گھرمہمانوں سے بھرا پڑاتھا۔ ایک افراتفری کا سماں تھا۔ ہر کوئی مصروف، کوئی تیاری میں توکوئی باتوں میں، ایک شور تھا جو سارے گھر میں بپاتھا۔ لڑکیاں اپنی ادھوری تیاری کو مکمل کرنے میں سرگرداں تو مائیں اپنے بچوں پر برس رہی تھیں جویہاں سے وہاں بھاگے دوڑے پھر رہی تھے۔مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام اگرچہ لان میں تھا لیکن چونکہ ابھی سسرال والے نہیں آئے تھے لہٰذا اس طرف کے سارے مہمان گھر کے کمروں میں ہی براجمان تھے۔
’’ارے یہ امبر نظرنہیں آرہی،کیا تیار نہیں ہوئی؟ عارفہ اسے دیکھو کہاں ہے؟‘‘سب سے پہلے امی کو ہی اس کا خیال آیا۔ انہوںنے پاس بیٹھی بھتیجی سے پوچھا۔
’’پھوپھو کافی دیرپہلے وہ تیارہونے گئی تھی۔ میں دیکھتی ہوں۔‘‘ عارفہ نے جواب دیا اور ساتھ ہی امبر کو دیکھنے اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ آئینہ کے سامنے بیٹھی نہ جانے اپنے چہرے پر کیا تلاش کررہی تھی ۔ آئی تو وہ سب سے یہی کہہ کرتھی کہ ’’میں تیار ہونے جارہی ہوں۔‘‘ لیکن کتنی ہی دیر ہوگئی تھی اسے یہاں بیٹھے بیٹھے، نہاکر کپڑے تبدیل کرکے اب وہ آئینہ کے سامنے ہلکا پھلکا میک اپ کرنے کے لیے بیٹھی تھی۔ سوٹ کے ساتھ کی میچنگ جیولری بھی ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی تھی۔ لیکن نہ جانے اب کیا ہؤا تھا۔ صبح سے جو وہ اپنے اوپر ضبط کررہی تھی اب وہ آنکھوں کے رستے بہہ نکلا تھا۔
’’کیا تھا اگر رانیہ کی جگہ وہ ہوتی؟‘‘ اس نے اس کمزور لمحے میں بڑی دل آزاری سے سوچا تھا۔’’رانیہ کوئی ایسی حسین تو نہ تھی ہاں لیکن کم عمر تو تھی۔‘‘اس کے دل نے سوال کیا تو ذہن نے سرزنش کی تھی۔ او روہ! وہ خود اب ایک بڑھتی عمر کی لڑکی ہورہی تھی۔ لڑکی یا عورت!‘‘ دماغ نے پھر اسے ٹوکا’’تو کیا ہؤا، دل تو ابھی بھی اس کا بائیس سالہ رانیہ کی ہی طرح ہے، معصوم اور سادہ، اُف!‘‘ اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔
’’کتنی دیر ہوگئی مجھے یہاں آئے لیکن اس خوبصورت ہنگامے میں کسی کو بھی میرا خیال نہیں آیا؟ نہ فائقہ کو اور نہ ہی امی کو؟‘‘ وہ اس وقت سخت احساس کمتری کا شکار ہورہی تھی۔ اپنی بے چارگی کا احساس اسے مارے ڈال رہاتھا۔
’’امبر، امبر دروازہ کھولو۔‘‘ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی، آواز عارفہ کی تھی۔ امبر نے تیزی سے ٹیشو بکس میں سے ٹیشو گھسیٹ کر آنکھوں کو صاف کیا اورجلدی سے دروازہ کھولنے کے لیے کھڑی ہوئی۔
’’امبر!‘‘عارفہ نے جواب نہ پاکر پھر آواز لگائی۔
’’ہاں کھول رہی ہوں۔‘‘ امبر نے گلا صاف کرکے اپنی آواز پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔اور دروازے کالاک کھولا۔
’’کیا ہؤا تم اب تک تیار نہیں ہوئیں؟‘‘ عارفہ کچھ جانچتی نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
’’بس ابھی آئی پانچ منٹ میں۔‘‘ امبر نے رخ بدل کرجواب دیا۔ اورتیزی سے دوقدم آگے بڑھائے۔
’’امبرکیا بات ہے، مجھے بتائو۔‘‘ عارفہ پوچھ رہی تھی۔ لیکن اس وقت خدا نے امبر کی مدد کی اور وہ کوئی بہانہ بنانے سے بچ گئی ، کسی نے اسی وقت عارفہ کو آواز لگائی تھی، عارفہ کے بچے کی کسی دوسرے کے بچے سے لڑائی ہوگئی تھی اور وہ اب باہر لان میں رو رہاتھا۔ عارفہ تو یہ سنتے ہی الٹے قدموں دوڑ گئی تھی۔ امبر نے شکر کا سانس لیا اور واش روم جا کر پہلے اچھی طرح چہرے اورآنکھوں پر پانی ڈالا پھر ہلکا پھلکا میک اپ اورنازک سی جیولری پہن کر باہر آگئی۔
