کرامت بخاری ۔ لاہور
آپ کا جریدہ ادب ’’بتول ‘‘ حسب روایت باقاعدگی سے معیار وقار اور اعتبار کی منزلیں طے کر رہا ہے ۔ اس کی ترتیب ، تدوین ، تزئین ، تشکیل ، ترسیل اور توازن اس بات کی غمازی کر تا ہے کہ ہمارا نسائی شعری ادب اورنثری ادب ، مذہبی ثقافتی شعور اور تہذیبی شعور بتدریج ارتقائی منازل پہ ہے ۔ آپ کے ذمہ انتہائی اہم شعبہ ہے، 50فیصد آبادی کو تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی پہلوئوں سے مضبوط مربوط اور متوازن افکار سے مالا مال کرنا ۔ مغربی مادر پدر آزادی بلکہ بے را ہ روی کو روکنا کوئی معمولی کام نہیں ۔ اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ طویل غیر حاضری پر معذرت خواہ ہوں ۔ تین چار غزلیںروانہ کر رہا ہوں اپنی سہولت کے مطابق جگہ عنایت کر دیں اللہ آپ کو صحت اور تندرستی سے رکھے محترمہ نجمہ یاسمین کی غزلیں نظر نہیں آئیں اللہ انہیں صحت سے رکھے ۔٭
نسیم راشد ۔کراچی
مارچ 2021 کا شمارہ پڑھا۔ اداریہ میں عورت مارچ کے حوالے سے بہترین تجزیہ کیا اور مدلل اور ٹھوس تجاویز دیں۔
عبدالمتین صاحب نے ’’خوشگوار ازدواجی زندگی کے راہنما اصول‘‘ میں مختصر مگر پراثر انداز میں شوہر وبیوی دونوں کی رہنمائی کی ہے۔’’جنگی قیدی کی آپ بیتی‘‘نے رلا دیا۔مگر اللہ پر توکل اور عزیمت کا رویہ ایمان بڑھانے والا تھا۔ نیر کاشف صاحبہ کا تھر کا سفر انوکھا لگااور اچھا بھی۔خصوصا وہاں کی خواتین سے گفتگو اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد متاثر کن تھی۔
قانتہ رابعہ صاحبہ کی کمی محسوس کی۔ فریدہ خالد نے گھریلو باغیچہ پر اچھی راہنمائی دی ہے کہ دل چاہ رہا ہے کہ ہم بھی کچھ باغبانی کریں۔ گوشہِ تسنیم ہمیشہ کی طرح بہترین اور سب ہی سلسلے اپنی جگہ اہم موضوعات لیے ہوئے ہیں. ہمیشہ کی طرح بتول کی ٹیم کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے اور بتول کو نئے افراد سے متعارف کروانے کی کوشش بھی ہوتی ہے۔٭
ماں جی کے صبر کا انوکھا واقعہ
رحیم یار خان قیام کے دوران کی بات ہے کہ ہماری چھوٹی بہن مریم سخت بیمار ہوگئی ۔ والد صاحب بسلسلہ ملازمت ساہیوال تھے ۔ میں اور والدہ صاحبہ قریبی ڈاکٹر سے دوائی لیتے رہے افاقہ نہ ہؤا۔
ماں جی کی عادت ہے کہ اگر گھر میں کوئی بیمار ہو تو سورۃ تغابن پڑھ کر دم کرتی ہیںوہ حسب عادت عشاء کی نماز پڑھ کر مریم کو جھولی میں لٹا کر دم کر نے لگیں اور ہمیں فرمایا سو جائو ۔ ہم بہن بھائی سارا دن پڑھائی کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے ۔ بچپن میں حالات کی نزاکت کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں جلدہی نیند آگئی۔ ماں جی کے بقول صرف تین یا چار دفعہ ہی سورۃ تغابن پڑھی تھی کہ مالکِ موت و حیات کا فیصلہ آگیا اور ماں جی اپنی معصوم بیٹی کی لاش جھولی میں لیے تمام رات اپنے مالک سے ہم کلام ہوتی رہیں ہاتھ اٹھائے ہوئے ، جھولی پھیلائی ہوئی ، ہاتھ آنسوئوں سے تر ، جھولی میں لخت جگر کی لاش اور کوئی شور ،واویلا نہیں ۔ اتنی بڑی پریشانی میں بھی عقل کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
صبح فجر کے وقت ماں جی نے مجھے آوازدی میرے جاگنے پر فرمایا ، بیٹا جائو ناظم صاحب( مدرسہ بد ر العلوم حمادیہ رحیم یار خان کے ناظم) کو بتائو بہنا فوت ہو گئی ہے ، وہ تمہارے ابو کو فون پر اطلاع دیں۔
میں نے پوچھا امی جی ، بہنا کس وقت فوت ہوئی ۔ ماں جی نے بتایارات کے شروع میں ۔ میں نے کہا ماں جی آپ مجھے جگا دیتیں تاکہ بروقت کسی کو اطلاع کر کے کفن دفن کا انتظام کر تے ، تو ماں جی نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا۔
صبراں والیاں دے بیڑے نے پار
تے بند یو صبر کرو!
(حافظ نجم الحسن)