نسیم ظفر اقبال صاحب اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ جب 5 جون کی رات ساڑھے گیارہ بجے رضوان سیفی نے روتے ہوئے استاد محترم کی اچانک رحلت کی خبر غم دی تو یک دم شاک لگا۔ ایک عہد کا یوں اچانک اختتام کو پہنچنا غم دے گیا۔
نسیم ظفر اقبال صاحب ایک مایہ ناز وِلڈرنس بیسڈ ٹرینر تھے جنہوں نے اپنے مخصوص اسٹائل میں ہزاروں انسانوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالا۔ وہ پاکستان کی ٹریننگ انڈسٹری میںExperiential Learning Modelکے بے تاج بادشاہ تھے۔ انتہائی زبردست انسان اور ایک حساس دل کے مالک تھے۔
نسیم ظفر صاحب سے پہلا تعارف آئی ایل ایم میں1999 میں تعلیم کے دوران ایم بی اے کی کلاس میں ہؤا جب وہ کچھ وقت کے لیے ہماری کلاس میں تشریف لائے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایسوسی ایٹ ڈین ہیں فیکلٹی آف بزنس ایجوکیشن کے۔ ان کا انداز گفتگو اچھا لگا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ وہ کارپوریٹ ٹریننگ کا ادارہ بنا کر سربراہ کے طور پر صرف پروفیشنل اداروں کے ایگزیکٹیوز کےلیے کام کریں گے۔یہ ادارہ جو انہوں نے آئی ایل ایم کے تحت قائم کیا اس کا نام سی ایم ڈی تھا،سی ایم ڈی نے مختصر وقت میں نسیم ظفر کی قیادت میں کارپوریٹ سیکٹر کو حقیقی اور سنجیدہ انداز کے تربیتی ماڈلزدیے اوران کے افراد کار کی تیاری میں مدد دینا شروع کی۔ یہاں سے نسیم ظفر اقبال صاحب کا دل و دماغ یکسو ہوکر ایمانداری کے ساتھ باوقار انداز میں کارپوریٹ سیکٹر کےلیے کام کرنا شروع کرتا ہے۔ یہ میں جن الفاظ میں نسیم ظفر کا تعارف کرارہا ہوں ان کا عینی شاہد ہوں۔
نسیم ظفر صاحب نے بہت جلد کارپوریٹ سیکٹر کو اپنی ایک جدت پسندانہ سوچ اور ٹریننگ ماڈلز سے حیران کردیا جب انہوں نے کہا کہ اگر آپ حقیقی اور پائیدار انسانی تربیت چاہتے ہیں تو آپ کو کلاس رومزکی چار دیواری اور ٹھنڈے ماحول سے نکل کر فطرت کے عظیم الشان مظاہر میں جانا ہوگا۔ دریا، سمندر، پہاڑ، بیابان اور صحراؤں کو کلاس رومز بنانا ہوگا۔ کارپوریٹ ٹریننگز کے لیے پنج ستارے ہوٹلز اور اسی طرح کی سہولتوں کا تصور رائج تھا۔ لوگ ٹریننگز سے سیکھنے کے بجائے انجوائے کرنے کیلیے پنج ستارہ ہوٹلز میں شوق سے آتے۔ مگر نسیم نے ان کے لیے نئے میدان سجائے۔ شمالی علاقہ جات کے کچھ مقامات کو پیش کیا۔ مری گلیات اور کشمیرکے پہاڑوں میں ان کے کلاس رومز بنائے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے لوگ نسیم صاحب کی گفتگو اور ٹریننگ ماڈلز کے قائل اور مائل ہوتے گئے۔پھر نسیم صاحب نے ٹریننگ ایپیکٹ قائم کیا اور اس کو ایک مثالی ادارہ بنایا جس نے جنگل، بیابان اور پہاڑوں کو کلاس رومز میں بدلا۔
