This Content Is Only For Subscribers
کمرے میں ایک نوجوان اور پیاری سی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔
’’ اگر ملازموں کا رویہ آپ کے ساتھ نا مناسب رہا ہے تو میں اس کی معافی چاہتی ہوں ۔ مجھے بتائیے ، آپ مجھ سے کس سلسلے میں ملنا چاہ رہی تھیں ؟‘‘ رابعہ نے شیریں لہجے میں کہا۔
نینا سے کبھی بھی کسی نے اتنے پیار سے بات نہیں کی تھی ، اسے تلخ لہجوں کی عادت تھی اس کا دل بھر آیا اور وہ روپڑی۔ اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ۔
’’ پیاری خاتون ۔ کاش سب لوگ آپ جیسے ہوتے ،لیکن شاید آپ بھی مجھ سے اس طرح بات نہ کریں ، جب آپ کو میرے بارے میں علم ہو گا ۔ شاید آپ کے علم میں ہو جب عمر کو زبردستی کھینچ کر دوبارہ گرہ کٹوں کے درمیان پہنچا دیا گیا تھا ؟ جب وہ کتابوں کی دکان میں تھا ؟ میں ہی وہ لڑکی تھی جس نے ایسا کیا ؟‘‘
’’ تم نے ؟‘‘ رابعہ چیخی۔
’’ ہاں ، میں ہی وہ گناہ گار لڑکی ہوں ۔ میں بچپن سے ہی چوروں کے درمیان پلی بڑھی ہوں ۔ میں نے اس سے مختلف کوئی زندگی نہیں دیکھی۔ ‘‘ نینا نے اداسی سے کہا۔
’’ مجھے بہت افسوس ہوا ۔ واقعی ، یہ سب سن کر میرا دل بہت دکھی ہو گیا ہے ۔‘‘ رابعہ نے کہا۔
’’ میں یہاں آپ سے کچھ اہم باتیں کرنے آئی ہوں ۔ کچھ لوگوں کو اگر یہ علم ہو گیا کہ میں یہاں کیا کر رہی ہوں تو وہ مجھے جان سے مار ڈالیں گے ۔ کیا آپ منصور نامی کسی شخص کو جانتی ہیں ؟ مگر وہ آپ کو جانتا ہے اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ آپ اس ہوٹل میں رہائش پذیر ہیں۔ میں نے اسے آپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا تھا جس سے مجھے پتہ چلا کہ آپ سے یہاں ملاقات ہو سکتی ہے ۔‘‘ نینا نے کہا۔
’’ میں نے کبھی منصور کا نام نہیں سنا ۔‘‘ رابعہ نے جواب دیا۔
’’ یہ آدمی کافی عرصے سے عمر کی تلاش میں تھا ۔ جب عمر برہان صاحب کے گھر میں تھا تو منصور نے فہیم کو اسے وہاں سے واپس لانے کا کہا اور ایک بڑی رقم دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر فہیم عمر کو چور بنانے میں کامیاب ہو گیا تو وہ اس کو مزید انعام بھی دے گا۔کل رات منصور فہیم سے پھر ملاقات کے لیے آیا تھا ۔ میں نے اسے کہتے سنا :
’ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ حقیقت میں عمر کون ہے ۔ کچھ زیورات ہیں جو میں نے دارالامان کے افسران سے حاصل کیے ہیں ۔ وہ زیور عمر کی ماں کے تھے جو اس کے مرنے کے بعد حفاظت سے رکھ لیے گئے تھے۔ میں نے وہ دریا میں بہا دئیے ہیں ! کوئی بھی عمر تیمور کی سچائی کے بارے میں کبھی کچھ نہیں جان سکے گا !‘
’ اس نے کئی ایسی باتیں کہیں جو میں نہیں سمجھ سکی‘ نینا نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ۔ اس نے کہا :’’ میں تو بس وہ پیسہ واپس لینا چاہتا ہوں جو میرے مرحوم باپ نے عمر کے لیے چھوڑا ہے ۔ پھر اس نے کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ فہیم عمر کو چوری چکاری سکھا دے ۔ اس طرح عمر با آسانی جیل پہنچ جائے گا ، میں نے اسے فہیم سے یہ بھی کہتے سنا کہ وہ عمر سے نفرت کرتا ہے ۔ آخر میں اس نے جو کہا وہ میری کچھ سمجھ میںنہیں آیا ۔ اس نے کہا :
