عہدِ نبوی ؐ میں نظامِ تعلیم کے مطالعہ سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے نظامِ تعلیم پربھی نظر ڈالی جائے۔
زمانہ جاہلیت کے بارے میں ڈاکٹر حمید اللہ اپنی کتاب کے ایک باب’’ زمانہ جاہلیت میں تعلیم ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیںکہ ’’مدرسوںکے معاملے میں کیسے یقین آئے گا کہ اس زمانے میںوہاں نہ صرف تعلیم گاہیں تھیں بلکہ ایسی تعلیم گاہیں تھیں جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوںتعلیم پاتے ہوں۔ بہرحال ابن قتیبہ نے بیان کیا ہے کہ مکہ کے قریب رہنے والے قبیلہ ہذیل کی ضرب المثل فاحشہ عورت ظلمہ جب بچی تھی تو مدرسہ جاتی تھی جہاں اس کا دلچسپ مشغلہ یہ تھا کہ دواتوںمیں قلم ڈال اور نکال کر کھیلا کرے ۔ اس دلچسپ واقع سے اتنا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ قبیلہ قریش کے رشتہ دار قبیلہ ہذیل میں ایسے مدرسے تھے جوچاہے کتنے ہی ابتدائی نوعیت کے کیوں نہ ہوں ان میں لڑکے اور لڑکیاںدونوں تعلیم پانے کے لیے جاتی تھیں ‘‘۔(ڈاکٹرحمید اللہ ،’’ عہد نبوی میں نظام حکمرانی ‘‘ صفحہ نمبر 188)
عکاظ کا میلہ ہر سال اپنی ادبی سر گرمیوں کے لیے خاص شہرت رکھتا ہے ۔ عربی زبان کو معیاری زبان بنانے کے لیے اس ادارے نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ غیلا ن بن سلمی ثقفی کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک دن علمی جلسہ منعقد کرتا تھا ۔(عیون الاخبار ( جلد ،۴ ص۱۰۳)
مکہ کے لوگوں نے ہی عربی کو ایک تحریری زبان کی حیثیت عطا کی ۔ اس کے علاوہ سبع معلقات مکہ ہی کے معبدِ کعبہ میں لٹکائے گئے ۔ عصرِ حاضر میں ڈرامہ نگاری ، قصہ نویسی اورناول نگاری کو اہمیت حاصل ہے ۔ مکہ میں بھی اس کا بڑاذوق تھا ۔ لوگ دارا لند وہ میں یا کسی بھی شہری مرکز میں جمع ہو کر قصہ کہانیاںاوردلچسپی کا سامان مہیا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ مدینہ میں یہودیوں نے ایک بیت المدارس قائم کررکھا تھا جو نیم عدالتی اور نیم تعلیمی ادارہ تھا ۔
بعد از اسلام
قرآن اوراحادیثِ نبوی کی اہمیت کو واضع کرتے ہیں مثلاً:
ث علم حاصل کرنا ہر مسلمانم مرد و عورت پر فرض ہے ۔
ث اللہ تعالیٰ جس کسی کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو دین کی تعلیم حاصل کرنے کی توفیق دیتا ہے ۔
ث علماء پیغمبروں کے وارث ہوتے ہیں۔
ث تم مہد سے لحد تک علم حاصل کرو۔
مکہ میں مسلمانوں کا تعلیمی مرکز
مکہ میں حضرت خدیجہ الکبریؓ کا مکان جو ’’ داب الحجر‘‘ میں واقعہ تھا سب سے پہلی تربیت گاہ بنا ۔ اس کے بعد ’’ دارا رقم‘‘ میں۶ نبوی سے لے کرآخر تک اشاعتِ اسلام اور نو مسلموں کی تربیت کا کام آپ ؐ نے انجام دیا ۔
مدینہ طیبہ میںجس مدرسہ کی بنیاد سب سے پہلے پڑی وہ حضرت ابوامامہ ؓ اور اسد بن زرارہؓ کا مکان تھا ۔ جب یثرب کے لوگوںنے آپ ؐ سے درخواست کی کہ انہیں تعلیم دینے کے لیے کوئی معلم بھیجا جائے توآپ ؐنے حضرت مصعب بن عمیرؓ کومدینہ منورہ بھیجا ۔ وہ پہلے مسلمان تھےجن کاتقرر مکہ سے باہر ایک معلم کے طور پر کیا گیا تھا۔
لازمی تعلیم
موجودہ دور میں جو لازمی تعلیم کا چرچا ہے اس کے لیے یہ تصور کیا جاتاہے کہ زمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ تعلیم کی اہمیت نے لوگوں کا ذہن اس طرف موڑ دیا بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب آپ ؐ نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم کی تو اس کے دفاعی انتظام کے ساتھ ساتھ آپ ؐ نے اسلامی نظام تعلیم قائم کیا ۔ اس نظام تعلیم میں سب سے مقدم قرآن کی تعلیم تھی ۔ پچاس ساٹھ سال پہلے ہندو پاک میں یہ رواج تھا کہ جب تک بچہ قرآن کی تعلیم حاصل نہ کر لیتا اسکول نہ جاتا تھا ۔ اللہ کے نبیؐ کے دور میں مدینہ کے ہر مردو زن کے لیے قرآن کی تعلیم لازمی تھی ۔ بچے بڑے اور بوڑھے سب تعلیم حاصل کرتے تھے اور آپ ؐ اس کی نگرانی خودکیاکرتے تھے ۔ قرآن کے احکام کی وضاحت آپؐ بذات خودفرمایا کرتے تھے ۔ آپؐ نے تعلیم کو لازمی قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’ علم حاصل کرناہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے‘‘۔
