مومن کے لیے صوم (روزہ) اور قرآن ، رمضان المبارک کے دو بڑے تحفے ہیں۔ان کے ذریعے وہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے۔روزے کی مشقت میں وہ صبر کر کے بڑی نیکیاں کماتا ہے،وہ دن کو تلاوت ِ قرآن کی سعادت حاصل کرتا ہے اور رات کو قیام اللیل میں قرآن کی آیات سے اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے، یہی وقت تو قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ سارا دن صبر کے ساتھ مشقت میں گزارنے والا بندہ رات کو تھکاوٹ سے چور ہونے کے باوجود نرم بستر کو چھوڑ کر جسم کی پکار کو روند ڈالتا ہے۔ یہ گویا اعلان ہے کہ اس نے اللہ کی دعوت پر لبیک کہہ دیا ہے، اور اس دعوت پر وہ سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ رات کو قرآن کریم اچھی طرح پڑھا جا سکتا ہے، قیام اللیل کی اپنی مٹھاس ہے، اس وقت کی نماز نہایت ہی خشوع وخضوع سے ادا ہو سکتی ہے۔رات کے وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض و معذرت کرنے، اور اس کے بھیجے ہوئے پیغام کو سمجھنے کے لیے جو یکسوئی درکار ہے، ان گھڑیوں میں حاصل ہوتی ہے، اس میں اللہ سے محبت پیدا ہوتی ہے، دل سکون اور خوشی سے بھر جاتا ہے۔ جس اللہ نے انسان کے دل کو پیدا کیا ہے، وہی اس حقیقت کو جانتا ہے کہ اس پر کیا چیز کس وقت اثر کر سکتی ہے۔ کس وقت وہ اچھے اثرات لینے کے لیے تیار ہوتا ہے، اور کیا اسباب ہیں جو اس پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ پس دن کے روزے کے صبر کو رات کے قیام اور قرآن کے ساتھ جمع کر کے رمضان المبارک کی برکتوں اور اثر پذیری کو بڑھا دیا جاتا ہے اوریہی رمضان المباک کی روح ہے۔
قرآن کریم میں حرمت جان اور حرمتِ مال کے قوانین کے بعد روزے کا بیان اس حکم کو سامنے لا رہا ہے، جو ضبط ِنفس اور تربیت ِ تقویٰٰ کے لیے اسلام نے مقرر کی ہے تاکہ طمع اور اشتعال، لالچ اور انتقام، خواہش اور ہیجان کے غیر معتدل رحجانات اور میلانات کو انسان لگام دے سکے۔اور اپنے رہوارِ نفس کو اس راستے پر لگا سکے جو تقویٰ کا راستہ ہے۔روزہ صبر اور تقویٰ پیدا کرنے کی خاص عبادت ہے، اور یہی صفات ہیں جو انسان کو حق تلفی اور دست درازی سے بھی بچاتی ہیں اور برّ و احسان اور حق و عدل کے قیام پر ابھارتی بھی ہیں۔گویا ترتیب میں اس کے موقع و محل ہی نے یہ حقیقت واضح کر دی کہ روزہ اسلام میں کیوں فرض کیا گیا ہے۔اس کے مقاصد اور فوائد کیا ہیں، زندگی کن پہلووں سے اس سے متاثر ہوتی ہے اور پھر حیاتِ اجتماعی پر اس کے کیا اثرات پڑتے ہیں۔ (تدبر القرآن، ج۱، ص۴۴۲)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی‘‘۔ (البقرۃ، ۱۸۳)
روزہ ایک مشقت بھری عبادت ہے، جس پر عمل کے لیے انسان کو بڑی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں انسان اللہ کی خصوصی امداد کا محتاج ہے۔ انسان میں اس عبادت کی اسپرٹ پیدا کرنے کے لیے اور اس کی روح کو اس حکم کی جانب مائل کرنے کے لیے جس میں خود اس کا مفاد مضمر ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے بہت ہی پیاری آواز میں پکارا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘‘، یہ آواز انہیں ان کی اصل حقیقت یاد دلاتی ہے، پھر روزہ فرض ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے یہ تو پہلی امتوں پر بھی فرض ہوتا رہا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔
اس کا مقصد اہلِ ایمان کے دلوں کو صاف کرنا ہے اور انہیں خوفِ خدا کے لیے تیار کرنا ہے، اور ان میں اللہ کی مشیت کا احساس و شعور بیدار کرنا ہے۔ (دیکھیے: فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
اللہ تعالیٰ نے روزوں کے لیے رمضان المبارک کے مہینے کو کیوں منتخب کیا، اس کی وضاحت خود اس نے بیان فرمائی ہے، اور یہ آیت ابتدائی حکم کے ایک سال بعد نازل ہوئی:
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ ِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔ (البقرۃ، ۱۸۵)
رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور تقویٰ کی تربیت ہی قرار نہیں دیا گیا، بلکہ انہیں مزید برآں اس عظیم الشان نعمتِ ہدایت پر اللہ کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے، جو قرآن کی شکل میں اس نے ہمیں عطا کی ہے۔
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن ِ عظیم نازل ہؤا ہے۔ رمضان میں قرآن کا آغاز ہوا یا یہ کہ اس کا زیادہ حصّہ رمضان میں نازل ہوا۔ قرآن اس امت کے لیے ایک دائمی کتاب ہے۔ قرآن ہی نے تو اس امت کو گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر روشنی بخشی اور اسے عظیم الشان عروج تک پہنچایا۔ خوف کے بدلے اسے چین نصیب ہؤا۔ اسے اس کرہء ارض پر تمکنت بخشی۔ اسے ایسی بنیادیں اور عناصر دیے جن کی بنا پر وہ ایک امت قرار پائی، لہٰذا انعامات کا کم سے کم شکریہ یہ ہے کہ اس مہینے میں مسلمان روزے سے ہوں، جس میں قرآن نازل ہؤا۔(فی ظلال القرآن، نفس الآیۃ)
رمضان المبارک میں روزے کی فرضیت کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ :
٭ جو لوگ ایمان لائے ہوں ان کے دلوں میں اس ہدایت و رہنمائی کی قدرو قیمت کا صحیح شعور پیدا ہو جائے جو اللہ تعالیٰ نے انتہائی سہولت اور فراوانی سے انہیں فراہم کر دی ہے۔
٭ ماہِ صیام میں باقی دنوں کے مقابلے میں ان کے دلوں میں دین کا شعور زیادہ پختہ ہو۔
٭ ان کے دل معصیت اور گناہ کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیں۔
٭ ان کے اعضاء معصیت کے ارتکاب کے لیے تیار ہی نہ ہوں۔
٭وہ اس طرح لگیں کہ وہ اللہ کی ہدایت کو محسوس کر رہے ہیں، بلکہ اسے چھو رہے ہیں۔
٭ ان کے دل اس اطاعت اور بندگی کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوں کہ اس کا تقویٰ حاصل کرنا ان کا اصل مقصد ہے۔
٭ روزے کا مخفی ہونا بندے اور اللہ کے درمیان ایک خصوصی تعلق استوار کرتا ہے، جہاں بندہ ہر ایسی حرکت سے باز رہنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے جو اس کے روزے کو ضائع کر دے، کہ اس کی عبادت اللہ کی نگاہ میں ہے۔
اللہ تعالیٰ بندے کی ہر نیکی کو بڑھاتا ہے، لیکن روزے کا معاملہ کچھ خاص ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’آدمی کا ہر عمل اللہ کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے اور نیکی دس گنا سے سو گنا تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں اس کا جتنا چاہتا ہوں بدلہ دیتا ہوں‘‘۔ (رواہ البخاری)
روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے اور وہ نگاہ میں نہ ہو تو بھوکا پیاسا رہنا کچھ مفید نہیں۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا:
’’جس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑا تو اس کا کھانا اور پانی چھڑا دینے کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں‘‘۔ (رواہ البخاری، ۱۹۰۳)
