در تو در ، سایۂ دیوار سے ڈر لگتا ہے
اپنا ہوتے ہوئے غیروں کا نگر لگتا ہے
دن نکلتے ہی امڈ آتے ہیں کالے سائے
کسی آسیب کا اس گھر پہ اثر لگتا ہے
خون آلودہ سبھی ہاتھ ہیں دستانوں میں
اب کے اندیشہ بہ اندازِدگر لگتا ہے
اوڑھنے روز نکلتی ہے رِدا زخموں کی
زندگی تیرا تو پتھر کا جگر لگتا ہے
کب سے امید کا کشکول لیے بیٹھے ہیں
آسرا کوئی اِدھر ہے نہ اُدھر لگتا ہے
جانے کب بحرِالم کس کو کہاں لے ڈوبے
اب تو ہنستے ہوئے یہ سوچ کے ڈر لگتا ہے
کھیلوں پہنائیِ صحرا سے بگولے کی طرح
وسعتِ دشت میں کھو جائوں تو گھر لگتا ہے