شاہ زیب اور سلیمان اپنے والد شاہنواز صاحب کے ساتھ چڑیا گھر کی سیر کو آئے تھے۔
جب سے انھوں نے سنا تھا کہ چڑیا گھر میں بہت سے پرندے اور جانور ہوتے ہیں ، تو ان کا دل انھیں دیکھنے کو مچل رہا تھا ۔ان کے شہر میں چڑیا گھر نہیں تھا ۔اُن کے والد نے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی ان کا جانا قریبی شہر ہوا جہاں چڑیا گھر موجود ہے، تو وہ ان کو بھی ساتھ لے کر جائیں گے۔چناںچہ آج وہ چڑیا گھر کی سیر کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔
پرندوںاور جانوروں کے شور سے چڑیا گھر گونج رہا تھا ۔ بچے ایک پنجرے کے پاس جا کھڑے ہوئے جہاں بندر پھرتی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ چھلانگیں ماررہے تھے۔ایک بندر درخت پر بیٹھا مزے سے کیلا کھا رہا تھا ۔
’’ ابو ابو ! وہ دیکھیں درخت پر کون سا جانور ہے ؟‘‘سلیمان نے پوچھا۔
شاہ زیب تیزی سے بولا ! ’’یہ بھالو ہوگا ؟‘‘
’’ خرگوش ہو گا نا ابو !‘‘سلیمان نے پوچھا۔
اُن کوجانوروں کے نام تو معلوم تھے ، مگر ان کے بارے میں کم جانتے تھے کہ وہ کیسی حرکتیں کرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے ان کے والد صاحب لے کر آئے تھے تاکہ ان کے علم میںاضافہ ہو سکے۔
’’ نہیں ، یہ بندر ہے ؟‘‘شاہ نواز صاحب نے جواب دیا۔
’’ اوہو ! یہ تو ب سے بندر ہوا نا ؟‘‘شاہ زیب نے بے ساختہ کہا۔
کچھ دیر بندروں کی شرارتیںدیکھنے کے بعد وہ آگے کی طرف چل دیے جہاںاپنے خوب صورت پروں کو پھیلائے مور خوشی سے ناچ رہا تھا، دونوں بھائیوں کو یہ منظر بہت اچھا لگا وہ کافی دیر تک وہاں کھڑے اُسے دیکھتے رہے ۔
’’ م سے مور ہوتا ہے ۔‘‘یہ تو وہ کتاب میںپڑھ چکے تھے اور اس کی تصویر بھی دیکھی ہوئی تھی، تو ان کو معلوم ہو گیا ۔
وہ آگے چلے تو ایک بھاری بھرکم سا جانور نظر آیا جس پرکچھ بچے اور ان کے والدین بیٹھے تھے دونوں نے شور مچا دیا ۔
’’ ابو، ابوجی ! یہ توہاتھی ہے نا ؟‘‘والد صاحب نے سر ہلا کر تصدیق کی ۔
آگے چلے تو کچھ پرندے پانی میں تیرتے ہوئے نظر آئے ۔ سفید رنگ کا ایک پرندہ جس کی چونچ لمبی سی تھی وہ بگلا تھا ۔ اسی تالاب میں سفید رنگ کی کئی بطخیں بھی پانی میں کھیلتی ہوئی نظر آئیں۔ابھی بطخ کے بچوںکو پانی میں تیرتا ہوا دیکھ رہے تھے کہ اچانک دونوں بھائیوں کی نظر ایک جگہ پڑی جہاں کچھ بچے جمع تھے۔ وہ دوڑے دوڑے وہاںگئے توتودیکھا تالاب میں مگر مچھ تیر رہا تھا۔ م سے مور کے بعد اب وہ م سے مگر مچھ دیکھنے لگے ۔وہ اس کے بڑے سے منہ کو دیکھ کر تھوڑا ڈر گئے مگر یہ دیکھ کر کہ وہ پنجرے میں ہے، ان کی تسلی ہو گئی ۔ لمبی گردن والے زرافے کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے ۔
ہرن کے ننھے بچے بھی ان کو بے حد پیارے لگے۔ریچھ اپنے غار میں چھپا ہوا تھا ، وہ باہر نہیں آیا تو وہ مایوس ہو کر جنگل کے بادشاہ کو دیکھنے چل پڑے ۔ ابھی شیر کے پنجرے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ شیر کی دہاڑنے ان کو سہما دیا ۔ لیکن پھر ہمت پکڑ کر شیر کو دیکھنے لگے ۔ سلیمان کورنگ برنگے طوطے دیکھنے تھے ۔ ابھی وہ طوطوں کے بچوں کو دیکھنے میں مصروف تھا کہ ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی ۔ والد صاحب نے چھتری کھول لی اور گھر واپسی کی راہ لی ۔ انھوں نے بچوں سے وعدہ کیا کہ باقی پرندوںاور جانوروں کو دیکھنے ووہ پھرچڑیا گھر آئیںگے۔
٭…٭…٭