تقریب کے گھر والی مخصوص بھاگ دوڑ ہر طرف ہورہی تھی۔ ایک طرف لڑکیاں بالیاں، رانیہ کے پاس بیٹھی اس کے ساتھ ہنسی مذاق کررہی تھیں۔ سہیلیاں ذومعنی جملے اچھال رہی تھیں۔ اور رانیہ مسکراتی، شرماتی،جھینپتی ،ان کو آنکھیں دکھاتی، دل ہی دل میں مسکاتی بڑی اچھی لگ رہی تھی۔ بہن کی غیرموجودگی کا خیال بھی اس وقت اسے محسوس نہ ہو رہا ہوگا۔
’’رانیہ کے سسرال والے آگئے ہیں، امی کو بھیجو۔‘‘ باہر سے بھائی نعمان کی آواز آئی تھی۔ اوربڑی تیزی سے یہ خبر اندر پہنچائی گئی تھی۔ امی، خالہ جان، تائی ، بڑی چھوٹی پھوپھی،فائقہ اورمامی جان، خاندان کے سب ہی بڑے، امی کی ساتھ تیزی سے مین گیٹ کی طرف بڑھے تھے۔ استقبال کرنے کو، فائقہ کے ہاتھ میں گجروں کی ٹوکری تھی جو وہ سب آنے والے مہمانوں کو دے رہی تھی۔ لڑکیاں گلاب کی پتیاں آنے والوں پر اچھال رہی تھیں۔ وہ ایک ٹک یہ منظر دیکھ رہی تھی۔
’’ارے امبر باجی! آپ یہاں کھڑی ہیں خالہ امی اورفائقہ باجی آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘ایک بچی نے اسے اطلاع دی اور وہ دل ہی دل شرمندہ ہوتی ہوئی گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ کسی نے گجروں کی ایک ٹوکری اس کے ہاتھ میں بھی تھمادی تھی۔ تب وہ فائقہ کے پاس جگہ بناتی کھڑی ہوگئی اور مسکرا کر مہمانوں کا استقبال کرنے لگی۔
’’کہاں رہ گئی تھیں تم؟ ‘‘فائقہ کچھ پریشانی سے پوچھ رہی تھی۔ لیکن وہ مسکرا کر خاموش ہوگئی۔ ’’آج رانیہ نے بھی کسی کے نام کی انگوٹھی پہن لی۔‘‘امبر کے دل میں ہوک سی اٹھی، اس نے برابر والے بیڈ پر گہری نیند سوئی رانی کو گردن موڑ کر دیکھا۔ سوتے ہوئے بھی چہرے پر ہلکی سی مسکان تھی یا اسے ہی محسوس ہوئی، تازہ تازہ فیشل، ماسک، رانیہ کا چہرہ بڑاخاص اورنکھرا نکھرالگ رہاتھا، سوتے ہوئے بھی چہرے پر دلکشی تھی۔
’’ہونہہ! یہ سب اس میک اپ والی کا کمال ہے، اسی نے تو نہ جانے کیا الابلا رانیہ کے چہرے پرملا تھا اسی کی بدولت یہ نکھار آیا ہے۔‘‘ امبر نے بغور رانیہ کے چہرے کودیکھتے ہوئے تنفر سے سوچا۔ وہ اس وقت سخت خود ترسی کا شکار تھی۔ پچھلے ایک ہفتے سے جو بھاگ دوڑ ہورہی تھی وہ آج رانیہ کے منگنی کے فنکشن پر اختتام پذیرہوئی تھی۔ مہمانوں اور سسرال والوں کے جانے کے بعد گھروالوں نے کھانا کھایا۔ چونکہ فنکشن گھرمیں ہی رکھا گیا لہٰذا سار اگھر تلپٹ تھا۔ ان بہن بھائیوں نے تو کہا بھی تھا کہ منگنی کی تقریب کسی چھوٹے ہال میں کرلیتے ہیں لیکن بابا نہیں مانے تھے۔ بابا کی دیکھا دیکھی امی ابھی ان کی ہمنوا بن گئیں۔ بقول بابا’’جب گھر میں جگہ ہے اور انتظام ہوسکتاہے تو پھر باہر کرنے کی کیا ضرورت ہے، اچھا ہے گھر میں رونق رہے گی۔‘‘
اوریوں اس وقت سارا گھر میدان جنگ کا سانقشہ پیش کررہاتھا۔ دونوں بھائیوں کے ساتھ ایک وہی تھی جو گھر سمیٹ رہی تھی، فائقہ تو دونوں بچوں کو لے کر ایک کونے میں لیٹ گئی تھیں۔ راہی رانیہ تو وہ اپنے دلہناپے میں گم تھی۔ امی، ابو کو ان لوگوں نے خود ہی منع کردیا تھا۔ ماسی بھی’’بہت دیر ہوگئی ، بچے پریشان ہورہے ہوں گے۔‘‘ کہہ کر چلی گئی۔ رات کے ڈھائی بج رہے تھے ب وہ تینوں اوپری سمیٹ کر، تھک کر چور ہوتے جسموں کے ساتھ اپنے بستروں پر گئے تھے۔
وہ دونوں تو لیٹتے ہی بے خبر سوگئے، لیکن امبر جب اپنے بستر پر لیٹی تو نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اگرچہ جسم دکھ رہاتھا لیکن ذہن جاگ رہاتھا۔ اس کا اوررانیہ کا مشترکہ کمرہ تھا۔ رانیہ نے بڑی لاپروائی سے منگنی کا قیمتی لباس یونہی صوفے پر ڈال دیا تھا۔
