پاکستان میں اردو قومی زبان سے کہیں زیادہ قومی مذاق کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ پاکستان میں جس چیز کے ساتھ ’’قومی‘‘ لگ جاتا ہے یا لگا دیا جاتا ہے اس کی حالت آثارِ قدیمہ کی سی ہو کر رہ جاتی ہے جیسے پاکستان کا قومی پھول یاسمین یا قومی کھیل ہاکی۔ جو حالت ان دونوں کی ہے وہ قابلِ رحم اور قابلِ عبرت سے کم نہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ کراچی کی ملوں کے وہ اوقات جس میں کام شروع ہوتا یا باری تبدیل ہؤا کرتی تھی تو وہ سڑکیں جو ملوں اور کارخانوں کی جانب جایا کرتی ہیں، ان پر آنے جانے والے انسانوں کا سمندر دیکھا جا سکتا تھا لیکن بد قسمتی سے جب سے یہ ملیں اور کارخانے’’قوم‘‘کی ملکیت میں لے لیے گئے، ان دونوں اوقات میں ایسا سناٹا چھایا ہؤا نظر آتا ہے جیسے خدا نہ خواستہ لوگ اجتماعی جنازوں میں شرکت کرنے جا رہے ہوں۔
بات سوشل میڈیا کی ہو، ٹیلی ویژن چینلوں کی ہو یا پرنٹ میڈیا کی، عالم یہ ہے کہ جو کچھ چھاپا جا رہا ہے، سنایا جا رہا ہے، دکھا یا جا رہا ہے یا پڑھا یا جا رہا ہے، لگتا تو ہے کہ وہ شاید اردو ہی ہو لیکن میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس کا اردو سے دور دور تک کوئی تعلق بنتا ہی نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اپنی زبان میں انگریزی کے بیشمار الفاظ اس کثرت کے ساتھ بولتے ہیں کہ وہ ہر جملے کی چالیس سے پچاس فیصد تحریر پر غالب ہوتے ہیں۔ یہی حال تحریروں کا ہے اور یہی حال اس ماحول کا ہے جو ڈراموں، عام دلچسپی کی پروگراموں اور بحث و تمحیص کے اوقاتِ کار کیلئے مختص ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ایسے خاص پروگرام جو شاعری اور ادبی نشستوں پر مشتمل ہوتے ہیں وہاں بھی اردو کے ساتھ جو مذاق کیا جا رہا ہوتا ہے اس سے ہمارے قومی’’مذاق‘‘ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے حال کا اندازہ اردو کے معاملے میں دلاور فگارؔ کے اس قطعہ سے خوب اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ:
اک یونی ورسٹی میں کسی سوٹ پوش سے
پوچھا جو میں نے آپ ہیں کیا کوئی سارجنٹ
کہنے لگے کہ آپ سے مس ٹیک ہو گئی
آئی ایم دی ہیڈ آف دی اردو ڈپارٹمنٹ
اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی کے بیشمار الفاظ اردو زبان میں کچھ اس طرح جذب ہو گئے ہیں کہ جیسے وہ اردو ہی کے ہوں اور بعض ان میں ایسے ہیں جس کے مفاہیم جو انگریزی میں ہیں وہ اردو میں ان معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوتے۔ جیسے ہم ’’کاپی‘‘ جس کا اردو ترجمہ ’’نقل‘‘ بنتا ہے، اس کو ہم نقل کے معنوں میں کم اور انگریزی کے لفظ ’’نوٹ بک‘‘ کے معنوں میں زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ جیسے اردو کی یا انگریزی کی کاپی خریدنا ہے وغیرہ۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انگریزی کے جو الفاظ اردو میں بکثرت بولے جاتے ہیں اگر ان کو جمع کے صیغے میں لیا جاتا ہے تو ہم اسے انگریزی کے اصولوں کی بجائے اردو تراکیب میں استعمال کرتے ہیں مثلاً ٹیبل کی جمع ٹیبلز نہیں ٹیبلوں بناتے ہیں یا کاپی کی جمع کاپیز نہیں کاپیوں بنا تے ہیں۔