اقامتی درس گاہ
مسلمانوں کی سب سے پہلی اقامتی درس گاہ وہ چبوترہ ہے جو صفہ کے نام سے تاریخ میں مشہور ہے ۔ صفہ سے مراد وہ جگہ ہے جہاںآپؐ نے مسجد نبوی سے جانب شرق ایک چبوترہ بنوایا تھا اور اس میں ان صحابہ کو رہنے کی اجازت دی جو فقر و غناء کی زندگی بسر کرتے تھے ۔ ان اصحاب کو ’’ ضیوف الاسلام‘‘ کہا جاتا تھا یہ وہ لوگ تھے جو ہجرت کے وقت راہِ خدا میں اپنی بیوی بچوں اور مال ودولت کو چھوڑ کر مدینہ آگئے اور اپنے آپ کو خدمت اسلام کے لیے وقف کردیا تھا ۔ یہ جگہ باہر سے تعلیم کے لیے آنے والوں کے علاوہ مقامی بے گھر طلباء کے لیے بھی دارالاقامے اورمدرسہ کا کام دیتی تھی۔ اس درس گاہ میں لکھنے پڑھنے کی سادہ تعلیم کے علاوہ دین ، قانون ، اخلاق ، فن تجوید اور دیگر اسلامی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی جس کی نگرانی آپ ؐ خودکیاکرتے تھے ۔حضرت عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں ’’ کہ رسول اللہ ؐ نے مجھے صفہ میں اسی غرض کے لیے مامور کیا تھا کہ میں لوگوںکو لکھنے پڑھنے کی اور قرآن کی تعلیم دوں ‘‘۔
مدینہ منورہ سے نا خواندگی کے خاتمہ کے لیے آپ ؐنے جواقدامات کیے ان میں ایک اقدام یہ بھی تھا کہ آپؐ نے سعید بن العاصؓ کا تقرر کیا تھا کہ وہ لوگوںکولکھنے پڑھنے کی تعلیم دیں ۔ صفہ کی درس گاہ میںمقیم طلبہ کی تعلیم کے انتظام کے علاوہ وہ لوگ بھی حصول علم کےلیے آتے تھے جن کے گھر مدینہ میںتھے ۔ یہاںمقیم طلبا کے رہنے اور خوراک کا انتظام آپ ؐ کیا کرتے تھے ۔درسگاہ کے طلباء کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی تھی اور یہ طلبا اپنے روز گار کے سلسلہ میں فرصت کے اوقات میں کام بھی کیا کرتے تھے۔
مدینہ طیبہ میں صفہ کی در سگاہ کے علاوہ اور بھی درسگاہیں ہوں گی کیونکہ آپ ؐ کے زمانہ میںمدینہ میںنومسجدیں تھیں اوراس میں درس و تدریس کے سلسلے بھی چلا کرتے تھے جہاںمحلے کے بچے پڑھنے کے لیے جایا کرتے تھے ۔ قبا جو کہ مدینہ کے جنوب میں ڈھائی میل کے فاصلے پر واقع ہے وہاں آپؐ وقتاً فوقتاً جاتے اور مسجد اورمدرسے کی نگرانی کرتے تھے۔
تعلیم بالغان
تعلیم بالغان کا بھی خاص طور پر انتظام تھا ۔ جو مہاجر تجارت پیشہ تھے وہ دن بھر مصروف رہتے تھے ۔ لہٰذا فارغ اوقات میں وہ آپؐ یا صحابہ ؓ سے تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ اسی طرح انصار جو زراعت پیشہ تھے وہ کاشت کاری سے فارغ اوقات میںتعلیم حاصل کرتے تھے۔مہاجروںکی آمدکی وجہ سے مدینہ شہر سے باہر بھی بستی آباد ہونے لگی تھی جو لوگ باہر آباد تھے ان کے لیے روزانہ آنا اور جانا ایک مسئلہ تھا ۔لہٰذا وہ ایک دن چھوڑ دوسرے دن آتے اور تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ اس کے لیے انہوں نے اپنی اپنی باریاںمقرر کررکھی تھیں کہایک دن ایک ساتھی تعلیم حاصل کرنے جاتا اور پھر اس سے اپنے ساتھی کوآگاہ کرتا اوردوسرے دن دوسراساتھی جاتا اورواپس آکر اپنے ساتھی کواس تعلیم کے بارے میں آگاہ کرتا جووہ خود حاصل کر کے آیا تھا۔
