بتول اگست ۲۰۲۴میلے کپڑے - بتول اگست ۲۰۲۴

میلے کپڑے – بتول اگست ۲۰۲۴

سنہری بال اور کنچی آنکھیں….سچ مچ جیسے کانچ کی گڑیا ….
گود میں لوگی اس کو ؟
ابو نے پوچھا تو میں نے جھٹ سے ہاں کر دی۔
وہ میری چھوٹی بہن تھی،مجھ سے پورے تین سال چھوٹی….نرم ملائم گلابی گلابی۔
میرے لیے تو وہی کل کائنات تھی۔میرا بس چلتا تو ہر وقت گود میں لیے بیٹھی رہتی۔
وقت کے ساتھ میرا پیار محبت،دوستی سب بڑھتی گئ۔ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ،ہم ہر جگہ ساتھ ساتھ رہتے۔کبھی ہماری لڑائی نہ ہوئی،دوستی میں بہناپے کی مثالیں ایسے ہی تو نہیں دیں جاتیں ناں؟ بہن بہن ہوتی ہے….ایک جان دو قالب،ایک دوسرے کا دکھ بنا کہے سمجھنے والی….چپکے چپکے ڈانٹ سے بچانے والی….اپنے حصے کی چیزیں بھی دوسری کو دے کر خوش ہونے والی۔
اسکول پھر کالج….میں شادی ہو کے سسرال آگئی….یہاں کی الگ دنیا اور کام….اچھا خاصا انسان اس دنیا میں ہیرو سے زیرو کے چکر میں آ جاتا ہے….جب کہ میکے میں ساری بچیاں مزے کرتی ہیں….مزے تو سسرال میں بھی ہوتے ہیں….لیکن ذمہ داریوں کے ساتھ….بے فکری اور لا ابالی پن بابل کی دہلیز پار کرتے ہی چھوٹ جاتا ہے۔
بس میکے کا سہارا تھا کہ بچوں کو نوین کے حوالے کرکے بے خود سوتی ہی چلی جاتی….جتنے دن رکتی، بچے نوین کے ہی ذمے ہوتے….خالہ جو تھی۔
اس بار امی کے پاس گئی تو بتانے لگیں کہ نوین کا رشتہ آیا ہے۔۔۔لڑکا امریکہ میں پڑھ رہا ہے۔
اچھا تو آپ نے کیاسوچاہے امی؟
منع کر دیا کہ ہم اپنی بچی کی شادی پاکستان سے باہر نہیں کریں گے۔
ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ لڑکے کی بہن’’ ناں‘‘ کا سن کر آگئیں،امی نے وجہ بتائی تو کہنے لگیں کہ لوگ تو باہر کا نام سن کر خوشی خوشی تیار ہو جاتے ہیں بس ہمیں ہی کوئی لڑکی پسند نہیں آ رہی ویسے بھی میرے بھائی کی جاب اسلام آباد میں ہے وہ پڑھائی کر کے واپس وہیں آئے گا۔
چلو یہ بات ہے تو دیکھ سکتے ہیں ۔بس پھر نوین کی شادی ہو گئی اور وہ پاکستان سے چلی گئی….جو گیا سو گیا….کون اور کیوں واپس آئے گا؟
ایسے جیسے دل کا ایک ٹکڑا آپ سے الگ ہو جائے۔ یہ وہ والا دور تھا جب نہ فون کی سہولت گھر گھر تھی نہ موبائل تھے۔آخر میں یہ کہتے چلو خوش رہے جو جہاں رہے، لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ اگر جنت میں گئے تو ہی اکٹھے ہوں گے ورنہ خوشی اور غمی سب الگ ہی ہو جاتا ہے۔
یہاں پر دن ہوتا ہے تو وہاں رات ہوتی ہے وہاں رات ہوتی ہوتا ہے تو یہاں دن ہوتا ہے دوستی قائم رہے تو کیسے؟ملاقات ہو تو کیوں کر؟ لاکھوں لاکھ پیسے خرچ کر کے یہاں پر آ بھی جائیں ملنے تو، آتے ہی بچے بیمار پڑ جاتے ہیں وہ جو آنے کی خوشی ہوتی ہے وہ ہسپتالوں کی نذر ہوجاتی ہے ۔ناقص غذائیں ، آلودگی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بہتے ہوئے نالے،فٹ پاتھوں پر ہیرونچی،اور جگہ جگہ ڈکیٹ، کراچی کی کتنی بدترین تصویر پیش کرتے ہیں کہ بچوں نے آنا ہی چھوڑ دیا ۔ہاں وہ جو یہاں پیدا ہوئی ہیں ان کو ماں باپ بہن بھائیوں کی خوشبو کھینچ لاتی ہے وہ بھی سال دو سال میں، ایک بار پھر مزے سے ہم سب اکٹھے ہو کے بیر امرود،آم اور گرما گرم جلیبی و سموسے کھاتے ہیں۔لیکن یہ لمحے بہت جلدی گزر جاتے ہیں۔
