میں ڈھاکہ میں رہنے والی نہایت معمولی شکل و صورت کی ایک غریب لڑکی تھی۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔ والد نسلی فسادات کی نظر ہو چکے تھے۔ والد صاحب بے شک محنت مزدوری ہی کیا کرتے تھے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے ہوتے ہم ماں بیٹی نہ صرف دو وقت کی روٹی بڑے آرام سے کھا لیا کرتی تھیں بلکہ دیگر بنیادی ضروریات بھی کافی حد تک پوری ہو جایا کرتی تھیں۔ پاکستان کا یہ مشرقی حصہ غربت کا شکار ضرور تھا لیکن ایک خوبی اس میں مغربی حصے سے بہت زیادہ تھی اور وہ تھی تعلیم کے اوسط کا فرق۔ سنہ ساٹھ اور ستر کی دھائی میں بھی پاکستان کے مشرقی حصے میں تعلیم کا اوسط پچاس فیصد سے زیادہ تھا۔ میرے والد صاحب معاشی مجبوریوں کی وجہ سے آٹھ جماعتیں ہی پڑھ سکے تھے لیکن اس زمانے میں آٹھ جماعت پاس بھی بہت پڑھا لکھا کہلاتا تھا اور عام لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
1965کی جنگ کے بعد سے پاکستان کے اس مشرقی حصے کے حالات کافی تیزی کے ساتھ بگڑنے لگے تھے اور نہ جانے کیوں بھائیوں کی طرح آپس میں رہنے والے آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے دور ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ کیا رہی ہوگی، اس پر میں نے کبھی سوچا ہی نہیں لیکن اب خیال کرتی ہوں کہ حکمرانوں کی غلط سوچیں اور ان کی غیر عادلانہ حکمتِ عملیوں کا عذاب عام عوام ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اسی قسم کے کشیدہ حالات میں ایک مرتبہ ڈھاکہ میں شدید ہنگامے ہوئے ، دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں میرے والد صاحب خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
یہ سانحہ ہم ماں بیٹیوں کیلئے قیامت سے کم نہیں تھا۔ جس کے دم سے گھر گھر تھا وہی جب نہ رہا ہو تو کیا گھر رہا ہوگا۔ گھر کی ساری ضروریات پوری کرنے والا فرد ہی جب اللہ کو پیارا ہو جائے تو گھر ویرانہ اور زندگی بے ٹھکانہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ عزیز و اقارب بہت تھے لیکن وہ بھی معاشی اعتبار سے اتنے مضبوط نہیں تھے کہ مستقل بنیادوں پر ہماری مدد کر سکیں۔ میں اس وقت چھٹی جماعت کی طالبہ تھی۔ اپنے اسکول کی ہونہار طالبات میں شمار ہوتی تھی۔ والد صاحب ویسے تو آٹھ جماعت ہی پڑھے ہوئے تھے لیکن ان کی انگلش بہت اچھی تھی۔ وہ بول بھی روانی سے لیا کرتے تھے اور رائیٹنگ پاور بھی بہت عمدہ تھا۔ انھوں نے مجھے بھی اپنے جیسا ہی بنا دیا تھا لیکن میں نے کبھی انگریزی کو اس انداز میں نہیں اپنایا کہ اپنی ہم جماعتیوں پر اپنی قابلیت ثابت کروں یا اساتذہ کے مقابلے پر آؤں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ گھر والوں کے علاوہ شاید ہی کسی اور کے علم میں یہ بات ہو کہ میں انگریزی میں کتنی رواں ہوں۔ یہ بات بھی مجھے اپنے والد ہی سے وراثت میں ملی تھی۔ وہ بھی ضرورت کے بغیر کبھی کسی سے انگریزی میں بات نہیں کیا کرتے تھے۔