مقامی لوگوںکے علاوہ دور دراز کے لوگ جب دائرہ اسلام میں داخل ہوتے تووہ مدینہ آکر تعلیم حاصل کرتے اور پھر واپس جا کر اپنے قبیلہ والوں کو تعلیم دیا کرتے تھے ۔جیسا کہ قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے ۔
’’ اور یہ تونہیںہو سکتا تھا کہ سب اہلِ ایمان نکل کھڑے ہوتے مگر ایسا کیوںنہ ہؤاکہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکل آتے کہ وہ دین کا فہم حاصل کرتے اورجب واپس جاتے تو اپنی قوم کے لوگوں کوبا خبر کرتے تاکہ وہ بیدار ہوجاتے ‘‘۔( التوبہ 122)
اس آیت سے جو اصولی بات نکلتی ہے وہ یہ کہ علم دین کو عام کرنے کے لیے حالات کی مناسبت سے مختلف طریقے اختیار کیے جائیں ۔ دینی تعلیم و تربیت کی ضرورت بچوں اور بڑے دونوںکے لیے ہے ۔ آیت میں اصلاً بڑوں میں دین کا شعور پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے دین کی تعلیم میں اصل اہمیت دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کو دی گئی ہے ۔ اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ علم دین کے لیے سفر بھی کیا جائے۔
مخصوص اساتذہ کا تقرر
احادیث نبویؐ کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آپ ؐ نے تعلیم میں توسیع ہونے کے بعد تعلیم کے کسی خاص شعبہ میں مہارت پیدا کرنے کے لیے مخصوص اساتذہ بھی مقرر کر دیے تھے ۔ چنانچہ آپؐ نے قرآن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے فرمایا ۔ بخاری کی ایک روایت ہے کہ آپؐمسلمانوں کواپنے چار اصحاب سے قرآن پاک پڑھنے اور اسلام سیکھنے کاحکم دیا کرتے تھے جن میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ، سالم مولیٰ ابی خذیفہؓ ، حضرت ابی بن کعبؓ اور معاذ بن جبلؓ ۔ حضرت عبد اللہ بن سعیدؓ اسلام لائے تو آپؐ نے ان کو مسلمانان مدینہ کے لیے معلم مقرر کیا تاکہ قرآن حکیم اورلکھنے پڑھنے کی تعلیم دیں ۔ اس کے علاوہ آپ ؐ فن تجوید یعنی قرآت میں مہارت حاصل کرنے کے لیے طلبہ کو حضرت ابی بن کعبؓکے پاس بھیجا کرتے تھے اورمیراث سے متعلق احکام قرآنی کا علم حاصل کرنے کے لیے طلبہ کو حضرت زیدؓ کے پاس بھیجا کرتے تھے ۔
شفا بنت عبد اللہ ؓ کو آپ ؐ نے شہر کی منڈی میں خرید و فروخت کے معاملات( امر السوق) پر مامور فرمایا تھا(ابن حجر، الاصابہ)
اس کے علاوہ آپؐ نے شفا بنت عبد اللہ کوام المومنین حضرت حفصہ ؓکی تعلیم کے لیے مامور کیا تھا۔
فنِ جراحی
الربیع بنت مصودہؓ کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ اسلامی فوج کے ساتھ خواتین بھی رہاکرتی تھیں تاکہ زخمیوںکی دیکھ بھال میں مد د، پانی پلائیں اور زخمیوں کوواپس مدینہ پہنچائیں (ابن حجر، الاصابہ)
قبیلہ بنی اود کی مشہور طبیبہ زینبؓ ماہر امراض چشم تھیں۔
ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ جسمانی نشوونما بھی ضروری ہے ۔ اس کے لیے بھی آپ ؐ نے اقدامات کیے ۔ بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں ہم دیکھ آئے ہیں کہ آپؐ نے جہاںدینیات کی تعلیم کا حکم دیا وہیںآپ ؐنے تیر اندازی ، نشانہ بازی ، تیراکی اور گھوڑ سواری کی تعلیم کا بھی حکم دیا ۔
اسپورٹس (کھیل)
مردانہ کھیلوں میں آپ ؐ کو شہ سواری ، تیر اندازی ، نشانہ بازی، کشتی اور گھوڑ دوڑ کے مقابلے پسند تھے ۔ تیراکی کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ؐ نے اپنی ننھیال کے کنویںمیں تیرنا سیکھا تھا۔
کُشتی کے فن کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپؐ نے رکانہ پہلوان کو تین بار کشتی میں پٹک دیا ۔ اسی طرح جنگ احد میں چند کم عمر نوجوانوںکوکشتی میں ماہرہونے کی وجہ سے کم عمری کی کے باوجود غزوہ میں شریک ہونے کی اجازت دے دی۔