جیولری،ڈریسنگ ٹیبل بکھری پڑی تھی۔ چہرہ بھی شاید اوپری ہی دھویاتھاکیونکہ آنکھوں پر اور ہونٹوں پر میک اپ کے اب بھی کچھ آثار تھے۔ وہ کتنی دیر تک رانیہ کے سوئے وجود کو تکتی رہی، پھر تھک کر نگاہیں ہٹائیں اورپھر آہستہ سے آنکھیں موند لیں۔
’’پہلے فائقہ، پھر رانیہ، اس کے بعد نعمان بھائی اور پھر سلمان، ایک ایک کرکے سب کی شادیاں ہوجائیں گی اور وہ بدقسمت یونہی بیٹھی رہ جائے گی۔‘‘ امبر نے ایک بار پھر بڑی بے رحمی سے اپنا اوربہن بھائیوں کا تجزیہ کیا۔
’’یہ رانیہ کی بڑی بہن ہے، اس کی شادی نہیں ہوئی۔‘‘ کسی نے سرگوشی کی۔
ارے یہ تو سب سے بڑی ہے۔ رانیہ سے بڑی تو دوسری ہے۔‘‘
’’ہائے بیچاری‘‘
آج کی تقریب میں بھی ایسے ہی دردناک تبصرے ا س کی ذات پر ہوئے تھے۔ جس میں سے کچھ اس نے سنے بھی تھے۔ دل تو چاہ رہاتھا کہنے والی سے کہے کہ اسے کیا تکلیف ہے لیکن صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گئی۔یہ موقع ایسا نہ تھا۔ یہ کیا بلکہ وہ تو کبھی بھی،کسی بھی موقع پر کسی کو کچھ نہ کہہ سکی، ہمیشہ ایسی ترحم انگیز نظروں کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتی۔
امبر، بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی، اس سے چھوٹا نعمان تھا، نعمان کے بعد فائقہ جو نعمان سے ڈھائی سال اور امبر سے تقریباً چھ سال چھوٹی تھی، اس کے بعد سلمان اور سب سے چھوٹی رانیہ۔ فائقہ کی شادی تقریباً چھ سال پہلے وحید احمد سے ہوگئی تھی ، دو بچے تھے پانچ سالہ احمر اور ڈھائی سالہ ماہم، وہ اپنے گھر میں خوش باش تھی۔وحید بھائی بڑے زندہ دل اورہنسوڑ طبیعت کے انسان تھے، فائقہ پر انہوں نے کہیں آنے جانے پر کوئی پابندی نہ لگائی ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہفتے میں دوتین مرتبہ توماں کے گھر ضرور چکر لگاتی، اکثر تومیاں کو بھی فون کرکے یہیں بلا لیتی اور وہ بھی تھوڑی دیر بیٹھ کر، بیوی کو لے کر چلے جاتے۔ امبر اکثر فائقہ کی قسمت پر رشک کرتی۔
’’کتنی خوش نصیب ہے یہ، کتنا اچھا شوہر ملا ہے اورایک میں بدقسمت!‘‘ اس کے جملے کی تان ہر دفعہ اپنی بدقسمتی پر ٹوٹتی۔ ایک دفعہ امی کے سامنے بھی بے اختیار ا س کی زبان پھسل گئی، امی تو حیران پریشان اس کی شکل دیکھ کررہ گئیں۔
’’امبر! تم ایسا کیوں کہہ رہی ہوں، کیا تم اپنی بہن سے…‘‘ اس سے آگے امی سے بولا نہ گیا۔
’’نن، نہیں، امی میں ت… ‘‘امبر گڑبڑ ا گئی۔
’’میری بیٹی! اللہ نے تمہارا نصیب بھی ایسا ہی لکھا ہے، مجھے یقین ہے، بس وقت نہیں آیا، ورنہ مجھے امید ہے کہ تم بھی فائقہ جیسی خوشگوار زندگی ہی بسرکروگی۔‘‘ا می پر امید تھیں۔
’’آپ کو کیا غیب کی خبریں ملتی ہیں۔‘‘ وہ طنزیہ ہنسی ۔
’’امبر!تم…بیٹا مایوسی کفر ہے۔‘‘
لیکن جواب میں امبر اپنے ہاتھ کی لکیروں کو گھورنے لگی جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ اس موضوع پر مزید کوئی بات نہیں کرناچاہتی۔ امی اس سے کچھ اور باتیں بھی کرنا چاہتی تھیں لیکن اس کے لاتعلق سے انداز پر خاموشی سے اٹھ گئیں۔
