گاہے بگاہے تذکیر و محاسبہ کی ہر فرد کو ضرورت ہوتی ہے۔27_28, مئی 2024 منصورہ آ ڈیٹوریم میں فیصل آ باد اور لاہور کے ارکان کے لیے دو روزہ تربیتی نشست کا اہتمام تھا۔تربیت گاہیں تو اس سے پہلے بھی ہوتی رہیں مگر اس مرتبہ انداز کچھ جدا تھا۔ کافی دنوں سے ایسی ہی اجتماعیت کی کمی محسوس ہورہی تھی جہاں لگے بندھے انداز میں لیکچرز کی بجائے سامعین کے احساسات ،خیالات، معمولات اور مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے پروگرام ترتیب دیے گئے ہوں۔مقررین نے نہایت جاں فشانی سے موضوعات تیار کر رکھے تھے اور واقعتاً ایک لمحے کے لیے بھی بوریت کا احساس نہ ہؤابلکہ ایسے لگ رہا تھا کہ اگر دو کی بجائے تین دن بھی تربیت گاہ ہوتی تو انہماک اسی طرح برقرار رہتا۔
ہال میں بیٹھا ہر فرد گہری سوچ میں ڈوبا اپنے آپ کو کھوج رہا تھا اور اپنی کمزوری یا غفلت کو ٹٹول رہا تھا۔جیسے رمضان کا ایک مہینہ سال بھر کے لیے ٹریننگ کورس ہوتا ہے تو یہ دو دن ہمارے لیے روحانی خوراک کا توشہ تھے۔
پہلا دن
پروگرام کا آغاز ساڑھے دس بجے ہونا تھا۔لیکن پچھلے ایک دو ہفتے سے ہمارے گروپس میں بار بار ریمائنڈر کے میسجز آتے رہے جس کی وجہ سے ارد گرد کی ہمسایہ ارکان میرے ساتھ گاڑی میں جانے کے لیے اپنی ایڈجسٹمنٹ کروا چکی تھیں ۔ڈرائیونگ سیٹ کے بعد میں صرف چار مزیدخواتین لے جا سکتی تھی لیکن جب تربیت گاہ میں گوشہ اطفال لگنے کا عندیہ ملا تو بچے بھی مچل گئے۔اب کچھ بہنوں سے پیار بھرے انداز میں معذرت کرنی پڑی اور ہم تین خواتین اور تین بچے منزل کی طرف گامزن ہو گئے۔
چل چلا تی دھوپ میں فل سپیڈ سے ہانپتے کانپتے ہال میں داخل ہوئے تو پر سکون ٹھنڈے ماحول نے گرمی کی شدت اور بھاگ دوڑ کی ساری کلفت دور کر دی۔ اپنی سیٹ پر براجمان ہو کر قریب والی عینک ڈائری پین سب چیزیں نکالی اور اہم پوائنٹس نوٹ کرنا شروع کیے۔پچھلی سیٹوں سے سامنے سٹیج پر بیٹھے چہرے دھندلے نظر آرہے تھے۔اتنی پیاری باتیں کرنے والوں کو غور سے دیکھنے کے لیے دور والی عینک پرس سے نکالی۔رشک بھری نظروں سے سب سے کو تکتی رہی اور اتنی اچھی اجتماعیت کا حصہ بننے پر خدا کا شکر ادا کرتی رہی۔پھر جب ڈسکشن شروع ہوئی اور کچھ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو قریب کی عینک نکالی سوال نوٹ کرنے کے لیے۔جی! تبدیلی چشمہ جات جاری رہی۔
نازیہ توحیدصاحبہ کا حلف ہؤا۔کہہ رہی تھیں کہ اجتماعیت ہمیں نکھارتی ہے، جب ہم اللہ کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں اور جان و مال کا اللہ کے ساتھ سودا کر لیتے ہیں تو پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا اور خطاؤں کو بخش دے گا۔ربیعہ طارق صاحبہ نے توجہ دلائی کہ ہمیں کام کو نچلی سطح تک یعنی سوسائٹیز ٹاؤنز کچی بستی اور دیہات تک اتارنا ہے،امید کی شمع ہم ہی کو روشن کرنی ہے۔عطیہ نثار صاحبہ کا سیشن بھی بہترین رہا،ان کی کڑکدار آواز کی گونج ابھی بھی کانوں میں محسوس ہو رہی ہے۔انہوں نے یاددہانی کروائی کہ عہد الست سے ہماری بندگی کی ابتدا ہوئی اور نحن انصار اللہ اسی کی عملی شکل ہے۔ ہر ایک کو اپنے روزانہ مطالعہ قرآن ولٹریچر کا منصوبہ بنانا بہت اہم ہے۔انہوں نے للہیت کو پروان چڑھانے کے تین ذرائع بتائے۔
