’’کیا ہؤا تم کو۔۔۔ ۔ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئیں؟‘‘ عمارہ نے ڈانٹتے ہوئے پوچھا۔
’’وہ امی ! میں یہ کپڑے نہیں پہنوں گی۔‘‘
’’یا اللہ اب کیا خناس سمایا ہے تم میں، کیوں نہیں پہنوگی؟ بابا تیار ہوچکے ہیں، دیر ہو رہی ہے، مجھے باتیں سنواؤگی، مسئلہ کیا ہے۔۔۔۔ تمہاری ہی تو پسند کا کلر ہے؟‘‘ جھنجھلائی ہوئی عمارہ نے ہاتھ پکڑ کر ہالہ کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’فوراً یہ کپڑے پہنو اور تیار ہوجائو، میں یہیں کھڑی ہوں۔‘‘
’’جب میں نے کہہ دیا کہ میرے لیے بغیر آستین کی قمیص نہ سلوایا کریں مجھے نہیں پہننی تو کیوں سلوائی آپ نے، نہیں جانا مجھے۔۔۔۔ آپ لوگ جائیں۔‘‘ بارہ سالہ ہالہ نے ضدی لہجے میں کہا۔
ارے تو تم کو کس کے پاس چھوڑ کر جاؤں گی، اور پھر وہاں تمہاری دادی کو کیا جواب دوں گی کہ کیوں نہیں لائیں بچی کو، کس کے پاس چھوڑ آئی ہو، چاچا کے گھر کی شادی اور تمہارا یہ عین وقت پر نیا ڈرامہ۔ اب سیدھی طرح پانچ منٹ میں تیار ہوکر باہر آجاؤ ورنہ تم جانتی ہو، میرا ہاتھ اٹھ جائے گا تم پر، جان عذاب میں آگئی، پینٹ نہیں پہننی، ٹی شرٹ نہیں پہنو گی، اب یہ اسٹائلش قمیص شلوار سلوایا تو اس میں بھی کیڑے نکالنے لگیں۔‘‘ وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔
’’کیا ہؤا بھئی! ابھی تک نکلنے کے آثار نہیں، اماں کا دو بار فون آچکا ہے کہ ابھی تک وہیں بیٹھے ہو، بھائی کے گھر کا کام ہے ساتھ ریسپشن پر کھڑا ہونا چاہیے نہ کہ مہمانوں کی طرح عین وقت پر آؤ گے؟‘‘
’’میں تو تیار ہوں آپ لاک لگانا شروع کریں، یہ ہالہ نے دیر لگادی، بس پانچ منٹ میں باہر آتی ہوں۔‘‘ دھیمے لہجے میں عمارہ نے جواب دیا وہ یاسر کے غصے سے اچھی طرح واقف تھی، اب عین وقت پر موڈ خراب کرنا نہیں چاہ رہی تھی۔
یاسر کے باہر جاتے ہی اس نے ہالہ کو گھورا جو کئی بار کا گھسا پٹا جوڑا پہنے باہر آچکی تھی، اور اب لمبے بالوں کی پونی باندھ رہی تھی۔
’’تو تم نہیں مانو گی؟ اپنی ہی ضد کی نا، سب لوگ کیا کہیں گے، یہی سوٹ ہے تمہارے پاس اتنا خوبصورت اسٹائلش سوٹ چھوڑ کر سو بار کا پہنا ہؤا یہی لباس ہے تمہارے پاس، خوب بے عزت کرواؤ۔‘‘
’’آجاؤ بھئی! پانچ منٹ کو گزرے بھی پانچ منٹ ہوچکے ہیں۔‘‘
’’افوہ چلو بھئی! رہو فقیرنی۔۔۔۔ تم سے تو بعد میں نمٹوں گی۔‘‘
الٹے سیدھے بال بناکر عمارہ باہر آچکی تھی، لیکن اس کو اب تقریب کی ٹینشن شروع ہوچکی تھی، لوگ کیا کہیں گے، ہالہ کا حلیہ دیکھ دیکھ کر وہ کڑھ رہی تھی اور وہی ہؤا جس کا ڈر تھا پہلا فقرہ یہی سننے کو ملا تھا۔
