ڈاکٹرام کلثوم۔لاہور
’’بتول‘‘نے زہرہ عبد الوحید نمبر شائع کرکے ملت اسلامیہ کی اس مایہ ناز خاتون کو جو خراج عقیدت پیش کیا ہے اسے پڑھ کر بے اختیار دل سے نکلا حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ اور ہم جیسے کمزور ، کم فہم بندے اپنے رب کی ان نعمتوں کا حق ادا کر بھی کیسے سکتے ہیں جو صالح افراد کی صحبتوں سے استفادہ کے مواقع عطا کرنے کی صورت میں حاصل ہوئیں ۔
٭ ٭ ٭
شازیہ بانو۔ گوجرہ
چند دن پہلے محترمہ قانتہ رابعہ کے توسط سے ماہنامہ چمن بتول سے متعارف ہوئی۔ خوبصورت سرورق پر اہم تحریروں کے عنوان جگمگا رہے تھے۔ فہرست دیکھی تو متنوع موضوعات پر مضامین اور منتخب غزلیں پڑھے جانے کی دعوت دے رہے تھے۔ جون کے شمارے میں حج کے موقعہ کی مناسبت سے ڈاکٹر میمونہ حمزہ کا تفصیلی مضمون نہ صرف معلومات میں اضافے کا باعث بلکہ مناسک حج کی مکمل راہنمائی لیے ہوئے تھا۔ خطبہ حجۃالوداع کے اہم نکات ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی نے دوبارہ یاد دلائے کیونکہ یہ وہ ضابطہ حیات ہیں جو ہر دم یاد رہنا چاہیے۔ محترمہ قانتہ رابعہ کا والدین کے لیے بیٹی کی محبت افسانہ اور آسیہ راشد کا معاشرہ میں بگاڑ کے حقیقی واقعہ کا احوال، غذا اور صحت پر ڈاکٹر ناعمہ شیرازی کی فراہم کردہ معلومات، ڈاکٹر بشری تسنیم کے قلم سے ارض فلسطین کی اہمیت اور وہاں کے مجاہدوں کے مضبوط ایمان کا تذکرہ، عینی عرفان کی سلسلہ وار کہانی اور مختلف شاعروں کی منتخب غزلوں سے مزین بظاہر کم ضخیم یہ شمارہ اپنے اندر قاری کی دلچسپی کے لیے بہت سا سامان لیے ہوئے ہے۔ اصلاحی اور مذہبی مزاج کا یہ شمارہ نوجوان بچیوں کی تربیت کے لیے بہترین ہے۔
نگران ثریا اسماء، مدیرہ صائمہ اسماء، نائب مدیرہ آسیہ راشد اس الیکٹرانک میڈیا کے دور میں ایسا اچھا رسالہ چھاپنے پر مبارکباد کی مستحق ہیں۔ اللہ پاک اس جریدہ کو مزید ترقی دے۔
٭ ٭ ٭
پروفیسر خواجہ مسعود۔راولپنڈی
’’ چمن بتول ‘‘ شمارہ جون 2024 پھولوں سے مزین ٹائٹل لیکن سخت گرمی کی وجہ سے پھولوں کے رنگ بھی پھیکے پڑ رہےہیں ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ (مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا فکر انگیز اداریہ )غریبوں اورمزدوروں کے حق میں آپ کے یہ جملے قابل غور ہیں ’’آگ برساتے موسم میں سڑک پرچلنے والوں ، محنت مزدوری کرنے والوں کاخیال رکھنا، ان سے نرمی سے پیش آنا ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا وہ کم سے کم صدقہ ہے جو ہم اپنی سہولتوں بھری زندگی کے بدلے دے سکتے ہیں ‘‘۔آپ کے یہ جملے بھی جھنجھوڑ دیتے ہیں ’’ دنیا میں جہاں جہاں بھی انسانیت کا ضمیر بیدارہے اسرائیل کی طرف سے جاری قتل عام کے خلاف لوگ بپھرےہوئےہیں، بلا تفریق رنگ ونسل ، مذہب لوگ فلسطینیوں کے حق میں بول پڑے ہیں ۔ امریکی یونیورسٹیاں جنہیں صیہونی ادارے فنڈ کرتے ہیں فلسطین کے نعروں سے گونج اٹھی ہیں ۔‘‘