’’ فہیم! تم نہیں جانتے کہ میں اپنے بھائی کے لیے کیا منصوبے بنا رہا ہوں !‘‘
’’ اس کا بھائی؟‘‘ رابعہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں ، اب مجھے چلنا چاہیے ۔ میں نہیں چاہتی کہ ان لوگوں کو علم ہو کہ میں کہاں گئی تھی۔‘‘نینا نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ لیکن میں کیا کر سکتی ہوں ؟ میں عمر کی اور… اور تمھاری مدد کیسے کر سکتی ہوں؟‘‘ رابعہ نے کہا۔ پھر کچھ سوچ کر بولی:
’’ میرے ساتھ آئو ۔ میں ایک بہت اچھے ، نیک دل آدمی کو جانتی ہوں ۔ تم انھیں سب کچھ بتانا۔ وہ تمھیں فوراً کسی محفوظ مقام پر لے جائیں گے ۔‘‘
’’ نہیں ، مجھے واپس جانا ہوگا ۔ وہ لوگ بہت ظالم ہیں ۔ میں انھیں نہیں چھوڑ سکتی ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے نینا کی آنکھوں میں اداسی تھی ۔رابعہ کے دل میں نینا کے لیے ہمدردی اُمڈ آئی۔
’’ ایک بہتر زندگی گزارنے کے لیے مجھے اپنی مدد کرنے دو !‘‘ یہ کہتے ہوئے رابعہ کے آنسو نکل آئے۔
’’ بہت ہی اچھی خاتون ۔ اب بہت دیر ہو چکی ہے ۔بہت دیر۔ آپ پہلی انسان ہیں جس نے مجھ سے اتنی محبت سے بات کی ہے ۔ لیکن اپنی اداس اور مکروہ زندگی سے پلٹ آنے کا وقت گزر چکا ہے ۔ اب مجھے چلنا چاہیے ۔‘‘
’’ لیکن ہماری دوبارہ ملاقات ہونی ضروری ہے ۔ میں تمھیں کیسے تلاش کر سکوں گی ؟‘‘ رابعہ نے پوچھا۔
’’ کیا آپ وعدہ کرتی ہیں کہ آپ کسی کو میرے پیچھے نہیں بھیجیں گی ؟‘‘ نینا نے پوچھا ۔
’’ سچے دل سے وعدہ !‘‘ رابعہ نے کہا۔
’’پھر ، سنیں ۔ ہر اتوار کی رات گیارہ سے بارہ بجے کے درمیان میں پل پر آئوں گی ، اور آتی رہوں گی جب تک میں زندہ ہوں ۔‘‘نینا نے جانے کے لیے مڑتے ہوئے کہا۔
’’ میں میں تمھیں کچھ رقم دے سکتی ہوں؟‘‘ رابعہ نے اس کے جاتے جاتے پھر کہا ۔
’’ نہیں۔ میں کچھ نہیں لوں گی ۔ آپ واقعی بہت اچھی ، نیک دل خاتون ہیں ۔‘‘ وہ جلدی سے مڑی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
رابعہ وہیں بیٹھ کر کچھ سوچنے لگی۔وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیسے ان کی مدد کی جائے ۔
٭…٭…٭
اگلے دن صبح ابھی رابعہ کمرے میں ہی تھی کہ عمر اندر داخل ہوا۔ وہ بہت پر جوش ہو رہا تھا ۔
’’میں نے ابھی خود برہان صاحب کو دیکھا ہے ۔ وہی جنھوں نے میرا اتنا خیال رکھا تھا ،‘‘ وہ چلایا ۔ ’’ وہ گاڑی سے اتر رہے تھے ۔ پھر وہ ایک گھر میں داخل ہو گئے ۔ کیا میں وہاں جا کر ان سے مل سکتا ہوں ؟‘‘
’’ ہاں ! جلدی چلو ۔ میں خود تمھیں وہاں لے چلتی ہوں ۔‘‘ رابعہ نے کہا۔