کوئی پیدا ہو یا مر جائے وہ لوگ دور دیس میں تنہا ہوتے ہیں اور ہم کبھی فون پر ان کو تسلیاں دیتے ہیں کبھی مبارک باد لیکن گلے نہیں مل سکتے ایک دوسرے کو چھو نہیں سکتے، اب اگر جنت میں ہی اکٹھے ہوں تو ہوں دنیا تو ایسے ہی گزرے گی۔
فارحہ کا فائنل ائیر تھا کہ اللہ کا شکر ہے رشتے آنا شروع ہو گئے۔لیکن مجھے باہر کے رشتے اچھے نہیں لگتے تھے،بلاوجہ….زندگی میں ہی دوری سہو!بھئی کم کھا لو….سستا پہن لو….رہو اپنوں کے درمیان….آہستہ آہستہ گھر گھرستی یہاں پر بھی بن ہی جاتی ہے لیکن اگر آپ برینڈز کے پیچھے چلے گئے تو پھر گزارا مشکل ہو جائے گا۔
یہی کہتے کہتے فارحہ کی شادی ایک اچھے گھرانے میں کر دی۔الحمد للہ زندگی اپنے ڈگر پر چل پڑی ۔داماد سے فقط یہی شرط رکھی تھی کہ جب میرا دل چاہے گا میں بچی سے ملنے آ جاؤں گی اور جب اس کا دل چاہے تو وہ ملانے کے لیے ضرور لائے گا اس کے علاوہ مجھے اور کوئی خواہش نہیں تھی۔
رخصت ہونے والی بچی کو صرف یہ معلوم ہو کہ وہ دل چاہنےپر اپنی امی، ابوبہن بھائیوں سے مل لے گی تو وہ خوش اور مطمئن رہتی ہے۔۔پھر بھی بچی کی رخصتی کرنا ہوتا کٹھن مرحلہ ہے….رات کے ہنگاموں کے بعد بیٹی کے بغیر،اگلی صبح ….دل ہی نہیں،اس کا کمرہ،گھر بہنیں سب اداس اداس اور خالی خالی سے ہو جاتے ہیں ۔جانے کیوں؟
شادی کے کچھ عرصے بعد بعد فارحہ نے ہاؤس جاب شروع کر دی۔
ہاؤس جاب کو چھے مہینے ہوئے تھے کہ ننھے منے سے عبداللہ نے آکر زندگی کو خوشیوں سے بھر دیا ،عبداللہ دو مہینے کے ہوئے تو ہاؤس جاب دوبارہ شروع کر دی،صبح عبداللہ میرے پاس آجاتے تھے ان کو نہلانا، دھلانا، کھلانا پلانا سب میری ان کہی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا چلا گیا۔
سال بھر کے عبداللہ اپنی عمر کے پہلے ہی سال میں بڑے بھائی بن گئےچھوٹی سی شزا کے….ہم سب کی زندگی میں رنگ، خوشبو،فیڈر،پیمپراور اور چھوٹے چھوٹے کھلونے در آئے۔
ہم سب بہت خوش تھے۔۔۔فرصت ہی نہ تھی کسی چیز کی….دونوں اسکول جانے لگے….اکٹر میرے پاس آ جاتے….نزدیک گھر تھے….پھر وہی کھلانا پلانا سلانا….زندگی ایسی ہی رہتی اگر کراچی کے حالات بہتر ہو جاتے ….الیکشن کے فورا ًبعد داماد نے اس نظام سے مایوس ہو کر باہر جانے کا ارادہ باندھ لیا۔
کیوں جا رہے ہو باہر….سب کچھ تو ہے یہاں؟
میں نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں اسے روکنے کی کوشش کی۔
امی یہاں انصاف نہیں ہے….میں سب کچھ سہہ سکتا ہوں نا انصافی نہیں….قابلیت کے حساب سے نوکری نہیں ہے….آفس آنے کا ایک گھنٹہ جانے کا ایک گھنٹہ….ادھڑی ہوئی سڑکوں پر سفر کی تھکان….بچوں کی فیسیں دوا علاج خوشی غمی….اتنے اچھے پیکج میں بھی میرے پاس کچھ نہیں بچتا …. چلو یہ چھوڑ بھی دوں تو وہ جو دن دہاڑے میری کمائی اڑا لیتے ہیں…. وہ پکڑے بھی جائیں تو چھوٹ جاتے ہیں…. بس میں یہ نا انصافی نہیں جھیلوں گا۔
میں کیا کہتی زبان پر تالا پڑ گیا …. یہ کیسا اندھیر ہے…. ہمارے بچے پاکستان سے نکل جانا ہی بہتر سمجھ رہے ہیں۔انہیں کوئی امید کی کرن ، کوئی راستہ نہیں دکھ رہا۔
پھر پرسوں فارحہ پاکستان چھوڑگئی….اور میں عبداللہ اورشزا کے اترے ہوئے میلے کپڑے سونگھ رہی ہوں….اور آنسو میرے گال پر نہیں دل پر گر رہے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here