۲۰۲۲ بتول مئیووہٹی - بتول مئی ۲۰۲۲

ووہٹی – بتول مئی ۲۰۲۲

چھوٹے سے قصبے کو اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا تو تقسیم ہند کے اثرات ستر سال گزر جانے کے بعد بھی واضح دیکھے جا سکتے تھے۔
نہیں سمجھے؟چلیے میرے ساتھ قصبے کی سیر کیجیے۔
مشرق سے مغرب کی طرف جاتی تارکول کی لمبی سڑک جو کہیں کہیں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،اس قصبے کی واحد پختہ سڑک ہے۔جو دوسرے شہر یا گائوں جانے کے لیے آمدورفت کا ذریعہ ہے۔قصبہ شروع ہوتے ہی سڑک کے اطراف میں موجود مختلف اجناس کی دکانیں،پھل اور سبزی فروشوں کی ریڑھیاں،موسم کی مناسبت سے قلفی والے یا بھٹہ بھونتے پھیری والے،خوانچہ فروش،اور اکا دکا جنرل سٹور موجود ہیں۔دکانوں کے سامنے موجود کچی زمین پہ صبح صبح جھاڑو پھیرنے کے بعدپانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے تاکہ دھول نہ اڑےاور پھر دو تین لکڑی کے بینچ رکھ دئیے جاتے ہیں۔گاہکوں کے ساتھ ساتھ راہگیر بھی گھڑی دو گھڑی سانس لینے کو ان پہ بیٹھ جاتے ہیں۔اور اس مختصر سی بیٹھک کے بعد جب اٹھتے ہیں تو کچھ نہ کچھ خرید کر ہی جاتے ہیں۔یوں یہ کاروباری گُر دونوں فریقین کا بھلا کر دیتا ہے۔
یہاں سے آگے جائیں تو سڑک کے شمال کی طرف قصبے کا لڑکیوں کا واحد سرکاری سکول جبکہ سکول کے عین سامنے تھانہ موجود ہے۔اس ہائی سکول کی خوبصورتی اور عمارت کی سادہ مگر پروقار بناوٹ دیکھ کر پہلا خیال یہی آتا ہے کہ یہ سکول اس قصبے کا سب سے پیارا،صاف ستھرا اور پھولوں سے سجا گوشہ ہے۔اور کیوں نہ ہو؟ہیڈ مسٹریس جن کو سب بڑی میڈم صاحبہ کہتے ہیں، ان کو سکول سے عشق ہے۔جانے شادی کیوں نہ کی،بال بچوں کا کھڑاگ تو تھا نہیں سو پوری توجہ سکول کو سنوارنے میں لگا دی۔یوں اس دور دراز،پسماندہ قصبے کے سکول میں رنگ برنگے گلاب،گل دوپہری،رات کی رانی،موتیے کی گھنی بیل،اور جانے کون کون سی قسم کے مختلف پھول پودے دن رات ماحول کو خوشبو سے معطر رکھتے۔ دوسری طرف شہتوت،انار،امردو،لیموں،مالٹے سہانجھنے،اور کچنار کے درخت خوب پھل اٹھاتے اور تتلیوں کی مانند اڑتی،کھلکھلاتی لڑکیاں مالی سے نظر بچا کر قل قل ہنستی ان درختوں کے نیچے پائی جاتیں۔جونہی نواز چاچا کی عقابی نظر پڑتی وہ دور سے ہی شور مچاتا،بھاگتا آتا اور تب ساری لڑکیاں یوں تتر بتر ہوتیں جیسے درخت پہ بیٹھی ڈھیروں چڑیاں ایک ساتھ اڑان بھریں۔تعلیمی معیار ہو یا کھیل کا میدان ہر جا یہ سرکاری سکول اتنی شاندار کارکردگی دکھاتا کہ سرکاری تو کسی طور نہ لگتا تھا۔
سکول کے سحر سے نکل کر قصبے کے اندرونی حصے کی طرف جائیں تو آبادی دو دھڑوں میں منقسم نظر آئے گی۔ایک حصہ تنگ گلیوں،کچے پکے مکانوں،ننگ دھڑنگ بچوں،غلاظت سے ابلتے گٹروں اور نالیوں پہ مشتمل ہے۔ان گھروں میں بسنے والی عورتیں باہنر،محنتی اور جفاکش ہیں جبکہ مرد نشئی،آوارہ اور ہڈحرام۔یہ سب وہ ہیں جو علاقے میں مہاجر کے نام سے مشہور ہیں۔مہاجر جو اپنا تن من دھن وار کر پاک سرزمین پہ آئے تھےاور ان کی نسلیں اب تک افلاس سے خود کو نکالنے میں ناکام تھیں۔رب جانے قصوروار وہ وڈیرہ سسٹم تھا جس نے ان کے سب ووٹ ضبط کر رکھے تھے اور بدلے میں خوشحالی کے دلنشیں خواب دکھا کر میٹھی نیند سلا دیا تھا۔یا پھر وہ خود ہی نہیں اٹھ پا رہے تھے،کنویں کے مینڈک بنے ہوئے تھے۔
