ء 2005 کے زلزلے سے محض ڈیڑھ ماہ پہلے وادیٔ منور کاغان میں ایڈونچر کا حال
ایڈوانس کیمپ میں ایک رات گزارنے کے لیے ہم روانہ ہوئے تو ہمارے قافلے میں دو ‘‘ ذی روح ‘‘ مزید شامل تھے ۔ ایک گدھا اور ایک گھوڑا ۔ گدھے کے ساتھ ایک بارہ تیرہ سالہ لڑکا اعجاز تھا ۔ جبکہ گھوڑے والے کا نام تو نجانے کیا تھا ، مگر اس کی شکل بھٹی ( جیکی چن )کے ساتھی بٹ سے بہت ملتی تھی ۔ لہٰذا بچوں نے اس کا اصل نام جاننے کی زحمت ہی گوارانہ کی ۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ دس ہزار فٹ پر واقع منزل پر پہنچنے کے لیے ہمیں تین پہاڑ پار کرنے ہوں گے ۔ پھر چوتھے پہاڑ پر پہنچ کر ڈیرہ ڈالنا ہے اور چونکہ زیادہ تر راستہ شدید چڑھائی کا ہے ،لہٰذا 4سے 5گھنٹے لگ جائیں گے ۔ موجودہ بیس کیمپ آٹھ ہزار فٹ پر تھا ۔ یعنی ہمیں دو ہزارفٹ اور اوپر چڑھنا تھا ۔ اس آخری انجانے پہاڑ کا نام ہم نے کوہ قاف رکھ دیا ۔ ہم سب نے زادِ سفر اپنی پشت پر اٹھا رکھا تھا … ایک ایک رُک سیک جس میں رات بھر کا سامان ، ایک جوڑا کپڑے ، ٹارچ ، مگ ، ٹوپی ، پانی کی بوتل اور رستے میں کھانے پینے کی چیزیں ۔ باقی سامان یعنی ٹینٹ ، چولہا، کھانے کے ٹن ، گرم کپڑے ، زائد جوتے وغیرہ ڈفل بیگ میں بھر کر گدھے پر سوار کروا دیا گیا تھا ۔
بیس کیمپ بیاڑی
منور گلی (Manoor Gali)سر سبز و شاداب وادیٔ کاغان کا ایک جنت نظیر علاقہ ہے ۔ صاحب کی ٹریننگ ٹیم کے ساتھ ہم بھی یہاں تک چلے آئے تھے ۔ یہ آفر ہمیں اس شرط پر دی گئی تھی کہ ہماری تو نوکری ہے، آپ لوگ ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو اپنا بندو بست بالکل الگ اپنے بل بوتے پر کریں ۔’’ سرکار‘‘ سے یا ’’ سرکاری ‘‘ ٹیم سے کوئی تعلق اس امید پر نہ رکھیں کہ کوئی مدد مل سکے گی ۔ اتنے سخت چیلنج اور تنبیہہ کے باوجود ہم تیار ہو گئے تھے۔ وعدہ یہی تھا کہ ؎
کبھی کبھار اسے دیکھ لیں ، کہیں مل لیں
کے مصداق ، ہم توجہ کے طالب تو رہیں گے مگر توجہ بانٹیں گے نہیں ۔ حتیٰ الامکاناپنا معمول خود تر تیب دیں گے اور مسائل بھی خود ہی حل کریں گے ۔ البتہ ایک مستعد اور ماہر ٹریکر عمران کی خدمات حاصل کرلی گئی تھیں کہ وہ ہمارے ساتھ رہے اور حمزہ اور وہ مل کر پیش آمدہ مسائل سے نمٹتے رہیں۔
بیس کیمپ اس آخری مقام پر لگایا گیا تھا جہاں تک منور گلی کے اندر جیپ کا پتھریلا راستہ موجود ہے اور یہ جگہ مہاندری (وادیٔ کاغان) سے اوپر چڑھتے ہوئے کوئی تین گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔ بجلی گیس سے بے نیاز ’’ بیاڑی ‘‘ گائوںکے نام سے معروف اس دور افتادہ وادی میں سیاحوں کی آمد کا کوئی تصور نہیں ۔ بس کبھی کبھار مہم جو ٹیمیں یہاں سے گزرتی ہیں جو منور گلی کے اختتام پر واقع آنسو جھیل تک پہنچنے کی خواہش مند ہوتی ہیں۔