میں بنگالی فیملی سے ضرور تھی لیکن ہم سب اپنے گھر میں اردو میں باتیں کیا کرتے تھے۔ والد صاحب کہا کرتے تھے ہمارے قائد، قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان بننے کے بعد ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر صاف صاف فرما دیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی اس لئے ہم سب کو اردو ہی بولنا اور لکھنا چاہیے۔ اول اول تو کسی ایک بنگالی کو بھی اس فرمان پر کوئی اعتراض نہ ہوا لیکن آہستہ آہستہ ہم بنگالیوں میں اپنے “بنگالی” ہونے کا احساس نہ جانے کیوں بڑھتا گیا۔ والد صاحب ہوں، میری والدہ ہوں یا میں، ہمیں اردو اور پاکستان، دونوں
سے بہت محبت تھی اور ہم رات دن یہی دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ پورے پاکستان کو جوڑ کر رکھے ،لیکن ہر آنے والا دن جو کہانی سنا رہا تھا وہ کہانی ہماری دعاؤں اور تمناؤں کے بالکل برعکس ہوتی نظر آ رہی تھی۔
معاشی حالات بہت تنگ ہونے لگے تو اپنی والدہ کی مخالفت کے باوجود میں نے تعلیم کے سلسلے کو مؤخر کر کے عملاً معاشی میدان میں اترنے کا فیصلہ کر لیا۔ والد صاحب کی جمع پونجی سے میں نے پرانا لیکن اچھی حالت کا ایک سائیکل رکشا خرید لیا۔ پاکستان کے اس مشرقی بازو میں خواتین اور نو عمر لڑکیاں سائیکل رکشا چلایا کرتی تھیں اس لئے یہ کوئی نئی یا بہت قابل اعتراض بات بھی نہ تھی۔ یہ کام آسان تو نہ تھا لیکن جب انسان کسی کام کا ارادہ کر لے تو اللہ تعالیٰ ہمتوں کو جوان کر ہی دیتا ہے۔ میری صحت بھی اپنی ہم عمروں کے مقابلے میں اچھی تھی اس لئے دو چار دن کے اندر اندر میں مشقت سہنے کی عادی بھی ہو گئی۔ اگلے ہی برس ہمارا مشرقی حصہ پاکستان سے علیحدگی کی جانب چل نکلا جس کے نتیجے میں پورے مشرقی بازو میں سخت خونریزی ہوئی اور آخر کا رہم سب پاکستانی سے بنگلہ دیشی بن گئے۔ میری والدہ اس سانحے پر نہ جانے کتنے عرصے ہچکیوں کے ساتھ روتی رہیں۔ میں نے اس انداز میں اپنی والدہ کو روتے ہوئے اپنے والد صاحب کی وفات پر بھی نہیں دیکھا۔ میرا دل بھی جیسے کٹ سا گیا تھا اور کئی ماہ مجھے قرار ہی نہ آکر دیا لیکن کہتے ہیں کہ وقت بڑا مرہم ہوتا ہے لہٰذا گھاؤ کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، بھر ہی جاتے ہیں۔