ایک اور جگہ فرمایا: ’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلّے کچھ نہیں پڑتا، اور بہت سے راتوں کو کھڑے ہونے والے ہیں کہ اس قیام سے رت جگے کے سوا ان کے پلّے کچھ نہیں پڑتا‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ۳۳۰)
روزہ دار اپنے عمل کی قبولیت بڑھانے کے لیے کوشاں رہتا ہے، تاکہ یہ عبادت اسے مغفرت تک پہنچا دے، اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا:
’’جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھا ، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے، اور جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے‘‘۔(رواہ البخاری۳۸ و مسلم)
جب بندہ روزے کے اصل مقصد پر نگاہ رکھے تو یہی روزہ ہر برائی اور گناہ کے کام کے لیے اس کی ڈھال بن جاتا ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے، اس لیے (روزہ ادر) نہ فحش بات کرے نہ جہالت والا برتاؤ۔ اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا گالی گلوچ والا برتاؤ کرے تو وہ بس اتنا کہے کہ: میں روزہ دار ہوں، میں روزہ دار ہوں‘‘۔ (رواہ البخاری، ۱۶۹۴)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتیں دی ہیں اور اس کے وجود میں ذہن اور دماغ کی قابلیتیں ایک بہت بڑی نعمت ہیں، اور عقل سے بھی بڑی نعمت قرآن ہے۔عقل کو بھی حقیقی رہنمائی قرآن ہی سے ملتی ہے، یہ نہ ہو تو عقل سائنس کی ساری دوربینیں اور خوردبینیں لگا کر بھی بھٹکتی ہی رہتی ہے، اسی وجہ سے جس مہینے میں دنیا کو یہ نعمت ملی وہ سزاوار تھا کہ وہ خدا کی تکبیر اور اس کی شکر گزاری کا خاص مہینہ ٹھہرا دیا جائے تاکہ اس نعمتِ عظمیٰ کی قدر وعظمت کا اعتراف ہمیشہ ہمیشہ ہوتا رہے۔ اس شکر گزاری اور تکبیر کے لیے اللہ نے روزوں کی عبادت مقرر فرمائی جو اس تقویٰ کی تربیت کی خاص عبادت ہے جس پر تمام دین و شریعت کے قیام و بقا کا انحصار ہے اور جس کے حاملین ہی کے لیے قرآن درحقیقت ہدایت بن کر نازل ہؤا ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود اس سورۃ کے آغاز میں فرما دیا کہ : ’’اس کتاب میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے متقین کے لیے‘‘ ۔ (البقرۃ، ۲)
یعنی اس کا حقیقی فیض انہی لوگوں کے لیے خاص ہے جن کے اندر تقویٰ کی روح ہو اوراس تقویٰ کی تربیت کا خاص ذریعہ روزے کی عبادت ہے۔ اس وجہ سے رب کریم نے اس مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا جس میں قرآن کا نزول ہؤا۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن اس دنیا کے لیے بہار ہے اور رمضان کا مہینہ موسمِ بہار اور یہ موسم ِ بہار جس فصل کو نشوو نما بخشتا ہے وہ تقویٰ کی فصل ہے۔ (تدبر القرآن،ص۴۵۱)
قرآنِ کریم نے نزول قرآن کی رات کو ایک مبارک رات قرار دیا ہے، ارشاد ہے:
’’قسم ہے اس کتابِ مبین کی، کہ ہم نے اسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ (سورۃ الدخان، ۲۔۳)
قرآنِ کریم نہ تو سارا ایک رات میں نازل ہؤا نہ سب کا سب رمضان المبارک میں نازل ہؤا بلکہ زمین پر اتارنے کا آغاز رمضان المبارک کی لیلۃ القدر میں ہؤا۔ یہ رات فی الوقع مبارک ہے جس میں انسانیت کے لیے رحمتِ خداوندی کا یہ عظیم دروازہ کھلا۔قرآن کے نزول سے جس طرح اللہ کی رحمت کا ظہور ہؤا، اس طرح کسی اور رحمت کا ظہور نہیں ہوا۔ یہ اس کی رحمت ہی تو ہے کہ یہ قرآن نہایت سرعت اور آسانی کے ساتھ دلوں میں بیٹھ جاتا ہے اور انسان اس کے ردِّ عمل کے طور پر اس طرح خود کار طریقے سے عمل کرتا ہے جس طرح انسان کے جسم میں خون دوڑتا ہے۔ اس طرح بشر ایک سنجیدہ اور شریف انسان بن جاتا ہے اور انسانی معاشرہ ایک خوبصورت خواب کی طرح نظر آتا ہے۔ (دیکھیے: فی ظلال القرآن، نفس الآیۃ)