پھر یہ کہ اردو میں ضم ہوجانے والے الفاظ انگریزی یا کسی بھی زبان کے ہوں، ان جیسا مفہوم رکھنے والے اردو کے الفاظ اگر استعمال میں بھی لے آئے جائیں تو ایک جانب تو کافی افراد کو ان کا مطلب سمجھ میں ہی نہیں آئے گا اور اگر لوگ سمجھ بھی جائیں تو شاید وہ آنکھوں اور کانوں کو اتنے بھلے نہ لگیں جتنے وہ انگریزی یا دوسری کسی زبان میں ادا کرنے یا لکھنے کے بعد لگتے ہیں۔ مثلاً انگریزی کا ایک لفظ جسے ہم بکثرت استعمال کرتے ہیں وہ ہے’’پروگرام‘‘۔ یہ لفظ اردو میں کچھ یوں ضم ہو کر رہ گیا ہے کہ ہماری نئی نسل شاید ہی اس بات کو تسلیم کرے کہ یہ خاندانِ انگلشیا سے تعلق رکھتا ہے۔ اب کوئی بھی بڑے سے بڑا دانشمند مجھے یہ سمجھائے کہ اردو کا وہ کونسا ایسا لفظ ہوگا جو لفظ پروگرام کے مفہوم کا پورا پورا حق ادا کر سکے لہٰذا ایسے الفاظ، جو ہوں تو انگریزی کے اور اردو زبان میں اس خوبی کے ساتھ ضم ہو گئے ہوں کہ وہ اردو ہی کا جزوِ لاینفک بن گئے ہوں، اوران کو اپنی بول چال یا تحریروں میں استعمال کیا جاتا ہو تو اس میں میرے نزدیک کوئی برائی نہیں۔ لیکن زبر دستی اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کے لیے اپنی گفتگو یا تحریروں میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال ایک جانب تو ہماری ذہنی پسماندگی کی سمت اشارہ کرتا ہے تو دوسری جانب آپ کی تحریر اور گفتگو اپنی خوبصورتی کھو دیتی ہے اور آپ تسلیم کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ ایسی قومی زبان کے حامل ہیں جو دوسرے ملکوں کی قومی زبان کے سامنے بہت چھوٹا درجہ رکھتی ہے۔
یہ بات کوئی انگریزی زبان کےلیے خاص نہیں کہ اس کے بہت سارے الفاظ، معنی و مفاہیم کا ایسا ہجوم رکھتے ہیں جو کسی اور زبان کے کسی ایک لفظ میں پوشیدہ نہیں ہوتا۔ جیسے پروگرام، چیلنج یا نوٹ وغیرہ۔ ہر زبان میں بیشمار ایسے الفاظ ہوتے ہیں جس کے لیے ویسا ہی لفظ تلاش کرنا جس میں اسی جیسے پورے پورے معنی پوشیدہ ہوں، ناممکن ہوتا ہے۔ مثلاً اردو کا ایک لفظ ہے’’فرق‘‘۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کو بہت سارے معنوں اور بہت سارے انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یوں تو اس کے معنی جدائی، دوری، فاصلہ، بُعد، ہجرت، اختلاف، تضاد، امتیاز، تمیز، بیگانگی اور غیریت کے ہیں لیکن ایک واضح مفہوم ’’عدل‘‘ کا بھی ہے۔ حضرت عمر ؓ کا ایک خطاب ’’فاروق‘‘کا بھی ہے۔ فاروق کا مطلب فرق سمجھنے والے یا کرنے والے کے بھی ہوا کرتے ہیں۔ ایک بہترین عادل ہو ہی وہ سکتا ہے جو اچھے برے، نیک و بد، ظالم اور مظلوم، حق و ناحق کے فرق کو بہت اچھی طرح سمجھتا ہو۔ ہم کسی رقم میں سے کسی رقم کو گھٹانے کے عمل کو اردو میں ’’تفریق‘‘ کہتے ہیں جس کو انگریزی میں ’’مائینس‘‘کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی مقدار میں سے کچھ مقدار کو جدا کرنا۔ اسی فرق سے ایک لفظ نکلا ہے ’’فرقہ‘‘یعنی مذہبی نقطہ نظر سے کچھ لوگ اپنے آپ کو بہت ساری رسومات یا دین کو سمجھنے کے معاملے میں الگ سمجھنے لگیں۔ گویا یہ بھی ایک فرق ہؤا۔ اسی طرح آپ فرقت کو لے لیں، تمیز کو لے لیں، غیریت کو لے لیں، یہ سب ایک ہی معنوں یعنی ’’فرق‘‘ کے ساتھ جڑے نظر آئیں گے یعنی کچھ لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے الگ، مختلف یا جدا سمجھنے لگیں۔ شبِ فرقت کا لفظ بہت استعمال کیا جاتا ہے اور خاص طور سے شعرا حضرات کی شاعری میں یہ لفظ بہت استعمال ہوتا ہے۔ شبِ فرقت بھی دوسروں سے دوری اور جدائی کی ہی رات ہی ہوا کرتی ہے گویا یہ ان راتوں سے مختلف ہوتی ہے جو سب کے ساتھ گزاری جائے۔ المختصر یہ کہ بظاہر لفظ ’’فرق‘‘ ایک سادہ سا لفظ نظر آتا ہے لیکن اپنے انداز، معنوں اور مفاہیم میں اپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہے کہ کسی دوسری زبان میں صرف ایک لفظ کے اندر اتنے مفاہیم کی موجودگی ہونا مشکل ہی نہیں ناممکنات میں سے ہے۔