جب وہ اس مکان پر پہنچے تو پہلے رابعہ اندر گئی ۔ وہ برہان صاحب سے اکیلے میں بات کرنا چاہ رہی تھی ۔ اندر برہان صاحب اپنے دوست غازی کے ساتھ موجود تھے ۔ رابعہ کے اندر داخل ہونے پر وہ دونوں کھڑے ہو گئے۔
’’ آپ برہان صاحب ہیں ؟‘‘ اس نے ان میں سے لمبے والے شخص سے پوچھا۔
’’ جی ، یہ میرا ہی نام ہے ۔‘‘
’’ میں آپ سے عمر تیمور کے بارے میں بات کرنے آئی تھی۔‘‘
برہان صاحب چونکے پھر جلدی سے بولے :
’’ اچھی خاتون ، امید ہے آپ اس بچارے بچے کے بارے میں کچھ اچھا ہی بتانا چاہ رہی ہوں گی۔‘‘
’’وہ ایک برا لڑکا ہے ،‘‘ غازی صاحب نے روکھے انداز میں کہا۔
’’ نہیں ، ایسا نہیں ہے ۔ وہ بہت اچھے دل کا مالک ہے ۔‘‘ رابعہ نے کہا۔
پھر اس نے دونوں حضرات کووہ سب کچھ بتایا جو برہان صاحب کے گھر سے جانے کے بعد عمر پر گزری ۔ لیکن اس نے نینا کا ذکر نہیں کیا۔
’’ عمر آپ کے خلوص کا شکر یہ ادا نہ کر پانے پر بہت افسردہ تھا۔‘‘ رابعہ نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
’’ شکر خدا کا ۔ مجھے بہت خوشی ہوئی یہ سب جان کر ۔ پر رابعہ بیٹی ، وہ اب ہے کہا ں؟‘‘برہان صاحب نے پوچھا۔
’’وہ باہر گاڑی میں بیٹھا ہے۔‘‘رابعہ نے جواب دیا۔
برہان صاحب کمرے سے نکل کر سیڑھیاں اترے اور سیدھے گاڑی کی طرف بڑھے جہاں عمر بیٹھا بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا ۔ برہان صاحب کو دیکھ کر وہ جلدی سے گاڑی سے باہر نکلا ۔ انھوں نے اسے محبت سے اپنے گلے سے لگایاپھر اسے ساتھ لے کر واپس کمرے میں آئے۔ غازی صاحب بھی عمر کو دیکھ کر شفقت سے مسکرائے۔
’’ اور بھی کوئی ہے جن کو بھولنا نہیں چاہیے۔‘‘ برہان صاحب نے کہتے ہوئے گھنٹی بجائی۔ بیگم بلقیس اندر داخل ہوئیں۔عمر فوراً جا کے ان کے گلے لگ گیا ۔ ’’ میری پیاری آنٹی !‘‘ وہ خوشی سے چلایا ۔
’’ارے میرا عمر ! تم اتنے عرصے کہاں تھے میرے بچے ۔‘‘بیگم بلقیس نے اسے محبت سے بھینچتے ہوئے کہا۔
برہان صاحب اور رابعہ ان دونوں کو وہیں چھوڑ کر دوسرے کمرے میں آگئے ، ہاں رابعہ نے انھیں وہ سب کچھ بتایا جو نینا نے اس سے کہا تھا۔
انھوں نے فیصلہ کیا کہ بیگم ملیحہ اور ڈاکٹر لقمان کو سب کچھ بتا دیا جائے ۔ چونکہ غازی صاحب بھی قانون کا کافی علم رکھتے تھے ، اس لیے انھیں بھی عمر کے بارے میں بتا دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ سب مل کر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ عمر کے والدین کون تھے اور جو جائیداد وہ اس کے لیے چھوڑ گئے ہیں ، وہ کس طرح اسے مل سکتی ہے۔
’’ آخری بات ، ابھی ہم اس بات کو راز ہی رکھیں گے ۔ عمر کو بھی کچھ نہیں بتایا جائے گا ۔ اگلی اتوار کی رات، میں اور رابعہ پل پر جائیں گے ۔ شاید ہماری ملاقات نینا سے ہو جائے ۔‘‘ برہان صاحب نے تجویز دی جس پر باقی سب بھی متفق ہو گئے ۔
’’ یقینا کھانا تیار ہو گیا ہوگا۔ چلیں ، سب عمر کا ساتھ دیں ،‘‘ برہان صاحب نے ان کو دعوت دیتے ہوئے کہا اور سب کھانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
(جاری ہے )
٭…٭…٭