ففروالی اللہ،سارعو الی اللہ،سابقوالی مغفرہ۔
عفت سجاد صاحبہ نے دستور ڈسکشن میں دستور جماعت کو جس انداز سے تشریح و تعبیر کے ساتھ سمجھایاایسا پہلی دفعہ سننے کو ملا۔ایک سنجیدہ اور خشک موضوع کو انہوں نے ڈائس سے ہٹ کر سٹیج پر چلتے پھرتے ہلکے پھلکے انداز میں سوال و جواب کی صورت میں ہمارے دماغوں میں اتار دیا۔
نماز کے وقفہ میں ہم قریبی ہال میں جو ایک بڑی طعام گاہ ہے وہاں پہنچے۔یہاں بڑی خوبصورتی اور قرینے سے دسترخوان بچھا کر ان پر برتن آراستہ کیے گئے تھے اور ڈیوٹی دینے والی ذمہ داران بڑی سرعت کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے رہی تھیں ۔کھانا ماشاءاللہ بہترین اور معیاری تھا مگر پنکھوں کی گرم ہوا نےہمیں سچ مچ جہنم کی یاد دلا دی۔اس کے بعد چائے سے فارغ ہو کر ہم جلد ہی آڈیٹوریم میں واپس آ گئے اگرچہ کچھ خواتین پندرہ بیس منٹ قیلولہ فرماتی رہیں ۔اور یہ سنت واقعی ایک نئی توانائی بھر دیتی ہے، خواہ ذرا سی ہی آنکھ لگے اور کچھ دیر ہی کمر سیدھی کی جائے۔
سیرت سیشن میں ثمینہ سعیدصاحبہ نے لوگوں کو بندگی رب کی طرف بلانے پر زور دیا۔پہلے روز کا آخری پروگرام ہاجرہ شاہد صاحبہ کا تھا جنہوں نے دعوت کی وسعت میں تحریر و تقریر اورپریس میڈیا کے سب ذرائع ابلاغ کی اہمیت بیان کی،صحابہؓ کرام کی مثالوں سے دعوتِ دین کےذوق کو واضح کیا۔
دوسرا دن
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم جس کام کو جتنی جلدی نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں اتنی ہی دیر ہو جاتی ہے کیونکہ جلدی کا کام شیطان کا۔لاہور کی زیادہ تر شرکارات کو گھر واپس اگٓئی تھیں جبکہ فیصل آباد ی وہیں مرکز میں متمکن تھے۔ میں بھی چونکہ گھر آ چکی تھی تو صبح جلدی نکلنے کے لیے فٹا فٹ سب کو ناشتے سے نمٹانے کی کوشش کی مگر۔
بھاگ دوڑ میں میری نزدیک والی عینک زمین پر گر گئی اور اس کا شیشہ بھی نکل گیا لیکن شکر ہے ٹوٹنے سے بچ گیا۔ میں نے احتیاط سے فریم اور شیشہ پرس میں رکھا اور اپنی ساتھیوں کو پک کرتے ہوئے دس بجے تک آڈیٹوریم پہنچ گئی۔ اپنے ساتھیوں کو ہال میں اور بچوں کو گوشہ اطفال چھوڑ کر سامنے منصورہ ہسپتال کے عینک والے کے پاس پہنچی اور جلدی عینک ٹھیک کرنے کی گزارش کی تو اس نے کہا کہ باجی فریم ہی ٹوٹ گیا ہے اور تین دن سے پہلے نہیں مل سکے گی۔
میں نے کہا کہ قریب کے ساتھ ایک دور کی بھی مشترکہ عینک بنا دو تاکہ بار بار بدلنے کے جھنجٹ سے جان چھوٹے۔ شکر ہے ایک پرانی ایمرجنسی لچر پچرسی عینک پرس میں موجود تھی اور میں جب واپس آڈیٹوریم تک آئی تو ہال کھچا کھچ بھر چکا تھا ۔