پاکستان میں المیہ صرف یہ ہی نہیں کہ ہم زبردستی کسی غیر زبان کو اردو میں ٹھونسے جا رہے ہیں بلکہ ستم در ستم یہ ہے کہ نہ تو ہم اردو کے الفاظ کی ادائیگی کو درست رکھنے کےلیے تیار ہیں اور نہ ہی اس کے املا کی جانب ہماری توجہ ہے۔ اگر آپ رسالوں، اخبارات، ٹی وی چینلوں پر چلنے والی ’’پٹیوں‘‘ (اسٹرپس) اور شرکاء و میزبانوں کی باتوں کو سنیں اور تحاریر کو پڑھیں تو آپ اپنا سر پیٹ کر رہ جائیں۔ جب تحریروں کا یہ عالم ہو کہ ان کے لکھے جانے میں، ’’ث س ص‘‘، ذ ز ض ظ’’ یا‘‘ت ط‘‘ کی تمیز ہی ختم ہو جائے اور بولنے والے زیر زبر پیش کے فرق کو ہی نظر انداز کردیں تو پھر اس پر اردو کو قومی زبان قرار دینے پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
جب عالم یہ ہوجائے کہ بولنے اور لکھنے والوں کو یہ تک تمیز نہ رہے کہ’’نے‘‘ اور’’کو‘‘ کا استعمال کہاں اردو ہے اور کہاں اردو ہی نہیں، تو پھر پاکستان کی قومی زبان کو معیشت کے زوال کے اس آغاز سے جوڑنا کوئی انہونی نہیں ہوگا ۔جب ہمارے پاکستان کی ایک ایک مل، کارخانے، کاروباری مرکز حتیٰ کی تعلیم گاہوں تک کو ’’قومی‘‘قرار دیکر پاکستان کی تباہی و بربادی کا انتظام کر دیا گیا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ اس کے زوال کا سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ آج تک جاری و ساری ہے۔
یہ نہ ہو کہ اردو آنے والے دور میں ایک قصہ ماضی بن کر رہ جائے۔ اس کو بہر حال اس حد تک تو بگاڑ ہی دیا ہے کہ مجھ سمیت ہم میں سے ہر فرد کم از کم اردو کی گنتی تو بھول ہی چکا ہے۔ عالم یہ ہو گیا ہے کہ اپنے پوتا پوتیوں اور نواسہ نواسیوں کے سامنے اگر منہ سے ستاون، اٹھاون یا انسٹھ ساٹھ نکل جائے تو وہ پلٹ کر فوراً دریافت کرتے ہیں کہ ’’یہ کتنے ہوتے ہیں‘‘۔ یہ تو رہی بات اعداد کی ادائیگی کی، اگر یہی ہندسے ۵۷، ۵۸، ۵۹ یا ۶۰ لکھے ہوئے مل جائیں تو شاید ہی کوئی بچہ ان کو درست طریقے سے پڑھ سکے۔
موجودہ دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ سب کے سب اپنی اپنی قومی زبانوں کو رواج دینے اور اپنی درس گاہوں میں تمام عام و خاص کو تعلیم دینے کی وجہ سے ترقی کے اس عروج کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بے شک اور بھی ایسے ممالک ہیں جنھوں نے اپنی قومی زبان کی بجائے ذریعہ تعلیم انگریزی یا کسی اور ملک کی زبان کو بنایا ہے اور ان کی معاشی حالت بھی خوش کن ہے، پھر بھی ایک خطِ امتیاز ان دونوں قسم کے ممالک میں صاف کھنچا ہؤا نظر آئے گا اور وہ فرق ہوگا حاکم و محکوم کا۔
اردو کو قومی زبان کہا جاتا ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ تقسیم سے قبل مشرقی و مغربی پاکستان کے خطّوں میں رہنے والے باسیوں میں کسی کی بھی زبان نہیں تھی بلکہ تقسیم کی وجہ سے آبادیوں کے انتقال کے نتیجے میں کافی بڑی تعداد میں ان خطّوں کی جانب ہجرت کرکے آنے والوں کی زبان تھی۔ برِ صغیر میں رابطے کے طور پر دوہی زبانوں کو بڑی اہمیت حاصل رہی تھی اور ہے۔ ان میں ایک ’’ہندی‘‘تھی اور ایک ’’اردو‘‘’۔ تقسیم کے اسباب میں جہاں مذہب کا واضح عمل دخل تھا وہیں ان دونوں زبانوں کا بھی بہت بڑا کردار شامل تھا اس لیے کہ برِ صغیر میں رہنے والے مسلمان اس وقت بھی اور آج بھی اپنا ذریعہ تعلیم اردو میں رکھنے کے حامی تھے اور ہندو ہندی میں۔ ممکن ہے کہ اردو کا پاکستان میں جس انداز میں حلیہ بگاڑا جا رہا ہے اس کی ایک یہ وجہ بھی رہی ہو، لیکن یہ بات طے ہے کہ جب تک ہر ملک، علوم و تراکیب کے سارے ذخیروں کے ترجمے اپنی زبان میں کرکے اپنے عوام کو اپنی قومی زبان میں تعلیم دینے کو اپنا شعار نہیں بنائے گا، اپنی تہذیب کے اقدار کو فروغ نہیں دے گا اور اپنی ترجیحات میں اپنے اپنے رسوم و رواج کو صف اول میں لے کر نہیں آئے گا، اس وقت تک وہ دیگر اقوام کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کرا سکے گا۔