امبر نے انٹر کرلیاتھا جب اس کے لیے پہلی دفعہ چند خواتین گھرمیں آئی تھیں۔ اور پھر اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا تھا۔ امبر گندمی رنگت کی عام سے نقوش کی لڑکی تھی۔ تیار ہوئی اچھی لگتی لیکن نہ جانے کیوں کوئی بھی رشتہ ایسا نہ تھا جس پر امی، بابا، ہاں کرلیتے، یہ بھی نہ تھا کہ ان کی بہت زیادہ ڈیمانڈ تھی اورجو اچھے رشتے ہوتے وہ پلٹ کر دوبارہ نہ آتے، اسی طرح امبر نے گریجویشن کرلیا۔ امی کو کوئی ایسی جلدی بھی نہ تھی۔ اس لیے سب ٹھیک چل رہاتھا۔ اس دوران فائقہ نے بھی میٹرک کرلیا۔ اب وہ کالج میں داخلہ لے رہی تھی۔
غیرمعمولی واقعہ تو اس دن ہؤا جب امبر کے لیے آنے والی خواتین نے فائقہ کے لیے رشتہ دے دیا۔ نہ صرف امی، ابو بلکہ امبر بھی چونک گئی۔ اس دن امی نے اور امبر نے بھی پہلی دفعہ فائقہ کو غور سے دیکھا تھا۔
’’کیا یہ اتنی بڑی ہوگئی۔‘‘ امی نے دل میں سوچا تو امبر کے دل میں بھی فائقہ کے لیے ایک غیرمحسوس سا تاثرا ابھرا۔یہ اتفاق تھا کہ دروازہ اکثر فائقہ ہی کھولتی لہٰذا اس دن بھی فائقہ نے ہمیشہ کی طرح آنے والی ٰخواتین کے لیے بھی دروازہ کھول دیا تھا پھر سلام کرتے ہوئے چلی گئی تھی۔ لیکن وہ چندمنٹوں کی ملاقات ہی اس کے لیے نئے دروازے کھول گئی۔ آنے والی خواتین نے اگرچہ بلایا امبرکو، لیکن بعد میں رشتہ دے ڈالا فائقہ کے لیے۔امی نے ان سے تو معذرت کرلی۔ لیکن بعدمیں فائقہ کو مہمانوں کے سامنے آنے سے منع کردیا۔ لیکن ایسا کب تک ہوتا؟ فائقہ کے ایف اے کرنے کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا، امی، باباکہاں تک انکار کرتے، آخر کار انہوں نے وحید کا رشتہ قبول کرلیا۔ اگرچہ ایسا کرتے ہوئے انہیں امبر کی دل شکنی کا بھی خیال تھا لیکن وہ مجبور ہوگئے۔
دوسری طرف امبر کے دل میں بھی فائقہ کی طرف سے بال آگیا تھاحالانکہ فائقہ اس سارے سلسلے میں بے قصور تھی۔ لیکن امبر کے لیے وہ بے قصور ہوتے ہوئے بھی قصوروار تھی۔امی نے فائقہ کی منگنی کے بعد بھی انہیں ٹھہرایا تاکہ دونوں بہنوں کی ساتھ شادی ہوجائے لیکن خدا کو ابھی یہ منظور نہ تھا ا وریوں آنے والے دنوںمیں فائقہ اپنے گھر کو سدھاری، خدا نے اسے دوپیارے پیارے بچے بھی دے دیے یوں وہ ایک آئیڈیل زندگی گزار رہی تھی۔
امبر نے وقت گزاری کے لیے مختلف کورسز میں داخلہ لیا تھا، امی بھی کچھ مطمئن ہوگئی تھیں کہ اس نے مصروفیت ڈھونڈلی ہے۔ لیکن کبھی کبھی امبر پر قنوطیت کا دورہ پڑجاتااور وہ اس سمے سخت احساس کمتری کا شکار ہوجاتی، آہستہ آہستہ اس کی دیگر سہیلیوں اورہم عمر کزنز کی بھی شادی ہورہی تھی۔ لیکن اصل جھٹکا تو اس وقت لگا جب رانیہ کے بھی رشتے آنے شروع ہوگئے۔ امی بڑی عاجزی سے آنے والوں کو اپنی بڑی بیٹی دکھاتیں لیکن نوخیز رانیہ کے آگے امبر ذرا نہ جچتی۔ امی ایک دفعہ پھر مجبور ہورہی تھیں۔ اس دفعہ بھی وہی ہؤا ایک اچھے رشتے کو امی بابا نے رانیہ کے لیے قبول کرلیا اوریوں رانیہ بھی سہیل کے ساتھ منسوب ہوگئی۔ بڑھتی عمر نے واضح طورپر امبر کے مزاج پر اثرڈالا دونوں چھوٹی بہنوں اورخاص طورپر رانیہ کی منگنی کے بعد تو وہ اچھی خاصی چڑچڑی ہوگئی تھی۔ موڈ ہوتا تو سب سے بات کرتی ورنہ خاموش رہتی۔ امی اس کی دل جوئی میں لگی رہتیں، سب چھوٹے بہن بھائی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے۔ اس کے آگے پیچھے پھرتے لیکن وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتی۔ اپنی ذات سے، گھر والوں سے اس کے شکوے بڑھتے ہی چلے جارہے تھے۔