اس ہنگامے میں ہمارے محلے میں رہنے والا ایک خاندان جس کا تعلق پاکستان کے مغربی بازو کے سب سے بڑے شہر کراچی سے تھا، وہ بھی زد میں آیا اور نسلی جنونیوں نے اس پر حملہ کر کے آگ لگادی۔ جب شورِ قیامت برپا ہو تو ہر جانب نفسا نفسی مچ جایا کرتی ہے اس لئے کسی کو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسے موقع پر کیا کیا جائے۔ ہم سب تو یہی سمجھے کہ اس گھر کا شاید ہی کوئی ایک فرد راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہونے سے محفوظ رہا ہو لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ حملے سے چند منٹ قبل ہی اس گھر کے تینوں افراد، میاں بیوی اور ان کا ایک بیٹا جو مجھ سے تین چار برس چھوٹا تھا، یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو چکے تھے ، البتہ نکل بھاگنے کے باوجود وہ زندہ رہ سکے تھے یا نہیں، اس کی خبر کسی کو بھی نہ ہو سکی اس لئے کہ پورا مشرقی بازو اور خاص طور سے ڈھاکہ، غیر بنگالیوں کی مقتل گاہ میں تبدیل ہو چکا تھا۔
چھوٹی عمروں تین ساڑھے تین سال کا فرق بھی بہت بڑافرق سمجھا جاتا ہے۔ مغربی پاکستان کی اس فیملی کا یہ بچہ ہمارے محلے میں ہی پیدا ہوا تھا۔ کیونکہ میرے گھر والوں کا ان کے گھر، گھروالوں کی طرح آنا جانا تھا اس لئے میں اس بچے کو منا منا کہا کرتی تھی۔ جب جب بھی وقت ملتا ہم ایک ساتھ کھیلا بھی کرتے تھے۔ اسی کھیل کھیل میں ہم بڑے بھی ہو گئے لیکن اسے میں ہی نہیں میرے گھر والے بھی منا کہہ کر ہی پکارا کرتے تھے۔ اس منے کا ایک بڑا بھائی بھی تھا جو اس سے سات سال بڑا تھا لیکن وہ کراچی میں اپنی ددھیال میں ہی رہ گیا تھا۔ والدین کے ساتھ نہ آنے کی وجہ پڑھائی بتائی گئی تھی۔
مسلمان ہونے کے باوجود لسانی و نسلی تعصب نے ایک ہی ملک کو نہ صرف دولخت کر کے رکھ دیا تھا بلکہ انسانی جان و مال، عزت و آبرو اور خونِ ناحق سے جس انداز میں ہولیاں کھیلی گئیں، ایسے مناظر شاید چنگیزی دور میں بھی نہ دیکھے گئے ہوں۔
حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہا کرتے۔ اب بنگلہ دیش بہت پر سکون ہو چکا تھا۔ امن لَوٹ چکا تھا۔ حالات معمول پر آ چکے تھے اور کار و بار زندگی اپنی آب و تاب کے ساتھ رواں دواں نظر آ رہا تھا۔ میرا سائیکل رکشا بھی ڈھاکہ شہر کی سڑکوں پر کبھی اِدھر اور کبھی اْدھر دوڑیں لگانے لگا تھا۔ رکشا سے ہونے والی آمدنی کی وجہ سے ہمارا انحصار دوسروں پر سے ختم ہو چکا تھا جو ایک قابلِ اطمینان بات تھی۔
بنگلہ دیش بنے تین برس گزر چکے تھے۔ نہ جانے کیوں ہم چند خاندان جن کو پاکستان سے عزیز کوئی شے بھی نہ تھی، ان کے علاوہ سب
کے چہرے کیوں کھلے کھلے نظر آتے تھے۔ زخم بے شک بھر جایا کرتے ہیں لیکن ان کے نشانات بار بار اس اذیت کو یاد دلاتے رہتے ہیں جو اْس وقت کے لگے زخموں کی وجہ سے پورا جسم اٹھا چکا ہوتا ہے۔ اپنے محلے میں رہنے والا وہ ایک خاندان جو کئی برس ہمارے محلے میں آباد رہا تھا، اس کے افراد اکثر ہم ماں بیٹیوں کے درمیان موضوع گفتگو رہتے۔ ہمیشہ ہمارے دلوں سے یہی دعا نکلتی کہ وہ سب زندہ ہوں اور جہاں بھی ہوں خیریت سے ہوں۔ چھٹپن میں گزارے ہوئے ایام انسان کبھی فراموش نہیں کر سکتا اور ان کا اکثر یاد آتے رہنا کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے انہونی کہا جائے۔ میں اپنے اس پیارے سے بھائی کو کیسے بھول سکتی تھی جس کے ساتھ ہنستی کھیلتی بڑی ہوئی تھی۔ دل سے یہی دعا نکلتی کہ اللہ ان سب کو سلامت رکھے ۔
نہ جانے کیوں آج سائیکل رکشا چلاتے ہوئے مجھے وہی سب کیوں یاد آ رہے تھے۔ آج ایئرپورٹ سے کافی عمر کی ایک شخصیت کو سوار کرنے کا موقع ملا جو اپنے قد کاٹھ اور شکل و صورت کے اعتبار سے پاکستانی ہی لگتی تھی البتہ رنگت کے لحاظ سے وہ ہم سے بہت مختلف نہ تھی۔ میں بھی کسی سواری کی منتظر تھی کہ اتنے میں ایک نکلتے قد والے کی نظر مجھ پر پڑی۔ وہ مجھ سے پہلے کسی سواری کو اپنی جانب آنے کا اشارہ کر چکے تھے لیکن مجھے دیکھ کر جیسے چونک سا گئے اور کسی دوسری جانب جانے کی بجائے میرے قریب آ گئے۔ کافی عمر کی شخصیت تھی۔ ان کے چونکنے کا انداز ایسا بھی نہیں تھا کہ جسے واقعی چونکنا ہی کہا جا سکے۔بے شک انھوں نے گہری نظروں سے مجھے دیکھا بھی لیکن یہ بھی شاید میرا ہی احساس رہا ہو اس لئے کہ اس انداز میں بھی کوئی بہت اوپرا پن نہ تھا۔
میرے قریب آکر مجھے انھوں نے ایک پرچہ، جو انگریزی زبان میں تھا، نکال کر کچھ بتا نا چاہا۔ میں دیکھ چکی تھی کہ وہ کہاں کا پتا ہے۔ نہ جانے کیوں بے ارادہ میں نے وہ کاغذ ان کے ہاتھ سے لے لیا۔ حالانکہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس پر ہمارے محلے کا اور گلی کا نمبر درج تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ ایک کم عمر لڑکی اور وہ بھی رکشا چلانے والی اور اس کی انگلش سے واقفیت پر حیران سے ہوئے ہوں۔ کہنے لگے مجھے یہاں جانا ہے کیا تم مجھے لے جاسکتی ہو۔ میں نے اقرار میں گردن ہلائی تو وہ ایک چھوٹے سے اٹیچی کیس کے ہمراہ میرے رکشا پر سوار ہو گئے۔ مجھے سارے راستے ایسا لگا جیسے وہ میری جانب متوجہ ہوں لیکن میں جب بھی سڑک کے دائیں بائیں دیکھنے کے بہانے کسی حد تک گردن گھما کر ان کی جانب اچٹتی سی نظر ڈالتی، انھیں گردن جھکائے یا راستے کی جانب تکتا پاتی۔
میں بالکل اپنی گلی کے سامنے جا کر رک گئی تو وہ رکشا سے اتر گئے۔ مجھ سے کرایہ پوچھا تو میرے بتائے ہوئے کرائے سے کچھ سوا دینے کی کوشش کی جس کو میں نے شکریے کے ساتھ لوٹا دیا۔ کہنے لگے اگر دو چار منٹ انتظار کر سکو تو اچھا ہے کیونکہ مجھے یہاں قریبی دفتر میں بھی کام ہے۔ میں نے کہا میں کھڑی ہوں اور مجھے چند منٹ انتظار کرنے میں کوئی پریشانی نہیں۔ انھوں نے اپنا اٹیچی کیس اٹھا یا اور گلی میں داخل ہو گئے۔ میں نے سوچا یہاں یہ کس سے ملنے گئے ہوںگے، یہاں تو کوئی پاکستانی نہیں رہتا۔ پھر یہ کہ یہ یہاں کیوں اتر گئے جبکہ میں اس گلی کے مطلوبہ گھر تک بھی چھوڑ سکتی تھی۔ اس تجسس نے مجھے رکشا سے اتر کر گلی میں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔ آٹھ دس گھر دور میرا اپنا گھر بھی اسی گلی میں تھا اس لئے میرا اس طرح گلی میں کھڑا ہونا کسی کیلئے کوئی غیر مناسب حرکت بھی نہیں تھی۔