دنیا کا واحد ملک پاکستان ہے جس کی قومی زبان اردو ہے لیکن معلوم نہیں کیوں پاکستان اپنی ہی قومی زبان کا تحفظ کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ ویسے بھی ہر وہ شے جو ’’قومی‘‘ قرار دے دی جاتی ہے، اس کا جنازہ ہی نکل جاتا ہے۔ قومی پھول یاسمین، قومی کھیل ہاکی، قومیائے گئے ملیں، کارخانے، اسکول اور کالج، قومی ایئر لائن، قومی بینک وغیرہ۔ پاکستان کی ہر وہ چیز جس کو قومی کا نام دےدیا جائے پھر اس کی تباہی جیسے یقینی ہو کر رہ جاتی ہے جس کی سب سے اعلیٰ مثال’’ ـقومی اسمبلی‘‘ ہے جو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک ایک کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی جسے یہاں کے اقتدار کے اصل مالک بالکل اسی طرح توڑ کر پھینک دیتے ہیں جیسے کوئی بچہ اس کھلونے کو توڑ دیتا ہے جس سے کھیلتے کھیلتے اس کا دل بھر جائے۔
اردو اب دنیا کی کوئی معمولی زبان نہیں رہی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی ایک بہت بڑی تعداد اس سے آشنا ہے، اس کو بول اور سمجھ سکتی ہے۔ پاکستان، افغانستان، بھارت، اور بنگلہ دیش میں لاکھوں افراد تو وہ ہیں جن کی یہ مادری زبان ہے اور اس سے بھی کہیں زیادہ تعداد ان افراد کی ہے جو اس کو بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اب بیشمار ممالک جن میں یورپ ، مشرق وسطیٰ، ملائیشیا، سنگاپور حتیٰ کہ امریکا تک کے بازاروں میں ایسے بیشمار تجارتی مراکز مل جائیں گے جہاں کے ملازمین اردو سمجھتے اور بولتے نظر آئیں گے۔ اگر غور کیا جائے تو پاکستان سے باہر یہ کئی ممالک کے لوگوں کی رابطے کی ایک بڑی زبان ہے۔ یہی نہیں، اردو کے چاہنے والوں نے اس پر بہت کام کیا ہے۔ انٹر نیٹ پر علوم و فنون، شعر و ادب اور تاریخ کے ذخیرے کے ذخیرے جمع کر دیے ہیں اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ کسی بھی شعر، تاریخی حوالے یا اداریوں اور کالموں میں کوئی الجھن محسوس ہو رہی ہو تو لوگ ان سب کی تصدیق کے لیے انٹر نیٹ سے رجوع کرنے کے بعد ہی مطمئن ہوتے ہیں۔ گو کہ ابھی اس پر بہت کام کرنا باقی ہے لیکن جتنا کچھ کام ہو چکا ہے وہ بھی لائقِ ستائش ہے۔
اردو کی شکل و صورت کو جس بری طرح مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہاں تک کہ اس کے رسم الخط تک کو بدل دینے کا ایک سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو وہ تمام ذخائر جو لاکھوں کروڑوں کتابوں میں محفوظ ہیں، آنے والی نسلیں ان سے نہ صرف محروم ہو جائیں گی بلکہ وہ کسی اور زبان کے تابع ہو کر مزید کسی اور کے سحر میں گرفتا ر ہو کر رہ جائیں گی۔اب یہ فیصلہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کو کرنا ہے کہ وہ آزادی کے 75 سال بعد بھی غلاموں جیسی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اپنی قومی زبان کو قومی مذاق بنا کر رکھنا چاہتے ہیں یا پھر ترقی کی دوڑ میں برابری کی بنیاد پر حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
٭٭٭