غالبؔ نے برسوں پہلے اپنے ایک مصرع میں کہا تھا ؎
’’ لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور‘‘
لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ جو بات وہ مزاح میں کہہ رہے ہیں وہ ایک دن واقعی حقیقت کا روپ دھار لے گی ۔ آج بدلتے زمانے اور گزرتے وقت نے اسے سچ ثابت کر دیا ۔ وہ زندہ ہو تے تو دیکھتے کہ اس بازار دنیا میں ہر چیز ملتی اور بکتی ہے یہاں تک کہ جنس آدمیت بھی۔
نیرنگیِ زمانہ نے ہر چیز کو بدل دیا ہے تہذیب و اقدار بدلیں طور طریقے بدلے ، شکل و صورت بدلی، ناز وانداز بدلے ہاتھ ، پائوں ، دل گردے تک بدل دیے گئے اور اب تو جسمانی ساخت کی تبدیلی کے ساتھ وہ وقت آگیا ہے کہ صنفی شناخت بھی تبدیل کی جا رہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم کیا رہے ۔ ہمارا اپنا کیا رہا ؟ حیوانوں کی بھی ایک شناخت ہوتی ہے ۔ پودوں اور کیڑے مکوڑوں ، حجر و شجر کی بھی ایک شناخت ہوتی ہے پھر انسان جو سب سے افضل مخلوق ہے اس کی کوئی شناخت نہیں ؟ ابھی جو مرد تھا وہ کچھ دن بعد عورت کے روپ میں اور عورت کچھ دن بعد مرد کی ساخت پر۔ پھر انسان کی اصل شناخت کیا رہی؟ پھر اسے کس حوالے سے پہچانا جائے ؟
’’ کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا ‘‘
نسیم کہیں یا نسیمہ ؟ کل تک جو نعیم تھا وہ آج نعیمہ بن گئی اور کل جو سلیمہ تھی آج سلیم بن گیا یا للعجب!
’’ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘۔
مگر یہ مقام حیرت سے زیادہ جائے عبرت ہے کیونکہ خالق حقیقی نے تو 14سو سال قبل اس کی خبر دے دی تھی کہ’’ وہ اس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں جس کو اللہ نے لعنت زدہ کہا ہے جس نے اللہ سے کہا تھا میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا ۔ میں انہیں بہکائوں گا میں انہیں آرزئوں میں الجھائوں گا ۔میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے ۔اور میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردو بدل کرینگے۔ اس شیطان کو جس نے اپنا ولی و سر پرست بنا لیا وہ صریح نقصان میں پڑ گیا ‘‘( سورۃ نساء آیت ۱۱۷ تا ۱۱۹)۔
اور آج اس رب عظیم کی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہو گئی ہے کہ وہ باغی شیطان کے نرغے میں آکر خدائی ساخت میں ردو بدل کرنے جا رہے ہیں ۔ یہ اسمبلی میں جو بل پاس کیا گیا ہے ٹرانس جینڈر کے نام پہ دھوکہ ہے ۔ بہ ظاہر تو یہ بل خواجہ سرائوں کی ہمدردی میں لایا گیا ہے لیکن پس پردہ پوری قوم کو حیا باختہ بنانے کی کوشش ہے ۔ خواجہ سرا بہر حال خالق کی پیدا کردہ ایک مخلوق ہیں اور اس میں ان کا اپنا کوئی اختیار یا قصور بھی نہیں اگر ان سے ہمدردی ہے تو اول تو ان کے نان و نفقہ کا انتظام ریاست کی ذمہ داری ہے ان کے لیے کوئی ادارہ کوئی انڈسٹریل ہوم ، کوئی فیکٹری یعنی روز گار کے مواقع دیے جا سکتے ہیں۔جس سے وہ باعزت روٹی کما سکیں مگر اس کے لیے یہ جواز پیدا کرنا اور آزادی دینا کہ ہر کوئی اپنی خواہش پر اپنی جنس تبدیل کر کے مخنثوں میں شامل ہو جائے یہ تو اس لومڑی کی مثال ہوئی کہ ایک لومڑی کی دم جھاڑیوں میں اٹک کر کٹ گئی تو اس نے اپنا عیب چھپانے کے لیے ساری لومڑیوں کو مشورہ دیا کہ سب اپنی دمیں کٹوا لیں۔
مگر بات اتنی سادہ اورمعمولی نہیں کہ جو چاہے اپنی خواہش کے
مطابق اپنی جنس تبدیل کرلے بات اس سے بہت آگے کی ہے پورا معاشرہ انتشار اور بے چینی کا شکار ہو گا شناخت کی تبدیلی سے پھر حیثیت بھی تبدیل ہو جائے گی ۔ صنفی شناخت بدلنے کے بعد سب کچھ بدلنا پڑے گا نام بھی اور مقام بھی معاشرے میںاپنی حیثیت اور رشتہ داریاں بھی۔