نسیم صاحب فطرتاً فطرت دوست تھے۔ ان کو جنگل بیابان، دریا ؤں، سمندروں، پہاڑوں اور سخت موسموں سے دل لگی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ فطرت کے عاشق ہیں۔ اپنی نوجوانی میں انہوں نے اپنے یاراور دوست کرنل اعظم کے ساتھ پاکستان کی پہلی دریائی مہم سر کی تھی جب انہوں نے دریا ئے راوی سےجہلم اور بدین کے ساحل سے دریائے سندھ تک کشتیوں کے ذریعے سفر کیا تھا۔ اس ایڈونچر نے نسیم ظفر کو ایک بات سمجھادی تھی کہ انسان کی سوچ،اس کے خیالات اور عادات کو ان خطرات میں ڈال کر بہتر انداز میں پائیدار تبدیلی کے لیے بدلا جاسکتا ہے۔
نسیم صاحب نے بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنے عشق اور شوق کو انسانوں کی تربیت کیلیے استعمال کیا۔ شروع میں یہ ایک بہت بڑا رسک تھا کیونکہ اگر خدانخواستہ جنگل میں کوئی ایک حادثہ یا خرابی ہوجاتی تو کارپوریٹ سیکٹر نے بہانے بناکر بھاگ جانا تھا۔ مگر نسیم صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور شخصی صلاحیت سے نوازا تھا اوروہ تھی رسک منیجمنٹ کی صلاحیت۔ جنگل میں ٹریننگز کے لیے بہت حد تک ہر چیز کا خیال رکھنا پڑتا ہے تاکہ شرکا مشکل ترین حالات اوررکاوٹوں سے نبرد آزما ہوں مگر خاموشی کے ساتھ ان کےلیے ہر طرح سے حفاظت کا بھی اہتمام ہو۔ یہ نسیم صاحب کی خوبی تھی کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی پہلے سے تفصیل کے ساتھ ٹیم کے ساتھ ڈسکس کرتے تاکہ حادثات سے بچا جائے،اور ایمرجنسی کی صورتحال میں بھی شرکاکواپنی تربیت پر فوکس رکھا جائے۔
لیڈرشپ ایکسپیڈیشن اور وِلڈرنس ٹریننگز پاکستانی کارپوریٹ سیکٹر کیلیے ایک رحمت ثابت ہوئی۔ جن جن کمپنیز اور اداروں نے نسیم صاحب کی قیادت میں اپنے لوگوں کو جنگل، پہاڑ اور صحراؤں میں بھیجا ان کو لگا کہ یہی وہ چیز ہے جس کی ہمارے لوگوں کو ضرورت ہے۔
نسیم صاحب کی خوبی تھی کہ وہ جب کسی بھی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرتے تو پھر وہ اپنے آپ کو صرف ٹرینرنہیں سمجھتے بلکہ اس کمپنی کا ایک حصہ سمجھتے جو حقیقی معنوں میں اپنے لوگوں کو اپنے مقاصد کےلیے تیار کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ جذبہ اور پروفیشنل ایمانداری میں نے نسیم صاحب میں بہت زیادہ محسوس کی تھی۔ میں سوچتا ہوں کہ نسیم صاحب کیوں اس طرح مخلص ہوکر اپنے ٹریننگ سیشن کنڈکٹ کرتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں سرفہرست ان کا جنگل میں فطرت کے ساتھ مشکل حالات میں کام کرنا تھا،اور جنگل ایسی جگہ ہےجو انسان کو ہر وقت اپنے آپ سے اور اپنے رب سے قریب ہونے کا موقع دیتا ہے۔ آج کل کارپوریٹ سیکٹر میں اس ایمانداری کا فقدان نظر آتاہے۔ لوگ بس ایک واجبی سا تعلق رکھتے ہیں اور پیسے پکڑ کر چل پڑتے ہیں۔ نسیم صاحب میں یہ چیز نہیں تھی۔ اسی وجہ سے میں نےدیکھا کہ لوگ نسیم صاحب کے ساتھ جنگل میں کچھ وقت گزارنے کے بعد ان کے دوست اور خیر خواہ بن جاتے تھے۔