دوڑ کے مقابلے میں بھی آپؐ کے دور میں مقبول تھے اور آپؐ اس پر خود انعام دیا کرتے تھے ۔ گھوڑ دوڑ کے مقابلے میںالگ الگ مسافتیں مقرر کی گئیں تھیں۔ وہ گھوڑے جو تربیت یافتہ تھے ان کے لیے دوڑ میں کچھ الگ مسافت تھی اور غیر تربیت یافتہ گھوڑوں کے لیے الگ مسافت اور آپ ؐ خود جیتنے والے کا تعین کرتے تھے ۔اول ، دوم ، سوم ، چہارم آنے والوں کو انعام بھی دیا جاتا تھا اور یہ انعام کھانے کی چیزیںکھجور وغیرہ اور دوسری چیزیں بھی ہوتی تھیں۔مدینہ منور ہ میں ایک مسجد السبق ہے ۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ ؐ کھڑے ہو کر جیتنے والوں کی نشاندہی کیا کرتے تھے۔
نشانہ بازی کے انعامات کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے ۔ ان کے علاوہ آپ ؐ نے وزنی پتھر اٹھانے کے مقابلے بھی کروائے ۔ ایسے تمام کھیل جو صحت مند معاشرے کے لیے ضروری تھے آپ ؐ نے ان سب کو روا رکھا اور پسندیدگی بھی ظاہر کی۔ اس کے علاوہ دوڑ کے مقابلے بھی آپ ؐ کے زمانے میں ہوتے تھے ۔ دوڑ سے متعلق ہمیں سیرت میں وہ حدیث بھی ملتی ہے جو آپ ؐ کی اور حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ دوڑ سے متعلق ہے جس میں پہلی دوڑ میں حضرت عائشہ ؓ آپ ؐ کوہرا کر مقابلہ جیت جاتی ہیں اور چند دنوں بعد جب دوبارہ دوڑ ہوتی ہے تو اس میں آپؐ جیت جاتے ہیں اور حضرت عائشہ ؓ پر جتا بھی دیتے ہیں کہ یہ بدلہ ہے اس دوڑ کا ۔ ان تمام واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحت مند معاشرے کے لیے تفریح اور کھیل کود بھی ضروری ہے اور اسلامی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہے ۔
آپ ؐ کو سب سے زیادہ مرغوب گھوڑے کی سواری تھی ۔ مدینہ سے باہر ایک میدان (چھ) میل تک پھیلا ہؤا تھا یہاں پر گھوڑ دوڑ کی مشق کرائی جاتی تھی ۔ دوڑ کے جوگھوڑے تھے ان کی تیاری کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے گھوڑوںکو خوب کھلا پلا کرموٹا کیا جاتا تھا اورجب یہ موٹے ہو جاتے تھے ان کو گھر میں باندھ کر رکھا جاتا ۔ ان کی غذا ابھی کم کردی جاتی اور ان پر پار جامہ کسا جاتا جس سے خوب پسینہ آتا ۔ روز یہ عمل دہرایا جاتا ۔ چالیس دن تک مسلسل یہ عمل کیا جاتا ، جب گھوڑا چھریرے بدن کا ہو جاتا تو اس کو دوڑ میں لایا جاتا تھا ۔ آپ ؐ نے اس کی ذمہ داری حضرت علی ؓ کے سپرد کی تھی ۔ دوڑ کے لیے چند قاعدے مقرر کیے گئے تھے ۔ اونٹوں کی بھی دوڑ ہؤ اکرتی تھی۔
مردم شماری
اللہ کے نبیؐ کی بے مثال قیادت ، لازوال معاشرے کے وجود کا باعث بنی ۔ تبلیغ اور اشاعت علم ایک لازمی فریضہ قرار دیا گیا جس کی وجہ نو مسلم بھی مبلغ بن جاتے تھے اور اپنے اپنے ماحول اور علاقوں میں فریضہ اقامت دین ادا کرتے تھے ۔ ان کی اس کارکردگی سے روز افزوں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ مدینہ جب ایک اسلامی ریاست کی شکل اختیار کر گیا تو اطراف کے علاقوں سے مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے ۔ یوں مدینہ ، مکہ سے زیادہ طاقتور ہو گیا ۔ سن ہجری کے آغاز پر مدینہ کی آبادی دس ہزار کے لگ بھگ تھی ہجرت کے فوراً بعد آپ ؐ نے حکم دیا کہ ’’ میرے لیے سارے کلمہ گومسلمانوں کے نام لکھو‘‘۔یعنی ایک فہرست تیار کی جائے ۔
صحیح بخاری میں ایک مرد شماری کا ذکر ہے جس میں پندرہ سو مردوں اور عورتوں کااندراج ہے ۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اسلامی قوت کا اندازہ لگانے کے لیے آپ ؐ نے مرد م شماری کرائی تھی ۔ غزوات اورحجۃ الوداع کے موقع پر جوتعداد ہمارے سامنے آتی ہے اس سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وقتاً فوقتاً مردم شماری کروائی جاتی تھی ۔ آپ ؐ کے وصال تک کہا جاتا ہے کہ مدینہ کی آبادی بیس ہزار تک پہنچ چکی تھی اور اس سے پہلے حجۃ الوداع کے موقع پر عورتوںاور مردوں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی ۔یہ ضروری نہیں کہ ہر علاقے سے سارے مسلمان حج کے لیے آچکے ہوں جبکہ عہد نبوی کے آخر میں سارا عرب ، جس کا رقبہ تقریباً تیس لاکھ مربع کلو میٹر تھا اسلامی سلطنت میںشامل تھا یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم از کم پانچ لاکھ ہو چکی ہو گی۔