بیاڑی میں گائوں ختم ہوتا ہے تو ایک جانب فارسٹ والوں کی ایک مختصر سی ہٹ موجود ہے جس کے ارد گرد بہت سی صاف شدہ جگہ سر سبز گھاس سے بھری ہوئی ہے ۔ اس کے بالمقابل چوڑے راستے کے دوسری جانب چوکیدار کی ہٹ ہے جس کے سامنے بھی چھوٹا سا سبزہ زار ہے ۔ ٹیم کے کیمپ کے لیے فارسٹ ہٹ کا علاقہ منتخب کیا گیا تھا ۔ ہم نے چوکیدار کی ہٹ کے پاس خیمے لگا لیے ۔ یہاںاوپر سے آنے والاچشمے کا ٹھنڈا ٹھار پانی ندی کی صورت میں بہہ رہا تھا اور ہمارے خیموں کے پاس سے گزرتا ہؤا نیچے ذرا گہرائی میں بہتے ہوئے دریائےمَنُور میں جا گرتا تھا ۔ پاس ہی دن بھر گزارنے کے لیے ایک درخت کی چھائوں بھی میسر تھی ۔
گویا خیمہ لگانے کے لیے یہ مثالی جگہ تھی ۔ اگست ختم ہو رہا تھا مگر ارد گرد کے اونچے پہاڑوں پر ابھی تک برف تھی ۔
دھوپ سے دوستی
چھ شب و روز کے اس قیام میں سے ایک رات ہمیں ایڈوانس کیمپ میں بسر کرنی تھی ۔ اور آج اسی کے لیے روانگی کی تیاری ہو رہی تھی ۔ خیمے اتار کر پیک کیے ، چھوڑنے والا سامان چوکیدار کے کمرے میں محفوظ کروایا اور گیارہ بجے کی تیز دھوپ میں ہم نے اس پیدل مہم جوئی کا آغاز کیا ۔
یہاں دن اور رات کے درجہ حرارت میں بے حد فرق ہے ۔ سورج چھپتے ہی فوراً خود کو سر سے پائوں تک گرم کپڑوں سے ڈھانپنا پڑتا۔ لیکن صبح کی پہلی کرن پہنچتے ہی سب کچھ اتر جاتا اور ہلکی سی پتلی قمیص ہی کافی ہوتی ہے ۔پہاڑی علاقوں میں دھوپ بے حد تیز ہوتی ہے ۔ ایک تو بلندی سورج کے نزدیک تر کر دیتی ہے ۔ پھر فضا بےحدصاف شفاف ہے ۔ سورج کی کرنوں کے راستے میں زہریلا دھواں اور گرد حائل نہیں ۔ بارشوں کی کثرت سے ہر وقت فضا دھلی دھلی رہتی ہے ۔ آپ لاکھ سن بلاک لگا کر پھریں ، کیمپنگ کے دوران اس دھوپ سے بچائو ، سمجھ لیں کہ ممکن ہی نہیں ۔ دھوپ کے ساتھ I Love you just the way you areوالا سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ لہٰذا چار دن اس دھوپ میں گزارنے اور ندی کے برفیلے پانی میں منہ ہاتھ دھونے کا نتیجہ اب سب کے چہروں پر ظاہر ہو رہا تھا ۔ دو سالہ اشہب جس نے گھوڑے پر بیٹھنے کی نسبت عمران کے کندھوں پر سوار ہونے کو ترجیح دی تھی ، موسم سے سب سے زیادہ متاثر نظر آ رہا تھا ۔ وہ تو جنگل میں جب سے آیا تھا ، یوں گھومتا پھرتا تھا جیسے اسی دنیا کا باسی ہو۔
فارمیشن یہ تھی کہ سب سے آگے اشہب کو اٹھائے ہوئے عمران تھا۔ اس کے پیچھے گھوڑا ، جس پر سیاف اور غازی باری سے سوار ہوتے تھے۔ اس کے بعد سامان والا گدھا ، پھر میں اور آخر میں حمزہ… سامان سے بھر ا بیگ اٹھائے ، ہیٹ اور لانگ شوز پہنے کوئی ماہر ٹریکر دکھائی دے رہا تھا۔
دوسری چڑھائی کے بعد ایک کھلی وادی میں پہنچے۔کنڈورا گائوں کے بعد اب یہ بگنن تھا ۔ چند ایک مقامی گھروں سے خواتین اور بچے نکل کر ہمیں حیرت سے دیکھنے لگے ۔ پیاس کی شدت نے بے حال کر رکھا تھا ۔ سب کی بوتلیں خالی ہو چکی تھیں ۔ یہاں وادی کے بیچوں بیچ چھوٹا سا چشمہ بہہ رہا تھا جس کا صاف ٹھنڈا پانی پیا اور بوتلوں میں بھرا۔
گدھا کہیں کا !