کارپوریٹ سیکٹر پر گلیمرس ٹریننگ سیشنز کا غلبہ رہا ہے اور اب بھی ہے،لیکن نسیم صاحب نے اپنے اخلاص ، مؤثر ٹریننگ ماڈلز اور وِلڈرنیس کی پائیداری کے سبب بہت بڑے حلقے کو اپنا ہمنوا بنایا۔ آج بلاشبہ سینکڑوں کارپوریٹ لیڈرز، ایگزیکٹوز اور کاروباری کارکن نسیم صاحب کی جدائی کو محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کو لگتا تھا کہ ان کا خیرخواہ تھا یہ شخص۔
نسیم صاحب کو اس سوچ نے اندر سے مضبوط کردیا تھا۔ وہ ٹریننگز میں اندر سے ایک نرم دل خیر خواہ انسان اورباہرایک شیر کی طرح اپنے سیشن کنڈکٹ کرتے تھے۔ میں نے ان کو کبھی بھی کارپوریٹ کے ڈر اور بزنس چھن جانے کے خوف میں مبتلا نہیں دیکھا۔ وہ اپنے سیشن میں جب آتے تو پھر وہ اپنے ہی اصولوں پر چلتے اس کی پروا کیے بغیر کہ کمپنی کیا سوچتی ہے اور شرکا کیا سوچتے ہیں۔ ایک مرتبہ کراچی میں ایک سیشن کے شروع میں ٹریننگ کے رولز طے کرتے ہوئے ایک شخص کی نسیم صاحب سے ناراضگی ہوگئی لیکن نسیم صاحب ڈٹے رہے۔ آخر میں اس نے غصے اور اپنی ذاتی نا پسند کی بنیاد پر ٹریننگ سیشن کو غلط کہا،جبکہ باقی لوگ خوش تھے۔
نسیم صاحب چونکہ ولڈرنس بیسڈ ٹرینگز کرتے تھے تو ان کا اسٹیمنا اور انرجی کمال درجے کی تھی۔ وہ ایک پرجوش اور توانا شخص کی طرح 20 گھنتے تک ہر دم تروتازہ اور کھڑے رہتے۔ ٹیم تھک جاتی مگر نسیم صاحب کے اندر کا جاگا انسان ان کو آرام کرنے اور تھکنے نہ دیتا۔ ان کی پہلی اور آخری خواہش یہ ہوتی کہ ٹریننگ کی قیمت لی ہےتووہ قیمت ایمانداری سے پوری ہو۔ جان چھڑانے والی بات ان کی پروفیشنل ڈکشنری میں موجود نہیں تھی۔
نسیم صاحب پاکستان میں ولڈرنس بیسڈ ٹریننگز کے بانی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کارپوریٹ یا کاروباری ادارے ہوں، گھر یا گورنمنٹ ہوں ہر جگہ ہنر کے ساتھ ساتھ انسان کے مائنڈ سیٹ، رویے اور برتاؤ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لوگ کام کرنا جانتے ہیں مگر انسانوں کے ساتھ رہنا اور کام کرنا نہیں جانتے۔ ہماری سوچ و فکر، زاویہ نگاہ اور تصورات کی تربیت بہت کم ہوتی ہے۔ جنگل میں ٹیم کو لےکر فطرت کے پھیلائے ہوئے حقیقی ماحول اور چیلنجز کا مقابلہ کرتے کرتے انسان اپنے اندر کے انسان کو باہر لاتا ہے۔ یہی تو وہ مرحلہ ہوتا تھا جہاں نسیم صاحب کو ایسے حالات کو انسانی تربیت کےلیے اور ذاتی زندگی کے بارے میں سوچ بچار کروانے کا موقع ملتا، جسے ہم نسیم صاحب کی غیر معمولی صلاحیتوں کا استعمال کہتے تھے۔
