تعلیم کی ابتدائی جماعت سے ہی سب جانتے ہیں کہ کامیاب ہونے اور اگلے درجے میں ترقی حاصل کرنے کے لیے کسی ایک یا زیادہ لازمی مضمون میں پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور ہر مضمون کے امتحانی پرچہ میں کوئی ایک سوال لازمی حل کرنا ہوتا ہے۔
زندگی بھی ایک امتحان ہے اور جسمانی یا روحانی طور پہ زندہ رہنے کے لیے کچھ امر لازمی ہیں۔ جسم کی مشین میں دل وہ لازمی پرزہ ہے جس کے حرکت میں نہ رہنے سے جسمانی موت واقع ہو جاتی ہے۔
روح بھی دل کے سہارے قائم و زندہ رہتی ہے۔ روح کو زندہ رکھنے والا دل بھی اِسی دھڑکتے اور خون پمپ کرنے والے دل سے ہی منسلک ہے۔ مگر دھڑکتا دل زندہ محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس کی بنا پر انسان کو تندرست قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر وہ دل جو روح کو زندہ رکھتا ہے وہ بیمار ہو، کام کرنا چھوڑ دے، زنگ لگ جائے، سیاہ ہوجائے، یا مُردہ ہو جائے تو دنیا کی کوئی مشین اس کی حالت زار کا عکس پیش نہیں کر سکتی۔ بظاہر زندہ انسان، مُردہ روح کے ساتھ پھرتا ہے…… اللہ تعالیٰ نے فرمایا سورہ الاعراف 179 میں:
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِنات اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان تو ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں‘‘۔
گویا کہ جہنم میں جانے والے دراصل زندگی کے لازمی امتحان میں ناکام ہونے والے ہیں اور یہ ناکامی دل کے ’’تقویٰ‘‘ والے لازمی مضمون میں فیل ہونا ہے۔ جب دل میں تقویٰ ہوگا تو زندگی کے سارے چھوٹے بڑے معاملات رب کی رضا کے مطابق ہوں گے۔ اور سماعت، بصارت اور دل میں اٹھنے والے خیالات کی بھی نگہداشت ہوگی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ لازمی پرچے میں پاس ہونا ہی اگلی کلاس میں جانے کی دلیل ہے اگرچہ وہ نمبر مطلوبہ معیار کا آخری درجہ ہی کیوں نہ ہو یعنی رعایتی نمبر ہی کیوں نہ حاصل کیے ہوں۔ مومن بھی مطلوبہ معیار تک پہنچنے کی پوری سعی کرتا ہے اگر وہاں تک نہ پہنچ سکے تو اللہ تعالیٰ کی رعایت و رحمت حاصل ہونے کا غالب گمان ضرور ہو جاتا ہے۔ در حقیقت اللہ رب العالمین کی رحمت ہی نجات کی دلیل ہے۔ یہ رحمت ذرے کو آفتاب بنا سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ ذرہ موجود ہو۔
اللہ تعالیٰ نے جو نظام زندگی بنایا ہے وہ معاشرت کا ہو یا معیشت کا، حکومت کا یا عبادات کا، حقوق اللہ کا یا حقوق العباد کا…… سب کا کوئی ایک بنیادی اور لازمی امر ہے جس کی پابندی پہ ہی کامیاب زندگی کا دارومدار ہے۔
نظریہ زندگی میں توحید وہ لازمی پرچہ ہے جس میں پاس ہونے والا ہی دوسرے مضامین کی اچھی کارکردگی پہ کوئی ایوارڈ لے سکتا ہے۔ نظریہ توحید میں فیل ہو جانے والے کے کار ہائے نمایاں کو راکھ بنا کر اڑا دیا جائے گا۔ آئیڈیل یا قابل تقلید نمونہ محمد رسول اللہ ہیں، اور ان کے خاتم النبیین ہونے پہ بلا شک و شبہ ایمان لانا ہے۔
اعمال کی کتاب میں لازمی سوال اخلاص نیت کا ہے۔
’’بے شک اعمال کے انجام کا دارومدار نیت پہ ہے‘‘۔
یہ وہ امر ہے جس کا علم سوائے رب کے کوئی نہیں جانتا۔ بندے اور رب کا یہ بالکل ذاتی اور بنیادی تعلق ہے۔ اس میں حقیقی کامیابی کا علم، آخرت میں ہی پتہ چلے گا۔ اخلاصِ نیت نے ذرے کو آفتاب بنایا ہے یا پہاڑ جیسی نیکیوں کو راکھ کا ڈھیر۔
عبادات کے شعبہ میں لازمی مضمون نماز ہے اور اس امتحانی پرچہ میں پاس ہونا کامیابی اور جنت کی یہی کلید ہے۔
سیدنا انسؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا، وہ درست پائی گئی تو باقی معاملات بھی درست ہوں گے، وہ خراب ہوئی تو باقی معاملات بھی خراب ہوں گے۔ (سلسلہ الصحیحۃ 598)
انسانی اجتماعیت میں لازمی مضمون انسانوں کو’’اللہ کا کنبہ‘‘ سمجھ کر ان کی خیر خواہی کرنا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ انسان کس نظریہ زندگی کو مانتے ہیں۔