’’ حج بیت اللہ‘‘ حج کے بارے میں ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا ایک مفصل معلوماتی مضمون ۔پوری دنیا کے اطراف و اکنار سے ذی الحجہ کے مہینہ میں مقررہ وقت کے دوران اللہ کی پکار پرلبیک کہتے ہوئے اللہ کے دیوانے اللہ کے گھرمیں حاضر ہوتے ہیں ۔حج امت ِ مسلمہ کو ایک رشتے کی لڑی میں پرویا ہوا دکھاتا ہے ۔حج اسلامی مساوات کا بہترین مظہر ہے ۔
’’ خطبہ حجۃ الوداع کے اہم نکات‘‘ ( ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی) یہ خطبہ قیامت تک کے لیے انسانیت کا ایک عالمگیرمنشور ہے یہ منشور انسانی حقوق اور انسانیت کی آزادی کی ضمانت ہے اس مضمون میں آپ نے خطبہ حجۃ الوداع کے تمام اہم نکات بیان کیے ہیں ۔
’’ اٹھتے ہیں حجاب آخر‘‘ ( پروفیسر احمد رفیق اختر) یہ جملہ خوبصورت ہے ’’ دل کو جب ایک قطرہ زنگ لگتا ہے تو ایک حجاب دل پر وارد ہوتا ہےجسے دورکرنے کے لیے عبادت اورتوبہ استغفار ہے۔ہم خدا کے قوانین کو ادنیٰ درجہ سے دیکھتے ہیں جس کا ہمارے لیے دنیا اورعاقبت دونوں کی رسوائی ہے۔‘‘
حبیب الرحمٰن صاحب کی غزل سے ایک منتخب شعر :
ملا پائیں گے تب دنیا سے آنکھیں
جب اپنے پائوں پرچلنے لگیں گے
صہیب اکرام کی غزل سے ایک منتخب شعر :
چھڑ گیا یونہی سرِ بزم فسانہ میرا
ورنہ تو طے تھا سرِ شام ہی جانا میرا
’’ امید وصل‘‘ ( شاہدہ اکرام سحر ) بٹیارانی کی یاد میں ایک خوبصورت نظم جسے پڑھ کے بے اختیارآنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ اس نظم کاہرشعرایک خوش رنگ موتی ہے ۔ ایک شاہکار نظم
گلابوں سی رنگت تھی کلیوں سی خوشبو
مہکتی تھی آنگن میں میرے وہ ہر سُو
ملاقات ہو گی تو پوچھوں گی اس سے
بتا! مرے بن لمحے گزرے ہیں کیسے
نیّر کاشف کی غزل سے منتخب شعر:
سماعت آہٹوں پہ ٹک گئی ہے
نظر میں تو ہی تو باقی ہے اب تک
مختار جاوید کی غزل سے ایک شعرجو حاصل غزل ہے ۔
وہ جن کی سوچ کو زنجیر کر دیا جائے
رہا بھی ہوں تو رہا عمر بھر نہیں ہوتے
’’ وہ چاندنی وہ چاندنی ‘‘ اسما صدیقہ کی خوبصورت نظم سے چند خوبصورت مصرعے :
اماوسوں کی رات میں وہ چاندنی کاروٹھنا
کوئی نئی ہے بات کیا
وصالِ رب کے نور سے،چھٹے گی غم کی تیرگی
رضائے حق کے روپ میں ملے گی پھر سے چاندنی
’’قولِ برحق ‘‘ ( قانتہ رابعہ صاحبہ کی تحریر ) اب کے آپ نے نہایت سنجیدہ اورغمزدہ کرنے والی کہانی لکھی ہے ۔بیٹی کی ماں سے بے تحاشا محبت اورماں کو بچوں سے شدید محبت کی عکاسی کرتی ہوئی ایک کہانی جو دلوں پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔
’’ بد نصیب‘‘ ( عینی عرفان) یہ بھی ایک نہایت سنجید ہ کہانی ہے تین پیاری پیاری بہنیں آپس میں بے حد پیار ،لیکن جب تینوں کی شادیاں ہوگئیں تو خاندانی اختلافات کی وجہ سے وہ کئی سال آپس میں مل نہ سکیں ۔وقت نے اس محبت کو دھندلا کر رکھ دیا ۔کئی سالوں بعد ملاقات ہوئی تو دلوں کے دکھڑے ایک دوسرے کو سنائے۔
’’ مجرم کون ‘‘ آسیہ راشد صاحبہ کی جرم و سزا پرلکھی گئی ایک عبرت ناک کہانی کہ کس طرح مذہب سے دوری اوربے راہ روی انسان کوگمراہ کردیتی ہے ۔دو بہنوں کی کہانی جو گناہوں کی دلدل میں پھنس کر اپنے جرموں کی سزا پا کر جیل میں پہنچ گئیں خواتین کے لیے ایک عبرتناک اورسبق آموز کہانی ۔ اللہ تعالیٰ سب کی بیٹیوں کو راہ راست پر چلائے اورگناہوں کی دلدل سے محفوظ رکھے ( آمین )۔
’’ اگلی عید پر‘‘(عشرت زاہد ) یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ واقعی ہرچیز توجہ مانگتی ہے چاہےبے جان چیزیں ہوں یا پھرکمزور پڑتے ہوئے رشتے ‘‘ ایک ایسے خاوند کی کہانی جونفسیاتی مریض تھا اپنی نیک سیرت ، وفا شعار بیوی پر سختی کرتا ۔مارتا پیٹنا ۔ ایسے لڑکوں کو پہلے اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہیے پھرشادی کرنی چاہیے ورنہ اپنی بیوی کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔
’’ اس کے شب و روز ‘‘ ( الطاف فاطمہ) ایک نفسیاتی الجھنوں کو بیان کرتی کہانی اس کہانی میں ایک امیر گھرانے کی لڑکی کے جذبات و احساسات کو بیان کیا گیا ہے وہ غریبوں کے بارے میں سوچتی ہےاوران کے لیے اپنے دل میں درد محسوس کرتی ہے۔غمزدہ رہتی ہے۔ مصنفہ نے اس کے حساس دل کے جذبات کو سمجھا اوراسے اعتماد بخشا۔
’’ نٹ کھٹ زندگی‘‘ (عینی عرفان کا قسط وار ناول) ایک شادی کی تقریب میں شازمہ کی ساری فیملی مدعوہے۔ بہو ئیں خوب تیاری کر رہی ہیں ۔خوب نوک جھونک ہوتی ہے لیکن ہلکے پھلکے انداز میں اس قسط میں بھی مزیدار گھریلو دلچسپ چٹکلے بیان کیے گئے ہیں ۔ کہانی دلچسپی سے آگے بڑھ رہی ہے ۔
’’ آخر بلاوا آہی گیا ‘‘ (روزینہ خورشید) زیارت خانہ کعبہ وزیارت مسجد نبویؐ پر ایک خوبصورت مضمون ۔یہ جملےخوبصورت ہیں ’’ مطاف پہنچنے کے بعد جب سراٹھایا تو خانہ کعبہ پورے جاہ جلال کے ساتھ سامنے موجود تھا اوراس وقت دل کی کیا کیفیت تھی قلم لکھنے سے قاصر ہے ۔ ان سطورکو بھی کاغذ پرمنتقل کرتے ہوئے بارہا اشکوں کوصاف کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘ اورپھرمسجد نبویؐ کے بارے میں یہ جملے بھی خوبصورت ہیں ’’ حقیقت تویہ ہے کہ مسجد نبویؐ میں جو سکون اوراطمینان قلب نصیب ہوتا ہےایسے لگتا ہے جیسے پیاس اوربے چین روح کوقرار آگیا اورمسجد نبویؐ سے الوداع کے وقت یہ رقت آمیز جملہ ’’ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں اپنا دل مسجد نبوی ؐ میں چھوڑ کے جا رہی ہوں ۔‘‘ ایک خوبصورت مضمون۔