(صیام) اس عظیم الشان نعمت ِ ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ہے جو قرآن کی شکل میں اس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ٗقرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دنیا کو اس پر چلائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزولِ قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے، اور صرف اخلاقی تربیت ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خود اس نعمتِ قرآن کی بھی صحیح اور موذوں شکر گزاری ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۴۳)
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ کسی بھی مخلوق کے کلام سے اشرف و افضل ہے۔ یہ ایک محفوظ کلام ہے، جس کے ارد گرد باطل نہیں پھٹک سکتا۔ جو اس کے مطابق بات کرے ، وہ سچا ہے اور جو اس کے موافق فیصلہ کرے وہ عادل ہے۔ قرآن کو ماننے والے اللہ کے مقرب ہیں، اور اس پر عمل کرنے والے (مفلحون) کامیاب و کامران ہیں، اور اس سے اعراض کرنے والے تباہ و برباد ہیں۔قرآن قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کو فضل و شرف عطا کرے گا، رسول کریم ؐ نے فرمایا:
’’قرآن پڑھا کرو، یہ قیامت کے دن اس پر عمل کرنے والے کے لیے سفارشی بن کر آئے گا‘‘۔ (رواہ مسلم)
مزید فرمایا:
تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے‘‘۔ (رواہ البخاری)
آپؐ نے فرمایا: ’’قرآن والے اللہ تعالیٰ کے اپنے اور اس کے منتخب لوگ ہیں‘‘۔(سنن النسائی، ابن ماجہ)
دلوں کا زنگ
رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے: ’’دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں، جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے‘‘۔ عرض کی گئی یا رسول اللہؐ ! دلوں کا زنگ کس طرح دور ہوتا ہے؟ فرمایا: تلاوتِ قرآن اور موت یاد کرنے سے‘‘۔
جب قرآن کی تلاوت دلوں کا زنگ دور کرتی ہے تو روزے میں اس کی اثر پذیری میں کتنا اضافہ ہو جاتا ہے، جبکہ بندے تقویٰ کے حصول میں پہلے سے کئی گنا بڑھ کر کوشاں ہیں۔
قرآن کی حلاوت
ایک مرتبہ ولید بن مغیرہ جیسے ضدی مخالف نے آپؐ سے کہا: اے محمد! مجھے قرآن پڑھ کر سنائیے، تو آپؐ نے یہ آیت تلاوت کی:
’’بے شک اللہ عدل، نیکی اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، منکرات اور ظلم کرے سے منع کرتا ہے‘‘۔ (النحل، ۹۰)
اس نے دوبارہ تلاوت کرنے کو کہا، اور وہ ان کی قوتِ تاثیر سے ایسا متاثر ہؤا کہ کہنے لگا:
’’اللہ کی قسم! اس میں مٹھاس ہے، اس میں تازگی ہے اور یہ (ایسے درخت کی طرح ہے) جس کا نچلا حصہ سایہ دار اور اوپر والا حصّہ پھل دار ہے، یہ کسی انسان کا کلام ہو ہی نہیں سکتا‘‘۔ (رواہ ابن جریر طبری والبیہقی)
اور مسلمان تو محض قرآن کے الفاظ کی شیرینی سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام قرار دیتا ہے، اور اپنی عادات اور اخلاق اس کے مطابق سنوارنے کی سعی کرتا ہے۔
رمضان میں تلاوتِ قرآن