پھر میں نے ان صاحب کو اپنے ہی گھر کے دروازے پر دستک دیتے دیکھا ۔ میں جو پہلے صرف ایک جیتی جاگتی رکشا ڈرئیور تھی، بے جان پتھر کی مورتی سی بن کر رہ گئی۔ پھر میں نے دیکھا کہ جیسے گھر کا دروازہ کھلا ہو۔ وہ صاحب نہایت شریف اور مہذب انسان کی طرح دروازے کے ایک جانب دیوار سے اس طرح چپکے کھڑے تھے کہ دروازہ کھلنے پر گھر والوں کی ذرا بھی بے پر دگی نہ ہو۔ یہ انداز مجھے بہت ہی اچھا لگا۔ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا لفافہ تھا جو انھوں نے اندر دینا چاہا
لیکن مجھے ایسا لگا جیسے وہ لوٹایا جا رہا ہے جس پر انھوں نے لفافے کے اندر سے ایک کاغذ نکالا جس پر شاید کچھ تحریر تھا۔ انھوں نے غالباً وہ پڑھنے کیلئے دیا۔ نہ جانے اس میں کیا لکھا تھا کہ اس کے بعد میں نے والدہ کو دروازے سے گردن نکال کر چادر کی اوٹ سے ان صاحب کو دیکھتے ہوئے پایا جو آنکھیں جھکائے دروازے کے ایک جانب سمٹے کھڑے تھے۔ فوراً ہی وہ پھر دروازے کی اوٹ میں ہو گئیں اور جب اس بار ایک بڑا لفافہ ان کو پیش کیا گیا تو وہ جیسے شکریے کے ساتھ قبول کر لیا گیا۔
مجھے یہ چند منٹ صدیوں برابر لگے۔ میں نے ان کو واپس آتا دیکھ کر رکشا کی گدی سنبھال لی لیکن پورا بدن ہوا میں پرواز کرتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ بدن کا رواں رواں کانپ رہا تھا اور اس کپکپاہٹ کو میں کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی بس جی یہی چاہ ریا تھا کہ میں سواری سے کیا عہد نبھانے کے بعد گھر لوٹ جاؤں۔ وہ صاحب واپس آکر چپ چاپ بیٹھ تو گئے لیکن مجھے یوں لگا جیسے میری بدلی ہوئی کیفیت ان سے چھپ نہ سکی۔ میں منتظر تھی کہ وہ مجھے اپنی دوسری منزل کا نام و پتہ بتائیں گے لیکن کچھ توقف کے بعد ایک چھوٹا سا پرچہ میری جانب بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ مجھے یہاں جانا ہے۔
یہ پتہ بھی انگریزی میں تھا جس پر پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کے دفتر کا مکمل پتہ درج تھا۔ میں اپنے آپ کو اب کافی حد تک سنبھال چکی تھی۔ میں نے اس مرتبہ بھی اقرار میں سر ہلایا لیکن نہ معلوم کیوں باوجود کوشش میں اپنے رکشا کو پہلی کوشش میں چلانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہاتھوں اور ٹانگوں میں جان ہی نہ رہی ہو۔ سواری جیسے میری کیفیت کا جائزہ لے رہی تھی۔