(جاری ہے )
٭ ٭ ٭
عہدِ نبویؐ میںمسجد کا کردار
تعمیرات کے باب میںہم دیکھ آئے ہیں کہ آپؐ نے ہجرت کے بعد سب سے پہلے جس بات کی طرف توجہ دی وہ مسجد کی تعمیر تھی ۔ مسجد نبویؐ جس جگہ تعمیر ہوئی اس کے بارے میں روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں آپؐ کی ہجرت سے قبل نمازپڑھائی جاتی تھی ۔ اسلامی معاشرے میں مسجد کا کردار بہت اہم ہے ۔ آپ ؐ نے نئے معاشرے کی تعمیر کے لیے جو پہلی اینٹ رکھی وہ مسجد ہی تھی ۔ مسجداسلامی معاشرے میں روحانی اورمادی رہنمائی کا اولین سر چشمہ ہے ۔ مسجد عبادت گاہ ، علم کامرکز و منبع اور ادب کی مجلس ہے ۔
اسلام کے دورِ اوّل میں مسجد نبوی بطور مدرسہ استعمال ہوتی تھی ۔ معاشرے کے لیے تمام کوششیں اسی مسجد سے وابستہ تھیں ۔ مسجد ایک اجتماعی ادارہ ہے ۔ مسجد ایک تعلیم گاہ ہے ۔ مسجد ایک تربیت گاہ ہے ۔ نبی کریم ؐ اسی مسجد میں صحابہ کرام ؓ کوتعلیم دیتے تھے۔
یہاںعلمی و قانونی مسائل پر بحث کی جاتی تھی ، قرآنی نکتوں کی وضاحت ہوتی تھی ، یہاں جانثارانِ رسولؐ اکٹھا ہو کر اپنے دامنوں کو علم کے جواہر سے آراستہ کرتے تھے ۔ مسجد کے منبر سے تعلیم و ہدایات کی کرنیں پھوٹتی تھیں ۔ یہاں مسلمانوں کو نظم و ضبط، مساوات ، اتحاد و بھائی چارہ کا درس دیا جاتا تھا ۔ قرآن میںمسجدوںکو بیوت اللہ کے نام سے پکارا گیا ہے ۔ مسجد کی تعمیر در اصل اجتماعی زندگی کی تعمیر ہے ۔ یہ وہ فیکٹری ہے جہاں عرب بدوئوں نے اسلام کے ڈھانچے میںڈھل کر دنیا کی امامت و پیشوائی کا منصب حاصل کیا ۔ مسجد ہی نے ان میں ایک فکری وحدت پیدا کی ۔ مسجد نبوی عمرانی اور معاشرتی ترقی کاایک بڑا ذریعہ تھی اور نئے معاشرے کی تعمیر کی اولین بنیادتھی ۔ انہیں تمام وجوہات کی بنا پر عہد نبویؐ اور عہد خلفاؓء کے بعد کے دور میں مساجد مسلمانوں کے علمی مراکز بن گئیں ۔ ان مساجد میں مسلمانوں کی تعلیم کا انتظام کیا جاتا تھا ۔ ان کے ساتھ کتب خانوں کابھی انتظام کیا جاتا تھا ۔ مسجد کے ساتھ ملحقہ کمروں میں طلبا کی رہائش ہؤا کرتی تھی ۔ عہد نبویؐ میں مسجد اجتماعی اغراض کا مرکز تھی یعنی مسجد صرف عبادت گاہ ہی نہیںبلکہ سیاسی ، اجتماعی زندگی کا مرکز تھی ۔ آپ ؐ مسجد میں سفیروں سے ملاقات فرماتے تھے اور سیاسی اور مذہبی تقریریں فرماتے تھے ۔
عہد نبوی میں مسجد میں ان تمام امور کا اعلان کیا جاتا تھا جن کا تعلق مفاد عامہ سے ہوتا تھا ۔ عہد نبوی میں درس کے لیے ایک جامع کتاب رکھی گئی تھی یا یوں کہہ لیجیے کہ جو سیلبس بنایا گیا تھا اس میں صرف ایک کتاب تھی جو تمام علوم کاسر چشمہ تھی ۔ وہ اللہ کی کتاب قرآن مجید تھی ۔ اس میں سارے علوم کی اساسی چیزیں موجود ہیں ۔ عقائد ، عبادات ، قانون ، سیاست ، تاریخ ، معیشت ،اخلاق ، علمِ فلکیات ، علمِ ارضیات ، علم حیوانات نیز ہر علم کی طرف رہنمائی کرنے والی یہ واحد کتاب تھی ۔
آپ ؐ کا انداز یہ رہا کہ جہاںبھی کچھ لوگ نظر آتے آپ ؐ ان کو مخاطب کر کے قرآن کی کچھ آیتیں پڑھتے اور اسلام کی دعوت دیتے ، اس کے لیے منڈی ، بازار ، میلے میں تشریف لے جاتے تھے ۔