دوسرا حصہ سرسبز کھیتوں،بڑے بڑے کھلے مکانوں اور کشادہ گلیوں سے سجا ہوا ہے۔اس حصے میں بسنے والے افراد مقامی کہلاتے ہیں۔جن کے پرکھوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔کھیتی باڑی کے علاوہ نوکریاں ڈھونڈتے یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر کے گزربسر کرتے۔ ووٹ ان کے بھی ضبط ہوتے لیکن ان کی بہتر حالت اور قدرے مستحکم پوزیشن کی بدولت ان کے حصے میں خوابوں کی تعبیر بھی آ جاتی تھی۔ڈاکخانہ،لڑکوں کا سرکاری سکول اور ایک سرکاری ہسپتال….. ان گنے چنے چند مقامات کے علاوہ مزید کچھ قابل ذکر نہ تھا۔
ایسے میں ایک روز یہ لمبی سی کار قصبے والوں کی توجہ کا مرکز بنی۔چمچماتی نئی کار سے دودھیا سفید وجود باہر نکلا تو کار کے دونوں جانب کھڑے چھوٹے بچے منہ پہ ہاتھ رکھ کر مارے خوشی کے ہنسی روکنے لگے۔وہ بھی سچے تھے سارا قصبہ چھان مارو ایسی نفاست،نزاکت اور خوبصورتی کہاں ملے گی جو کار سے اترنے والی میں تھی!یہ لڑکیوں کے سکول کی بڑی میڈم کی رشتے میں بھتیجی تھی۔متناسب سراپے پہ کمر تک آتے بے تحاشہ گھنے بھورے بال اور چٹکتی چاندنی سی سفیدی لیے رنگت نے اسے سب میں یکتا کر دیا تھا۔سو بچوں کی حیرت اور خوشی جائز تھی۔وہ کار سے اتر کر سر ہلاتی سب کے سلام کا جواب دیتی سکول کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئی تو ایک سرگوشی ابھری
’’ یہ تو ووہٹی(دلہن) کی طرح پیاری ہے‘‘۔
اس شام قصبے کے ہر گھر میں ایک ہی بات گردش کرتی رہی کہ بڑی میڈم کی بھتیجی آئی تھی۔نئی نویلی ووہٹی جیسا رنگ روپ تھا۔پھر یوں ہونے لگا کہ وہ گاہے گاہے اپنی بڑی سی کار میں آتی،جدید طرز کا اعلٰی لباس اس کی خوش ذوقی کا آئینہ دار ہوتا اور سنجیدہ مگر خوش اخلاق انداز اس کی متانت میں اضافہ کرتا۔کیا بچے،کیا درجہ چہارم کے ملازمین اور کیا اساتذہ سب ہی اس سے مرعوب رہتے۔
’’واہ میرے مالک قسمت تو ان جیسوں کی ہے۔رنگ روپ،پیسہ،حسب نسب کیا ہے جو ان کے پاس نہیں؟‘‘
مس رخشندہ اس مہ جبیں کو دیکھ کر بڑبڑائی تھیں۔
’’اے میں تو کہتی ہوں اس کا شوہر کیسا اچھا ہے جو ہر چار دن بعد یہ پھوپھی کے پاس ٹکنے آ جاتی ہے‘‘۔
مس رباب نے لقمہ دیا تھا۔
اسی طرح کے تبصرے چاروں طرف گھومتے رہتے۔وہ سب کو خوش نصیب لگتی اور اپنا آپ اچھے اچھوں کو بھی حرماں نصیب لگنے لگا۔کہ اچانک وہ ہو گیا جو کسی کے سان گمان میں بھی نہ آ سکتا تھا۔
معمول کے مطابق وہ سکول آئی تو تھوڑی ہی دیر بعد ایک نیم پاگل آدمی بھی سکول پہنچ گیا۔وہ خود کو اس کا شوہر کہہ رہا تھا اور سب کے روکنے،پکڑنے کے باوجود مغلظات بکتا تیزی سے اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔اسے دیکھتے ہی وہ گھبرا کر کھڑی ہوئی تھی۔ملازمین نے اسے قابو کر لیا تھا اور اب بڑی میڈم اسے دھکیل کر سمجھانے بجھانے کمرے میں لے جا چکی تھیں۔اس کے صبیح چہرے پہ موتیوں کی لڑی کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے آنسو اپنی بے قدری پہ رو رہے تھے۔
سب حیرت سے یہ ماجرا دیکھ رہے تھے۔بدلتے موسم کی انگڑائی نے آسمان مٹیالے رنگ کا کر دیا تھا۔اتنے میں بڑی میڈم کمرے سے باہر نکلیں اور سب کو اپنی اپنی کلاسز میں جانے کا حکم دیا۔پھرروتی ہوئی کامنی سی بھتیجی کا بازو پکڑ کر کمرے میں لے گئیں۔کچھ ہی دیر بعد وہ اس جوڑے کے ساتھ کمرے سے باہر آئیں ،دونوں کے چہرے اب قدرے پرسکون تھے۔وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے اور روانہ ہو گئے۔