سب سے پچھلی رومیں ایک کرسی خالی تھی اسی کو غنیمت جان کر جلدی سے بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر بعداگلی رو میں بھی اکا دکا خالی کرسی نظر آئی۔ پیچھے سے ہلکا ہلکا شور سا محسوس ہورہا تھا کیونکہ دروازے کے قریب آنا جانا لگا ہوا تھا،سو اگلی والی خالی کرسی پر میں جا بیٹھی۔ بہت دیر سے شدید پیاس لگی تھی مگرافراتفری میں پانی پینے کا وقت ہی نہ ملا تھا۔ دائیں بائیں گردن گھمائی تو دیکھا کہ الخدمت کی ٹھنڈے پانی کی بوتلیں موجود تھیں۔
آج پہلا پروگرام انیلہ محمود صاحبہ کا تھا لیکن عینک بنوانے کے چکر میں کافی حصہ مس ہو گیا جس کا بڑا افسوس رہا کیونکہ انیلہ بہن کا یہ خاص وصف ہے کہ اپنی بے ساختہ گفتگو سے سب کو بہت محظوظ کرتی ہیں اور اشارے کنایوں میں بڑی راز کی باتیں یک دم کہہ جاتی ہیں جس کے لیے ہم عام لوگ تمہید ہی باندھتے رہ جاتے ہیں۔
انہوں نے سٹریس مینجمنٹ کے حوالے سے مسائل کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ ڈپریشن جو کہ آج کے دور میں بڑھتی ہوئی بیماری ہے اسے کنٹرول کرنے کے عملی طریقے بتائے۔ یہ اپنے انداز کا ایک منفرد سیشن رہا اور ایسے سیشن مزید ہونے چاہئیں کیونکہ نئی نسل ہو یا بڑی عمر کے لوگ، ہر دوسرا فرد ملکی حالات اور فساد فی الارض کی وجہ سے مایوسی کا شکار نظر آتا ہے۔بہت سے مفکرین و ماہرین کی آ راکو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نےکہاکہ ہمارے ہر مسئلے کا حل قرآن میں موجود ہے۔بس شرط یہ ہے کہ ہمت نہ ہاریں اور پر امید رہیں۔
اس کے بعد حافظ نعیم الرحمٰن صاحب کا مختصر اور جامع ویڈیو خطاب تھا،دعوت و تنظیم کی وسعت سے روشناس کروا نے والااور یہ تاکید کہ ہر طبقہ فکر کی خواتین کو ساتھ ملانا ہے۔
’’بدلتی دنیا میں عورت کا بدلتا کردار اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا سیشن اورڈاکٹر حمیرا طارق کا فکر انگیز خطاب عمل کی راہوں کوواضح کررہاتھا۔راحیل صاحبہ نے ہمیں جو تھیراپی کرائی تو اس کو سب نے بہت انجوائے کیا۔ اکثر بھاری بھرکم وجود جو کہ صوفوں میں دھنسے تھے سب کے ساتھ کھڑے ہوئے ،ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اونچے کیے، ایک دوسرے کے لمس کی حرارت سے توانائی حاصل کی۔ بزرگ اور نو عمر سب ایک ہی صف میں نظر آئیں اور اپنے اندر چستی اور ولولہ محسوس کیا۔ڈاکٹر حمیرا طارق کی سب سے اہم بات یہ لگی کہ کارکن کو تحریک کی اونر شپ دیں اسے محسوس کروائیں کہ یہ اس کی اپنی جماعت ہے ۔آخر میں محترمہ زہرا وحیدمرحومہ کے تعزیتی اجلاس میں تحریک کی اکابر خواتین کی زندگیاں بھی ایک آئینہ لگیں جس میں آج کی نسل کے لوگ آگے بڑھنے کے خواہاں ہوں۔عافیہ سرور صاحبہ نے energy booster مثالیں پیش کیں۔
پھولوں کے گلدستے کی طرح مختلف طرح کے انسانوں کوسموئے ہوئے یہ اجتماعیت، تربیت گاہ اور ہم آہنگی کی فضا وقت کی ضرورت تھی۔ وقت ختم ہؤا مگر تشنگی باقی ہے۔ اللہ رب کریم ان کاوشوں اور محنتوں کو نتیجہ خیز کر دے،آمین۔
مغرب کی نماز کے ساتھ سب اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔
٭ ٭ ٭