کیا ہوا بیٹی؟ انھوں نے ہولے سے پوچھا۔
ابھی میں کوئی جواب نہیں دے پائی تھی کہ انھوں نے اپنے ہاتھ میں دبی سوفٹ ڈرنک کی بوتل کھول کرمیری جانب بڑھاتے ہوئے چند گھونٹ لینے کو کہا اور رکشا سے اتر کر کہا۔
بیٹی لگتا ہے تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔
میں نے چند گھونٹ لینے کے بعد کہا، پلیز آپ رکشا میں تشریف رکھیں، میں اب بہتر ہوں۔
یہ بات میں نے بہت عمدہ اردو میں کہی تو وہ بہت خوش ہوئے اور واپس رکشا میں سوار ہو گئے۔ جب وہ مطلوبہ دفتر کے سامنے رکے تو نہ صرف انھوں نے مجھے کرایہ ادا کیا بلکہ مشفقانہ لہجے میں کچھ زائد رقم قبول کرنے کی درخواست کرتے ہوئے میری جانب بڑھائی۔ یہ درخواست خالص بنگالی زبان اور لہجے میں کی گئی تھی اور انداز اتنا بزرگانہ و مہذب تھا کہ میں انکار بھی نہ کر سکی۔ وہ میرے رکشا سے اتر کر مزید کچھ کہے بغیرآفس کی سیڑھیاں طے کرنے لگے اور میں ان کے بنگالی زبان پر عبور اور بزرگانہ لہجے کے وقار میں ایسا گم ہوئی کہ چند سیکنڈ کیلئے ان کا اپنے محلے کی گلی میں داخل ہو کر اپنے ہی گھر میں کچھ دینے کی بات ہی کو بھلا بیٹھی۔ سحر ٹوٹا تو میں ایک مرتبہ پھر سے دیوانوں کی طرح گھر کی جانب لوٹی۔
میری والدہ مجھے اتنی جلد گھر آتا دیکھ کر جیسے نہ صرف حیران ہوئی ہوں بلکہ کسی حد تک پریشان بھی ہو گئیں۔ انھیں میرا چہرہ بھی کچھ اڑا اڑا سا ہی لگا ہو گا۔ وہ جلدی جلدی اٹھیں اور میری بلائیں لینے لگیں۔ کسی بھی ماں کی کوئی بیٹی، اور خاص طور سے باہر نکل کر عملی زندگی میں کود جانے والی، اگر میرے جیسا چہرہ بنائے گھر میں داخل ہو تو ماؤں کے کلیجوں کا منہ تک آجانا تو بنتا ہی ہے۔ یہ بات میرے تصور میں بھی نہیں تھی کہ میری ماں مجھے اس شکل میں دیکھ کر اس حد تک پریشان ہو جائیں گی۔ میں جلدی سے اپنے آپ پر قابو پایا اور کہا ۔
ماں جو کچھ آپ سوچ رہی ہیں ایسا کچھ بھی نہیں بس ہوا، یہ کہ ایک کے بعد ایک سواریاں ملتی رہیں جس کی وجہ سے میں کافی تھک سی گئی تھی اس لئے سوچا کہ کیوں نہ کچھ دیر گھر میں آرام کر لوں۔
میرے اطمینان دلانے پر ماں تو مطمئن ہو گئی لیکن میں اس بے چینی کو کیا کروں جو کچھ دیر پہلے کے واقعے کی وجہ سے میرے دل کو بیکل
کئے ہوئے تھی۔ کیسے کہوں کہ میں اپنے ہی گھر کے دروازے پرکسی کو کھڑے اور کچھ دیتے ہوئے دیکھتی رہی ہوں۔ وہ کون تھا اور کیا پیغام یا امانت لایا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میں اپنے ماں سے پوچھوں لیکن ہر مرتبہ ہمت جواب دے گئی۔
باتیں کرتے کرتے جیسے میری ماں کو کچھ خیال آیا ہو۔ وہ اٹھیں اور اپنے بستر کے نیچے سے ایک بڑا لفافہ نکال کر لائیں۔ یہ وہی لفافہ تھا جو میں نے اپنی سواری کے ہاتھوں میں اس وقت دیکھا تھا جب وہ اسے میری ماں کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔
یہ کیا ہے کا جواب خود ہی دیکھ لو کی صورت میں ملا۔ اس میں اْس وقت کے حساب سے ایک اچھی رقم لفافے میں موجود تھی۔ ماں نے کہا کہ جب میری نظر لفافے میں موجود رقم پر پڑی تو میں نے قبول کرنے سے انکار کردیا کہ نہ جانے آنے والا کون ہے اور مجھے یہ رقم کیوں دینا چاہتا ہے۔ میرے اس طرح انکار پر اس نے مجھے یہ پرچہ پکڑا دیا۔ یہ کہہ کر میری ماں نے مجھے وہ پرچہ میری جانب بڑھا دیا۔ میں اپنے والد کے دستخط خوب اچھی طرح پہچانتی تھی جس پر سب سے پہلے میری نظر پڑی۔
یہ کوئی سرکاری کاغذ تو نہ تھا۔ ایک دوستانہ معاہدہ تھا جس کے تحت کسی کاروبار میں میرے والد صاحب نے اپنا حصہ ملایا تھا۔ اس کاروبار میں جو منافع بنتا تھا وہ نسبت و تناسب کے اعتبار سے تقسیم ہونا تھا لیکن اچانک بہت زیادہ سنگین حالات کی وجہ سے رقم کی تقسیم عمل میں نہیں آ سکی تھی۔ رقم کے ساتھ ایک اور پرچہ پر اصل رقم اور اس کا مجموعہ بھی درج تھا جو گن لینے پر درست حساب تھا۔ اماں کہنے لگیں کہ پھر بھی میں نے اطمینان کیلئے ان صاحب کی شکل دیکھنے کیلئے دوپٹے کی اوٹ سے جھانکنا مناسب سمجھا۔ تب مجھے یاد آیا کہ ایک مرتبہ ہماری گلی میں رہنے والی پاکستانی اور بہاری بستی کے یہی صاحب تمہارے والد کے ساتھ ہمارے گھر میں کسی کاروبار کی بات کر رہے تھے اور پھر انھوں نے ایک سادہ کاغذ پر ایک معاہدہ تحریر کیا تھا۔ مجھے وہ سال، ماہ، دن اور تاریخ نہ جانے کیوں یاد رہ گئی تھی جبکہ مجھے تمہارے والد کے کسی بھی کاروباری معاملے سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ ایسا شاید اس لئے بھی ہو کہ معاملہ مناسب رقم کی شراکت کا تھا اور میں جانتی ہوں کہ جو بھی رقم شراکت داری میں لگائی گئی وہ تمہارے والد کے خون پیسے کی کمائی تھی۔ حالات کی بدلتی صورت حال بھی میرے سامنے تھی اس لئے ہردم رقم ڈوب جانے کا احساس رہتا تھا۔ اسی دوران ایک ہنگامے کی لپیٹ میں تمہارے والد مارے گئے تو میں نے رقم پر فاتحہ ہی پڑھ لی تھی لیکن ہماری گلی میں رہنے والی مغربی پاکستانی نے مجھے اطمینان دلایا تھا کہ آپ کی رقم اللہ نے چاہا تو کہیں نہیں جائے گی ،لیکن ہوا یہ کہ چند ماہ بعد وہ خود بھی اسی تعصب کی آگ کی لپیٹ میں آ گئے جس آگ میں تمہارے والد صاحب آ ئے تھے۔ میں نے بھی چپ سادھ لی تھی اور تمہارے والد کے راز کو سینے میں ہی دفن کر لیا تھا۔
میری حالت بالکل اسی طرح کی ہو کر رہ گئی تھی جو چند گھنٹوں پہلے گلی کے موڑ پر کھڑی رکشا چلانے والی مجھ رکشا ڈرائیور کی تھی۔ ماں بولتی جا رہی تھی اور سواری کے میرے اپنے ہی گھر کے سامنے رک کر میرے ہی گھر کے دروازے پر دستک دینے، لفافہ پکڑانے سے لیکر واپسی تک کے سارے مناظر ایک فلم کی طرح چل رہے تھے۔
بہت ہی دیانتدار لوگ تھے!