سفر کی طوالت اور متوقع تھکن کے خیال سے چائے کا سامان اور کچھ سنیکس باندھ کر سامان میں سب سے اوپر رکھے تھے کہ رستے میں رک کر ذرا تازہ دم ہو لیں گے ۔ اب یہاں جو ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے سکون دیا تو ہم نے یہیں ندی کے پاس ڈیرہ ڈال لیا اور لگے اپنے گدھے کی تلاش میں نظریں دوڑانے ۔ گھوڑے والا تو ساتھ ہی تھا مگراعجاز اور اس کے گدھے کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔’’ بٹ ‘‘ سے پوچھا تو اس نے کمال بے نیازی سے بتایا کہ ہم تو رکتے ہوئے آئے ہیں ، جبکہ وہ تو ہم سے بہت آگے چلا گیا تھا۔
سامنے وہ پہاڑ تھا جس پر ابھی ہمیں چڑھنا تھا ۔ کچا زگ زیگ راستہ اس کی چوٹی تک جا رہا تھا ۔ آدھے راستے تک چند سامان والے گدھے اور ان کے مالک پہنچے ہوئے تھے ۔ عمران نے پوری جان لگا کر آواز دی ۔ جواباً پہاڑوں سے ٹکراتی ہوئی آواز آئی کہ اعجاز ان میں نہیں ہے ۔ یعنی وہ اور آگے ہے ۔ گویا چائے نہیں بن سکتی تھی۔
جو ٹھہرے ذرا …
’’ امی ! ابھی اور کتنا دور ہے ؟‘‘ غازی پوچھ رہا تھا۔
’’ بس میرا خیال ہے اس سے اگلا پہاڑ کوہ قاف ہو گا ۔ کیوں عمران ؟‘‘ میں نے اندازہ لگایا ۔
’’ نہیں جی !‘‘ عمران مسکرایا ’’ ویسے تھوڑا ہی رہ گیا ہے ‘‘۔
پھر بڑے اطمینان سے وضاحت کرنے لگا ۔
’’ یہ جو سامنے نظر آ رہی ہے ، اس چڑھائی سے جب آپ دوسری طرف اتریں گے تو ایک بہت کھلی سی وادی آئے گی ۔ اس میں سے گزرنے کے بعد ایک بہت بڑا گلیشیر ہوگا ۔ جب اسے پار کریں گے تو
آگے ایک پہاڑ ہے … ذرا چھوٹا … جس پر چڑھ کر جب آپ اتریں گے تو ایک ذرا بڑا … ‘‘
آگے سننے کی مجھ میں تاب نہ تھی ۔’’ چلو بھئی اٹھ جائو سب لوگ… یہاں تو’’ چلنا چلنا مدام چلنا ‘‘ والا معاملہ ہے ۔ ٹیم کو تو راستے میں کھانا پیش کر دیا جائے گا ۔ ہمیں پہنچ کر کھانے کا بھی بندو بست کرنا ہے ‘‘۔
اعجاز کو دعائیں دے کر چند بسکٹ وغیرہ کھائے اور پھر سفر آغاز کیا ۔ اگلی چڑھائی ایسی جان لیوا تھی کہ جسم کی ایک ایک بافت فریاد کرنے لگی۔ پھر وہ مقام بھی آیا کہ ؎
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
قدم راستوں ، منزلوں سے بےنیاز ہو گئے ۔ جسم درد کے احساس سے ماورا ہو گئے۔ اورپھر … کوہ قاف آگیا ۔
ارد گرد چند ایک مقامی گھر تھے ۔ سب عورتیں باہر نکل آئی تھیں ۔ ایک آگے تک آئی اور سلام کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔ کہنے لگی ’’ آپ کے ساتھ کھوتی والا میرا بچہ ہے ۔‘‘
’’ اچھا تو اعجاز تمہارا بچہ ہے !‘‘ میں بچوں کی طرف دیکھ کر ہنسی ۔ وہ ابھی تک اعجاز سے ناراض تھے جو بمشکل پچھلے موڑ پر ہمارے ہاتھ آیا تھا اور ہم سے خاصی جھاڑ کھا چکا تھا ۔
سوفٹ نیچے
