پہاڑ ہمیں ہمیشہ وحشت کی علامت لگتے تھے ، صحرا کے احسانوں میں ایک احسان کا ہم پہ اضافہ ہونے والا تھا، ہمیں پہاڑوں سے محبت ہونے والی تھی
یونہی گوگل گوگل کھیلتے کھیلتے گاڑی رکی تو سامنے ایک قدیم مسجد تھی، مسجد بودھیسر ۔
1505 میں تعمیر کردہ کارونجھر کے دامن میں واقع ڈیم کے کنارے بنی یہ مسجد اپنے وقت کی خوبصورت مسجد تھی ۔ یہ مسجد مکمل طور پہ سفید سنگِ مرمر سے تعمیر کردہ ہے ، بورڈ پہ لکھی معلومات پڑھ کے اندازہ ہؤا کہ اس مسجد کی تعمیر بھی گنبد کے لحاظ سے ہندو اور جین مذاہب کی عبادت گاہوں کے تعمیراتی انداز میں کی گئی ہے ۔ گوری مندر کے مقابلے میں یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی ، دونوں ہی کی تعمیر میں سنگِ مر مر کا استعمال کیا گیا تھا لیکن گوری مندر اندر سے کافی بند اور گھٹا گھٹا سا تھا جب کہ یہاں کشادگی کا احساس ہوتا تھا ۔
مرکزی دروازے سے مسجد کے برآمدے تک جانے کے لیے ایک کچی راہداری بنی ہوئی تھی جس کے اطراف کئی قبروں کے تعویذ ابھرے ہوئے تھے ۔ ایک دو قبریں بے حد پرانی محسوس ہو رہی تھیں ، بے نام و نشان قبریں ، ان میں مدفون ہستیاں یقیناً اپنے وقت کی خاص شخصیات ہوں گی تب ہی تو ا نہیں یہاں اس مسجد کے پاس جگہ دی گئی۔ بے ترتیبی سے بنی یہ قبریں عجیب منظر پیش کر رہی تھیں ، ایک دو پہ نام بھی نصب تھے لیکن کیا کہیے کہ سنگِ مرمر کے نام کنندہ کتبے اس طرح سے ٹوٹے ہوئے تھے کہ ایک کے نام کا حصہ’’ فقیر‘‘ باقی بچا تھا جبکہ دوسری قبر پہ رکھی تختی کا نام سرے سے غائب تھا ۔البتہ ولدیت’’ شاہ بخش کھوسو‘‘لکھی نظر آ رہی تھی ۔ ان ہی دو قبروں پہ گہری سبز ریشمی چادریں بھی تھیں جنہیں اڑ جانے سے بچانے کے لیے پتھروں سے دبا یا گیا تھا اور ان ہی دو قبروں کے درمیان لکڑی کا ایک بوسیدہ سا جھولا تھا ۔ کچھ قبریں بالکل ہی راہداری کے درمیان میں بنی تھیں ، ان سے بچتے بچاتے ہم مسجد میں داخل ہوئے ، پرسکون سے احساس نے دل کو ٹھہرا دیا۔
خوش قسمتی سےظہر کے وقت ہم اس مسجد میں پہنچ گئے تھے سو نماز ادا کرنے میں آسانی رہی ۔ نماز یہاں بس اسی وقت ہوتی ہے جب کوئی سیاح آ جائے ، وہاں موجود ایک تھری نے بتایا جو مسجد کی دیکھ بھال کرتا نظر آ رہا تھا ۔ اس سے بھی حکومت کے تعاون کے بارے میں سوال کیا اور اس کا جواب بھی مختلف نہ تھا، اتنے قدیم تاریخی مقامات تو ریاست کا اثاثہ ہوتے ہیں ،لیکن ٹھنڈی آہ بھرنے کے سوااور کیا کیا جا سکتا ہے ، سو ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے ہم مسجدِ بودھیسر سے باہر نکل آئے۔
باجی خرچی ، صاحب خرچی ……
خرچی کی پکار کے ساتھ پھیلتے کئی ننھے منے ہاتھ ایک دم سے ہمارے سامنے آ گئے ۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کاسہ کلچر جنم لینے لگا ہے ، کاسہ سب ہی کے ہاتھ میں ہے،کوئی مختلف ٹی وی شوز پہ فلاں بھائی بائیک ، فلاں بھائی ٹی وی یہاں تک کہ عمرہ کا ٹکٹ بھی باآواز بلند مانگتے ہیں ، کچھ مختلف بازاروں اور تفریحی مقامات پہ آپ کے پیچھے بھاگتے ہیں ان بے چاروں کا کاسہ تو بس ترس کھا کے بھر دیا جاتا ہے ، جب کہ حکمرانوں کا کاسہ !قوم کی غیرت و حمیت اور جانے کتنے وسائل گروی رکھے جاتے ہیں کیا کیا شرائط لگائی جاتی ہیں ، اور ہماری ہر نئی نسل کے پچھلی نسل سے بڑھ کر مقروض ہونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے کوئی تحقیق تو کرے کہ یہ کاسہ کلچر اوپر سے نیچے سفر کر کے آیا ہے یا نیچے سے اوپر منتقل ہؤا ہے!
