مبارزت ہے
لعینِ دوراں! مبارزت ہے
(مگر کدھر سے؟)
گھرے ہوئے غم زدہ نگر سے
نہیں وسیلہ جنھیں میسر
نہ کوئی سامانِ جنگ حاصل
جو اپنے گھر میں ہوئے ہیں بے گھر
جو رزم گاہوں میں ہیں مسلسل
ادھورے پن میں بھی ہیں مکمل
نہتے لوگوں کے دستِ بےکس میں
سنگ پاروں کا اسلحہ ہے
یقیں کی دولت سے جو غنی ہیں
خدا کی الفت کے جو دھنی ہیں
قسم خدا کی وہی جری ہیں
زمینِ اقدس میں پھر
مقدس لہو کی خوشبو بسی ہوئی ہے
شہادتوں کی صدا ہے لیکن
امید فتحِ مبیں ہری ہے
دریدہ جسموں کے زخم گننا ہے گرچہ مشکل
رقم اسی میں ہوئی ہے وجہِ شکست باطل
بلکتے چہروں پہ جیسے ٹھہری نویدِ منزل
غم وستم سے جو ہیں شکستہ
قیامتوں سے نہیں وہ پسپا
صداقتوں میں نہیں وہ تنہا
مگر حمایت کا سارا لشکر
کبھی تو پہنچے بیاں سے آگے
وہ کاروانِ سپہ کے رہبر
جو سرفروشی کا اک حوالہ بنے ہوئے ہیں
ازل کے دشمن کی دل دہی کوجوصف بہ صف تھے
یہ دردِ عالم کا مسئلہ ہے،بتا رہے تھے
اِدھر بھی دیکھیں سنہرا گنبد
ہمارے خطے کی حرمتوں سے
بھرم کی تجدید مانگتا ہے
ہمارے پرچم کی رنگتوں سے
عمل کی تصدیق مانگتا ہے
سوال امت کےرہنماؤں سے کررہاہے
کوئی تو ایوان ہو جہاں بیٹھ کر یہ سوچیں
نہ سنگ بازوں کے کام آیا
تو اسلحہ پھر کہاں کھپے گا
سپاہیوں کا چٹان لشکر یونہی رہے گا
بچایا اس کو تو کیا بچے گا!