یہاں ہمیں کیمپ لگانے کے لیے علاقہ منتخب کرنا تھا ۔ آدھا پہاڑ تو سروے کرنے میں ہی طے ہو گیا ۔ دانے دانے پر کھانے والے کی مہر تو سنا تھا ، مگر اب پتہ چلا کہ خانہ بدوشوں کے لیے گز گز پر ٹھہرنے والے کی بھی مہر ہوتی ہے ۔ یہاں یہ اعتراض وہاں وہ مسئلہ ۔ بالآخر ایک ڈھلان پسند آگئی جہاںصرف یہ مشکل تھی کہ دریا کوئی سوفٹ نیچے جا کر آتا تھا ۔ یعنی ہر بار ہاتھ دھونے کے لیے سوفٹ نیچے … پلیٹ دھونے کے لیے … چائے بنانے کے لیے … پھر جانا بھی اتنا مسئلہ نہیں تھا جتنا کہ واپس آنا۔ ٹانگوں میں جان ختم ہو چکی تھی ۔ ارد گرد تھوک کے حساب سے مقامی بچے ہمیں ’’ دیکھنے کی چیز ‘‘ سمجھ کر بار بار دیکھنے بلکہ دیکھے چلے جانے کے لیے اکٹھے ہو گئے تھے ۔انگلیاں منہ میں ، بڑی بڑی آنکھوں میں ہرنوں جیسی وحشت اور ہونٹوں پر چپ کی مہر … ان میں سے دو تین کو پاس بلا کر کین پکڑایا کہ دریا سے پانی بھر لائو ۔ پھر سامان گدھے پر سے اتروایا ۔ حمزہ اور عمران ٹینٹ کھول کر کیل ٹھونکنے لگے ۔ اشہب پاس سے گزرنے والے بکریوں کے ریوڑ میں شامل ہونے کی پوری کوشش کررہا تھا مگر بکریاں اسے ’’ غریب‘‘ جان کر بھگا دیتی تھیں ۔
موسم کی مہمان نوازی
لگتا تھا کہ دو اونچے پہاڑوں کے درمیان اس تنگ سی گلی میں سورج تھوڑی دیر کے لیے ہی نکلتا ہے ۔ کیونکہ چار بجے ہی دھوپ غائب ہو گئی اور یک لخت احساس ہؤا کہ برف پوش چوٹیوں میں گھری دس ہزار فٹ پر واقع یہ جگہ شدید ٹھنڈی ہے۔ گرم کپڑوں کا بیگ کھولا اور سب سے پہلے بھاگتے ہوئے اشہب کو قابو کیا جس کے ہاتھ پائوں اب تک برف ہو چکے تھے ۔ سب کو گرم کپڑوں سے ڈھانپنے کے بعد کچن کا سامان نکالا ۔ کھانا گرم کر کے ہم سب کھانے میں مصروف تھے کہ ٹریننگ کی بقایا ٹیم بھی پہنچ گئی ۔ ابھی سب لوگوںنے بمشکل خیمے نصب کر کے سانس درست کیے تھے کہ شدید تیز برفانی ہوا چلنے لگی ۔ ساتھ ہی طوفانی بارش کا آغاز ہو گیا ۔ میں اس وقت چائے کا کپ ہاتھ میں لیے چھوٹے تینوں بچوں کے ساتھ کمر سیدھی کرنے لیٹی ہی تھی ۔ ہوا اتنی شدید تھی کہ ہمارا خیمہ ہمارے اوپر ہی دہرا ہونے لگا ۔ بیچارا استوائی خیمہ اتنی شدید سردی اور ہوا برداشت کرنے میں ناکام ہو رہا تھا ۔ اپنے پورے گرم کپڑوں سمیت ہم سلیپنگ بیگوں میں دبکے ہوئے تھے ۔ شب بھر کے لیے تو ہم آئے تھے یہاں … کیا خبر تھی کہ طوفان منتظر ہے ۔
باہر سورج غروب ہو نے کا وقت تھا ۔ خیمے سے باہر نکلنے کا تو اب سوال نہیں تھا ۔ لہٰذا بچوں کو نمازیں پڑھ کر سو جانے کے لیے کہا ۔
ننھا سا خیمہ
حمزہ کے ذریعے پیغام ملا کہ ٹیم کا ایک خیمہ ٹپکنے سے نا کار ہ ہو گیا ہے ، پانچ چھ لوگوں کو یہاں سونے کی جگہ چاہیے ۔ اس کی بجائے وہ ہمیں دو افراد کا ایک چھوٹا سا خیمہ دے رہے تھے ۔ میں اور اشہب وہاں منتقل ہو گئے ۔ کے ٹو کی بلندیوں کے لیے بنا ہوا یہ ننھا سا خیمہ ایک حیرت انگیز
چیز تھی ۔ باہر تقریباً زیر و ڈگری درجہ حرارت کے باوجود ہم اس کے اندر ایک ایک ہلکا سا سویٹر پہنے بیٹھے تھے ۔ اتنی زبر دست طوفانی ہوا کا بھی اس پر کوئی اثر نظر نہیںرہا تھا ۔
بارش ابھی تک جاری تھی ۔ باہر سے کسی کے پکارنے کی آواز آئی ۔ جھانک کر دیکھا تو برستی بارش اور گہرے ہوتے اندھیرے میں ایک بچہ کھڑا تھا ۔ ہاتھ میں دودھ سے بھری ہوئی چھوٹی سی بوتل …
’’ یہ لے لو … بچے کے لیے !‘‘