اللہ نے معاشرے میں رشتوں کی زنجیر بنائی ہے اگر یہ ٹوٹ گئی تو رشتے بکھر جائیں گے ۔ پھر شرعی اور وراثتی قانون بھی بدلنے پڑیں گے۔ شرعی حیثیت سے پردے اور حجاب کا مسئلہ پیدا ہوگا کسی سے مصافحہ نہیں کیا جا سکتا، گلے نہیں ملا جا سکتا دوست نہیں بنایا جا سکتا کہ نہ معلوم یہ اصل میں کیا ہے ؟ وراثت کا مسئلہ اس سے بھی پیچیدہ ہوگا ۔ وراثت بھی لڑکے کا دو حصہ لڑکی کا ایک حصہ ہوتاہے تبدیلی کے بعد لڑکے کا ایک اور لڑکی کے لڑکا بن جانے پر دو حصے ملیں گے اور یہ ایک متنازعہ مسئلہ بن جائے گا یوں یہ ایک پنڈورا بکس ہے جسے اگر کھولا گیا تو پھر کبھی بند نہ کیا جا سکے گا اور اس سے فحاشی اور اباحیت کا دروازہ بھی کھل جائے گا جسے روکنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔
رشتے ٹوٹیں گے ، فاصلے بڑھیں گے اور پورا معاشرہ شناخت کے بحران کا شکار ہو جائے گا ۔خواہش تو وہ سر کش گھوڑا ہے جو ڈھیل پاتے ہی بگٹٹ بھاگتا ہے اسی لیے اللہ نے نفس پر قابو پانے کاحکم دیاہے فرمایا رب کریم نے ’’ با مراد ہؤ ا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور نا مراد ہؤا وہ جس نے خواہش کو بے قابو ہونے دیا ‘‘۔
پھر دیکھنا یہ بھی ہے کہ بہ ظاہر تو ہیت و حلیہ بدل جائے گا ۔ شکل و صور ت بھی بدل جائے گی لیکن کیا عورت وہ مردانگی بھی پا سکے گی جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہے یا کیا مرد وہ نسائیت بھی حاصل کر سکے گا جو قدرت نے عورت کو بخشی ہے ؟ وہ جوہر نسوانیت جس کی بنیاد پر اللہ نے اسے یا قوت و مرجان اور ہیرے موتی سے تشبیہہ دی ہے اور کیا ایسے لوگ معاشرے میں با عزت نام اور مقام پا سکیں گے اور کیا وہ معاشرے کے لیے معزز اور کار آمد شہری بن سکیں گے ؟
یہ مخنث جو بہ ظاہر بے ضرر معلوم ہوتے ہیں یہ اندرون میں حسی جذبات و احساسات رکھتے ہیں اس کی مثال ہمیں رسول اللہ ؐ کی زندگی کے واقعہ سے ملتی ہے ۔ مدینے میں ایک خواجہ سرا ہؤا کرتا تھا وہ گھروں میں بے روک ٹوک آیا کرتا تھا کیونکہ لوگ اسے بے ضرر سمجھتے تھے ۔ ایک بار رسولؐ خدا نے اپنے کانوں سے اس کی گفتگو سنی جو اپنے ایک مرد ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ فلا ں جگہ جانا تو فلاں سردار کی بیٹی کو ضرور دیکھنا اور اسے سر سے پیر تک اس کے تمام اعضا کی خوبصورتی بیان کر ڈالی آپ نے سنا تو کہا ’’ ظالم تو نے تو اس پر نظریں ہی گاڑ دیں ‘‘اور ام المومنین سے کہا کہ آئندہ کوئی ان کے سامنے نہ آئے۔ ان کے لیے با عزت مقام دلانے کے لیے دوسروں کو بھی ویسا ہی بننے کی اجازت دی جا رہی ہے، یہ صریحاً ناجائز اور گناہ ہے ۔
اللہ نے تو انسان کواحسن و تقویم پر پیدا کیا ۔ بہترین صورت گری کی ایک ننھے وجود سے بڑھا کر اور عقل و شعور سے بہرہ ور کر کے عظیم المرتبت بنایا ۔ اپنی زمین کا انتظام سنبھالنے کے لیے خلافت عطا کی ۔ کائنات ارضی کا خلیفہ بنایا مگر وہ جسے آسمانوں کی وسعت میں نئی راہیں تلاش کرنا تھا ، ستاروں پہ کمند ڈالنا تھا وہ اب اپنی صنفی شناخت ہی مٹانے جا رہا ہے ۔ سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ‘‘۔ اللہ نے اس دنیا کو اصلاح پر پیدا کیاہے مگر انسانوں نے اس کی دنیا کے زمین و آسمان کو فساد سے بھر دیا ہے ۔ جسے اشرف المخوقات کا شرف عطا ہوا وہ اسفل السافلین بن کر نیچوں سے نیچ ہو ٔا جا رہا ہے۔
در اصل یہ سارے منصوبے ان دین دشمنوں کے ہیں جواس ملک سے اصلاحیت اور اسلامی تشخص کو مٹا دینا چاہتے ہیں خدا ہمیں اس وقت سے بچائے جب ہم ایک دوسرے کو پہچاننے سے انکار کر دیں کہ یہ وہ نہیں ہے جو پہلے تھا اور معاشرہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن جائے۔
٭…٭…٭…