قتل ناحق اور مظلوم کی درخواستیں پہلے نمٹائی جائیں گی۔
معیشت میں لازمی امر حلال کمانا ہے۔ پہلا لازمی سوال ہوگا:
’’کہاں سے کمایا؟‘‘
عمر عزیز کی کتاب میں جوانی کا وقت، اس کی مصروفیات کا کیا حال تھا؟
بس یہی سوال کھا جائے گا بندے کو۔
حصولِ علم کے باب میں پہلا سوال علم پہ عمل کی بابت ہو گا۔
حکومت سے پہلا سوال انصاف کا ہو گا۔
سیاست میں لازمی سوال دیانت داری کا ہو گا۔
قرابت داری میں پہلا سوال والدین سے حسن سلوک کا ہوگا۔
اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ہر رشتہ الگ امتحانی پرچہ ہے اور ہر پرچے کے سوال دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر رشتہ حقوق کے الگ تقاضے رکھتا ہے۔ صلہ رحمی کا امتحان رشتوں کی ترجیحات کے ساتھ متعین ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت، صلہ رحمی کرنے والے کا مقدر ہوگی۔
اکل و شرب میں پہلی نعمت پانی کا حساب طلب کیا جائے گا۔ اور یقیناً ہر نعمت کے بارے میں محاسبہ ضرور ہوگا۔
مزاج کے اتار چڑھاؤ میں نفس پہ قابو کا پیمانہ دیکھا جائے گا۔
بندوں میں سب سے بہترین کون ہے؟ یہ دیکھنے کے لیے حسن اخلاق کو تولا جائے گا اور اخلاقی معاملات میں سب سے پہلے زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو سچ جھوٹ پہ پرکھا جائے گا۔ کیونکہ مومن میں کوئی بھی کمزوری ہو سکتی ہے مگر مومن اور جھوٹ دو متضاد چیزیں ہیں۔
حیات میں حیا کا عنصر ہی بتائے گا ایمان کس درجے کا ہے۔ کیونکہ حیا اور ایمان لازم وملزوم ہیں۔
بندوں کے باہم معاملات اور حقوق و فرائض کی چھان بین کی جائے گی تو سب سے پہلے میاں بیوی کو آمنے سامنے لایا جائے گا۔ نکاح کے تقاضے کس نے زیادہ احسن طریقے سے، خیانت کیے بغیر ادا کیے۔ یہی جانچنے کو میزان رکھ دی جائے گی۔
ہر فرد سے حساب کی کیفیت مختلف ہوگی، کسی کا آسانی سے، کسی کا سختی سے، کسی کا خُفیہ، کسی کا اعلانیہ، کسی کا ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ اور کسی پہ فضل، تو کسی کا انتقام کے ساتھ حساب لیا جائے گا۔ یہ سب سلوک بنیادی پرچوں کے لازمی سوالوں کو حل کرنے کے مطابق ہوگا۔
اللہ تعالیٰ مالک کائنات اور حاکم مطلق ہے اور حاکم و مالک کی بنیادی ذمہ داری انصاف کرنا ہے، اس لیے ’’بدلے کا دن‘‘ مقرر فرما کر یہ اعلان عام کر دیا کہ:
’’آج کسی پہ ظلم نہ ہوگا‘‘
ذرہ برابر نیکی ہو یا برائی اپنی مکمل شہادتوں کے ساتھ پیش ہوجائے گی۔
وہ رب ہر چیز پہ قادر ہے اپنے بندوں کو چاہے بخش دے چاہے عذاب دے۔ اس سے کوئی جواب طلب نہیں کر سکتا مگر وہ ہر کسی کا محاسبہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اور دنیا میں کوئی اپنے اچھے برے معاملات پوشیدہ رکھنے میں کامیاب ہو بھی جائے مگر آخرت میں آنکھوں کی خیانت اور دل میں اٹھنے والے خیالات بھی کتاب عمل میں درج ہوں گے اور پوشیدہ نیکیاں بھی غیر متوقع طور پہ بہار دکھا رہی ہوں گی۔ اپنی تصنیف کردہ کتاب ہاتھ میں پکڑا کر کہا جائے گا کہ:
’’اپنی کتاب زندگی کے سارے مندرجات کو پڑھ، اور آج تو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کو خود ہی کافی ہے‘‘ (الکہف 14)۔
اس دن کی رسوائی، پریشانی، فضیحت، پشیمانی سے بچنے کا ایک ہی
حل ہے کہ:
دنیا کی اس امتحان گاہ میں پرچہ حل کرتے ہوئے اپنی توجہ ادھر ادھر کرنے کی بجائے اپنے پرچے پہ ہی مبذول رہے، یہ بھی دھیان رہے کہ کون سے لازمی سوال ہیں جن پہ پاس ہونے کا دارومدار ہے۔
ہر نماز کے بعد، اور سونے سے پہلے دن بھر کے اپنے حل شدہ پرچے پہ نظر ثانی ضرور کر لیں تاکہ توبہ و انابت سے غلطی کی اصلاح ہوجائے کیونکہ ہو سکتا ہے یہ نماز، آخری نمازہو، اور رات کو بستر پہ چھوٹی موت سے ہمکنار ہونا حقیقی موت کا پیش خیمہ بن جائے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت میں کامیاب زندگی کے لیے استعانت طلب کرتے ہیں۔
٭ ٭ ٭