کبھی یہ ہوتا تھا کہ کسی خاص مسئلہ پر آپؐ سے صحابہؓ پوچھ لیا کرتے تھے ۔ جیسے کہ ماں کے حقوق سے متعلق ایک مشہور حدیث ہے کہ ایک شخص نے آپ ؐ سے دریافت کیا کہ مجھ پر سب سے زیادہ کس کاحق ہے ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا کہ تمھاری ماںکا ۔ اس شخص نے یہ بات تین دفعہ دریافت کی اور آپ ؐ نے یہی فرمایا کہ تمہاری ماں کا اورچوتھی دفعہ پوچھنے پر فرمایا تمہارے باپ کا۔
اسی طرح دین سکھانے کے بارے میں وہ حدیث جو حضرت جبرئیلؑ کی تشریف آوری اور پھر آپ ؐ سے سوالات سے متعلق ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیںکہ ایک دن آپ ؐ لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے کہ آپؐ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہؤا اور اس نے دریافت کیا : یا رسول اللہ ؐ ایمان کیا ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا :’’ کہ ایمان کامفہوم یہ ہے کہ تم اللہ کی ذات پر ، ملائکہ کے وجود پر ، روزِ حشر اللہ کے حضور پیش ہونے پر ، اللہ کے رسولوں کے برحق ہونے پر ایمان لائو اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا یقین رکھو‘‘۔ اس نے مزید سوال کیا : یا رسول اللہ ؐ اسلام کیا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:’’ اسلام یہ ہے ۔(۱) تم محض اللہ کی عبادت کرو اور عبادت میں کسی غیر کو شریک نہ بنائو ۔(۲) فرض نمازیں ادا کرو ۔(۳) زکوٰۃ دو (۴) رمضان کے روزے رکھو ‘‘۔پھر اس نے دریافت کیا ،احسان کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا :’’ احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ، اس لیے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو وہ تو یقیناً تمہیںدیکھ رہا ہے‘‘۔پھر اس نے سوال کیا : یا رسول اللہ ؐ قیامت کب برپا ہوگی؟ آپ ؐ نے فرمایا :’’ جس سے سوال کیا گیا ہے قیامت کے بارے میں وہ بھی سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ البتہ میں تم کو قیامت برپا ہونے کی کچھ نشانیاں بتائے دیتا ہوں ۔ جب لونڈی اپنے آقا جنے گی اور جب اونٹوں کے سیاہ فام چرواہے بڑی بڑ ی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جائیں گے ۔ در اصل قیامت کا علم ان پانچ امور غیبہ میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘‘۔ پھر آپؐ نے آیت کریمہ تلاوت فرمائی (لقمان :34)۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس گفتگو کے بعد وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا معاً آپ ؐ نے فرمایا : ’’ اسے واپس بلائو ‘‘۔ چنانچہ صحابہ کرام ؓنے اس کو تلاش کیا لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا توآپ ؐ نے فرمایا :’’ کہ یہ حضرت جبرئیلؑ تھے جو اس غرض سے آئے تھے کہ اس طرح لوگوںکو دین کے ضروری امور کی تعلیم حاصل ہو ‘‘۔(حدیث)
مدینہ سے باہر اساتذہ کا تقرر
مدینہ سے باہر اساتذہ کو آپؐ نے وفود کی شکل میں روانہ کیا ۔ دو تبلیغی وفود کے ساتھ مشرکین نے دھوکہ کیا اور انہیں قتل کر دیا ۔
صفر۴ ھ کا واقعہ ہے کلب کے رئیس ابو براء الکلابی کی درخواست پر آپ ؐ نے ستر قاری حضرات کا ایک وفد تبلیغ کی غرض سے روانہ کیا مگر عامر بن طفیل الکلابی نے ان تمام افراد کو شہید کر دیا ۔ ان میں سے ایک صحابی بڑی مشکل سے جان بچا سکے ۔ اسی طرح کا دوسرا واقعہ اسی سال رجیع کے مقام پر پیش آیا ۔ یہ دوسرا تعلیمی وفد تھا ۔ جو عضل وقارہ کی طرف روانہ کیا گیا تھا ۔ اس وفد کی قیادت عاصم بن ثابت انصاری ؓ کر رہے تھے ۔ اس وفد کے ارکان کو بنو لحیان کی مد دسے شہید کردیا گیا تھا۔
اجتماعات
اشاعت علم کے لیے مذہبی اجتماعات بھی موزوں ہوتے تھے ۔ لہٰذا آپ ؐ جمعہ ،عیدین اور حج کے موقع پر بھی تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے ۔