ہماری اگلی منزل تھی ساردھرو دھام!
پہاڑی کی اونچائیوں کے درمیان بنے جھاڑیوں سے گھرے ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزرتے ہوئے ہم نے ان گنت مور دیکھے ، ویسے سچ یہ ہے کہ دو دن کے قیام میں ہم نے تھر میں اتنے مور دیکھے جتنے
اپنے شہر میں بلّیاں اور کتے دیکھتے ہیں ۔ ساردھرو دھام مندر کو باہر سے ہی دیکھا اور ذرا آگے ڈھلان میں اترے ، جہاں ہمارے ڈرائیور کے بقول ساردھرو دھام کی جھیل واقع تھی ، یہ خوبصورت ہری بھری چھوٹی سی وادی دراصل پہاڑی سلسلے کارونجھر کے دامن میں واقع ہے ، ہماری نظریں سب سے پہلے پر شکوہ پہاڑ سے اور پھر ارد گرد پھیلے سبزے اور ان میں پھرتے موروں پہ جا ٹکیں ۔ ڈرائیور کی بتائی گئی جھیل کا خیال آیا تو اسے ارد گرد ڈھونڈا لیکن جھیل ہوتی تو نظر آتی ، یہ تو ایک عدد تالاب تھا جس کی تہہ میں کائی زدہ پانی جمع تھا۔کوئی مایوسی سی مایوسی ہوئی ، ، بچپن میں ہمیں جو بھی اپنا کام ڈھنگ سے کرتا نہ نظر آتا ہم ٹھان لیتے کہ بڑے ہو کر یہی بنیں گے اور یہ کام ٹھیک طرح انجام دیں گے ، تو ہم تصور میں ڈرائیور ، کنڈکٹر ، دکان دار حتیٰ کہ وزن کی مشین لیے بیٹھنے والا بابا بھی بن جایا کرتے ، بچپن کی خواہش مچلتی ہوئی سامنے آئی اور دل چاہا کہ ہم خود ہی گائیڈ بن جائیں ۔
بہر حال اس کائی زدہ گدلے پانی کا تو نہیں پتہ کہ صدیوں پرانا تھا یا نہیں ، البتہ اس سے منسوب صدیوں پرانا واقعہ بہت دلچسپ ہے۔ ساردھرو کا تعلق ہندو مذہب کی ایک اونچی ذات سے تھا، جس سے کوئی بڑا گناہ سرزد ہوگیا اور اسے اس بات کا شدت سے احساس ستانے لگا کہ اس گناہ کی وجہ سے اب اس کا جسم پاک نہیں رہا ۔ اس احساس سے نجات پانے کے لیے اس نے ہندو دھرم کا علم رکھنے والے کچھ خاص افراد کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے اپنی پریشانی رکھی ۔ اپنے علم کے ذریعے تمام شرکائے مشورہ نے یہ کہا کہ اڑسٹھ دریاؤں کا پانی ایک جگہ اکٹھا کر کے اشنان کرو تو تمہارے جسم کی ناپاکی ، پاکی میں بدل جائے گی ۔ اسی غرض سے مذکورہ مقام پہ ساردھرو نے اڑسٹھ دریاؤں کا پانی جمع کر کے اشنان کیا اور اس طرح گویا خود کو پاک کیا۔ ہمارے لیے بڑی آسانی ہے کہ استغفار کرو ، روؤ ، گڑگڑاؤ اور پاک ہو جاؤ ۔بہرحال یہ ساری معلومات صرف سندھی زبان میں بورڈ پہ درج تھیں ، جن کا ترجمہ و خلاصہ ہماری نئی تھری دوست نے بعد میں کیا۔ اس وقت توابھی ہم کائی زدہ پانی میں حیرانی و پریشانی سے دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک بچہ چھلاوے کی طرح اچھلتا کودتا ہمارے قریب آ کے گویا ہو&ٔا، اس پہاڑ پہ چڑھ کے واپس آ سکتا ہوں صرف چار منٹ میں ، ہم نے ہونقوں کی طرح اسے دیکھا، باجی سچ کہہ رہا ہوں ، یو ٹیوب پہ وڈیو بھی ہے میری ، ہم نے صاحب کی جانب دیکھا جو جگہ جگہ خرچی بانٹ بانٹ کر اب کنگال ہونے کو تھے ، انہوں نے ہماری آنکھوں میں تحریر درخواست کو اچھی طرح پڑھنے سمجھنے کے بعد شان بے اعتنائی سے رد کرتے ہوئے واپسی کے راستے کی جانب قدم بڑھا دیے ۔ ہم نے جان بوجھ کے رفتار ذرا ہلکی رکھی ۔
بات سنو ! ہم نے قدرے جھک کے ننھے کوہ پیما کی جانب دیکھا ۔
میں تمہاری وڈیو ضرور دیکھوں گی ، لیکن ایک کام کرو، تم نا یہاں کی ساری جگہوں کے بارے میں خوب معلومات حاصل کر کے گائیڈ بن جاؤ ۔ وہ عجیب لاپروائی سے ہماری طرف دیکھتا رہا اور ہم برا مانے بغیر اپنی کہتے رہے ۔
تو صاحبو! مستقبل میں آپ تھر جائیں اور آپ کو وہاں ایک عدد پکا گائیڈملے تو سمجھ جائیے گا کہ اس کارِ خیر میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے ۔
اب ہمارا رخ پہاڑوں کی جانب تھا ، ہم کراچی کے باسی ہیں ، اب تک بس کٹی پہاڑی ہی دیکھ رکھی تھی ، یا ادب اور تمیز سے کہہ لیں ’’شمالی ناظم آباد کا پہاڑی سلسلہ‘‘ ، اس کٹی پہاڑی کے بھی بیچ سے گزرتے ہوئے ہماری جان جاتی تھی، پہاڑ ہمیں ہمیشہ ہی وحشت کی علامت لگتے تھے ، صحرا کے احسانوں میں ایک احسان کا ہم پہ اضافہ ہونے والا تھا، ہمیں پہاڑوں سے محبت ہونے والی تھی ۔
یہ تھا کارونجھر کا پہاڑی سلسہ ، اس پہ بڑھتا ایک ایک قدم جوش اور ولولے میں اضافہ کرتا جا رہا تھا ۔ یہ تجربہ بالکل سمندر کے تجربے کے جیسا تھا ، جس طرح پانی میں رکھا جانے والا پہلا قدم آپ کو مزید قدم اٹھانے پہ مجبور کیے چلا جاتا ہے اس کی گہرائیاں آپ کو کھینچتی چلی جاتی ہیں ،بالکل اسی طرح پہاڑ پہ پہلا قدم رکھتے ہی اس کی اونچائیاں ہاتھ تھام
کر آپ کو خود سے قریب کیے چلی جاتی ہیں۔ یہ تھر کے پورے سفر میں اب تک کا بہترین تجربہ تھا۔ سب سے اچھی بات یہ رہی کہ ہم جن ایام میں گئے تھے وہ سکون کے دن تھے ، سیاحوں کا رش نہ ہونے کے برابر تھا، کیونکہ بعد میں ہم نے یوٹیوب پہ وڈیوز میں دیکھا کہ وہاں اچھا خاصا رش ہؤا کرتا ہے ۔ لیکن فی الوقت صر ف ہم تھے اور کارونجھر کے پیچ و خم تھے ، لیکن ہاں ! خرچی خرچی کی صدا لگاتے ڈھیر سارے بچے ہمارے آگے پیچھے ٹہل رہے تھے ۔