امی اپنے سب ملنے جلنے والوں سے اس کے رشتے کے بارے میں کہنا نہ بھولتیں۔ وہ خود بھی پوری کوشش میں تھیںہر نماز کے بعد ان کی دعائیں طویل ہوتی جارہی تھیں۔ اب ایک طرف رانیہ کے سسرال والے شادی کی تاریخ مانگ رہے تھے تو دوسری طرف رشتہ داروں نے نعمان کی شادی کے متعلق بھی کہنا شروع کردیا کہ کب تک بیٹی کے لیے بیٹے کو بٹھائو گی۔ اس کی عمر گنوا ئو گی۔ لیکن امی نے دونوں طرف معذرت کی،امبر سے پہلے وہ نعمان کی شادی کا تو سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اوررہی رانیہ تو اس کے سسرال سے بھی انہوں نے بڑے سبھائو سے بات سنبھالی۔
وہ بھی ایک عام سا دن تھا ، بہت معمولی سی بات پر امبر نے رانیہ کو کھری کھری سنا دی تھیں۔ وہ بیچاری چپ چاپ بہن کی صلواتیں سنتی رہی، امی نے سختی سے اسے امبر کو کوئی بھی جواب دینے سے منع کردیاتھا۔ امی اس کے لیے ازحد پریشان تھیں۔ اب وہ اکثر غصہ یا لڑائی جھگڑے میں اپنے آپ کو بدنصیب اوربدقسمت کہتی۔ امی اس کی کیفیت اچھی طرح سمجھتی تھیں جبھی پیارسے اکثر اسے سمجھاتی رہتیں۔ لیکن وہ ان سنی کردیتی۔
اس دن بھی امی نے تہجد میں بڑی گڑگڑا کر دعائیں کی تھیں۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر کچھ وقت اور اسی طرح سرک گیا تو کہیں امبر کسی نفسیاتی عارضہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔ اور پھران کی دعائیں رنگ لے آئی تھیں۔
آج کئی مہینوں کے بعد ان کے کسی ملنے والی کے توسط سے چند خواتین امبر کو دیکھنے آرہی تھیں۔ امی نے امبر کو کئی دفعہ تیار ہونے کو کہا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
’’بیٹا مہمان آتے ہی ہوں گے، تم اب تک تیار نہیں ہوئیں، میں نے تمہیں صبح سے کہا ہؤا ہے۔‘‘امی نے شام تک اسے اسی حلیے میں دیکھا تو بڑی بے چارگی سے کہا۔
’’بس میرا موڈ نہیں۔‘‘ وہ لاپروائی سے بولی۔ امی کچھ اورکہنا چاہ رہی تھیں لیکن اس نے غصہ سے رخ بدل لیا اور امی کمرے سے باہر آگئیں۔ تھوڑی ہی دیر میں مہمانوں کی آمد ہوگئی۔ شمع آپا،لڑکے کی ماں اوربہن کو ساتھ لائی تھیں۔ امی کو دونوں خواتین بہت اچھی لگیں، سلجھی ہوئی اور سادہ طبیعت کی۔ انہوں نے امبر کو بلانے کاکہا، امی نے رانیہ کو اشارہ کیا۔
’’باجی! امی بلارہی ہیں ، مہمان آچکے ہیں۔‘‘ رانیہ نے کمرے میں آکر رسالہ پڑھتی امبر سے دھیرے سے کہا۔
’’تو؟‘‘ امبر نے ابروچڑھائے۔
’’تو، تو یہ کہ آپ چائے لے آئیں، میں نے بنا دی ہے۔‘‘ رانیہ گڑبڑائی۔
’’چائے بنالی ہے تو، تو خود ہی لے جائو۔‘‘ وہ رانیہ کو غصے سے دیکھتے ہوئے بولی۔
رانیہ خاموشی سے پلٹ گئی اورچائے لے کر روم میں چلی گئیں۔ امی نے حیرت سے چائے لاتی رانیہ کو دیکھا۔ رانیہ ان کی حیرت بھانپ گئی تھی۔
’’باجی آرہی ہیں۔‘‘ وہ جلدی سے زبردستی کی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتی ہوئی بولی۔ تب امی نے سرہلایا اورمہمانوں کے آگے چائے اور دیگر لوازمات رکھنے لگیں۔ مہمانوں نے چائے پی لی لیکن امبر نہ آئی۔ مہمان خاتون نے پھر مسکرا کر امی سے امبر کو بلانے کا کہا، امی نے رانیہ کو دیکھا اور وہ جلدی سے کھڑی ہوکر ایک دفعہ پھر امبر سے کھڑی منت کررہی تھی۔
’’باجی پلیز! پانچ منٹ کے لیے آجائیں، دیکھیں وہ لوگ کیا سوچیں گے۔‘‘
’’سوچتے ہیں توسوچیں، میں نہیں آرہی۔‘‘
’’باجی! آپ امی کاتو خیال کرلیں۔ وہاں وہ…‘‘
’’میرے جانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ انکار ہی ہونا ہے نا تو وہ اب بھی ہوجائے گا۔‘‘ وہ ڈھٹائی سے بولی۔
’’باجی آپ کیسی باتیں کررہی ہیں۔‘‘
