۲۰۲۳ بتول جولائیغزل - اجمل سراج

غزل – اجمل سراج

ہر شے کوئی ترکیب جدا اوڑھے ہوئے ہے
معلوم نہیں کون ہے کیا اوڑھے ہوئے ہے

ہر آن نئے رنگ میں ہوتی ہے نمودار
ہر لمحہ نئی ایک فضا اوڑھے ہوئے ہے

سورج ہے لپیٹے ہوئے خود اپنی شعاعیں
اور چاند بھی سورج کی ضیا اوڑھے ہوئے ہے

افسردہ و دل تنگ ہے حالات سے اپنے
اور چادرِ تسلیم و رضا اوڑھے ہوئے ہے

اندر نہ خدا ہے نہ کہیں خوف خدا کا
باہر سے مگر خوفِ خدا اوڑھے ہوئے ہے

اِس حبس کے عالم میں ہے یوں شاداں و فرحاں
تُو کون سے ساحل کی ہوا اوڑھے ہوئے ہے

اِس باغ میں کوئی بھی برہنہ نہیں اجملؔ
خوشبو بھی یہاں گُل کی قبا اوڑھے ہوئے ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here