اپنے تئیں بلندیوں کو چھو کر جب ہم نے نیٹ کے ذریعے پتہ لگایا تو معلوم ہؤا کہ کارونجھر پاکستان کا سب سے کم بلند پہاڑی سلسہ ہے ، کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ سمندر کی سطح سے صرف تین سو پانچ میٹر اونچا ہے(موازنہ کے لیے مری اور زیارت کی اونچائی دو سے ڈھائی ہزار میٹر ہے۔مدیرہ) جبکہ اس کی کل لمبائی انیس کلو میٹر ہے ، ماہرینِ ارضیات کے اندازے کے مطابق یہ پہاڑ ڈھائی ملین برس سے زمین کے سینے پہ مونگ دل رہا ہے ، آج ہم اس کی چھوٹی چھوٹی چٹانوں کو مسخر کر کے اترائے پھرتے ہوئے اس کے سینے پہ مونگ دل رہے تھے ۔ ہماری پیاری دوست ماہرِ ارضیات مریم خالد نے بتایا کہ یہ ڈائنا سار کے وقت کے پہاڑ ہیں ، یہاں کے پتھروں میں عجیب ہی خوبصورتی ہے ، اگر آپ پتھروں میں کشش دیکھنا چاہتے ہیں تو کارونجھر ضرور جائیے ، بڑی بڑی چٹانوں سے جڑ کر بنا یہ پہاڑ بہت منفرد بہت پیارا ہے ، سندھی شاعر شیخ ایاز نے جب اس پہاڑ کو دیکھا تو کہا(ترجمہ):
یا رب! کارونجھر کے پہاڑ پر جب مور ناچتا ہے تو ساون کا بادل اسے جواب دیتا ہے
کیا معرفت کی منزل اس سے اوپر بھی ہو سکتی ہے؟
دانیال اور بلال بہت آگے نکل چکے تھے ، ان کے بابا اسمٰعیل کے ساتھ ان کے پیچھے پیچھے تھے ، جبکہ میں اور فاطمہ ہر چھوٹی بڑی چٹان پہ چڑھ کے خوش ہو نے کے چکر میں کافی پیچھے رہ گئے تھے ، بعد میں آگے جا کے اندازہ ہؤا اصل لطف تو آگے تھا جب کہ ہم کیونکہ پہلی بار آئے تھے تو ننھی منی چٹانوں پہ چڑھ کے ہی خود کو سورما جان رہے تھے ۔ کافی دور تک تو ہر چٹان ایک دوسرے سے منسلک ہےآگے جہاں دو چٹانوں کے درمیان کافی فاصلہ ہے انھیں ایک لوہے کے مضبوط پل کے ذریعے جوڑا گیا ہے۔ بارش ہوتی ہو گی تو اس گہرائی میں پانی بھر جاتا ہو گا ، جانے کیسا لگتا ہو گا ، تصور کرنے سے تھوڑا خوف محسوس ہؤا۔ بچے یہاں سے جلد واپس جانے کو تیار نہیں تھے ،ہم نے زندگی کے بہترین لمحات میں سے کچھ ان پتھروں پہ دوڑتے بھاگتے گرتے اٹھتے ،چوٹیں کھاتے قہقہے لگاتے اور ایک دوسرے کا سہارا بنتے گزارے ، گویا پہاڑوں پہ گزرا یہ وقت زندگی کا خلاصہ تھا۔ بادِلِ ناخواستہ واپسی کے راستے کا رخ کیا ، اوپر سے نیچے کا سفر تو ویسے بھی اداس کر دینے والا ہوتا ہے ۔
اگلی منزل پھر سے ایک مندر تھا ،کاسبو میں واقع رام دیو مندر۔اس کے حالات باقی مندروں سے بہتر لگ رہے تھے ، انتہائی وسیع رقبہ اس مندر کے لیے مختص ہے ۔ ارد گرد چند پودے اور کہیں کہیں گھاس اگی ہوئی، اور احاطے میں کئی مور ادھر ادھر پھرتے ہوئے نظر آئے، اپنی پیاری دوست منیبہ کی فرمائش پوری کرنے کے لیے ہم نے ان کی وڈیو بنانے کی کوشش کی تو سب کے سب شرما کر ادھر ادھر نکل لیے ۔