’’ خالوجی ‘‘ (شازیہ بانو) بچپن میں ایک محنتی اور مہر بان استاد (خالوجی ) سے ان کے گھر میں تعلیم حاصل کرنے کا دلچسپ احوال ۔ انہوںنے تعلیم حاصل کرنے کے لیے محنت کا عادی بنایا ۔ ان کا پڑھایا ہوا زندگی بھر کام آیا ۔ ایسے محنتی، اورمشفق اساتذہ آج کل کہاں ملتے ہیں ۔ یہ مضمون پڑھ کے لگتا ہے ہم بھی اپنے بچپن میں پہنچ گئے ہیں اورپرائمری سکول میں بیٹھے ہیں۔
’’ چچا جان کے نام ‘‘ ( عالیہ حمید ۔چچا جان کے نام پیارمحبت میں ڈوبا ایک خط جوایک پیاری بھتیجی نے نہایت شوق سے لکھا ہے ۔ اللہ سب کو ایسے مہر بان چچا اورایسی پیاری بھتیجیاں عطا کرے ( آمین )۔
’’ اللہ سے اچھا گمان‘‘ (بنت ِسحر) آپ نے مجھے اچھے سے واضح کیا ہےکہ اللہ سے اچھا گمان رکھنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم جان بوجھ کے گناہ پہ گناہ کیے جائیں کہ اللہ توہمیں معاف کردے گا ۔ نہیں بلکہ اللہ سے اچھے گمان کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ اوررسولؐ کے احکامات پر عمل کریں پھر اگرنا دانستہ کوئی گناہ ہوجائے تو توبہ استغفار کر کے اللہ سے اچھا گمان رکھیں ۔اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ضرورہے لیکن قہار و جباربھی ہے ۔
’’ بتول میگزین‘‘ سنعیہ یعقوب گھر کی یادوں ، رشتوں ، محبتوں اورچاہتوں میں ڈوبا ایک پیارا مضمون لکھا ہے فائزہ ظفر نے علامہ اقبال کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہارکیا ہے اور انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔
علیزہ نوید نے اپنی پیاری امی کی یادیں قارئین کے ساتھ شیئر کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی امی کوجنت الفردوس کے اعلیٰ گوشوں میں جگہ عطا فرمائے ( آمین )۔
ذیابیطس(شوگر ) کے بارے میں ڈاکٹر ناعمہ شیرازی کاایک معلوماتی مفید مضمون ڈاکٹرصاحبہ نے اس موذی مرض کے بارے میں مفید مشورے دیے ہیں ۔ اس میں پرہیز بہت ضروری ہے ہمیں ڈاکٹر صاحبہ کی ہدایات پرضرورعمل کرنا چاہیے۔
گوشہ تسنیم ’’ لہو کے چراغ ‘‘ ( ڈاکٹربشریٰ تسنیم صاحبہ کا کالم ) ڈاکٹر صاحبہ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں سر زمین فلسطین کی تقدیس و حرمت کے بارے میں وضاحت کی ہے ۔آپ نے واضح کیا ہے کہ حق پر ڈٹے رہنا ہی ایک مومن کی شان ہے۔ آپ نے فلسطین کے مجاہد مسلمانوں کوزبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے جو بیت المقدس کی حرمت و حفاظت کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں ۔ہزاروں فلسطینی بچے ، خواتین ، مرد شہید ہوچکے ہیں ۔ لہو کے چراغ روشن کر رہے ہیں۔انشاء اللہ ایک دن ان کی یہ قربانیاں رنگ لائیں گی ۔
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
٭