’’مرد اپنے گھروالوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی۔‘‘(بخاری)
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔آزادی کیونکہ اس کی فطرت کا خاصہ ہے لہٰذا حریت پسند انسان اپنی رازداری کی باتوں سے بھرپور طریقے سے لطف انداز ہونے اور نجی زندگی گزارنے کے لیے ایک گھر کا خواہش مند ہوتا ہے جہاں وہ اپنی زندگی خودمختار اور منفرد حیثیت میں گزار سکے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کو صرف پیدا ہی نہیں کر دیا بلکہ پیدائش کے بعد ان کی روحانی و جسمانی،عقلی منطقی غرض ان تمام ضروریات کا انتظام کیا جو انسان کے لیے ضروری تھیں۔ہر انسان اپنی ذات میں منفرد ہے۔پور پور کو انفرادیت عطا کرنے والے رب نے ہر انسان کو اپنی ذات میں منفرد بنایا۔اب وہ آزاد ہے کہ اپنی انفرادیت کے ذوق کو جیسے چاہے تسکین فراہم کرے مگر دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہو،خدا کی زمین میں فساد نہ پھیلائے،حقوق وفرائض کی جو فہرست اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے تھما دی ہے اس سے انحراف نہ کرے ورنہ ظالموں کی فہرست میں اپنا شمار بھی کروائے گا اور چین وسکون بھی کھو دے گا اور تو اور اپنی اس انفرادی حیثیت کو بھی نقصان پہنچائے گا جس کو تسکین بخشنے کے لیے وہ عدل کا دامن چھوڑ کر ظلم پر مبنی ہتھکنڈے استعمال کرے گا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ مشترکہ خاندانی نظام فطرت سے میل کھاتا ہے اور کیا اسے مثالی نظام کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے؟کیا جداگانہ نظام رشتوں میں دراڑ پیدا کرتا ہے اور کیا جداگانہ نظام میں رہتے ہوئے صلہ رحمی اور اخوت و بھائی چارے جیسے خوبصورت اصول متاثر ہوتے ہیں؟ کیا ہمیں کسی ایک نظام کے حق اور ترویج کے لیے اتنا متشدد ہو جانا چاہیے کہ دوسرے نظام کو اپنے دل ودماغ میں جگہ ہی نہ دے سکیں؟
مشترکہ خاندانی نظام کے بارے میں عموماً دو طرح کی آرا کا اظہار کیا جاتا ہے تا ہم ہر دو گروہ مخالف نظام کو رتی بھر جگہ بھی اپنی ذہن و قلب میں دینے کے روادار نہیں۔حالانکہ جب ہم زمینی حقائق دیکھتے ہیں،گھر گھر جھانک کر مشاہدہ کرتے ہیں تو لازماً کبھی ایک نظام کے حق میں اپنی رائے کا وزن ڈالتے ہیں اور کبھی دوسرے نظام کے قیام کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حتمی طور پر کسی ایک نظام یا سسٹم کے حق میں فیصلہ دینا در حقیقت زمینی حقائق اور سماجی تقاضوں سے نظر چرانے کے مترادف ہے۔جتنا جوائنٹ فیملی سسٹم کو تقویت دینے والے دلائل پر ہر صورتحال اور تناظر میں اصرارغلط ہے،اسی طرح یہ ذہن کہ جداگانہ خاندانی نظام ہمارا حق ہے اور اس پر محاذ کھڑا کر دینا اور ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ کی ناساز گار فضا بنا دینا بھی ناپختہ ذہن کی علامت اور سماجی مسائل سے لا تعلق ہو جانے کا اعلان ہے،جو کسی طور سراہنے کے قابل نہیں۔
اللہ نے انسان کو قابل تکریم پیدا کیا ہے اورانسان اپنی شناخت کے بارے میں بڑا حریص ہے اور اس کی بقا کے لیے جنگ وجدل پر آمادہ ہوجاتا رہا ہے۔تاہم اسے اللہ نے کچھ تمدنی اصولوں کا پابند کیا ہے:
1۔اپنی انفرادیت کو قائم رکھے مگر دوسرے کی حدود میں دخل اندازی نہ کرے۔
2۔مثبت سرگرمیوں سے اپنی شناخت کو نشوونما دے۔
3۔کریم باہم کے اصولوں کو زد نہ پہنچائے (مذاق، استہزا ، تحقیر،تجسس،غیبت،حسد)
4۔اللہ نے پہچان کے لیے قبیلے بنائے مگر تقویٰ کو برتری کا معیار کہا۔گویا تمام انسان مساوی ہیں اور ایک دوسرے کی تحقیر اور تذلیل کرنے کے مجاز نہیں۔
’’لوگو! سن لو، تمہارا خدا ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو سرخ اور کسی سرخ کو کالے پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت نہیں۔ بے شک تم میں اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔سنو! کیا میں نے تمہیں بات پہنچا دی؟ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ہاں! فرمایا تو جو آدمی یہاں موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں‘‘۔(بیہقی)
یاد رہے یہ تمدنی اصول اصلاً کسی ایک نظام(مشترکہ یا جداگانہ) کے حق میں ترازو کا پلڑا جھکانے والے نہیں ہیں اور نہ ہی اللہ نے انسان کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت اور آزادی کے نام پر دوسروں کا استحصال کرے۔
اللہ نے عقائد،عبادات،معاملات،امر،نہی کے بارے میں ہدایات دے دی ہیں۔اب یہ انسان کا امتحان ہے کہ وہ اپنے سے وابستہ تمام رشتوں کا تقدس بحال رکھنے،حقوق کی مساویانہ اور عادلانہ فراہمی کے لیے رہائش کا کون سا نظام اپنے لیے موزوں پاتا ہے۔ایک طرف والدین کے حقوق میں کمی بیشی بہت بڑا جرم ہے۔حدیث میں ہے۔
’’سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایاوقت پر نماز ادا کرنا۔ میں نے عرض کیا۔پھر کون سا عمل؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔‘‘ (بخاری ومسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو۔ عرض کیا گیا کس کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اس کے باوجود جنت میں داخل نہیں ہؤا۔‘‘ (مسلم)
دوسری طرف بیوی کے حقوق پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو‘‘۔ (ترمذی )
رسول اکرم ؐ نے فرمایا: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کے لیے بہتر ہو اور خود مَیں اپنے اہل و عیال کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تمہاری رفیقہ حیات مرجائے تو اس کے لیے دعا کرو‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف )
دنیا کی بہترین دولت اچھی بیوی ہے۔(مسلم)
نبی اکرم ؐنے ارشاد فرمایا:’’ خیرُکمُ خیرُکمُ لاہلہ‘‘ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔(مشکوتہ)
مردوں یعنی قوام کے لیے زیر غور یہ احادیث بھی رہنی چاہئیں تاکہ وہ بیوی اور والدین و بہن بھائیوں کے حقوق میں عدل و توازن سے کام لے سکے۔
’’اطاعت صرف معروف اور نیکی کے کام میں ہے۔‘‘(بخاری)
’’ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت نہیں ہوگی۔‘‘(موطا امام مالک)
آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی رازداری کے حق کو کتنا ضروری خیال کیا ہے اور اسے عورت کی عزت وعظمت کی حفاظت اور فطری شرم وحیا کی ترویج کے لیے اس حق کو کئی ایک احکام میں واضح کیا ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ اللہ نے مردو خواتین کو نگاہیں جھکانے کا حکم دیا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے استیذان کا حکم نازل کر کے بھی عورت کے رازداری کے حق کو توقیر بخشی۔مشترکہ خاندانی نظام میں تربیت اور شعور کی کمی کے باعث عموماً اس کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔وہ دین جو بیٹے اور شوہر جیسے محرم اور مقدس تعلق کی صورت میں بھی انہیں گھر داخلے کے وقت اجازت لے کر داخل ہونے کا ادب سکھاتا ہے تاکہ ماں پر بھی نا مناسب حالت میں نگاہ پڑنے کا خدشہ نہ رہے اور بے جا شرمندگی سے بچا جا سکے۔بیوی کی موجودگی میں بھی اجازت لینا جہاں اسلامی احکام کی دلکشی کو عیاں کرتا ہے وہیں عورت کےحق رازداری کے لطیف پہلو کو بھی عیاں کرتا ہے۔پھر آرائش کوہر ایک پر ظاہر نہ کرنےکا حکم بھی جہاں حق رازداری کا ترجمان ہے وہیں اس تلخ حقیقت کا ادراک بھی کراتا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں عورت کی ذہنی،جذباتی اور نفسیاتی ضرورت اور خواہش تشنہ رہ جاتی ہے،جوانی کی امنگیں دبی رہ جاتی ہیں۔بناؤ سنگھار،سجنے سنورنے اور حق زوجیت ادا کرنے کی خواہش کی تکمیل کے لیے کوئی قابل عمل راہ سجھائی نہیں دیتی(یاد رہے ہم معاشرے کی اکثریت کی شعوری سطح کو مد نظر رکھتے ہوئے تجزیہ کر رہے ہیں)اور جب جائز اور مستحسن ذریعے سے یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو گناہ اور جرائم کے چور دروازے کھلتے ہیں،یا پھرنفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔پھر مشترکہ خاندانی نظام میں گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی نا محرم رشتوں کی بے تکلف آمدورفت اور صنف مخالف میں فطری کشش کی بدولت نفس کی پاکیزگی کے لیے ہر آن کوشاں رہنا پڑتا ہے کیونکہ یہ رشتے بالکل اجنبی کے زمرے میں نہ آنے کے سبب اور گھر میں موجود ہونے کے سبب ایمان کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں اسی لیے حدیث میں اس فتنے کی نشاندہی کر دی گئی تا کہ ان رشتوں میں بے تکلفی کے خطرناک انجام سے بچا جا سکے۔حدیث میں آتا ہے۔
’’اجنبی عورتوں کے پاس (تنہا)جانے سے بچو، ایک انصاری نے عرض کیا: یا رسول اللہ حمو(دیور) کے بارے میں آپ ؐکا کیا حکم ہے؟ آپ ؐنے فرمایا کہ حمو(دیور) تو موت ہے‘‘(مسلم)
جبکہ مشترکہ خاندانوں میں ایسا باوقار ماحول اور رہن سہن شاذ ہی ملتا ہے جو عورت کے حق رازداری کو ضمانت دے سکتا ہو۔زوجین کی رومانوی اور حسین زندگی بھی مشترکہ خاندانی نظام میں گھٹن کا شکار رہتی ہے یہاں تک کہ بے ساختگی کا عنصر سمجھ بوجھ سے کام لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔برتن کو اسی جگہ سے منہ لگا کر پینے اور ہڈی سے اسی جگہ سے گوشت نوچ کر کھانے کی حسین ودلکش سنتیں جو باہمی محبت کو مضبوط بناتی ہیں پر عمل بھی معیوب گردانا جاتا ہے اور پھبتیوں،ذو معنی باتوں اور اشاروں کنایوں کی نذر ہو جاتا ہے۔