This Content Is Only For Subscribers
صدقہ اردو زبان میں برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اس عطیے کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے ، جس میںکوئی ریا کاری نہ ہو ، کسی پر احسان نہ جتایا جائے ، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے ۔ یہ لفظ ’’صدق‘‘ سے ماخوذ ہے اس لیے صداقت عین اس کی حقیقت میں شامل ہے ۔ کوئی عطیہ اور کوئی حال اس وقت تک صدقہ نہیں ہو سکتا جبکہ اس کی تہہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بنا کھوٹ جذبہ موجود نہ ہو ۔ ارشاد ربانی ہے :
’’ مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسنہ دیا ہے ان کو یقینا کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے اورجو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پرایمان لائے ہیں وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ، ان کے لیے ان کا اجر ان کا نور ہے ۔ خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے ، پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے ‘‘۔(سورہ حدید۱۸۔۲۰)
یہاں ایمان لانے والوں سے مراد صادق الایمان لوگ ہیں جن کا طرز عمل جھوٹے لوگوں سے مختلف ہوتا ہے ۔ صدیق، وفا خلوص عملی راست بازی کے ساتھ وعدہ پورا کرنے والاشخص کہلاتا ہے ۔ جس نے آزمائش کے موقع پر دوستی کا حق ادا کیا ہو اور کبھی کسی سے بے وفائی نہ کی ہو ۔ حدیث میں حضرت براء بن عازب کی روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا’’ میری امت کے صدیق شہیدہیں‘‘۔ابوالدرداء سے یہ روایت بھی منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا’’ جو شخص اپنی جان اوراپنے دین کو فتنے سے بچانے کے لیے کسی سر زمین سے نکل جائے وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اللہ شہید کی حیثیت سے اس کی روح قبض فرماتا ہے ‘‘۔
یہ دنیا کی زندگی در اصل ایک عارضی زندگی ہے ۔ یہاں کی بہار بھی عارضی ہے اور خزاں بھی عارضی ہے۔ دل بہلانے کا سامان یہاں بہت کچھ ہے مگر درحقیقت وہ نہایت حقیر اورچھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں ۔ جنہیں اپنی کم ظرفی کی وجہ سے آدمی بڑی چیز سمجھتا ہے اور اس دھوکے میں پڑ جاتا ہے کہ انہی کوپالینا گویا کامیابی کی انتہا تک پہنچ جانا ہے ۔ حالانکہ جو بڑے سے بڑے فائدے اور لطف و لذت کے سامان یہاں حاصل ہوتے ہیں وہ بہت حقیر اورچند سال کی حیات مستعار تک محدود ہیں اور ان کا حال بھی یہ ہے کہ تقدیر کی ایک ہی گردش خود اس دنیا میں ان سب کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے ۔ اس کے برعکس آخرت کی زندگی ایک عظیم اور ابدی زندگی ہے۔وہاں کے فائدے بھی عظیم اور مستقل ہیں اور نقصان بھی عظیم اور مستقل ۔ کسی نے اگر اللہ کی مغفرت اور خوشنودی پا لی تو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ نعمت حاصل ہو گئی جس کے سامنے دنیا بھر کی دولت و حکومت بھی ہیچ ہے ۔ انسان دنیا کی دولت ، لذت اور فائدے سمیٹنے میںایک دوسرے سے بڑھ کر کوشش کرتا ہے مگر رضائے الٰہی کے لیے آگے بڑھنا اور مساکین اور ضرورت مندوں کی امداد کرنا اصل سرمایہ کاری ہے ۔ فرمایا :
’’ کون ہے جو اللہ کو قرض دے ، اچھا قرض تاکہ اللہ اسے کئی گنا
بڑھا کر واپس کر دے ، اور اس کے لیے بہترین اجر ‘‘۔( سورہ حدید۔۱۱)
یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ آدمی اگر اس کے بخشے ہوئے مال کواسی کی راہ میں صرف کرے تو وہ اسے اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے بشرطیکہ وہ قرض حسنہ ہو یعنی خالص نیت کے ساتھ کسی ذاتی غرض کے بغیر دیا جائے ، کسی قسم کی ریا کاری اور شہرت و ناموری کی طلب اس میں شامل نہ ہو ، اسے دے کر کسی پر احسان نہ جتایا جائے ، کسی کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے ، سب کے سامنے اس کو ذلیل نہ کیا جائے ۔ دینے والا صرف اللہ کی رضا کے لیے دے اور اس کے سوا کسی کے اجر اور کسی کی خوشنودی پر نگاہ نہ رکھے ۔ اس قرض کے متعلق اللہ کے دو وعدے ہیں ، ایک یہ کہ وہ اس کو کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کردے گا ، دوسرے اس پر اپنی طرف سے بہترین اجر بھی عطا فرمائے گا ۔
حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضور اکرم ؐ نے سورہ حدید کی یہ آیت سنائی تو حضرت ابو الدحداح انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے ؟ حضورؐ نے جواب دیا ہاں اے ابوالدحداح انہوں نے کہا ذرا اپنا ہاتھ مجھے دکھائیے ۔ آپ ؐ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا ۔ انہوں نے آپ ؐ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض دے دیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس باغ میں کھجورکے چھ سو درخت تھے ۔ اسی میںان کا گھر تھا وہیں ان کے بال بچے رہتے تھے ۔ رسول اکرم ؐ سے یہ بات کر کے وہ سیدھے گھر پہنچے اور بیوی کو پکار کر کہا ، دحداح کی ماں نکل آئو میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے ۔ وہ بولیں ، تم نے نفع کا سودا کیا دحداح کے باپ اور اسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچے لے کر باغ سے نکل گئیں۔
اس واقعہ سے انداز ہوتا ہے مخلص مومنین کا طرز عمل صدقہ خیرات کے بارے میں کیسا تھا اور یہ کیسا قرض حسنہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے کئی گنا بڑھا کر واپس دینے اور اوپر سے اجر کریم عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔ انہی مومنین صادقین کے صالح عقیدے اور سیرت کی پاکیزگی نور میں تبدیل ہو جائے گی جس سے نیک بندوں کی شخصیت جگمگا اٹھے گی۔ جس شخص کا عمل جتنا تابندہ ہوگا اس کے وجود کی روشنی اتنی ہی تیز ہو گی۔ آپ ؐ نے فرمایا ’’ کسی کا نور اتنا تیز ہو گا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تک پہنچ رہا ہوگا اور کسی کا نور مدینہ سے صنعاء تک اور کسی کا اس سے کم ۔ یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہوگا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا ( ابن جریر) جس کی ذات سے دنیا میں جتنی بھلائی پھیلی ہو گی اس کا نور اتنا ہی تیز ہو گا اور جہاں جہاںتک دنیا میں اس کی بھلائی پہنچی ہو گی میدان حشر میں اتنی ہی مسافت تک اس کے نور کی شعاعیں دوڑ رہی ہوں گی ۔
آپ ؐ نے ارشاد فرمایا ’’ چند آدمی جنت میں داخل نہ ہو سکیں گے۔ پہلا شخص وہ ہوگا جواپنے دیے پر احسان جتاتا ہے ۔ دوسرا وہ شخص ہے جو والدین کا نا فرمان ہے ۔ تیسرا شرابی شخص جنت سے محروم ہوگا‘‘۔ سورہ بقرہ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔
’’ جولوگ اللہ کی راہ میں پورے خلوص سے خرچ کرتے ہیں اور نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ اذیت دیتے ہیں ان کے لیے اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے ۔ انہیں نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ نرم گفتاری اور مسائل کو محبت سے جواب دینا اس صدقے سے بہتر ہے جو اذیت کا باعث ہو۔ بے شک اللہ غنی و برد بار ہے ، اے ایمان والو اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور اذیت دے کر ضائع نہ کرو ۔ جو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر ، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پرزو ردار مینہ برسے اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ۔ ان ریا کاروں کواپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا ۔ ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا دے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے ‘‘۔(سورہ بقرہ۲۶۲۔۲۶۵)
صدقے کی قبولیت کے لیے حلال اور پاکیزہ کمائی بھی ضروری