مجھے ایسا لگا جیسے ماں کی یہ آواز بہت دور کا سفر کرکے میرے کانوں تک پہنچی ہو۔ مجھے میری ماں کے الفاظ واپس میرے گھر لے آئے تھے۔ شکر ہے کہ ہماری گلی میں رہنے والے مغربی پاکستانی خیر خیریت سے ہیں۔ اللہ ان کو اس کا اجر دے۔
ابھی اس بات کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ میں نے واپسی پر اپنی ماں کو عجیب حالت میں اپنا منتظر پایا۔ ان کو دیکھ کر نہ جانے کیوں میرے ذہن میں جو الفاظ ابھرے وہ “بے چین خوشی” کے ابھرے۔ میرے سامنے ماں کا چہرہ مصور کا ایک ایسا شاہکار لگا جس نے ایک ہی چہرے
میں ایک بھر پور خوشی نہایت بے کلی کے ساتھ بھر دی ہو۔ وجہ پوچھی تو ماں کہنے لگی کہ وہی صاحب جو ہمارے گھر رقم لیکر آئے تھے وہ اپنے بھتیجے کیلئے تمہیں مانگ رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ میرا بھتیجا آپ کا دیکھا بھالا ہے، مجھے امید ہے آپ مجھے مایوس نہ کریں گی۔ اس سے قبل کہ میں ان سے دریافت کرتی کہ وہ صاحب کب اور کیسے آئے تھے، انھوں نے ایک خط میری جانب بڑھادیا جس میں شستہ بنگلہ میں وہی سب کچھ تحریر تھا جو مجھے ماں زبانی بتا چکی تھی۔
اب کہاں بنگلہ دیش اور کہاں پاکستان۔ پھر ان کا یہ دعویٰ کہ ان کے بھتیجے کو ہم نے دیکھا ہوا ہے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ کیا تحریر باپ کی جانب سے نہیں آ سکتی تھی۔ ایسے نہ جانے کتنے سوالات اور خدشات بیک وقت دل میں گھر کرنے لگے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ دل میں یہ سارے خیالات اور خدشات بد گمانیوں کو جنم نہ دے سکے۔
کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنا کرتے ہیں۔ ہم ماں بیٹی جو اس وقت بھی پاکستان ہی کے دیوانے تھے اس رشتے سے انکار نہ کر سکے۔
رشتہ بھیجنے والوں نے ہمارے پاکستان جانے کے سارے انتظامات از خود کئے لیکن ایک لڑکی ذات کا لحاظ کرتے ہوئے برات بنگلہ دیش ہی آئی۔ مسجد میں نکاح ہوا اور ہم وہیں سے سیدھے ایئر پورٹ پہنچے۔ لڑکے کے والد تقریب میں شریک نہ ہو سکے البتہ ان کے وہی تایا جو حصے کی رقم لیکر آئے تھے وہ نکاح میں موجود تھے۔ شرکت نہ کرنے کی وجہ بہت دردناک بتائی گئی تھی کہ مشرقی پاکستان سے پاکستان جاتے ہوئے وہ جنونیوں کی زد میں آ گئے تھے۔ ان کے سر پر لگنے والی ضرب نہایت کاری ثابت ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے یاد داشت کھو بیٹھے تھے۔ ایک اور عجیب شرط پاکستان پہنچتے پہنچے یہ بھی لگادی گئی تھی کہ دلہن دلہا کی شکل حجلہ عروسی ہی میں دیکھ سکے گی۔
ہم جب پاکستان پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ جس گھر میں ہمیں لایا گیا ہم بنگلہ دیشیوں کے اس وقت کے حالات کے لحاظ سے اچھا بڑا بنگلہ تھا۔ جب میری نظر ساس پر پڑی تو میرا دل خوشی سے بھر گیا کیونکہ یہ تو وہی مغربی پاکستانی خاتون تھیں جو ہمارے محلے میں آباد تھیں۔ تو کیا میری شادی اسی “منے” سے ہوئی ہے جو مجھ سے تین چار سال چھوٹا اور مجھے بھائیوں کی طرح عزیز تھا، یہ سوچ کر مجھے کچھ اچھا نہ لگا لیکن حجلہ عروسی میں جس سے ملا قات ہوئی وہ اس کا بڑابھائی تھا جو اس سارے عرصے میں صرف ایک مرتبہ اس وقت کے مشرقی پاکستان آیا تھا۔ اگلی صبح نہ صرف میرے “منے” دیور سے میرا تعارف کرایا گیا بلکہ مجھے بتایا گیا کہ تمہارے دیور ہی کی ضد تھی کہ اگر بھابی لانی ہے تو پھر تم ہی کو بھابی بنا کر لانا ہے۔ اس پاکیزہ جذبے پر میری آنکھوں سے خوشی اور تشکر کے آنسو رواں ہو گئے۔