نگاہ کو تو یوں بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر کہا گیا ہے مگر مشترکہ نظام میں ان تیروں سے محفوظ رہنے کے لیے یا تو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا خواتین بھی اپنے حق رازداری سے غفلت کے سبب دستبردار ہو جاتی ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام میں زوجین کے ذاتی تعلقات بھی پردہ اخفا میں نہیں رہ پاتے مثلاً شدید سردی میں غسل کرنے لیے گرم پانی کی دستیابی ہی کو لے لیجیے۔سخت ذہنی الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور غسل اور نمازوں کی بروقت ادائیگی میں بے اعتدالیوں سے دامن چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔مشترکہ خاندانوں میں زبان کی بے اعتدالیاں،رویوں کی سردمہریاں،تلخ لب ولہجے،نا قابل فہم مقابلے بازیاں بھی بڑوں اور بچوں کے قلب و ذہن پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔کہیں بھابیاں ’’کرتا دھرتا‘‘ بن کر ماحول میں تلخیاں پیدا کرتی ہیں اور شوہر کے والدین،بہن بھائیوں رشتہ داروں کی حق تلفی کرتی نظر آتی ہیں تو کبھی مسلسل سسرالی دباؤ کا شکار خواتین ذہنی مریضہ بن جاتی ہیں۔کبھی دونوں فریق ایک دوسرے کے دباؤ میں آنے کے لیے رضامند نہیں ہوتے اور لڑائی جھگڑے اور بد کلامی ہر وقت کا معمول بن جاتا ہے۔کبھی ایک فریق حاوی رہنے کی کوشش میں دانستہ اور نا دانستہ دوسرے کے حقوق نگلتا نظر آتا ہے تو کبھی دوسرا فریق پہلے کی ہر حرکت پر نگاہ رکھ کر،محاذ آرائی کر کے اور حکم نافذ کر کے پریشان کرتا نظر آتا ہے۔
باوجود اس کے کہ آنحضور ؐ نے انتہائی سادگی سے زندگی بسر کرنے کےباوجود امہات کو جداگانہ حجروں میں بسایا جہاں ان کا کھانا پکانا،رہن سہن سب الگ تھا۔پھر مشترکہ کے حامی الگ ہو کر اپنے اہل وعیال کو الگ رہائش ونان نفقہ(جو شوہر پر واجب ہے) فراہم کرنے والوں کو قابل ملامت کیسے ٹھہرا سکتے ہیں بلکہ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ ایک فرد نے اپنے اہل کے حق رازداری کو ادا کیا اور ان قباحتوں سے بچا لیا جو ’’مل جل کر رہنے‘‘ کے سحر انگیز بیان کے پیچھے پوشیدہ تھیں۔مشترکہ کے حق میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ افراد مساوی سہولیات(لباس،رہن سہن،خوراک،طبی سہولیات) سے مستفید ہوتے ہیں اور احساس محرومی پیدا نہیں ہوتا نیز حسد ورقابت کی بجائے بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے حالانکہ یہ دعویٰ بجائے خود بھی نظر ثانی کا محتاج ہے نیز اللّٰہ کے نظام عدل اور رحمت کو بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش ہے۔اللہ ہی ہے جس نے انسانوں کے درمیان فرق مراتب رکھا تا کہ آزمائے۔کسی کو زیادہ دے کر آزمایا جا رہا ہے اور کسی کو کم دے کر اپنی حکمت کو سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے لیکن جب مشترکہ نظام اللہ کی طرف سے دیے گئے اس امتحان کو اپنی سمجھ بوجھ سے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بے شمار اخلاقی خرابیوں، باہمی کشا کش کو فروغ دیتا ہے۔
تا ہم ان تمام اخلاقی خرابیوں کے باوجود ہم مشترکہ نظام کی ضرورت سے آنکھیں نہیں چرا سکتے اور نہ ہی جداگانہ نظام کو ہر مسئلے کا حل قرار دیا جاسکتا ہے۔معاشی حالت ایک کنبے کی زندگی کے سکون میں بےحد اہم عنصر ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ مشترکہ خاندان میں رہائش معاشی مسائل کی سنگینی کو کم کرنے کا ایک بڑا سبب بن جاتی ہے۔