’’کیا ہؤا ہالہ کیا سوتیلی ہے جو اس کے لیے نئے کپڑے نہیں بنواتیں یا سب اپنے اور اپنے لاڈلے بیٹوں پر ہی خرچ کر ڈالتی ہو؟‘‘ عمارہ کے بہترین تراش خراش کے سوٹ کو دیکھتے ہوئے اس کی دیورانی نے فقرہ کسا۔
’’ارے نہیں، تم جانتی ہو نا ہالہ کا مزاج۔۔۔۔ میڈم کو اب آستین والے کپڑے چاہئیں اس چکر میں نیا سوٹ ریجکٹ کر آئی ہیں۔‘‘
’’خیریت ایکا ایکی کیا ہؤا، اب تک تو پہنتی ہی آئی تھی نا؟‘‘
’’ہاں وہ دراصل اب اس کو آپا فوبیا ہوگیا ہے جو انھوں نے کہہ دیا گویا اس کے لیے پتھر پہ لکیر بن گیا۔‘‘
’’آپا فوبیا۔۔۔۔؟ کون آپا۔۔۔۔؟ ارے وہ تو نہیں جو تمہارے پڑوس میں رہتی ہیں، ان کی تو تم بڑی تعریفیں کرتی آئی تھیں، آپا
کے گھر چھوڑ چھوڑ کر آجاتی تھیں کہ مجھے تو بے فکری ہوگئی ہے، اتنی عمدہ شخصیت اور شفیق پڑوس ہے ہر طرح کا خیال رکھتی ہیں، کپڑے بدلوانا، کھانا کھلانا حتیٰ کہ ہوم ورک تک کروا دیتی ہیں مجھے حسد ہونے لگتا تھا کہ تمہارے بڑے عیش ہیں اور آج تم آپا ہی سے متنفر ہو رہی ہو؟‘‘
’’ہاں بھئی! اس میں کوئی شک نہیں اوپر تلے کے بچوں اور ہر کام کے لیے وقت کے پابند شوہر، پھر میری لیکچر والی جاب چل نہیں سکتی تھی اسی لیے آرام سے آپا کے پاس چھوڑ کر آجاتی تھی، معصب اور عمیر تو بہت تمیز دار ہیں، یاسر بھی بہت خوش ہیں کہ آپا نے تو اخلاقی طور پر بچوں کی عمدہ تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن یہ ہالہ۔۔۔۔ اس کو بڈھی روح بنادیا ہے آپا نے، ابھی عمر ہی کیا ہے، سیونتھ گریڈ کا امتحان دیا ہے، ابھی سے اس کے دل و دماغ میں ڈال دیا ہے، ایسے نہ بولو، ایسے نہ چلو، اس طرح نہ بیٹھو، لڑکی کو جسم ڈھانپنا چاہیے، میری جان مشکل میں کردی ہے۔ آئے دن محترمہ کا وعظ جاری رہتا ہے، ساری پینٹس، ٹی شرٹ پہننے سے انکار کردیا ہے، بالوں کی سٹائلنگ نہیں کرواتی، اتنا ٹینس کردیا ہے اس نے مجھے کہ کیا بتاؤں، مجھے تو گمان بھی نہیں تھا کہ وہ اس کو اتنا دقیانوسی بنا دیں گی‘‘ عمارہ اب روہانسی ہوچکی تھی۔
’’اوہو۔۔۔۔چلو ابھی کون سا اتنی بڑی ہوئی ہے، بس اب تم کو محنت کرنا پڑے گی، آپا کے حصار سے نکالو، وہاں بھیجنا بند کردو اس سے پہلے کہ دوسری آپا تیار ہوجائے، چلو آؤ مہمانوں کو دیکھتے ہیں۔‘‘
اور عمارہ نے پھر واقعی کمر باندھ لی تھی ہالہ کو سدھانے کی اور سب سے پہلا کام اس نے یہ کیا کہ ہالہ کو اسلام آباد اپنی بہن کے گھر بھیج دیا اور اس کام کے لیے اس کو جتنے پاپڑ بیلنے پڑے تھے اسی کا دل جانتا تھا۔ باپ، دادی اور خود ہالہ کو رضامند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، اس کے ساتھ ساتھ اپنی بہن کو سمجھانا….. لیکن وہ تو صرف اتنا سنتے ہی کہ ہالہ کو جدید دور کے تقاضوں سے روشناس کروانا ہے، پہننے اوڑھنے، سوسائٹی میں موو کرنے کے طریقے سکھانے ہیں ورنہ اس جیسی کو کوئی نہیں پوچھے گا نہ اچھی جگہ رشتہ ہوسکے گا، جھٹ تیار ہوگئیں۔ ایک تو ہالہ ان کی بھانجی اور دوسرا وہ خودرہنے سہنے میں جدت پسند تھیں۔