’’بس، زیادہ میرا دماغ نہ کھائو۔ اوریہاں سے چلی جائو، اور سنو دوبارہ مت آنا۔‘‘
اور رانیہ آنکھوں میں آئے آنسو ضبط کرتی پلٹ گئی۔ کمرے میں آئی توامی نے نظروں ہی نظروں میں اس سے سوال کیا تو اس نے نفی میں گردن ہلا کر انہیں جواب دیا۔ امی سخت پریشان ہوچکی تھیں۔ خدا خدا کرکے ، اتنے عرصے کے بعد تو آج لوگ آئے تھے، جو امی کو بہت اچھے بھی لگ رہے تھے لیکن امبر نے آج بڑا غیر متوقع ردعمل دکھا یا تھا۔
’’بہن میں بچی کولاتی ہوں۔ ‘‘امی شرمندہ شرمندہ سے اٹھیں۔
’’امبر کیا ہوگیا ہے تمہیں، کیوں تم مجھے مہمانوں کے سامنے بے عزت کررہی ہو۔‘‘ امی غصہ سے امبر کوکہہ رہی تھیں۔
’’میں نے کہا تو ہے کہ مجھے نہیں آنا۔‘‘ا مبر اب بھی رسالہ منہ میں گھسائے ہوئے تھی۔
’’چلیں بیٹا آپ نہیں آئیں تومیں آجاتی ہوں۔‘‘ اس جملہ پر امبر اورامی دونوں چونک گئیں۔ دروازے پر لڑکے کی والدہ کھڑی تھیں، جو امی کے پیچھے پیچھے آگئی تھیں اورانہوں نے دونوں کی گفتگو سن لی تھی۔
’’بہن! آپ نے کیوں زحمت کی، بس امبر آہی رہی تھی۔‘‘ امی ہکلا ئیں۔
’’کوئی بات نہیں، کیاکرتی ہیں بیٹاآپ؟‘‘ وہ اب امبر سے پوچھ رہی تھیں۔
’’کچھ نہیں۔‘‘امبر نے ایک جھٹکے سے جواب دیا۔
’’اچھا،کتنا پڑھا ہے آپ نے؟‘‘
’’بی اے کیا ہے۔‘‘لہجہ اب بھی ہنوز پہلے جیسا ہی تھا۔
’اچھا اچھا ماشاء اللہ آپ نے مجھے بیٹھنے کے لیے بھی نہیں کہا۔‘‘وہ مسکرائیں۔
جواب میں وہ خاموش رہی۔ ایک طرف یہ سوال جواب ہو رہے تھے تو دوسری طرف امی شرم سے پانی پانی ہورہی تھیں۔ ان کی امبر ایسی تو نہ تھی۔ کیسی تمیز دار، نرم مزاج، بااخلاق تھی۔ یہ تو دونوں چھوٹی بہنوں کی نسبت اور لوگوں کے رویوں نے اسے ایسا بدمزاج بنادیا تھا کہ وہ اب ہرایک سے لٹھ مار انداز میں بات کرتی۔
’’بہن آپ کمرے میں چلیں میں امبر کو لے کر آتی ہوں۔‘‘امی گھبرا رہی تھیں۔
’’نہیں بس اب میں چلتی ہوں۔‘‘ وہ نرم لہجے میں بولیں اورباہر نکل گئیں۔ا می بھی امبر پر ایک تیز نگاہ ڈالتی ان کے پیچھے پیچھے نکلیں۔
’’بہن دیکھیں میں آپ سے سخت شرمند ہ ہوں، اس کا ایسا رویہ صرف آنے والے رشتوں کے مسلسل پیچھے ہٹ جانے سے ہے پھر دونوں چھوٹی بہنوں کی بات اس سے پہلے طے ہوئی، ایک کی شادی اور دوسری کی منگنی، اس صورتحال نے اس کو اتنا تنک مزاج بنا دیا ورنہ آپ یقین کریں یہ بالکل ایسی نہیں، اتنی نرم مزاج، سگھڑ اور سلیقہ مند ہے میری بیٹی، پھر سمجھدار اور سعادت مند، ہر ایک کے کام آنے والی، آپ کو شاید یقین نہ آئے لیکن حقیقت یہی ہے۔‘‘ امبر کی خوبیاں گنواتے امی کی آواز بھرا گئی۔
’’آپ شرمندہ نہ ہوں بہن۔‘ لڑکے کی والدہ امی کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں۔ ’’مجھے اندازہ ہے، آپ کی بیٹی کس کیفیت سے گزررہی ہے، باربار مسترد ہونے نے آپ نے بچی کی شخصیت پر برے اثرات ڈالے ہیں۔ خدا نے چاہا تو اب ایسا نہ ہوگا۔اچھا مجھے اجازت دیں۔‘‘ وہ یہ کہتی ڈرائننگ روم کی طرف بڑھیں۔ ورنہ ان دونوں کی یہ بات چیت امبر کے کمرے سے باہر نکل کرہوئی تھی۔
ان لوگوں کے جانے کے بعد امی خاموشی سے لائونج پر پڑے تخت پر بیٹھ گئیں۔ رانیہ چائے کے برتن سمیٹنے لگی۔ امی سخت مایوس تھیں۔ اب اگر وہ لوگ آگے دوسرے سے یہ کہیں یا شمع آپا کوہی بتا دیں کہ آج امبر نے کیا سلوک کیا تو کیا عزت رہ جائے گی۔
اوریہ ایک ہفتے بعد کی بات تھی کہ شمع آپا مسکراتی گھر میں آئی تھیں۔
’’اے طیبہ! بھئی مٹھائی کھلا ئو۔‘‘
’’مٹھائی! کس بات کی ؟‘‘امی حیران تھیں۔