صاحب کو ذرا تامل تھا مگر میں نے شکر یہ کہہ کر لے لی کہ خالص دودھ تو سوغات ہے ۔ کیا ہرج ہے، ابال کر پی لیں گے ۔ رات بھر باہر رہ جائے گا ، اللہ میاں کا فرج ہر طرف چالو ہے ۔
دن بھر کے تھکے ہوئے ہم نجانے کب گہری نیند سو گئے تھے ۔
ایک ماورائی منظر
رات کا شاید دوسرا پہر تھا ۔ عجیب و غریب خواب دیکھتے ہوئے یکایک آنکھ کھل گئی ۔ دم گھٹتا ہؤا محسوس ہوا۔ میں یکا یک اٹھ بیٹھی ۔ اندھیرے میں ٹٹول کر جیکٹ اٹھائی اور خیمے کی زپ کھول کر باہر نکل آئی ۔ جیکٹ چڑھاتے ہوئے زور زور سے سانس لیے ۔ اس سے پہلے کبھی اتنے تنگ خیمے میں نہیں سوئی تھی ۔ شایدClaustrophobia( بند جگہ سے خوف ) کا اثر تھا ۔ ورنہ High altitudeکے ایسے خیمے تو باقاعدہ عمل ِ تنفس کرتے ہیں ۔ اشہب کی فکر ہوئی لیکن دیکھا تو وہ اطمینان سے سو رہا تھا ۔
ذرا حواس بحال ہوئے تو کیا دیکھتی ہوں کہ ساری وادی چاندنی میں نہائی ہوئی ہے ۔ سر اٹھایا تو آسمان پر بائیس تئیس تاریخ کا آدھا چاند ایک طاقتور بلب کی طرح روشن تھا اور یوں نزدیک جیسے ہاتھ بڑھانے پر گرفت میں آجائے گا ۔ بارش نجانے کب کی تھم گئی تھی اور ستاروں سے اٹاکٹ بھرا ہؤا سیاہی مائل نیلا آسمان شیشے کی طرح چمک رہا تھا ۔ اتنی روشنی تھی کہ ارد گرد کی ہر چیز صاف دکھائی دے رہی ۔تھی فضا میں شدید ٹھنڈک اور گہری خاموشی … ایک عجیب ماورائی سا احساس تھا ، جس میں نرمی، جمال ، ہیبت اور رعب بیک وقت اکٹھے ہو گئے تھے ۔ نجانے کیوں لگ رہا تھا کہ یہ تخلیق کائنات کی پہلی رات ہے …ہر چیز نئی ، ان چھوئی ، پر ہیبت اور عظیم ! ہم دونوں وہیں سحر زدہ ، تصویر حیرت بنے کھڑے رہے۔ منظر سے ہٹنے کو دل نہ چاہتا تھا مگر شدید سردی نے پسپا ہو کر اندر گھسنے پر مجبور کردیا ۔
آنسو جھیل کے نواح میں
صبح دیکھا کہ ارد گرد کی چوٹیوں پر رات بھر میں تازہ برفباری ہوئی ہے ۔ ہمارے سامنے ترتیب میں دو پہاڑ چھوڑ کر تیسرے کے نیچے کہیں آنسو جھیل واقع تھی ۔ یہ نام اس کی شکل کے باعث دیا گیا ہے جو بالکل آنسو کے قطرے جیسی ہے ۔ کہتے ہیں کہ انتہائی گہرائی میں واقع اس جھیل کو صرف بلندی سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس کے کناروں کو چھونا ممکن نہیں۔
آنسو جھیل سے پہاڑوں میں مزید آگے کو نکل جائیں تو آپ ناران کی مشہور جھیل سیف الملوک تک پہنچ جاتے ہیں ۔ سیف الملوک کے ایک طرف ناران ہے تو دوسری طرف پہاڑوں کے پار وادیٔ نیلم کا سلسلہ ہے ۔ جبکہ ناران کے ساتھ دریائے کُنہار کے پہاڑی سلسلے کو پار کریں تو شاہراہ قراقرم آجاتی ہے ۔نقشہ دیکھیں تو یہ تین عظیم پہاڑی سلسلے کئی ہزار میل تک تقریباً ساتھ ساتھ متوازی چلتے ہیں … وادیٔ نیلم ، وادیٔ کاغان اور شاہراہ قراقرم ( دریائے سندھ) جس پر کوہستان اور شمالی علاقے ہیں ۔
ہمارے اٹھنے تک کئی بچے دوبارہ جمع ہو چکے تھے ۔ میں نے ان کو لکڑیاں جمع کر کے آگ سلگانے کے لیے کہہ دیا تاکہ بچوں کے وضو کے لیے تھوڑا سا پانی گرم ہو سکے ۔ اس جگہ دریا کا پانی چند قدم دور براہ راست ایک گلیشیر سے نکل کر آ رہا تھا اس لیے باقاعدہ زیرو ڈگری کا تھا ۔