سب کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے حیرت زدہ سے معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔لیکن کسی کے پلے کچھ نہ پڑ سکا۔اگلے دن سے معمولات زندگی دوبارہ اپنی ڈگر پہ چل پڑے۔ کچھ دن چہ مگوئیاں ہوئیں اور پھر سب اس قصے کو بھول بھال گئے۔
اس دن دہم جماعت کی الوداعی پارٹی تھی۔قصبے سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پہ موجود دریا کنارے سکول کا ٹرپ جانا تھا۔سب خوش باش پھر رہے تھے کہ اچانک پتہ چلا جو بس بک کروائی تھی عین ٹائم پہ وہ دغا دے گئی ہے۔خراب بس کی اطلاع جونہی سارے میں پھیلی لڑکیوں بالیوں کے جذبات قابو میں نہ رہے۔کچھ مارے صدمے کے رونے لگیں۔کچھ نے برملا غصے کا اظہار کیا۔ایسے میں بڑی میڈم نے سب کو اکٹھا کر کے بٹھایا اور رسان سے سمجھایا ۔
’’دیکھو بیٹا جو کام نہیں ہو سکتا اس پہ رو کر،غصے کا اظہار کر کے سوائے اپنے آپ کو ذہنی اذیت دینے کے کچھ حاصل ہو گا؟نہیں نا؟تو آپ سب ذرا حوصلے سے کام لیں۔ان شاءاللہ کل تک مسئلہ حل ہو جائے گا اور ہم ضرور جائیں گے‘‘۔
بات کے اختتام پہ وہ دھیما سا مسکرائیں اور ایک ایک کر کے سب بچیوں کے تناؤ کا شکار چہرے پرسکون ہونے لگے۔یونہی ہلکی پھلکی باتوں کے دوران کسی نے اچانک پوچھا تھا۔
’’میڈم جی اس دن آپ کی بھتیجی کے شوہر کو کیا ہوا تھا؟‘‘
اچانک غیر متوقع سوال بڑی میڈم کے دوستانہ رویے کو دیکھ کر ہی کیا گیا تھا۔ان کے چہرے پہ سایہ سا لہرایا تھا۔سب استانیاں بھی ایک طرف لگی نشستوں پہ براجمان تھیں۔اور اب سب ہی اشتیاق آمیز تجسس چہروں پہ سجائے میڈم کو دیکھ رہی تھیں۔جو پوچھنے کی ہمت ان کی نہیں ہوئی تھی وہ ایک بچی نے اپنی سادگی میں پوچھ لیا تھا۔میڈم نے طائرانہ نظر سب اطراف میں دوڑائی،گلا کھنکارا،اور گویا ہوئیں۔
’’اس کے میاں کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے۔اسے دورے پڑتے ہیں‘‘۔
حسد و رشک میں مبتلا استانیاں ادھ کھلے منہ لیے میڈم کو دیکھ رہی تھیں۔بچیاں بھی حیرت چھپانے میں ناکام تھیں۔
’’میڈم اتنی پیاری اعلیٰ تعلیم یافتہ بچی کا رشتہ کیوں کر دیا اس کے ساتھ؟‘‘
مس نویرہ اب چپ نہ رہ سکیں اور سب کے دل میں آئے سوال کو زبان پہ لے آئیں۔
میڈم آزردگی سے مسکرائی تھیں۔ایسی مسکراہٹ جو کسی سخت دل کو بھی رلا دینے کی طاقت رکھے۔پھر کہنے لگیں۔
’’ہم جدی پشتی زمیندار ہیں۔ہمارے ہاں زر اور زمین کی وقعت زن سے زیادہ ہے۔اگر ماہم کی شادی خاندان سے باہر ہوتی تو زمین اور دھن دولت بھی باہر چلا جاتا۔خاندان میں اس کا کوئی اور ہم عمر نہیں تھا۔عدیم سے شادی کرنا مجبوری ٹھہری۔ہمارے بڑوں کا کہنا تھا کبھی کبھار دورے پڑتے ہیں ٹھیک ہو جائے گا۔شادی کر دی گئی۔لیکن مرض بڑھتا گیا‘‘۔
نم آنکھوں سے بات مکمل کرتے کرتے میڈم یکدم کھڑی ہوئی تھیں۔اذیت ناک مسکراہٹ نے ابھی بھی ان کے چہرے پہ بسیرا کیا ہوا تھا۔اتنے میں اچانک باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی۔نک سک سے تیار،غازے کی سرخی اور کاجل کی دھار میں اپنا درد چھپائے مسکراتی ہوئی ماہم اندر داخل ہوئی تھی۔لیکن آج سب شرمندگی سے سونے کے پنجرے میں قید اس حسین ووہٹی کو کرب سے دیکھنے لگے۔
جی ہاں تب پہلی بار پتہ چلا کہ اس کی شادی ایک ذہنی مریض سے فقط اس لیے کی گئی ہے کہ خاندانی جائداد خاندان میں رہ سکے۔چچا زاد تھوڑا پاگل ہے تو کیا ہوا،زمین باہر تو نہیں جائے گی نا!
قصبے والے شرمندگی سے سونے کے پنجرے میں قید اس حسین ووہٹی کو کرب سے دیکھنے لگے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here