’’ چمن بتول‘‘ ماہ دسمبر 2021 کا ٹائٹل ’’ سقوط ڈھاکہ‘‘ کی یاد تازہ کر رہا ہے جب ہمارا وطن دو لخت کردیا گیا تھا ۔ ٹائٹل میں ایک چوڑی سفید پٹی جیسے ایک خوبصورت قدرتی منظر کو الگ الگ کر رہی ہے بالکل ایسے ہی ہم دو بھائی ایک دوسرے سے جدا کر دیے گئے تھے ۔ آرٹسٹ نے کمال مہارت سے یہ منظر تازہ کردیا ہے ۔ گویا دلوں کے زخم ہرے ہوگئے ہیں۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما نے اپنے اس اداریےمیں ملک کی گھمبیر صورت حال پر روشنی ڈالی ہے ۔ آپ کے یہ جملے ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ’’ ابھی تک تبدیلی کے ایجنڈے کا کوئی مثبت اثر عوام تک نہیں پہنچا مہنگائی کا طوفان البتہ ضرور آگیا ہے جس نے زندگی مزید مشکل کردی ہے … سرکاری محکموں میں کرپشن کا راج اُسی طرح ہے انصاف کا حصول اور زیادہ مشکل ہوگیا ہے…مگر اب تک کے حالات نے مایوسی پیدا کردی ہے‘‘۔ آپ نے اپنے اداریے میں میڈیا کے اہم کردار کے بارے میں بجا طور پر لکھا ہے۔ ’’حکومت پر میڈیا کی بے لاگ تنقید سے حکومت پراپنی کار کردگی بہتر بنانے کے لیے دبائو بڑھتا ہے ‘‘۔
’’ سچ اور جھوٹ‘‘( پروفیسر امینہ سراج) آپ نے اپنے اس بصیرت افروز مضمون میں خوب واضح کیا ہے کہ صدِق ( سچائی) اخلاقِ حسنہ کی فہرست میں اہم ترین ہے اور کذِب( جھوٹ) اخلاقِ رذیلہ میں بد ترین ۔ زبان کی سچائی دل کی سچائی اور عمل کی سچائی ایک مومن بننے کے لیے ضروری ہے ۔ سچائی نبیوں کے نمایاں اوصاف میں سے ہے خود ہمارے رسول پاکؐ بعثت سے پہلے ’’ صادق اور ا مین‘‘ مشہور تھے۔
’’ رسول اللہ قرآن کے آئینے میں ‘‘( ڈاکٹر میمونہ حمزہ)مضمون میں وضاحت کی گئی ہے کہ آپؐ کی رسالت کی گواہی قرآن پاک دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بار بار آپ ؐ کی نصرت واعانت کا وعدہ کیا ہے‘‘۔ قرآن پاک میں واضح حکم ہے ’’ جو کچھ رسول تمہیں دیں لے لواور جس چیز سے تمہیں روک دیں رُک جائو ‘‘۔
قرآن پاک کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو تمام بنی نوع انسان کی طرف پیغمبر بنا کے بھیجا اور رحمت اللعالمین کا لقب عطا فرمایا۔
’’جب پاکستانی ہونا جرم ٹھہرا‘‘ ( سید سجاد حسین) سید صاحب سقوط ڈھاکہ پر بے حد مغموم تھے ۔ پاکستان سے محبت کی ’’پاداش‘‘ میں آپ نے بنگلہ دیش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ مکتی باہنی کے لوگوں نے آپ پر بے حد ظلم کیا ، آپ کے جسم کو جگہ جگہ سے زخمی کر دیا ۔ بنگا لیوں کی قید میں گزرے دنوں کا دل دہلادینے والا احوال ۔
’’ ہم کو درکار ہے روشنی یانبیؐ‘‘ حفیظ تائب مرحوم کی خوبصورت نعت ہے :
زیست کے تپتے صحرا پر شاہِ عرب تیرے اکرام کا ابر برسے گا کب
کب ہری ہو گی شاخِ تمنا مری کب مٹے گی میری تشنگی یا نبیؐ
غزل( نجمہ یاسمین یوسف) اس غزل میں آپ کی شاعری عروج پہ نظر آتی ہے ۔ غزل کے اشعار بہت پیارے ہیں ۔ دل کو چھوتے ہیں دومنتخب اشعار:
سرِ شاخ نشیمن چہچہاتا اور ہے اے دل
کسی کنج قفس کو گھر بنانا اور ہے اے دل
چھپا کاغذ کی نائو میں لڑکپن ملنے آتا ہے
شبِ پیری میں ساون رُت کا آنا اور ہے اے دل
کرامت بخاری کی غزل سے دو اشعار:
زندگی بھی عجب معما ہے … ہر قدم پر سوال رکھاہے
ہر بلندی کی آخری حد پر … ایک حرفِ زوال رکھا ہے
شمیم فاطمہ کی حسرت ویاس میں ڈوبی غزل سے دو منتخب اشعار:
ڈوبتی سانس کو تکتے ہیں بجھی آنکھوں سے
آخری شام کی دہلیز پہ بیٹھے ہوئے لوگ
اب اسی شہرنگاراں میں نظر آتے ہیں
ٹوٹے پھوٹے ہوئے ، روندے ہوئے مسلے ہوئے لوگ
’’ میں عابدہ شہزادی ہوں ‘‘ اس خوبصورت کہانی میںقانتہ رابعہ صاحبہ نے نہایت پیارے انداز میں قلم کی حرمت کا احساس اُجاگر کیا ہے اور بتایا ہے کہ نوکِ قلم سے ایسی تحریر یں نکلنی چاہئیں جو معاشرے میں ایک مثبت انقلاب برپا کر دیں ، لوگوں کی اصلاح کا موجب بن جائیں اور یہ کہ ایک اہل قلم کو عاجز ہونا چاہیے نہ کہ مقرر کیونکہ پھلدار درخت کی شاخیں جھکی ہوتی ہیں۔
’’چناب کنارے‘‘( عالیہ حمید) اس کہانی میں واضح ہے کہ انسان سدا سے لالچی اور خود غرض واقع ہؤا ہے ۔ کچھ بھی حاصل کرنے کے لیے بے قرار ہو جاتا ہے لیکن خدا غریبوں کا بھی ہے ۔ دریا میں بہتی بھینس سب بھیڑ بھاڑ چھوڑ کر ایک غریب کے جھونپڑے کی طرف چلی جاتی ہے۔انسانوںکی اس بھیڑ سے تو وہ بھینس اچھی نکلی جس نے غریب لوگوں کا احساس کیا۔
’’خزانہ‘‘( دانش یار) ایک عزم و ہمت والی لڑکی عافیہ کی کہانی جس نے بہت کوشش کر کے ایک دیہات میں لڑکیوں کے لیے مڈل سکول کھولا اور علم کی روشنی ارد گرد کے دیہاتوں میں بھی پھیلنے لگی۔
’’ بارش کے بعد‘‘ (ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ کی ایک یاد گار کہانی) ایک زبردست کہانی ، اگرچہ طویل ہے لیکن بے حد دلچسپ اور سسپنس سے بھرپور کہانی میں بارش، رات ، موسم ، اور جذبات کی عکاسی عروج پر ہے ، منظر نگاری بڑی دلکش ہے۔ ایک خوبصورت پیغام ، ایک عیسائی بچے کے کان میںدی گئی اذان اس کی تقدیر ہی بدل دیتی ہے بڑا ہو کے وہ بچہ نہ صرف خود مسلمان بنتا ہے بلکہ اپنے ما ں باپ کو دائرہ اسلام میں لے آتا ہے۔ دلوں پر گہرا تاثر چھوڑتی ہوئی ایک یاد گار اور عظیم کہانی۔
’’ نبی سلیمان ؑ کی قسم ‘‘( رفعت مرتضیٰ) ایک سبق سکھاتی ہوئی کہانی کہ آج کے ماڈرن دور میں بھی اللہ اور اللہ کے پیغمبروں کی کہی ہوئی باتیں بر حق ہیں ، اگر ہم ان سے منہ موڑیں گے تو گھاٹے میں رہیں گے ۔ ان پر عمل ہماری فلاح کا ضامن ہوگا ۔
’’ مصور اورحسن ‘‘ ( افشاں نوید صاحبہ کا کالم)آپ نے صحیح یاد دہانی کرائی ہے کہ آرٹ کو معاشرے کی اصلاح میں کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ بگاڑمیں ۔ پاکیزہ ادب و ثقافت پاکیزہ معاشرے کی ضمانت ہے ۔ یہ جملے آپ نے بڑے خوبصورت لکھے ہیں ’’ سمندر ، دریا، آبشار، جھیلیں ، سطح آب پر بہتی کشتیاں ، پانی میں تیرتی حسین سمندری مخلوقات، آسمان پر پر پھیلائے پرندے ، سیپی کا موتی پانیوں میں مسکراتا کنول یا نغمے بکھیرتی ہوئی کوئل ۔ یہ سب کائنات کا جمال ہی تو ہے ‘‘۔بلا شبہ یہ ایک خوب صورت کالم ہے ۔
’’ دل پہ گزری ہے جو قیامت‘‘ ( بنت سلمیٰ صفدر) آپ نے اپنی پیاری اور نیک سیرت والدہ کے بارے میں خوبصورت مضمون لکھا ہے ۔ واقعی مائیں ہمارے لیے اس دنیا میں ایک عظیم نعمت ہوتی ہیں ۔ چلی جاتی ہیں تو لگتا ہے ہمارے سروں سے سایہ اٹھ گیا ہے ۔
ماں میری راہ تکتی جہاں سے گئی
کوئی دشمن بھی وقت ایسا دیکھے نہیں
میں یہاںوہ وہاں بن ملے چل بسی
بے بسی، بے بسی، میری ماں چل بسی