خالہ کے گھر کا رہن سہن، ان کے بچوں کا پہناوا، میڈیا کی چکا چوند، گلیمر، دوستیاں، باہر کی دلچسپیاں وہ نت نئی پارٹیز، باہر جانے آنے اور بازار گھومنے کی آزادی۔ ہالہ کے خیالات بدلتے دیر نہیں لگی۔
’’سو واٹ۔۔۔دین میں اتنی سختی تھوڑی ہے، ہر فرد کو دین کے معاملے میں آزادی ہے، مذہب ہر انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے، وہ نماز پڑھے نہ پڑھے کسی کو روک ٹوک نہیں کرنی چاہیے، آپ کی اپنی لائف ہے جو ایک ہی بار ملتی ہے جیسے چاہو گزار لو، کوئی کیا کرتا ہے، کیا نہیں کرنا چاہیے کسی بھی معاملے میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ اس قسم کے جملے اس کی زبان پر رہتے۔ اس کے ذہن سے اب آپا کی شبیہہ معدوم ہونے لگی تھی۔
اس کی آپا سے پہلی ملاقات چھ سال کی عمر میں ہوئی تھی جب وہ اپنی امی کی انگلی پکڑے ہاتھ میں سپارہ لیے ڈرتے جھجکتے اندر داخل ہوئی تھی۔ بڑے سے دالان میں بچھی سفید چاندنی پر مختلف عمر کے بچے ہل ہل کے سپارہ پڑھ رہے تھے اور آپا اونچے سے تخت پر بڑے سے سفید دوپٹے کو لپیٹے بچوں کو سبق دے رہی تھیں۔ اور چاہے ہالہ کو آپا سے اپنی کم عمری کی یہ ملاقات یاد بھی نہیں رہتی مگر جس طرح آپا نے اس کو دیکھتے ہی اٹھ کر والہانہ استقبال کیا تھا اور بہت شفقت سے اپنے گلے لگایا تھا اور تمام بچوں سے یہ کہہ کر تعارف کروایا تھا کہ آج سے یہ ننھی پری بھی آپ لوگوں کے ساتھ پڑھے گی اپنی چھوٹی بہن سے ملو اور اپنے پاس جگہ دو، تو سب ہی بچے اپنی جگہ چھوڑ کر اس کے لیے خالی کرنے لگے تھے اور وہ دل میں حیرت و خوشی لیے اپنے آپ کو بڑی شے سمجھنے لگی تھی اس کو اپنے لیے اہمیت دینا بہت اچھا لگا تھا اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ آپا دراصل اسی طرح ہر ایک کے لیے محبت و شفقت سے بھری ہستی تھیں۔ بے انتہا خوبصورت آپا اپنے اخلاق کی وجہ سے نہ صرف بڑوں میں بلکہ بچوں میں بھی بے حد ہر دلعزیز تھیں، جو ان سے ایک بار مل لیتا بار بار ملنے کی تمنا کرتا۔ ہالہ نے ان سے بہت کچھ سیکھا تھا جسے بھلانے میں خالہ کو بہت محنت لگانی پڑی۔
وہ جب اپنا اے لیول مکمل کرکے واپس اپنے گھر آئی تو عمارہ نے
اس کو دیکھ کر سکھ کا سانس لیا۔ اسکن ٹائٹ جینز، برائے نام آستین کی ٹاپ میں ملبوس ہالہ ان کی توقعات پر پوری اتر رہی تھی۔ یہ اور بات کہ ان کا یہ اطمینان چند دن ہی رہ سکا۔