’’وہ جو پچھلے ہفتے میں جن لوگوں کولائی تھی،انہوں نے تمہاری امبر کے لیے پیغام بھیجا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ امی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔
’’ارے توکیا میں جھوٹ بول رہی ہوں۔‘‘
’’نہیں،نہیں، لیکن…‘‘
’’لیکن، ویکن کچھ نہیں، بس سمجھو اللہ نے تمہاری سن لی۔ سچ کہتی ہوں بڑے اچھے لوگ ہیں۔مانو تمہاری امبر کا تو نصیب کھل گیا، یہ لو، یہ لڑکے کی تصویر اور اس لفافے میں ساری تفصیلات ہیں، میا ں اور لڑکوں کو دکھالینا۔‘‘ وہ خوشی خوشی لفافہ امی کو پکڑاتے ہوئے بولیں۔ اورامی سے تو یہ غیرمتوقع خوشی سنبھل ہی نہیں رہی تھی۔
’’ارے تم تو آج چائے پانی سب بھولے بیٹھی ہو، لومیں تو چلی۔‘‘شمع آپابولیں تو امی کو یکدم ہڑبڑائیں۔
’’ارے آپا پانچ منٹ بیٹھیں، یہ رانیہ نہ جانے کہاں ہے۔ ابھی میں کہتی ہوں چائے بناتی ہے۔‘‘ امی جلدی سے کھڑے ہوتے ہوئے بولیں۔
’’چلوخیر ہے، اب چائے نہیں بلکہ مٹھائی تمہاری طرف سے امبر کی منگنی کی مٹھائی اور دعوت کھائوں گی۔‘‘ وہ ہنستی ہوئی دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔ اورامی بغور وہ تصویر دیکھنے لگیں جوان کو بڑی اچھی لگ رہی تھی۔ امبر تک بھی یہ خبر پہنچ گئی تھی۔ چند لمحوں کے لیے تو وہ بھی ٹھٹک گئی پھر بولی بھی توکیا…
’’ہونہہ، شمع خالہ لگتا ہے کہ غلطی سے ہمارے گھر آگئیں، بھلا مجھ بدقسمت سے کس نے شادی کرنی ہے۔‘‘ وہ استہزائیہ اندازمیں کہتی آگے بڑھی۔
’’امبر خدا کے لیے، کبھی تو اچھا بھی بول لیا کرو،کیوں ایسی باتیں کرکے میرا دل جلاتی ہو۔‘‘امی نے جواب میں اسے ڈپٹا تھا۔ پھر بابا اوربھائیوں کے آنے پر امی نے انہیں بھی یہ خوشخبری سنائی، بابا نے اگلے ہی دن جاکر معلومات حاصل کیں۔ نعمان نے بھی اپنے ذریعے سے لڑکے کے بارے میں تفصیلات جانیں اورہر طرف سے ہی اطمینان بخش معلومات حاصل ہوئیں۔ اگرچہ لڑکے کی تعلیم زیادہ نہ تھی لیکن وہ نیک،شریف تھا، مین مارکیٹ میں اس کی دکان تھی جہاں سے مناسب آمدنی ہوتی تھی۔
گھر بھر میں مشورے کے بعد اس رشتے کو قبول کرلیا گیا۔ اورایک ہفتے بعد ناصر کی والدہ، امبر کے ہاتھ میں روپے رکھ گئیں اور ساتھ ہی انہوں نے اس کی انگلی میں خوبصورت سی انگوٹھی پہنا دی۔ امبر کی ویران زندگی میں گویا بہار اترآئی۔ سب کچھ بڑا اچھا اور دلفریب لگ رہاتھا۔ امی اور بہنوں کے ساتھ اس کا رویہ آہستہ آہستہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا تھا۔ امی کے ساتھ اب اکثر وہ بازار جا کر اپنی شادی کی تیاریوں میں ہاتھ بٹاتی۔ زندگی اب اس کے لیے بھی خوبصورت ہوگئی تھی اوریوں چند مہینے ہؤا کی طرح گزر گئے اوروہ وقت بھی آگیا جب امبر ناصر کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر پیا دیس سدھاری۔
ناصر کے ساتھ زندگی بڑی خوش وخرم گزررہی تھی۔ اس کی ساس کا فیصلہ بڑا بروقت اور دوراندیشی کی مثال تھا۔ اس کی نندوں نے اگرچہ اس وقت ماں کی مخالفت کی تھی وہ کسی بھی حال میں امبر جیسی اکھڑ لڑکی کو اپنی بھابھی نہیں بنانا چاہتی تھیں لیکن وقت نے ثابت کردیا تھا کہ ان کی ماں نے کتنا درست قدم اٹھایا تھا، بیٹیوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود ناصر کی والدہ نے ایک لڑکی کو نفسیاتی کیس بننے بچا لیا تھا۔ امبر نے چند ہی دنوں میں اپنی خوش مزاجی اور خدمت گزاری کے ذریعے گھر بھر کے دل میں اپنا ایک مقام بنالیا تھا۔ وہ اس معاملے میں اپنی ساس کی بڑی ممنون رہتی اور دل سے ان کی عزت کرتی جس کابدلہ اسے ان کی شفقت کی صورت میں ملتا۔ وہ جو ہر وقت اپنے آپ کو بدنصیب اوربدقسمت گردانتی ، ہردم شکوہ جس کی زبان پر رہتا اب خدا سے تو بہ استغفار کرتی۔ ناصر، وحیدکی طرح تونہیں لیکن بڑے اچھے شوہر ثابت ہوئے تھے۔ دوبیٹے اور ایک بیٹی کی آمد نے اسے بڑا مصروف کردیاتھا۔ اس دوران رانیہ اورنعمان کی بھی شادی ہوچکی تھی۔