’’ عورتیں اگر گھر کا کام کرنا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا ؟ ‘‘( اننت پرکاش) ہمارے مذہب نے مرد و خواتین کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین احسن طریقے سے کر دیا ہے ہمارے پیارے رسول پاکؐ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ آپؐ گھریلو کاموںمیں ازواج مطہرات کی مدد بھی کر دیا کرتے تھے ۔بلا شبہ گھریلو کاموں میں بچوں کی تعلیم و تربیت میں مردوںکوخواتین کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔
’’ بچے من کے سچے ‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ کا پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں کی محبت میں گندھا ہؤا ایک خوبصورت مضمون ۔ واقعی بیٹے
بیٹیوں کی بہ نسبت پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں ہمارا زیادہ پیار لوٹ لیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں سدا سلامت رکھے ( آمین)۔
’’ مشورہ کرنا اچھا ہے ‘‘( عبد المتین ) بجا فرمایاہے کہ ہمیں کوئی بھی اہم کام کرنے سے پہلے اہل لوگوں سے ، اپنے والدین یا بزرگوں سے مشورہ ضرور کر لینا چاہیے اس طرح معاملات سنورجاتے ہیں ۔
’’ اوپر والا ہاتھ‘‘( آسیہ عمران ) بڑی خوبصورتی سے سمجھایا گیا ہے کہ ہمیںدوسروںکی مدد کر کے خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قابل بنایا ہے اگرچہ ہمارا ہاتھ اوپر والا ہو لیکن ہمیں تکبر نہیں کرنا چاہیے اس طرح نیکی ضائع ہو جاتی ہے۔
’’ ماں باپ کا باہم تعلق‘‘( وسیم قریشی) کامیاب ازدواجی زندگی کے بہترین اصول بتاتے ہیں کہ میاں بیوی کا تعلق اگرچہ اچھا اورخوشگوار ہو تو نسلیں سنوار دیتا ہے ۔
حکیم صاحب نے جاپانی پھل کے فائدے خوب گنوائے ہیں۔ کولیسٹرول، دل کی بیماریوں ، شوگر ، بلڈ پریشر، جوڑوں کے درد وغیرہ میں یہ بے حد مفید ہے ۔ ہمارے ہاں سوات میں یہ پھل بہت زیادہ ہوتا ہے ۔
گوشۂ تسنیم’’عورت کا گھر ‘‘( ڈاکٹر بشریٰ تسنیم) آپ نے واضح کیا ہے کہ عورت کا گھر کے ساتھ تعلق اورپیاربہت گہرا ہوتا ہے ۔ عورت بلا شبہ گھر کی ملکہ ہوتی ہے اس مضمون میں کامیاب عائلی زندگی کے بہترین اصول بتائے گئے ہیں۔خوبصورت جملے ’’ اور اس کے حسنِ سلیقہ کا ہی اعجاز ہے کہ عورت مکان کے مکینوں میں الفت و محبت اور باہم روابط کا باعث بنتی ہے اور یہی حسنِ معاشرت عورت کے شایان شان ہے ۔اوریہ کہ ’’ گھر کے سارے مکین ایک دوسرے کادل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں توگھر امن وسکون کا گہوارہ بن جاتے ہیں ‘‘۔
مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ قانتہ رابعہ صاحبہ جیسی نامور شخصیت نے میراشکریہ ادا کیا ہے ۔ یہ بلاشبہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی ہے ۔ ہم تو آپ جیسی ہستیوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت مند رکھے اوراللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔
آخر میں ’’ چمن بتول‘‘، ادارہ بتول اور سب قارئین کے لیے دلی نیک خواہشات۔
٭٭٭
رخسانہ شکیل
نو مبر کے بتول میں آسیہ عمران کی تحر یر فارمی مرغیاں شائع ہوئی بہت د لچسپ اور سبق آموز تحر یر تھی یوں تو پورا بتول ہی قابل تعر یف ہے سب ہی تحا ریر قابل ستائش ہیں اور پورے بتول میں عرق ریزی سے کی گئی محنت ہر جگہ نظر آتی ہےمیں بتول کی بہت پرا نی قاری ہوں بہت کچھ اس سے سیکھنے کو ملا اللہ سے دعا ہے بتول یونہی ترقی کرتا رہے اورہمارےلیےبہترین ادبی سر گرمیاں انجام دیتا رہے۔
٭٭٭