’’کہاں رہ گئی تھیں بیٹا! موبائل بھی آف تھا، تمہاری سہیلیوں تک کو فون کر ڈالے میں نے، کہاں رہ گئی تھیں تم، زمانے کی کلاس ختم ہوچکی ہے۔‘‘
’’افوہ امی! کیا ہوگیا آپ کو۔۔۔۔ کیوں تھکایا آپ نے اپنے آپ کو۔۔۔۔ میں کوئی ننھی بچی تو نہیں ہوں۔ سی ویو کی طرف نکل گئے تھے ہم لوگ، اتنا مزہ آیا، اب وہاں سگنل ہی نہیں مل رہے تھے، جو آپ کو بتاتی۔‘‘
’’کس کے ساتھ گئی تھیں تم؟‘‘ عمارہ نے درشت لہجے میں پوچھا۔
’’اپنے دوستوں کے ساتھ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ ماتھے پر ابرو چڑھا کر اس نے بدلحاظی سے جواب دیا۔
’’کون سے دوست ہیں تمہارے جن کو میں نہیں جانتی؟‘‘
’’ارے مما! میرے کلاس فیلوز ہیں ظاہر ہے آپ ان سب کو کیسے جانیں گی اور جن سہیلیوں کی بات آپ کر رہی ہیں نا۔۔۔۔‘‘ وہ قہقہہ مار کر ہنسی۔
’’ارے وہ ڈرپوک بدھو ہیں، ہائے اللہ امی کو تو نہیں بتایا، ہم ایسے کیسے چلی جائیں، وہ بھی لڑکوں کے ساتھ توبہ۔۔۔۔!‘‘ اس نے کلاس فیلو فرح کی نقل اتارتے ہوئے کہا۔
’’تم صرف لڑکوں کے ہمراہ اکیلی چلی گئیں؟ تمہارے نزدیک اجازت لینا فضول ہے؟‘‘ دکھ اور تاسف عمارہ کے بے ربط جملے سے عیاں تھا۔
’’اکیلی لڑکوں کے ہمراہ۔۔۔۔‘‘ ہالہ پیٹ پکڑ کر ہنس رہی تھی۔
’’کیا لطیفہ سنادیا مما آپ نے۔ اکیلی، لڑکوں کے ہمراہ۔۔۔۔ ارے جب لڑکے ہمراہ تھے تو اکیلی کہاں ہوئی میں، اور وہ لڑکے میرے دوست ہیں، کلاس فیلوز ہیں، میں آدھا دن انھی کے ساتھ ہی تو رہتی ہوں۔‘‘
عمارہ خاموشی سے لب بھینچے اس کو تکنے لگی تھیں۔ برائے نام آستینوں کی ٹاپ، گھسی ہوئی جینز، کھلے بال، دوپٹہ ندارد، وہ بے حجابانہ کھڑی تھی۔ انھیں وہ وقت یاد آیا جب وہ ہالہ کو جدید دور کا لباس پہنانے پر بضد تھیں۔ لیکن ایسا تو نہیں چاہا تھا انھوں نے، تھوڑا بہت زمانے کے ساتھ چلنے کی خواہش ہی تو کی تھی۔مسلسل سوچنے سے ان کی کنپٹیاں دکھنے لگی تھیں۔
’’اتنی رات کو پورا دن غیر لڑکوں کے ساتھ گزار کر آئی ہے، اللہ میری بچی کی حفاظت کرنا۔‘‘ وہ دل ہی دل میں دعا کرنے لگی تھیں۔
٭…٭…٭
’’پوچھا ہالہ سے کل سارا دن کہاں، کس کے ساتھ تھی؟‘‘ یاسر کے استفسار پر عمارہ گڑبڑا گئی تھی۔
’’جی وہ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ سی ویو چلی گئی تھی۔‘‘
’’ماشا اللہ، جب سے اسلام آباد سے اپنا اے لیول مکمل کرکے آئی ہے رات گئے تک اس کے کچھ زیادہ ہی قدم باہر نہیں رہنے لگے۔۔۔۔؟ روزانہ نت نئی فرمائشیں کبھی میوزیکل شو، کبھی ٹریٹ کے نام پر ہوٹلنگ، کبھی تاش کی بازی، اور اب پورے پورے دن کی آؤٹنگ، یونیورسٹی میں کیا یہی کچھ کرنے کے لیے داخلہ لیا ہے۔۔۔۔آخر ہمارے کچھ خاندانی طور طریقے ہیں‘‘۔
