کی بات ہے جب گھڑسواری میرا شوق تھا،
مصوری میرا جنون ہوتا تھا،
سرساز کی دنیا کا میں دھنی تھا….. یا
قلم سے میرا رشتہ بڑا استوار تھا…… وغیرہ۔
ایسے کم لوگ ہوتے ہیں جو شوق کو جنون بنا لیں۔زندگی بھر تسلسل کے ساتھ اس شوق کو پورا کریں اور اس کو عبادت کا درجہ دے دیں۔بلاشبہ لفظ قیمتی ہیں زبان سے نکلیں یا قلم سے۔بشریٰ تسنیم نے ماشاءاللہ قلم سے بہت سوچ سمجھ کر رشتہ استوار کیا ہے۔کئی عشروں پر محیط یہ رشتہ تاریخ بنتا جارہا ہے ان کی کتابوں کی اشاعت کی صورت میں۔
چھبیسواں روزہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کی کتاب’’گوشہ تسنیم‘‘کے ساتھ گزرا ۔یہ بھی کسی مصنف کی کتنی بڑی کامیابی ہے کہ اس کا قاری کتاب ہاتھ میں لے اور کتاب ختم کرتے ہی بن پڑے۔افطار سے قبل کتاب مکمل ہو چکی تھی۔
ان کی تحریر میں قرآن کی تفسیر بھی ملتی ہے اور کائنات کی تعبیر بھی۔دھیرے سے قاری کا ہاتھ تھامے آفاق کی وسعتوں میں لے جاتی ہیں۔قدم زمین پر اور ذہن آفاق کی نشانیوں میں غوطہ زن۔یہ دنیا تو سبھی کے سامنے ہے ۔دو آنکھوں سے ہر ایک شب و روز تماشہ دیکھ رہا ہے۔ان دو آنکھوں کے پیچھے دماغ سب کا الگ الگ۔
ان کو سمندر کے جوار بھاٹے میں، دریا کے شور میں،آبشاروں کی روانی میں خالق کا پتا ملتا ہے۔طائران خوش الحان کی’’ اللہ ہو‘‘ کی صدائیں ان کو روک لیتی ہیں۔وہ ہر منظر میں اللہ کو تلاش کر لیتی ہیں۔ایک دل جس نے دھڑکنا ہی کچھ عجب انداز سے سیکھا ہے!
اپنے قاری کا ہاتھ تھامے نگری نگری کی سیر کراتی ہیں۔وہ کائنات کا حسن تلاش کرتی ہیں اور خالق کو پالیتی ہیں۔وہ احساسات کو خوبصورت لفظوں میں ڈھالتی ہیں اور امر کردیتی ہیں۔دیس میں ہوں یا پردیس میں….. قرآن ان کو اپنے اطراف چلتا پھرتا نظر آتا ہے…..اور وہ ساتھ ساتھ تشریح کرتی جاتی ہیں۔
یہ دل میں اترنے والی تحریریں وہ ہم جیسے عام لوگوں کے لیے لکھتی ہیں۔ معمول کی بات میں بھی کوئی قابل عمل نکتہ پیش کر دیتی ہیں مثلاً:
” ہرکام کی ابتدابسم اللہ الرحمان الرحیم سے کرنا سنت ہے۔یہی وہ نسخہ ہے جو انسان کو دنیاوی افکار سے نکال کر رحمان و رحیم ذات سے جوڑ دیتا ہے۔ عادتاً نہیں بلکہ نیت کو خالص اور ایمان کو مستحضر کرکے بسم اللہ پڑھ کر کام کرنے کی مشق کی جائے ،اور بار بار خود سے سوال کیا جائے کہ ہم یہ کام کیوں کر رہے ہیں کس کو خوش کرنا ہے؟کس نے صلہ دینا ہے؟‘‘
باہم تنازعات کا بہترین حل پیش کر دیتی ہیں کہ :
’’اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو جن پہ اپنوں نے زیادتی کی ہوتی ہے بدلہ لینے کا حق دیتا ہے لیکن درجات کی بلندی کے لیے پیاراور مان سے کہتا ہے کہ جو میرے پیارے بندے ہیں میرے قریب ہیں ان سے معاف کرکے احسان کی توقع رکھتا ہوں میری خاطر معاف کردو ۔ پیارے رب کی پیار بھری اس سرگوشی کا احساس دل میں زندہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ کیا باہم تنازعات میں اپنے دل کے کانوں میںپیارے رب کی
پیار بھری سرگوشی پہ توجہ کی؟ ‘‘
’’شاپنگ لسٹ‘‘بنانا ہمارا معمول کا کام ہے لیکن ایسی شاپنگ لسٹ کی طرف توجہ کس کی گئی ہوگی؟
’’ہمیں جب بھی شاپنگ کا خیال آئے تو خیال کریں کہ کون سا سودا بہترین ہے؟ایک گھر دنیا کا ہے تو ایک آخرت میں بھی گھر بسانا ہے وہاں بھی سامان چاہیے۔وہ سامان یہیں سے آرڈر ہوگا اسی دنیا کے راستے سے وہاں ضرورت کی ہر چیز پہنچائی جائے گی ۔یہاں کی خریداری یہیں رہ جائے گی وہاں کے لیے کی گئی شاپنگ باقی رہے گی ‘‘۔
اختر عباس صاحب نے پیش لفظ میں ایک اچھی تجویز دی ہے کہ ہم جس سماج سے تعلق رکھتے ہیں وہاں کے افراد کی عمومی دینی کیفیت سے ہم آگاہ ہیں۔کسی بھی لکھاری کی تحریر عوام کے لیے ہونی چاہیے۔اتنی اچھی تحریر جو بشریٰ کے قلم سے نکلتی ہے تھوڑی اور عوامی ہو تو اکثریت کے لیے زیادہ استفادے کا باعث ہوسکتی ہے۔
ان کا ایک وسیع حلقہ قارئین ہے جو ان کی تحریروں کا منتظر رہتا ہے۔ یہ تحریریں خواتین کے مقبول ماہنامہ’’چمن بتول‘‘ میں چھپتی ہیں۔وہاں وہ وقار سے ایک گوشہ میں براجمان ہیں جو’’ گوشہِ تسنیم‘‘ کہلاتا ہے۔ہم بھی ہر ماہ اس گوشہ کی چلمن سرکا کر ان کی صحبت میں وقت گزارتے ہیں۔وہ بتول کی مقبول لکھاری ہیں۔قلم شوقیہ نہیں اٹھاتیں بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں قلم کا حق نبھانا۔
ادارہ بتول کی شائع کی ہوئی یہ کتاب جو ڈھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے آپ کی لائبریری کے گوشہ کا قیمتی اضافہ ہوگی۔دعا ہے کہ اللہ ان کے قلم کو جنت کے راستوں کا نشان بنائےآمین۔
٭ ٭ ٭