ہے صدقہ دینا خواہ چھپ کر دیا جائے یا کھلم کھلا، یہ ایک احسن عمل ہے ، ریاکاری سے کسی کی مدد کرنا اور اس کو سر محفل جتا دینا انتہائی غیر مستحسن عمل ہے کیونکہ اس سے صدقہ لینے والے کی انا اور عزت نفس مجروح ہوتی ہے لیکن اگر صدقہ دینے سے دوسروں کو ترغیب دلانا مقصود ہو اورریا کاری کا پہلو نہ نکلتاہو تو جائز ہے ۔نبی کریم ؐ نے فرمایا’’ قیامت کے دن جن لوگوں کو عرش کا سایہ نصیب ہو گا ان میں سے ایک وہ شخص بھی ہوگا جس نے اتنے خفیہ طریقے سے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہیں چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ‘‘۔
ایک اور حدیث قدسی میںارشاد ہؤا’’ افضل صدقہ کسی تنگدست کا اپنی کوشش سے چپکے سے دینا ہے اور جو شخص اپنے صدقے کا تذکرہ کرتا ہے وہ اپنی شہرت کا طالب ہے اور جو مجمع میں دیتا ہے وہ ریا کار ہے ‘‘۔
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے ’’ جہاںشہرت مقصد ہو وہ عمل بیکار ہو جائے گا اس لیے زکوٰۃ واجب کی گئی ہے تاکہ مال کی محبت زائل ہو ۔ حُبِ جاہ کا مرض لوگوں میں حُبِ مال سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور آخرت میں دونوں ہی ہلاک کر دینے والی ہیں ۔ بخل کی خاصیت قبر کے بچھو کی صورت میں مسلط ہوتی ہے اور ریا اور شہرت کی خواہش اژدھے کی صورت میں قبر میں مسلط کردی جاتی ہے ۔ جوشخص شہرت کا خواہش مند ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے اس نے سچائی کا معاملہ نہیں کیا۔
صدقہ لینے والوں کی خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں ۔ارشاد ربانی ہے ’’ صدقات کے مستحق صرف وہ غربا ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دیے گئے ، جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے ، نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے ان کومالدار خیال کرتے ہیں ، آپ ان کے چہرے دیکھ کر انہیں پہچان لیں گے ۔ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے ۔ تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اللہ اس کا جاننے والا ہے ‘‘۔( سورہ بقرہ۲۷۳۔۲۷۷)
ان آیات میں اہل ایمان کی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ فقر و غربت کے باوجود سوال سے بچتے ہیں اور لوگوں سے چمٹ جانے سے گریز کرتے ہیں۔ جس چیز کی انہیںضرورت نہیں ہوتی وہ لوگوں سے طلب نہیںکرتے ۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ’’ مسکین وہ نہیں ہے جو ایک ایک یاد دو دو کھجور یا ایک ایک دو دو لقمے کے لیے در در پر جا کر سوال کرتا ہے ۔ مسکین تو وہ ہے جو سوال سے بچتا ہے ‘‘۔
حضرت عمر ؓ ایک مرتبہ مسجدنبوی میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ حضرت معاذؓ حضور اقدس کی قبر مبارک پر بیٹھے رو رہے ہیں ۔ حضرت عمر ؓ نے رونے کا سبب دریافت کیا تو حضرت معاذ ؓ نے فرمایا کہ میں نے حضور اکرم ؐ سے سنا تھا کہ ریا کا تھوڑا سا حصہ بھی شرک ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے متقی لوگوں کو پسند کرتا ہے جو دنیا والوں سے اپنے آپ کو پوشیدہ رکھتے ہیں وہ لوگوں کے لیے انجان ہوتے ہیں اگر کہیں چلے جائیں تو کوئی انہیں تلاش نہ کرے اور مجمع میں آئیں تو کوئی ان کونہ پہچانے ۔ ان کے دل ہدایت کے چراغ ہوں اور وہ ہر گرد آلود تاریک مقام سے خلاصی پانے والے ہوں۔
بعض اوقات صدقے کوعلانیہ دینے کی ترغیب دلائی جاتی ہے تاکہ دوسرے کو بھی صدقہ دینے کی طرف رغبت ہو ۔ آپ ؐ نے فرمایا ’’قرآن پاک کو آہستہ آواز سے پڑھنے والا ایسا ہے جیسے چپکے سے صدقہ دینے والا اور بلند آواز سے پڑھنے والا ایسا ہے جیسے اعلان کے ساتھ صدقہ کرنے والا ‘‘ ایک اور حدیث میں فرمایا ’’ محض صدقہ اللہ کے غصے کو زائل کرتا ہے ۔ قیامت کے دن ہر شخص اپنے صدقے کے سائے میں ہوگا جب تک کہ حساب کا فیصلہ نہ ہو۔ صدقہ قبروں کی گرمی کو دور کرتا ہے اور ہر شخص قیامت کے دن اپنے صدقے سے سایہ حاصل کرے گا ‘‘۔
٭…٭…٭