زندگی اپنی رفتار سے گزررہی تھی جب اس خاندان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ وحید، فائقہ کا شوہر ایک حادثے میں انتقال کرگیا۔ اور فائقہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ والدین کے گھر آگئی اس کی شادی کو بارہ سال گزرے تھے۔ اور ایسا لگتا تھا کہ یہ بارہ سال ایک خواب کی مانند تھے۔ فائقہ کو دیکھ کر امبر کے سینے میں ایک ہوک سی اٹھتی، کیا اس کی عمر تھی اور کیسا صدمہ پہنچا تھا۔ فائقہ سے شوہر کی جدائی کا صدمہ سہانہ جاتا تھا لیکن وہ بچوں کی وجہ سے زندگی کی طرف واپس لوٹنے پر مجبور تھی۔ ابھی اس صدمہ کو صرف دوسال کا عرصہ گزرا تھا کہ رانیہ کے شوہر نے اسے طلاق دے دی۔ ا س کے سسرال والے بڑے ظالم تھے۔ یہ عقدہ رانیہ کی شادی کے چند مہینے بعد ہی کھل گیا تھا لیکن عین مشرقی لڑکیوں کی طرح، رانیہ بھی سسرال میںصبروضبط سے زندگی گزاررہی تھی۔ لیکن اب شاید اس کے سسرال والوں نے اسے ایک اور چرکہ دینے کا عزم کیا اورطلاق دے کر گھر سے نکال دیا۔ الزام یہ لگایا کہ چونکہ اس چار سال کے عرصے میں رانیہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی لہٰذا ہم بیٹے کی دوسری شادی کریں گے۔ حالانکہ ڈاکٹری رپورٹس سب کلیئر تھیں۔ اوریوں دوسری بیٹی بھی لٹ پٹ کر والدین کے گھر آگئی۔
امبر جب ماں کے گھر جاتی تو اسے ایسا لگتا کہ امی، فائقہ اور رانیہ کے چہروں پرگویا رنج ثبت ہوگیاہو، و ہ تینوں ہی اسے رنج والم کی تصویریں نظرآتیں۔ وہ تینوں کو مقدور بھر تسلی دلاسے دیتی لیکن سب لاحاصل لگتا۔
اور اسی طرح ایک دن جب امبر رانیہ کے پاس بیٹھی اس سے ادھر ادھر کی عام سی باتیں کررہی تھی تو اچانک ہی رانیہ نے اس سے ایسا سوال کیا تھا کہ وہ لرز کر رہ گئی تھی۔
’’باجی! یاد ہے میری منگنی کے بعد آپ اپنی قسمت کو کتنا موردالزام ٹھہراتی تھیں۔بات بات پر ہمیں خوش نصیب اورخود کو بدقسمت اور جانے کیاکیا کہتیں۔‘‘
جواب میں امبر کیا کہتی۔ نظریں چرا گئی۔’’باجی ادھر دیکھیں میری طرف۔‘‘ رانیہ نے اپنی ویران آنکھیں امبر پر جمائیں۔
’’کاتبِ تقدیر نے نہ جانے کس کی قسمت میں کتنا سکھ اور دکھ لکھا ہے۔ میری دعا ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے شوہراوربچوں کے ساتھ خوشگوار زندگی بسرکریں لیکن یہ یاد رکھیں کہ مصائب ہر ایک کی زندگی میں ہیں، کسی کے پہلے اورکسی کے بعد میں۔ یہ کتنے ہیں یہ تو لکھنے والا ہی جانتا ہے۔ بس دعا ہے یہ کسی کی زندگی میں آکر ٹھہر نہ جائیں۔‘‘
اس نے کچھ فاصلے پر بیٹھی فائقہ کو دیکھا جوبچوں کے کسی جھگڑے کو نمٹاتی ہلکا ن ہورہی تھی۔
’’اس لیے میری آپ سے درخواست ہے کہ آئندہ خدارا کسی کی قسمتوں کا یوں فیصلہ خود نہ کیجیے گا۔‘‘
رانیہ اپنی بات کہہ کر اٹھ گئی تھی۔ اس کے لہجے میں نہ جانے کیاتھا کہ اس سمے امبر بے قصور ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو قصوروار محسوس کررہی تھی۔٭ (بتول جولائی 2014)
٭٭