ایک بات بتاتا چلوں کہ نسیم صاحب کے یہ آؤٹ ڈور ٹریننگ سیشن اچھے خاصے سخت ہوتے تھے۔ بھوک پیاس، تھکاوٹ، تکلیف اور بیزاری ،رونے اور چلانے سے بھرپور مگر آخر میں زندگی بدل دینے والے تجربات۔ نسیم صاحب فخر سے کہتے کہ میں موٹیویشنل اسپیکر نہیں ہوں کہ آپ کو قصے کہانیاں سناکر اور بے ہمت بناؤں بلکہ میرا کام آپ کو فطرت کے حقیقی ماحول میں رکھ کر چیلنج کرکے آپ سے ہی اپنی شخصیت کا تجزیہ کرانا ہے۔ وہ اس کے لیے ’’برننگ پلیٹ فارم ‘‘کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک بینک کے ایگزیکٹیوز کے ساتھ ڈونگا گلی میں پروگرام تھا۔ نسیم صاحب نے میری ذمہ داری لگائی کہ میں آخری گروپ کے ساتھ آؤں۔ گروپ لےکر میں روانہ ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کے کچھ لوگوں نے مجھے پوچھنا شروع کیا کہ اب کتنا پہاڑ چڑھنا رہ گیا ہے۔ میں نے بتایا کہ تھوڑا بہت۔ پھر وہ چلتے چلتے پوچھتے تھے میں یہی جواب دیتا۔ ان کی ہمت اور اسٹیمنا جواب دے گیا تھا۔ ان کےلیے یہ زندگی میں پہلا اور تکلیف دہ تجربہ تھا۔ کچھ دیر وہ میرا جواب سنتے رہے اس کے بعد انہوں نے ہمیں خوب گالیوں سے نوازا۔ ہمیں نسیم صاحب نے پہلے ہی ذہنی طور پر اس طرح کے حالات کے بارے میں تیار کررکھا ہوتا تھا۔ ہمارا تو کام ہی ان کو ان حالات میں لانا تھا تاکہ وہ اپنی زندگیوں میں بھی مشکل سے مشکل ترین حالات میں آگے بڑھنا سیکھیں۔ ہم خاموش رہتے۔ ان میں ایک ایسا بھی گروپ ممبر تھا جس کی جوتی ٹوٹ گئی۔ وہ کہتا تھا کہ مجھے شوگر ہے، میں مرجاؤں گا۔ مسلسل ہمت دلانے کے بعد جب انہوں پہاڑ کو عبور کیا اور چوٹی پر پہنچے تو اسی شخص نے جب مجھ سے کنفرم کیا کہ پہنچ گئے ہیں تو اس نے ایک چیخ ماری کہ میں کرگیا، میں پہاڑ پر چڑھ گیا ہوں، میں ہر کام کرسکتا ہوں۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھاکہ وہ ہائکنگ کرسکتا ہے، وہ سوچتا کہ زندگی بس اپنی برانچ کے مینجر والی کرسی پر بیٹھ کر گزر جائے گی۔
نسیم صاحب کی ایک اور خوبی ٹیم کی تیاری تھی۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ہماری پہلی ٹرین دَ ٹرینر کورس کے وہ لیڈ فیسیلیٹیٹر تھے۔ انہوں نے مجھے،حارث محمود اور حمزہ نسیم کو ہاتھ پکڑ پکڑ کر کارپوریٹ سیشن میں کھڑا کیا۔ رضوان سیفی کو بھی انہوں نے ہمت دے کر آگے بڑھنے میں مدد دی۔ حسن بشیر کو ایکسپیڈیشن ٹریننگز ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ سکھائی۔ فیض رسول اور مشتاق، ان کی سرپرستی میں اہم ترین ٹریننگ سیشنز مینیج کرتے ہیں۔ میر محمد علی آخری سالوں میں ان کے رفیق خاص رہے۔ میر صاحب نے نسیم صاحب کے ساتھ کارپوریٹ سیکٹر کو اچھے اور ٹرینڈ ورکر دیے۔نسیم صاحب کے ساتھ کام کرتے ہوئے اچھا لگتا۔ وہ ہماری کمی کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے اور بہتر کرنے کے لیے کوچنگ کرتے۔ ہماری بدقسمتی کہ کچھ وجوہات کی بناپر ہم اس شرف سے کچھ وقت کے لیے محروم رہے۔