صبح خیمے سے نکلتے ہی اس ننھے سے بچے کو نجانے کب سے اپنا منتظر پایا ، جو گزشتہ رات ہمیں دودھ کی بوتل دے گیا تھا ۔
’’ بچے ! کیا بات ہے ؟‘‘ ہمارا گمان تھا کہ شاید وہ دودھ کی قیمت یا بدلے میں کوئی انعام وغیرہ چاہتا ہے ۔
’’ بوتل چاہیے‘‘۔ وہ بولا ۔ منرل واٹر کی یہ چھوٹی سی خستہ بوتل جسے ہم کوڑے میں پھینک دیتے ہیں ، اس کے لیےوہ زیادہ اہم تھی ۔ چلتے
ہوئے میں نے دودھ سمیت وہ بوتل اسے واپس کردی کیونکہ چولہا کچھ گڑبڑ کررہا تھا ۔ ناشتہ ہی بمشکل بنا تھا ، اس دودھ کو کون ابالتا ۔
قدم قدم پر اندازہ ہؤا کہ یہاں لوگ ضروریات زندگی کے لیے ترستے ہیں ۔ کھانے کا خالی ٹن بھی بچے ہم سے مانگتے تھے کہ یہ ہمارے کام آئے گا ۔ ذرائع رسل و رسائل کی کمی نے ہر اس چیز کا حصول ان کے لیے مشکل بنا دیا ہے جو یہاں پیدا نہیں ہوتی۔
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے !
یہاں آکر شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں زندگی پوری طرح فطرت کے حوالے ہے۔ مظاہر قدرت ان کی زندگیوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی زندگی کے دھارے کا رخ متعین کرتے ہیں ۔ اکتوبر میں برفیں پڑ جائیں گی تو یہ یہاں سے نچلے علاقوں کی طرف کوچ کر جائیں گے، ڈھورڈنگر سمیت ۔ چھ ماہ گزار کر واپس آئیں گے تو برفباری کی تباہیاں بھگتیں گے۔ گھروں کو از سر نو تعمیر کریں گے ، ضرورت کی چیزیں دوبارہ بنائیں گے ، غلے کا بندو بست کریں گے اور صحیح معنوں میں جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے اور کھائیں گے ورنہ بھوکے رہیں گے ۔ اس کے باوجود انہیں اپنے علاقے سے محبت ہے ۔ یہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ ان کی محبت کی بنا پر قدرت بھی ان سے محبت کرتی ہے ۔ وافر پانی ، جانوروں کے لیے ہر طرف چارہ ، بے تحاشا ایندھن ، لکڑی ، فصلیں بونے کے لیے وسیع سبزہ زار… ہم جیسے لوگوں کو ان کی زندگی کتنی مجبور ، کتنی عجیب لگتی ہے ۔ گھروں میں بجلی گیس، پانی ، سیوریج کے بغیر کیسے رہا جا سکتا ہے بھلا ! اور پھر اتنے تیز رفتار دور میں گھوڑوں اور گدھوں پر نقل و حرکت … لیکن یہ لوگ… بہتی ندیوں میں نہانے دھونے والے ، تازہ مکھن دودھ کھانے پینے والے ، سواری کے بغیر پوری پوری وادی گھوم لینے والے ، لا محدود لکڑی کے خزانے جلا کر گھر گرم کرنے والے … جن کے لیے بیاڑی سے آنسو جھیل تک آنا جانا ایسا ہی ہے جیسے ٹھوکر نیاز بیگ سے نیو کیمپس کا پل ۔ ان کے لیے شاید یہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ ہم شہروں میں کس طرح رہ پاتے ہیں ۔ جہاں پانی کی ایک پائپ ٹوٹ جائے ، ذرا سی گیس لیک کرنے لگے ، سیوریج بند ہو جائے ، ٹیلیفون کٹ جائے ، گاڑی خراب ہو جائے اور سب سے بڑھ کر… بجلی چلی جائے تو بس زندگی جیسے مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے ۔ بے شمار سہولیات کے ساتھ ہم کیسے مجبور ، کتنے بے بس لوگ ہیں !!