کافی چلنے کے بعد مندر تک پہنچے جس کے باہر پجاری ایک دو لوگوں کے ساتھ بیٹھا تھا ، مندر کے برآمدے میں گہری سبز ٹائلیں نصب تھیں جو بس چند ہی سال پرانی معلوم ہوتی تھیں۔ اندر نصب تختی دیکھنےپہ پتہ چلا کہ اس تاریخی مندر کو انیس سو پچاسی میں دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے جبکہ دو ہزار گیارہ میں تھوڑا بہت کام مزید کیا گیا ۔ پجاری نے ہمیں بتایا کہ یہ مندر تقریباً ساڑھے چار سو سال پرانا ہے ، ہماری خصوصی فرمائش پہ اس نے ہمیں کچھ بہت پرانی مورتیاں بھی دکھائیں جو اپنی حالت سے واقعی کافی پرانی معلوم ہو رہی تھیں لیکن ان کے بارے میں درست معلومات اسے بھی نہیں تھیں ۔ اس مندر میں چھوٹی بڑی دسیوں مورتیاں تھیں ، ایک چھوٹا
سا مندر علیحدہ بھی بنا ہوا تھا جس میں ہنومان کی مورتی تھی ۔ یہاں کے پجاری کو بھی یہی شکایت تھی کہ حکومت یہاں کی کوئی خبر نہیں لیتی ۔ مندر کی سیڑھیوں کے ساتھ ہی ایک ایسا درخت تھا جو ہم نے اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھا ، اس میں چھوٹے چھوٹے سبز ٹماٹروں کی شکل کے پھل لٹک رہے تھے ۔ اسی درخت کے نیچے ایک بچہ زمین پہ چادر بچھائے بیٹھا تقریباً بارہ اقسام کی جڑی بوٹیاں فروخت کر رہا تھا۔ساتھ ہی مور کے پر بھی رکھے تھے ، پجاری نے بتایا کہ شام کے پانچ بجے وہ پورا احاطہ موروں سے بھر جاتا ہے ، جہاں تک مجھے یاد ہے اس نے بتایا کہ ساڑھے پانچ سو کے قریب مور اور تین سو کے قریب طوطے روز شام کو ادھر آتے ہیں جہاں مندر کی انتظامیہ کی جانب سے دانہ ڈالا جاتا ہے ۔ وقت کی کمی کے باعث ہم نے بس تصور ہی میں اس پورے صحن کو موروں سے پُر دیکھا اور واپسی کی جانب قدم بڑھا دیے ۔
گیسٹ ہاؤس تک واپسی کا سفر کافی طویل اور تھکا دینے والا تھا۔ صاحب نے گیسٹ ہاؤس کے باورچی مٹھن کو فون کر کے بریانی تیار رکھنے کو کہا تو بھوک سے نڈھال بچے خوش ہوگئے ۔نیند کے مارے ایک دوسرے کے اوپر لڑھکتے راستہ بالآخر طے ہوا اور گاڑی گیسٹ ہاؤس کے دروازے پہ جا کے رکی۔ سب کے تر و تازہ ہونے تک گرما گرم بھاپ اڑاتی بریانی آ چکی تھی ۔ گوکہ صاحب کھانے سے قبل اس مخصوص ٹھیلے کا سوپ پلانے پہ مصر تھے جہاں اکثر اسی گیسٹ ہاؤس سے چہل قدمی کرتے ہوئے جایا کرتے ہیں ، لیکن ابھی کسی کی ہمت نہیں تھی ، کھانے اور نماز سے فارغ ہونے کے کچھ دیر بعد ہی گہری نیند اور ڈھیر سارے شکر کے علاوہ اور کچھ کرنا کب بنتا تھا!