نسیم صاحب نے بہت محنت سے Wilderness-based Experiential Learning کوپاکستان میں متعارف کرایا تھا۔ وہ اس حوالے سے خاصے فکر مند رہتے تھے کہ اس کام میں جس قسم کی مہارت، تیاری، پروفیشنل ازم، ایمانداری، رسک مینیج منٹ اور حقیقی فطرت پسندی درکار ہے وہ کسی بھی موٹیویشنل اسپیکر کے ہاتھوں کمپنیز کو دھوکہ دہی کرکے خراب ہوسکتی ہے اور یہ وِلڈرنس بیسڈ ٹریننگز کی فیلڈ بدنام ہوجائے گی، لوگوں کا اس مؤثر طریقہ کار سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ اس لیے وہ اس فیلڈ کی حفاظت بھی کرنا چاہتے تھے جو ان کی اس فیلڈ کے بارے میں کمٹمنٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ اپنے کام اور طریقہ کار کا تحفظ بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کےلیے دنیا بھر میں ہر فیلڈ کے لیے سرٹیفیکیٹس کے ساتھ ساتھ ضروری قانون سازی کی جاتی ہے۔
نسیم صاحب کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ بورنگ انسان نہیں تھے۔ جنگل میں خاص طور پر استاد محترم سعد طارق صدیقی جو اس فیلڈ کے پروموٹرز میں سے ایک ہیں ،ان کے ساتھ چٹکلے اور دل لگی مثالی ہوتی تھی۔ سعد طارق صدیقی صاحب پاکستان کے مایہ ناز کوہ پیماہ ہیں۔
نسیم صاحب کے ساتھ کام اور کارپوریٹ کے وزٹ ہمیشہ انرجی، لرننگ اور چٹکلوں سے بھر پور ہوتے۔ ایک مرتبہ وہ مجھے اپنے ساتھ ایک کمپنی کے ہیڈ آفس لے گئے۔ وہاں پہنچے تو بورڈ روم میں ہمیں بٹھایا گیا اور انتظار کا کہا گیا۔ میں وہاں جیسے ہی بیٹھنے لگا تو انہوں مجھے کہا کہ کھڑے ہوجاؤ اور جاکر دیکھو کہ اس کمپنی کے درودیوار پر کیا لکھاہے، اس کمپنی کا کلچر اور پلانز کیا ہیں،ان کے بورڈپڑھو، مشاہدہ کرو، یہ موقع جانے نہ دو۔ اس طرح انہوں نے میری ایک زبردست قسم کی تربیت کی۔
نسیم صاحب اپنے ہر ٹریننگ سیشن کے اختتام پر شرکا کوکاروباری میدان میں اپنی کارکردگی بڑھانے اور آگے بڑھنے کے طریقے بتانے کے ساتھ ان کو اپنی فیملیز کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی بھی نصیحت کرتے۔ نسیم صاحب اپنی ٹریننگز میں حضور اکرم ﷺ کو بطور رول ماڈل پیش کرتے جس کو شرکا بے حد پسند کرتے۔ ان کو سیرت کی اس طرح کی تشریح واعظوں سے نہیں ملتی تھی۔
نسیم صاحب انسان تھے۔ ہر شخص میں کمی کوتاہی ضرور ہوتی ہے۔ وہ اپنا کام کرکے اپنے رب کے حضور پہنچ گئے ہیں۔نسیم صاحب نے ٹریننگ امپیکٹ کا پلیٹ فارم بناکر کارپوریٹ اور ٹریننگ انڈسٹری کےلیے ایک اہم کام کیا ہےجہاں پر مخلصانہ انداز میں جنگل اور نیچر کی بےپناہ طاقت کو انسانوں کے مزاج کی تربیت اور رویوں میں تبدیلی کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔اب ٹریننگ امپیکٹ کی ٹیم کا کام ہے کہ اس سفر کو اسی جذبے اور اخلاص کے ساتھ انسانوں کی بہتر اور پائیدار تربیت اور ترقی کے لیے جاری رکھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ نسیم صاحب کی کمی کوتا ہیوں کو معاف فرمائےاوران کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے،آمین۔
٭٭٭