واپسی کا سفر شروع کرتے ہوئے سب نے اپنے اپنے سامان میں سے بچے ہوئے بسکٹ،چاکلیٹ اور سویٹس وغیرہ نکال کر جیبوں میں بھر لیں ۔ رستے میں ملنے والے بچوں کو دینے کے لیے ہمارے پاس اور کوئی تحفہ نہ تھا ۔
جیتے گا بھائی … !
ہمیں لے جانے کے لیے گھوڑوں اور گدھوں والے علی الصبح سے آکر بیٹھے ہوئے تھے ۔ آج انہیں جلدی تھی ۔ پچیس اگست یہاں بلدیاتی انتخابات کی تاریخ تھی ۔ ایک ’’ جمہوری ملک‘‘ کے باشعور عوام کی طرح انہیں بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی بہت فکر تھی ۔ یہ سب لوگ موجود ہ ناظم کے طرف دار تھے ۔ ہمیں جو جیپ مہاندری سے بیاڑی تک لائی تھی اس پر بھی ناظم کے نشان چاند کی چاکنگ کی گئی تھی ۔ ڈرائیور سے ہم نے پوچھا تھا…
’’ کوئی کام وام بھی کیا ہے اس نے یا بس ایسے ہی …؟‘‘
’’ بہت کام کیا ہے صاحب… اور اس کی حمایت بھی بہت ہے ۔ اسلام پسند آدمی ہے ‘‘۔ پھر وہ کام گنوانے لگا ۔
دوپہرکو بیس کیمپ بیاڑی پہنچے تو مقامی لوگوں میں بڑی چہل پہل نظر آئی ۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ شاید انتخابات قومی پیمانے پر ہماری واحد تفریح ہے ۔ نتائج جیسے بھی نکلیں ، مرگ انبوہ جشنے دارو کے مصداق ہم ہر صور تحال میں خوش ہی رہتے ہیں ۔ شاید اس لیے کہ یہ خوشی کبھی کبھار میسر آنی ہوتی ہے۔
سب لوگ نہائے دھوئے صاف ستھرے کپڑے پہنے اتراتے پھررہے تھے ۔ کچھ ووٹ ڈال آئے تھے ، کچھ کو ابھی جانا تھا۔ انہی میں بابا فقیر بھی تھا ۔
بابا فقیر
قبر میں ٹانگیں لٹکائے اور دنیا کو دانتوں سے پکڑے ، بابا فقیر
یہاں ہمارا منتظر تھا ۔ گیارہ سال قبل ہم اس ریسٹ ہائوس میں آکر ٹھہرے تھے ۔ تب یہ سرکاری چوکیدار تھا ۔ اس بے سرو سامان چار دیواری بنام ریسٹ ہائوس میں یہ واجبات کی لمبی سی فہرست لے کر ہم سے وصول کرنے آگیا تھا اور ٹھیک ٹھاک جھگڑا ڈالا تھا ۔ اب اگرچہ ریٹائر ہو کر اپنے بیٹے کو اپنی جگہ پر لگوا چکا ہے ، مگر اس بار محسوس ہؤا کہ تب سے اب تک دنیا سے اس کی محبت روزانہ کے حساب سے بڑھی تھی ۔ ریسٹ ہائوس کے علاقے کو استعمال کرنے کے لیے ہمارے پاس اس بار بھی فارسٹ کا پرمٹ موجود تھا ، جس کی پیشگی ادائیگی ہوچکی تھی ۔ مگر اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ ہم سے وہاں قیام کے دوران ایک ایک چیز کے پیسے وصول کر لے ۔ اور اگر اس کا بس چلتا ہوتا ، تو وہ ہمیں آخری بل کچھ یوں بنا کر پیش کرتا :
کھلی فضا میں فی سانس… دور وپے ، ندی کافی چلو پانی… پانچ روپے ، جنگل میںسے اکٹھی کی گئی کیمپ فائر کی لکڑی فی پیس… آٹھ روپے ، ہٹ کے سائے میں بیٹھے کافی لمحہ … ایک روپیہ ، کمرے میں سامان رکھنے کا کرایہ ( جس کو موٹا سا چوہا اطمینان سے کترتا رہا تھا ) فی گھنٹہ … بیس روپے ، لیٹرین کی کھدائی فی ضرب کدال… پانچ روپے ، خیمہ لگانے کی جگہ فی انچ … پچاس روپے … علیٰ ہذا القیاس!