اندر اندر پریشان تو وہ خود بھی تھیں۔ یاسر اپنا غبار نکال کر چلے گئے، عمارہ بیگم کو اورکچھ سمجھ نہ آئی توپریشانی میں جھٹ اسلام آباد فون ملادیا۔بہن سے کہنے لگیں۔
’’پتا نہیں کیا کیا دماغ میں خناس بھر کر بھیجا ہے اسے آپ نے۔‘‘
’’لو اب کیا ہوگیا، نہ سلام نہ دعا، ایک تو ملانی جی کو ماڈرن دنیا کے طریقے سکھا دیے اوپر سے ان کی باتیں بھی سنو۔‘‘ صائقہ کو اپنی بہن عمارہ پر غصہ آنے لگا۔
’’ہاں تو ماڈرن بنانے کے لیے کہا تھا، یہ تو نہیں کہا تھا کہ ادب لحاظ تمیز سب ہی ختم کر آئے۔‘‘
’’ایسا کیا ہوگیا جو مرچیں چبا رہی ہو؟‘‘
’’ارے۔۔۔۔کسی کی کچھ سنتی ہی نہیں ہے، جو ٹھان لیتی ہے وہی کر چھوڑتی ہے۔‘‘
’’تو یہ کون سی نئی بات ہے۔۔۔۔ یہ تو پہلے سے ہی ایسی ہے، بھول گئیں وہ شادی میں پرانے کپڑے پہن جانا، جب بھی تو یہ تمہاری ہر بات چٹکیوں میں اڑا دیا کرتی تھی وہ تو آپا کے پاس رہتے ہوئے اتنا ادب لحاظ تھا کہ تم کو یاسر بھائی کو منہ پر جواب نہیں دیتی تھی اور بہنا! میں نے تو بس اس کی سوسائٹی بدلی تھی، لیکن جو اس کی فطرت میں ضد و ہٹ دھرمی ہے وہ میرے پاس سال رہ کر تھوڑا ہی ختم ہوگی تم بات تو بتاؤ ہؤا کیا ہے؟‘‘
’’ابھی تو کچھ نہیں ہؤا، لیکن یہی حرکتیں رہیں تو انہونی ہوجانے کا ہی خوف ہے مجھے، کیا یہ وہاں بھی بوائے فرینڈز کے ساتھ رات گئے تک سڑکوں پر پھرتی تھی؟ کیسا تو اس کا حلیہ ہوتا ہے اور بغیر کسی لحاظ کے لڑکوں میں گھل مل جاتی ہے مجال ہے جو کسی نزاکت کا دھیان کرلے۔‘‘ بات کرتے کرتے عمارہ روہانسی ہوچکی تھیں۔
’’اچھا تو تم رو تو نہیں، لیکن میں نے تو اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی تھی یہ سب ہلا گلا پارٹیز ہائی سوسائٹی کے تقاضے ہی ہوتے ہیں، سچی بات ہے میرے تو صرف بیٹے ہی بیٹے ہیں بیٹی تو کوئی ہے نہیں اس لیے اتنی دور تک میری سوچ گئی بھی نہیں، میں نے تو اس کو ان چار سالوں میں ہتھیلی کا چھالا ہی بناکر رکھا، پکنک پارٹیز گھومنا گھمانا اس نے وہاں بھی زیادہ تر لڑکوں ہی سے دوستیاں پالی ہوئی تھیں، میرے گھر بھی لڑکے ہی ملے تو ظاہر ہے وہ کیا جانے نزاکتیں، خیر۔۔۔۔! میرا خیال ہے کہ تم اس کی شادی جلدی کردو، تب شاید کچھ بہتری آجائے، ذمے داری پڑے گی تو یہ الٹی سیدھی حرکتیں بھی کنٹرول ہوجائیں گی۔‘‘
بہن کا مشورہ عمارہ کو بھی پسند آگیا اور انھوں نے اندر ہی اندر رشتے کروانے والی کی خدمات بھی حاصل کرلیں، مگر جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ہالہ کے لیے مناسب رشتہ ڈھونڈنا بے حد مشکل کام ہے ۔کہیں گھر کا ماحول بہت سادہ ہوتا ، انہیں ہالہ کے مطابق نہ لگتا۔روایتی ماحول کے گھرانوں کو اس کا پہناوا، طور طریقے، اور راتوں کو دیر تک کلاس فیلوز کے ساتھ گھومنا اچھا نہ لگتا۔