تبلیغی خطوط
آپ ؐنے اشاعت دین و علم کے لیے مختلف ممالک کے حکمرانوں کو اور مختلف قبائل کے سرداروں کو خطوط لکھے جن کا ذکر پچھلے اوراق میں کیا جا چکا ہے ۔ ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں ’’ صوبہ وار درس گاہوں کا معیار بلند کرنے کے لیے آپ ؐنے صوبہ یمن میں ایک صدر ناظر تعلیمات مقرر کیا تھا جس کا کام یہ تھا کہ مختلف اضلاع و تعلقات میں ہمیشہ دورہ کرتا رہے اور وہاں کی تعلیم اور تعلیم گاہوں کی نگرانی کرے ‘‘۔تعجب نہیں جو اور صوبہ جات میں بھی اس طرح کے افسر مامور کیے گئے ہوں (عہد نبوی میں نظام حکمرانی209)
مذہبی اور دنیاوی تعلیم
مذہب کے ٹھیکیدار یہ سمجھتے ہیںکہ قرآن اور حدیث کے علاوہ دوسراعلم نہیں حاصل کرنا چاہیے۔آزادی سے قبل اور آج تک ہندو پاک کے دیہاتوں میں یہی طریقہ رہا ہے کہ دنیا کی تعلیم حاصل نہ کی جائے یا لڑکیوں کو تعلیم نہ دی جائے۔
اس سے متعلق ڈاکٹر صاحب اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیںکہ ’’ یمن کے گورنر عمرو بن حزمؓ کے نام جو طویل تقرر نامہ یا ہدایت نامہ جناب رسالت مآبؐ نے لکھا تھا ۔ اسے تاریخ نے محفوظ رکھا ہے ۔ اس میںبھی گورنر کو ہدایت ہے کہ لوگوں کے لیے قرآن حدیث اور علومِ اسلامیہ کی تعلیم کا بندوبست کریں ۔ اس دستاویز پر ایک اور جملہ بڑا دلچسپ یہ بھی لکھا ہؤا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی اور دنیاوی تعلیم میں کس طرح فرق کرنا چاہیے اور جملہ یہ ہے کہ ’’ لوگوں کو اس بات کی نرمی سے ترغیب دو کہ وہ دینیات کی تعلیم حاصل کریں ‘‘۔
دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اللہ کے نبیؐ نے مختلف اوقات میں مختلف علوم حاصل کرنے کا حکم دیا جس کا ذکر کیا جا چکا ہے ۔ گورنروں کو نماز روزہ ، وضو ، غسل اور حج کے احکامات کی تعلیم رائج کرنے کے ساتھ ساتھ خاص کر زراعت ، تجارت اور نقد بچت کی تعلیم دینے کے لیے بھی کہا گیا تھا ۔ آپ ؐ نے غیر زبانوں کو سیکھنے کا حکم دیا تھا جیسے کہ حضرت زید بن ثابت ؓخود فرماتے ہیں کہ آپ ؐنے فرمایا ’’ میرے پاس مختلف خطوط آتے رہتے ہیںاور میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ ان خطوط کو ہر کوئی پڑھے تو کیا تم عبرانی زبان کا لکھنا پڑھنا سیکھ سکتے ہو ، میں نے عرض کیا کہ ہاں سیکھ سکتا ہوں ‘‘۔ چنانچہ میں نے سترہ دن ہی میں وہ زبان سیکھ لی ۔ اس طرح عبد اللہ بن زبیر ؓبھی بہت سی زبانیں جانتے تھے۔
جنگ بدر کے نتائج میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے کہ بدر کے ستر ا سیروں میں سے جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اللہ کے نبیؐ نے ان کی رہائی کی یہ شرط رکھی کہ ان میں سے ہر ایک قیدی دس دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے گا۔
خواتین کی تعلیم
اسلام نے عورت کو معاشرے میں بلند مقام عطا کیا ہے ۔ قرآن کریم اور احادیث کے مطالعے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو تمام معاملات میں مردوں کے مساوی حقوق عطا کیے۔ اگر کہیں عورت کو کسی وجہ سے مرد سے کم درجہ دیا تو یہ بھی عورت کی شان بڑھانے ہی کا موجب ہے ۔ اس بحث سے قطع نظر کے اعمال اور ان کی جزا و سزا میں عورت اور مرد برابر ہیں ، آپ ؐ نے عورتوں اور مردوں دونوں کو علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ۔ یہاں تک کہ آپ ؐ نے لونڈیوں کو بھی تعلیم دلانے کا حکم دیا اور اس پر اجر و ثواب کا مژدہ بھی سنایا ۔ اس اجرو ثواب کی اہمیت کو یوں بیان کیا کہ جو اپنی لونڈیوں کو تعلیم و تربیت دے کر ان سے نکاح کرے گا اسے دو گنا ثواب ملے گا۔
