پروفیسر ڈاکٹر فارحہ جمشیدمصورِ پاکستان حضر ت علامہ اقبال کا’’پاکستان - پروفیسر ڈاکٹر فارحہ جمشید

مصورِ پاکستان حضر ت علامہ اقبال کا’’پاکستان – پروفیسر ڈاکٹر فارحہ جمشید

اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ پاکستان کا قیام اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت ، تدبیراورحکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ جب کوئی قوم اللہ رب العزت سے اس وعدے سے آزادی طلب کرے کہ ہم آزاد خطے میں قانون الٰہی کی بالا دستی کریں گے تو کچھ بعید نہیں اللہ تعالیٰ اسے ضرورآزادی جیسی نعمت سے نوازتا ہے۔
قیام پاکستان رب کائنات کا معجزہ تھا وگرنہ تاریخی عوامل شاید ہیں کہ پاکستان کا وجود میں آنا ممکن نہیں تھا وہ اس طرح کہ برصغیرمیں مسلمانوں کی نسبت ہندوعددی اعتبار سے زیادہ تھے تعلیم صنعت تجارت ہر لحاظ سے آگے تھے ۔ہندو ستان میں انگریز کی حکومت کے خلاف مسلمانوں اور ہندوئوں کے رد عمل میں واضح فرق تھاکیونکہ ہندو پہلے مسلمانوں کے محکوم تھے اور اب انگریزوں کے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نفسیاتی کیفیت مختلف تھی تخت وتاج سے معزول ہو گئےعزت سے ذلت کا سامنا کرنا پڑا یہی وجہ ہے کہ مسلمان کے اندر رنج وغم کی شدت کے ساتھ ساتھ بغاوت کے جراثیم بھی پیدا ہوئے 1707ء میں اورنگ زیب کا انتقال کے ڈیڑھ سوسال بعد مسلمانوں کی سیاسی تنزلی کی بھی تکمیل ہوگئی سیاسی ، سماجی ، معاشی ،معاشرتی ہرلحاظ سے مسلمان تنزلی کا شکار تھے۔ اوراس پر مستزادیہ کہ خود مسلمانوں کے موثر حلقے پاکستان کے قیام کے خلاف تھے اس تناظر میں دیکھا جائے تو قیام پاکستان نا ممکن نظر آ رہا تھا مگررحمت ِ الٰہی نے جوش مارا چند مخلص محب وطن کی دعائیں رنگ لائیں جناح اوراقبال جیسی دوسری شخصیات منظر عام پر آئیں جن کی محنت شاقہ اوراخلاص عمل نے پاکستان جیسی نعمت سے نوازا ہندوستان کی سرزمین پر ایک اسلامی سلطنت کے قیام کا جوخواب حضرت علامہ اقبال نے پاکستان کی شکل میں دیکھا تھا وہ مدینہ کی ریاست کا مصطفوی خواب کا ہی ایک تسلسل تھا ۔
الحمد للہ یہ مملکت ِ خدا وندی سرزمین پاکستان جس میں ہم ایک آزاد اور خود مختارقوم کی حیثیت سے رہ رہے ہیں اس کا وجود اقبال ہی کی تخیل کا مرہون منت ہے ۔اگرچہ علامہ بنیادی طور پرسیاستدان نہ تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے آزاد مستقبل کے بارے میں جو کچھ سوچا اور ان کے مسائل کا جو حل پیش کیا وہ ان کی بیدار مغزی، معاملہ فہمی اورسیاسی تدبر کا نتیجہ ہے ۔ علامہ اپنے خطبے میں فرماتے ہیں۔
’’ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام فقط ایک مذہب اورروایت کے طور پر نہیں بلکہ ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ رہے تواس کے لیے ضروری ہے کہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کریں ‘‘۔
اس حوالے سے بہت واضح ہے کہ 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد اسلامی مرکزیت کے خطے کے طور پر پاکستان کا تصور پیش کیا ۔علامہ کا سیاسی ملک ان کے اسلامی عقائداور نظریات کے تابع تھا ، وہ دین اور سیاست کی دوئی کورد کرنے میں اسے چنگیزی سے تعبیر کرنےہیں فرماتےہیں ۔
جلال پادشا ہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
صیف صد حیف! آج ملت اسلامیہ مختلف اکایوں میں بٹ چکی ہے۔صوبائی ، نسلی اورلسانی بنیادوں پروعدت قائم کی جا رہی ہے ۔ جغرافیائی حد بندیاں وفا کاتقاضا کہلاتی ہیں سود جوام الخبائث ہے اس نے پوری معیشت کو اپنی گرفت میںلے رکھا ہے۔اس آزاد خطے میں قرضِ حسنہ جیسی نعمت کی لذت سے اب مسلمان واقف نہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا باطن تاریک ہوچکا ہے انسان کے سینے میں جو اللہ تعالیٰ نے نورعطا کیاتھا وہ ہم نے نکال باہرکیا ۔
عصر حاضر کی موجودہ سیاسی ، سماجی معاشی اورصورتحال ہمارے اس عظیم وعدے کے انحراف کا نتیجہ ہے جوہم نے اللہ سے کیا تھا کہ ہم تیرے دین کا بول بالا کریں گے ۔ اقبال مسلمانوں کو ایک وحدت میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ ان ساری خود ساختہ مادی اورلا دینی وحدتوں کے بتوں کوپاش پاش کر کے ایک وحدت کی معرفت دینا چاہتے ہیں ۔
فرماتے ہیں :
بازو تیرا تو مید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دین ہے تو مصطفوی ہے
علامہ اقبال کےنزدیک امت مسلمہ کی بقا راز قرآن اورصاحب قرآن کے ساتھ تعلق قائم رکھنے میں ہے فرماتے ہیں :
’’آئین اورقانون کی بنیاد قرآن وسنت پرہے اورشریعت اسلامیہ کوناگزیرحد تک اپنایا جائے ‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ قانون ِ الٰہی کی بالا دستی ،اتحاد بین المسلمین عدل بین الناس مقصدِ حیات ہے سیاسی سطح پرتوحید الٰہی کے تصور سےیہ بات سامنے آتی ہے کہ حاکمیت صرف اورصرف اللہ رب العزت کے لیے ہے۔ علامہ فرماتے ہیں ،
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بےہمنما کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزادی
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here