کہیںلوگ بہت تیز طرار لگتے اور کمائی مشکوک،ایک دو رشتے اس کے کالج کے لڑکوں کے تھے، مگر ایسے ہی آوارہ سے…نہ فیملی ڈھنگ کی نہ کچھ آگے پیچھے کا پتہ۔عمارہ سناٹے میں آگئی تھی، اس کے ذہن میں وہ وقت گھومنے لگا جب اس نے اچھا رشتہ نہ ملنے کے خوف سے اسے آپا جی سے دور کردیا تھا کہ آج کل کے لڑکے ماڈرن لڑکیوں کو پسند کرتے ہیں، اور اب یہ کیا ہو رہا ہے؟ ماڈرن لڑکی کے پیچھے کیسے لڑکے آنے لگے ہیں!سوچ سوچ کر ان کو ایسا لگ رہا تھا جیسے دماغ کی رگ پھٹ جائے گی۔
مسلسل بجتی فون کی گھنٹی پر وہ ہڑبڑا کر اٹھی تھیں، انھیں پتا ہی نہیں چلا تھا کہ ہالہ کے مسئلے کو سوچتے سوچتے جانے کب سوگئی تھیں۔
’’جی کون۔۔۔۔؟‘‘
’’خیریت۔۔۔۔۔ کیا بات ہے آواز اتنی بھاری کیوں ہو رہی ہے؟‘‘ دوسری جانب یاسر نے تشویش سے پوچھا۔
’’نہیں ٹھیک ہوں میں، آپ سنائیں کیوں فون کیا ہے؟‘‘
’’شام کو چائے پر کچھ اہتمام کرلینا، میرا بچپن کا دوست شہزاد امریکا سے پاکستان کچھ روز کے لیے آیا ہے۔ اس کا بیٹا بھی ہو گا ساتھ۔‘‘
٭…٭…٭
ڈرائنگ روم سے باتوں کی آوازیں سن کر ہالہ کے قدم وہیں اٹھ گئے، اپنے ابو کے ساتھ خوبرو نوجوان کو دیکھ کر وہیں ٹھٹھک گئی۔
’’آؤ آؤ بیٹا! وہاں کیوں رک گئیں؟‘‘
باپ کے سامنے بیٹھے شخص کی آواز سن کر وہ ازلی خود اعتمادی کے ساتھ اندر چلی گئی تھی اور کچھ ہی دیر میں وہ محفل کا حصہ بن چکی تھی۔ اس کو علی بہت اچھا لگا تھا۔ بہت سلجھا ہؤا، جو کسی بھی موضوع پر بولتا تو بلاتکان بولتا چلا جاتا۔
دو ہفتے جیسے پَر لگا کر اڑ گئے۔ علی کے جانے کے بعد ہالہ کو کسی کمی
کا احساس ہونے لگا تھا۔ اپنی اس کیفیت کو وہ خود نہیں سمجھ پائی تھی۔ اتنے دنوں میں اس نے علی کو بھرپور کمپنی دی تھی، کس ریسٹورنٹ کا بوفے اچھا ہے، کہاں کہاں لیٹ میوزک کنسرٹ ہے، کون سی مووی ہٹ ہے۔ اور اب اس کو بہت خالی خالی لگ رہا تھا۔
عمارہ اور یاسر دونوں کے ذہن میں ایک ہی بات چل رہی تھی۔کتنا اچھا ہو کہ ہالہ اور علی کا رشتہ طے ہو جائے۔ یاسر نے اظہار کیا تو عمارہ جیسے کھل ہی تو اٹھی۔
’’اگر ایسا ہوجائے تو بہت اچھا ہے ۔ اچھے خاندانی لوگ ہیں اورہالہ کے مزاج کا بندہ ہے علی۔‘‘
’’ہاں وہ میرا جگری یار ہے اگر میں اس سے ہالہ کے رشتے کی بات کروں گا تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ مجھے انکار کرے گا۔‘‘ انتہائی اعتماد سے یاسر نے کہا تھا۔
’’اللہ کرے وہ مان جائے ‘‘ عمارہ نے جذب سے کہا۔
’’کیوں نہیں مانے گا، ہماری بیٹی میں کس چیز کی کمی ہے، ان کے امریکا جیسے ملک میں رہنے کے لیے پرفیکٹ ہے، بقول تمہارے پردے کی بوبو تھوڑا ہے۔‘‘ بہت عرصے بعد یاسر کے لہجے میں شوخی در آئی تھی اور بہت دیر تک دونوں میاں بیوی اپنی تمناؤں کے محل سجاتے رہے۔