رسول اللہ ؐ رمضان میں کثرت کے ساتھ تلاوت کرتے تھے اور جبریل علیہ السلام بھی رمضان میں آپؐ کے ساتھ قرآن پاک کا دور کرتے تھے۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’نبی کریم ؐ سخی اور فیاض تو تھے ہی مگر رمضان میں آپ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی۔ جب جبرئیلؑ ہر رات کو آپؐ کے پاس آتے اور قرآن کریم پڑھتے اور سنتے تھے تو ان دنوں نبی ؐ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ فیاض ہوتے تھے‘‘۔
رسول اللہ ؐ رمضان کی راتوں میں زیادہ طویل قیام کیا کرتے تھے۔ ایک رات حضرت حذیفہؓ نے آپؐ کے ساتھ قیام کیاتو آپؐ نے سورۃ البقرہ پڑھی، پھر آلِ عمران اور پھر سورہ النساء۔ جب آپؐ آیت تخویف پڑھتے تو ٹھہر جاتے اور سوال (یعنی دعا) کرتے۔ابھی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں کہ بلالؓ آگئے اور صبح کی نماز کی اطلاع دی۔
قیام اللیل کا بڑا مقصد یہی ہے کہ قرآن کی آیات دل و دماغ اور روح میں جذب ہو سکیں۔ قرآن کریم پر غور کرنے کا کچھ وقت میسر آجائے، اور بندہ اپنی زندگی کو ان احکام کا پابند بنا لے جس میں اس کی دنیا اور آخرت کا بھلا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔روزہ کہے گا ، اے میرے رب! میں نے بندے کو دن بھر کھانے پینے اور خواہشات سے روکا، پس اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات کو نیند سے روکے رکھا پس اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی‘‘۔ (مسند احمدو سنن النسائی)
جس روزے میں جھوٹ نہیں بولا گیا، نہ لڑائی جھگڑا کیا، نہ ظلم کیا اور نہ کوئی فحش بات، وہی روزہ قیامت کے دن سفارش کروائے گا،پس جو چاہتا ہے کہ روزہ قیامت کے دن اس کی سفارش کرے اسے اپنے روزے کی بہت حفاظت کرنا ہو گی، اسے منکرات کا ارتکاب کر کے فاسد ہونے سے بچانا ہو گا، تاکہ برائیاں اور گناہ اسے ضائع نہ کردیں۔اپنی نگاہوں اور کانوں کی حفاظت اور اپنے ہاتھوں اور پیروں کی حفاظت اولین درجے میں آتی ہے۔
رمضان المبارک میں قرآن کی تلاوت اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنا، اور اس آفاقی پیغام پر عمل پیرا ہونا اللہ تعالیٰ سے قرب میں اضافہ کر دیتا ہے۔ قرآن کی تلاوت اس کے روحانی فیض کو بڑھاتی ہے اور گناہوں سے رکنا اور نیکیوں پر مداومت ہی وہ صبر ہے جو روزے کا مقصود ہے۔ صیام اور قرآن کا بڑا مضبوط تعلق ہے۔ رمضان کے مہینے میںپورا دن روزے کی فرضیت اور صبر کے مقامات ہی اسے رات کو اللہ کا کلام سننے اور اس کی تلاوت کرنے اور رب سے سرگوشیاںکے لیے روحانی طور پر تیار کر دیتے ہیں۔
حضرت عمرؓ قرآن کی تلاوت کے بعد دعا مانگتے:
’’اے اللہ! تیری کتاب سے جو میں تلاوت کرتا ہوںاس پر مجھے تفکر اور تدبر کی توفیق عطا فرما۔ اے اللہ ! مجھے اس کے مفہوم اور معانی کی معرفت عطا فرمااور اس کے عجائبات کو پانے کی نظر عطا کر۔ جب تک زندہ رہوں مجھے توفیق دے کہ میں اس پر عمل کرتا رہوں۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
رمضان المبارک نزولِ قرآن کا مہینہ ہے، اس مہینے میں رسول ِ کریمؐ اس کی آمد سے پہلے ہی اس کی تیاری شروع کر دیتے تھے، اور پہلے سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے، پہلے سے بڑھ کر عبادت کرتے، اور آخری عشرے میں تو خوب کمر کس لیتے اور گھر والوں کو بھی ان ساعات سے استفادے کے لیے اپنے ساتھ شریک کرواتے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کے خزانے برسنے کو بیتاب ہیں۔ آئیے ان قیمتی لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھا لیں اور روزے کے صبر اور قرآن کے پیغام کو اپنی زندگی کا حصّہ بنالیں۔
٭٭٭
بہترین مضمون