اب ہم کچھ زمینی حقائق سے مدد لیتے ہوئے دیکھیں گے کہ ترازو کا کونسا پلڑا بھاری ہے۔ قارئین ! ذرا ایک ایسی فیملی کو تصور میں لائیے جہاں والدین بوڑھے ہیں ،ایک والدین کی فیملی اور دوسری اپنی فیملی ۔ پھر دو ،تین کمانے والوں میں سے کوئی بھی اتنی مستحکم پوزیشن میں نہیں کہ اپنے والدین کی فیملی سمیت تو کیا اکیلے اپنی فیملی کو سپورٹ کر سکے،ایسے میں جوائنٹ سسٹم ایک رحمت ہے ،اگر ایسی فیملی کو دیکھا جائے جہاں کچھ افراد جداگانہ فیملی سسٹم اپنا کر اپنی فیملی کی کفالت بھی بخوبی کر سکتے ہیں اور والدین اور بہن بھائیوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھ سکتے ہیں تو وہاں مشترکہ فیملی سسٹم پر اصرار اور اس کی قباحتوں کو نظر انداز کیے جانا انصاف کے بھی منافی ہے اور بے پناہ مسائل کا باعث بھی ہے۔اب ایک ایسی فیملی کو دیکھیے جہاں کچھ افراد اپنی فیملی کو تو جداگانہ سسٹم میں رکھ سکتے ہیں لیکن والدین کی فیملی تنگدستی کا شکار ہے وہاں جداگانہ سسٹم کا فیصلہ یقیناً خود غرضی پر مبنی ہے۔گویا ہر فیملی کے حالات و معاملات و مسائل کے تناظر میں ہی یہ فیصلہ کرنا درست ہو گا کہ جوائنٹ سسٹم رحمت ہے کہ جداگانہ نظام ۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں عقل اور انصاف مشترکہ نظام کے حق میں فیصلہ دیتے ہوں وہاں اس فیصلے پر سر تسلیم خم کرنا ہی عقلمندی ہے اور حساس سوچ کی علامت بھی۔البتہ تقویٰ کا دامن پکڑے رہنا ضروری ہے تا کہ خواہ مخواہ کے مسائل نہ پیدا ہوں ،ایک فرد کی اجارہ داری کی خواہش بہت سوں کی حق تلفی کا باعث ہے اس لیے مشاورتی سسٹم کو بزور نافذ کرنا قوام ہی کا کام ہے،مشترکہ رہتے ہوئے بھی اپنے اپنے معاملات میں خود مختار ہونے کو یقینی بنانا اور دوسرے کے معاملات میں بلا وجہ مداخلت سے گریز بہت سے مسائل سے بچا لیتا ہے۔اگر جوائنٹ سسٹم کی بنیاد تقویٰ پر قائم ہو اور آخرت کی جوابدہی کا خوف موجود ہو تو یہ نظام پرورش و تربیت اولاد کے معاملے میں کافی معاون ثابت ہو سکتا ہے،بصورت دیگر یہی نظام بچوں کے لیے بھی زہر قاتل ہے اور بڑوں کے لیے بھی درد سر۔
جہاں تک جداگانہ خاندانی نظام کی بات ہے تو اگر حالات اس کی اجازت دیتے ہوں اور معاشی خودانحصاری موجود ہو تو بلا شبہ یہ مثالی نظام ہے ،زوجین باہمی مشاورت سے بہترین انداز سے پرورش و تربیت اولاد کے فریضے سے بھی نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور اقرباکے حقوق کی ادائیگی بھی کشاکشی کے بغیر اور بوجھ سمجھے بغیر بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔صلہ رحمی کے فروغ میں معاون، قطع تعلقیوں کی شرح میں حیرت انگیز کمی، بغض وعناد کے خاتمے اور خیر و بھلائی کی سوچ کو تقویت دینے کا باعث ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ضدوعناد ،جاہلانہ تعصب سے محفوظ رکھے اور بہترین قوت فیصلہ سے نوازے اور عدل اور اعتدال کی روش اپنانے کی توفیق دے کہ یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے،آمین۔
یہ دعا کرتے رہا کیجیے۔رب ھب لی حکما و الحقنی باالصالحین واجعل لی لسانا صدق فی الآخرین۔
٭٭٭