اگلا دن عمارہ کو کاٹنا مشکل ہوگیا تھا اس کے قدم رکھے کہیں جا رہے تھے اور وہ چل کہیں رہی تھی، آج اس کو ہالہ پر بھی غصہ نہیں آرہا تھا وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کر رہی تھی ۔ڈور بیل کی آواز پر وہ خود دروازہ کھولنے دوڑی تھی۔مگر اندر آتے ہوئے یاسر کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک گئی جس کے چہرے پہ تھکن اور قدموں میں شکستگی تھی۔
’’میں پانی لاتی ہوں آپ بیٹھیں۔‘‘
’’نہیں، پانی کی ضرورت نہیں، بس کھانا لگوا دو۔‘‘ یاسر نے کہا۔
کھانے کے بعد عمارہ ساتھ ہی بیڈروم میں چلی آئی۔
کچھ بتائیے تو سہی کیا بات ہے۔ آپ خاموش سے ہیں‘‘ عمارہ سے رہا نہ گیا۔
یاسر کچھ دیر خاموش ہی رہا۔ پھر بولا تو یوں جیسے بڑی ہمت کر کے بولا ہو۔
’’میں نے آج بات کی تھی شہزاد سے…‘‘
’’پھر؟‘‘عمارہ کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
’’ وہ میرااتنا پرانادوست تھا، اتنا وقت ہم نے ساتھ گزارا، اور آج اس نے جو کہا مجھے دکھ پہنچا… وہ یہ سب نہ کہتا بس انکار کردیتا…‘‘
’’ کیا کہہ دیااس نے؟‘‘ عمارہ کو اپنی آواز کسی کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’اس نے کہا کہ میں آپ سب کا بہت شکر گزار ہوں کہ پاکستان میں آپ کی بدولت میرے دن بہت اچھی کمپنی میں گزرے، لمحہ بھر بھی بوریت کا احساس نہیں ہؤا۔ ہم نے امریکہ میں رہ کر بھی بچوں کی تربیت اپنے اصولوں پر کی ہے ،اکثرپاکستان کی باتیں بتاتے رہتے ہیں۔ علی نے وہاں کا ماحول دیکھا ہے، وہ بھی چاہتا تھا اور ہم بھی کہ علی کی شادی کسی پاکستانی ماحول کی پلی ہوئی بچی سے ہو ۔ میں تمہارے خاندان کو پرانا جانتا ہوں، یہ امید لے کر آیا تھا کہ شاید اپنے بیٹے کا رشتہ تمہارے ہاں کر سکوں۔ مگر میں حیران ہوں یہاں کا ماحول کس قدر بدل گیا ہے۔ شاید میری ہی بھول تھی کہ میں ابھی تک خاندانی طور طریقوں کے برقرار رہنے کی توقع کررہا تھا۔ معاف کرنا مجھے احساس ہی نہیں ہؤا کہ اب پاکستان میں بھی ماحول بہت بدل گیا ہے۔ ظاہر ہے بچے ماحول کے مطابق ہی رہیں گے۔ ہماری بات تو اور ہے، ہم تو اپنی اقدار بچانے پر مجبور ہیںکیونکہ ایک غیر ملک میں رہتے ہیں۔ہالہ جیسی بچی ہمارے ماحول میں نہ رہ سکے گی ۔میرا خیال ہے علی کے لیے امریکہ میں ہی کسی مسلمان فیملی کی لڑکی مناسب رہے گی جو ہمارے جیسی فکرمندی سے پلی ہو‘‘۔
یاسر آگے بھی کچھ کہہ رہے تھے مگر عمارہ بیگم کے دماغ میں بس یہی الفاظ ہتھوڑے کی طرح بج رہے تھے…ہالہ جیسی…ہالہ جیسی…!
٭…٭…٭