مختلف عنوانات کے تحت ہم عورتوں کی علمی کوششوں اور ماہرانہ صلاحیتوں کے بارےمیں پڑھ آئے ہیں ۔ اللہ کے نبی ؐ نے ان کی تعلیم و تربیت پر اسی طرح توجہ دی جیسے مردوں کی ۔ خواتین کے مخصوص مسائل کے لیے آپ ؐ کی ازواجِ مطہرات نے اس فریضہ کو انجام دیا ۔ عیدین کے موقع پر آپ ؐ خواتین کی طرف رخ کر کے خطاب فرماتے ۔ درس و تدریس کا کام مسجد میں ہوتا تھا ۔ جب آپؐ کو یہ شکایتیں ملیں کہ اصحابؓ اپنی بیویوں کو مسجد آنے سے روکتے ہیں تو آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’ تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد میں جانے سے نہ روکو‘‘۔
خواتین نے آپ ؐ سے درخواست کی کہ ان کے لیے ہفتہ میں ایک دن تعلیم و تربیت کا رکھیں تو آپ ؐ نے ان کی درخواست پر ایک دن ان کی تعلیم کا مقرر کر دیا ۔ تعلیم یافتہ خواتین میں اس وقت حضرت عائشہ ؓ کے ہم پلہ کوئی نہ تھا ۔
بچوں کی تعلیم
بچوں کی تعلیم کی طرف بھی آپ ؐ نے توجہ دی اور والدین کو ان کی عمدہ تعلیم و تربیت کرنے کا حکم دیا ۔ صالح اولاد کو صدقہ جاریہ بتایا ۔ دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی بہترین پرورش و تعلیم و تربیت کر کے ان کے نکاح کرنے پر جنت میں اپنے ساتھ ہونے کا مژدہ سنایا۔
اس کے علاوہ آپ ؐ نے فرمایا کہ بچوںکو نماز کا حکم دو ۔ سات سال کی عمر سے بچوں کو نماز پڑھنے کی عادت ڈالواور اگر نہ پڑھیں تو انہیں سزا بھی دینے کو کہا ۔ لیکن ایسی سزا نہیں جو آجکل ماں باپ یا استاد دیتے ہیں ۔فہمائش کے ذریعے جو کام ہو سکتا ہے وہ زدو کوب کے ذریعہ نہیں ہو سکتا ۔ اس کے علاوہ آپ ؐ نے فرمایا کہ بچوں کو ابتدا ہی سے تیر اندازی ، نشانہ بازی ، گھوڑ سواری اور تیراکی کی تعلیم دو ۔ آپؐ کو بچوں کی تعلیم کا ہمیشہ خیال رہتا تھا ۔ آپ ؐ کے نزدیک بچوں کو ادب سکھانا ایک صاح صدقہ کرنے سے افضل ہے ۔(الترمذی،195-337:4)
تعلیم کے سلسلے میں آپ ؐ کی کوششوںاور اقدامات کا ذکر کرنے کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ کے اندازِ تعلیم کی خصوصیات کو بھی بیان کیا جائے ۔ اگر اس کا ذکر نہ کیا جائے تو مضمون کا حق ادا نہ ہوگا۔
آپ ؐ طبیب اعظم تھے ۔ ماہر نبض شناس تھے ۔ معاشرے کی برائیوں پر آپ ؐ کی نظر تھی ۔ آپ ؐ انسانی نفسیات کو سمجھتے تھے۔لہٰذا آپؐ کا اندازِ تعلیم و تربیت بھی نفسیاتی تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو حکم دیا تھا کہ :
ترجمہ: ’’ اے نبی ؐ اپنے رب کی طرف دعوت دو ، حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو ۔ تمہارا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہؤا ہے اور کون راہ راست پر ہے ۔(125النحل)
آیت کی رو سے پہلا حکم بلانا ہے رب کے رستے کی طرف دوسرا حکم حکمت کے ساتھ یعنی ایسے انداز کہ سننے والا اس کو فوراً قبول کر لے ۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ انداز ایسا ہو کہ سننے والے کو نا گوار نہ گزرے بلکہ وہ اس کو فوراً قبول کر لے ۔ چوتھا حکم یہ تھا کہ بحث بھی ایسی ہو کہ مخاطب قائل ہو جائے ۔ محبت کے ساتھ ، دلیل کے ساتھ ،اخلاق کے ساتھ اور اعتماد کے ساتھ ۔ آپؐ کا طریقہ تعلیم بھی ایسا ہی تھا ۔
ان چار خصوصیات کے علاوہ آپ ؐ کی تعلیم میں اور کئی خصوصیات پائی جاتی تھیں جن میں قولِ لین ، تالیفِ قلب ، شفقت ، عفو ودر گزر شامل تھا۔ آپؐ نے اپنے بارے میں فرمایاکہ ’’ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ‘‘۔
آپ ؐ کے اس انداز کو ہم اپنا لیں تو دنیا سے نا خواندگی کا خاتمہ کر سکیں گے ۔ آپ ؐ کا یہ طرز تعلیم کئی صدیوں تک چلتا رہا تب ہی امتِ مسلمہ میں امام مالک ؒ ، امام ابو یوسفؒ ، امام یحیؒ جیسے ائمہ پیدا ہوئے۔
٭…٭…٭