روٹی پکانے کے لیے ہم گندھا ہؤا آٹا دیتے اور ہاتھ دھو کر روٹی پکانے کی درخواست کرتے ، جس پر اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ ہمیں تو چھوٹے بچوں کی صحت کا خیال تھا ، جن میں سے کوئی بیمار پڑ جاتا تو اچھی بھلی سیر برباد ہو جاتی … مگر بابے کی محدود سمجھ بوجھ نے اسے انا کا مسئلہ بنا لیا تھا ۔ ہر روز ایک بار ہم میں سے کسی کو یہ مہم سر کرنی ہوتی اور ہم ایک دوسرے پر ڈالتے رہتے ۔
جاتے جاتے دل چاہا ، جیپ میں سے سر نکال کر کہہ دوں …’’ بابا ! ہاتھ دھوتے رہا کیجیے … صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے ۔‘‘
اگلے دن کوچ کی تیاری تھی ۔ مہمانداری سے جیپ آچکی تھی وہی چاند کے نشان والی ۔ گزشتہ شام کو معلوم ہؤا تھا کہ ناظم ہار گیا ہے اورحکومتی پارٹی جیت گئی ہے ۔
رستے میں جیپ والا ہم سے پوچھ رہا تھا ’’ کیسا لگا یہ علاقہ صاحب ؟‘‘
’’ بہت خوب صورت ! واپس جانے کو جی نہیں چاہتا ‘‘۔
’’ ہمارا علاقہ زیادہ خوبصورت ہے جی!‘‘ وہ بڑے مان سے کہہ رہا تھا ۔’’ ناران تو لوگ یونہی جاتے ہیں…..دریا کی وجہ سے ‘‘۔
پھر ہم نے کریدا ’’ تم تو کہہ رہے تھے بڑی حمایت ہے ۔ پھر تمہارا بندہ کیسے ہار گیا ؟‘‘ ’’ بڑی دھاندلی ہوئی ہے جی !‘‘ وہ ہنس کر بولا اور پھر نہیں بولا۔
منورگلی کا آدھا چاند….. وہاں اوپر تو ویسے ہی تابندہ ہوگا ، مگر یہاں ڈوب گیا ۔
ناران سے جل کھڈ
آٹھ برس پہلے ہم وادیٔ نیلم سے نو تعمیر شدہ کچے راستے پر جیپوں کے ذریعے ناران پہنچے تو ۔ اس بار معلوم ہؤا کہ ناران سے جل کھڈ تک پکی سڑک بن چکی ہے ۔’’ ناران سے جل کھڈ….. کو لتار کی پکی سڑک ؟….. نا قابل یقین !‘‘ ہمیں اپنے کانوں پر اعتبار نہیں آیا تھا ۔ پھر ناران میں قیام کے دوران ایک روز ہم بے اختیار اس طرف چل دیے۔ بہترین چوڑی سڑک جس پر ابھی تک کہیں کہیں کام ہو رہا تھا ، جہاں مقامی لوگوں کے لیے بے انتہا سہولت لے کر آئی تھی ، وہیں سیر و سیاحت کے شوقین لوگوں کو نئے امکانات دکھا رہی تھی ۔ ہوٹل وغیرہ قائم ہونے میں تو ابھی وقت لگے گا ۔ مگر فطرت کے اس بے بہا حسن تک ہر ایک کی رسائی ضرور ممکن ہو گئی ہے۔
کیا خبر اگلی بار آئیں تو اپنی کار میں نوری نار ٹا پ سے ہوتے ہوئے شاردا اور کیل میں جا اتریں !
٭ ٭ ٭