اگلی صبح ہنگامہ خیز تھی ، ہؤا یوں کہ نماز پڑھ کے جو آنکھ لگی تو اس وقت کھلی جب گاڑی دروازے پہ آ کھڑی ہو چکی تھی ۔ ناشتے اور تیاری سے جلدی جلدی فارغ ہو کے جب باہر نکلے تو دیکھا کہ تو سامنے جیپ کھڑی تھی ۔ یہ ایک ہائی لکس تھی نہ زیادہ نئی نہ بہت پرانی۔ اوئے ہوئے فور وہیلر….. بچوں نے گاڑی پہ تبصرہ شروع کیا تو ہمیں پہلی بار فور وہیلر کے معنی سمجھ آئے ورنہ ہم تو ہر گاڑی کو فور وہیلر ہی سمجھتے تھے ۔
موسم اچھا خاصا خنک تھا ، ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے تین نشستیں اور اس کے پیچھے کھلا حصہ ، صاحب ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ گئے ، ہم اسمٰعیل اور فاطمہ پچھلی نشستوں پہ ، اور دانیال اور بلال نے گاڑی کے پچھلے ،کھلے حصے میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔گاڑی نے ادھر رفتار پکڑی اور ادھر دونوں بھائیوں کے تاثرات موسم کی سختی کے نمائندہ ہوتے گئے ۔ہم گردن موڑ کے شیشے کے پار دیکھتے تو بےچاروں کی صورت پہ ترس آتا ۔ بالآخر گاڑی روکی گئی اور انہیں بھی آگے بلالیا گیا، بہن بھائی ایک دوسرے پہ جملے کستے رہے اور سفر کٹتا رہا۔
اب سڑک ختم ہو چکی تھی اور کچے میں اترنا تھا ، یہی لمحہ تھا جب راقم پہ فور وہیلر کی خصوصیت منکشف ہوئی ، نہ جاتے ہم صحرا کی جانب تو جانے زندگی اور کتنی گزر جانے کے بعدا س راز سے آگاہ ہوتے ۔ یہ سفر تھا نخلستان کی جانب ، وہ نخلستان جو الخدمت کے معاونین کی مدد سے صحرا میں بنایا گیا تھا۔ یوں تو ہم نے اس صحرا میں سراب بھی دیکھا ، لیکن یہ سراب کئی ایک این جی اوز کی جانب سے کھودے گئے کنووں پہ جھولتی تختیوں پہ مشتمل تھا ۔کنویں خشک تھے ، مخیر حضرات سے فنڈز لینے والی این جی اوز کو اب اس سے کوئی غرض نہ تھی ، بہر حال ہم فی الوقت الخدمت کے لگائے گئے کھیتوں میں موجود تھے ، پانی کا کنواں کھود کے اس کے پانی کی ترسیل کو اس طرح ممکن بنا دیا گیا کہ ارد گرد موجود سات آٹھ چھوٹی چھوٹی کھیتیوں تک پہنچ پائے۔ یہاں اسی احاطے میں بڑے بڑے سولر پینل بھی نصب تھے ، چھوٹے چھوٹے قطعات پہ سبزہ ہی سبزہ پھیلا ہوا تھا ، ہم نے گاجر اور مولی خود کھینچ کے نکالی ، اور بھی کافی سبزیاں تھیں البتہ ہم نے ان ہی دو پہ اکتفا کیا ۔ صاحب کوئی بریفنگ ریکارڈ کروانے میں مشغول ہوگئے اور ہم خدا ئے رحمان کا شکر کرنے میں ، جس نے الخدمت کو ذریعہ بنا کر صحرا میں سبزہ اگا دیا تھا۔ انسان کی زندگی میں کیسی بھی مشکلات ہوں اور بظاہر
وسائل ناپید ہی کیوں نہ ہوں ، اللہ ایسے طریقوں سے راستے بناتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور دنیا حیران۔
یہاں سے نکل کر تھوڑی ہی دور پیدل چلے اور ایک چھوٹے سے احاطے میں پہنچے ، بہت سے بچے دوڑتے ہوئے آئے ، یہ سب اسمٰعیل کے ارطرل والے روپ کو دیکھ دیکھ کے خوب حیران بھی ہوئے اور خوب ہنسے بھی۔ یہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ آٹھ دس چونرا بنے ہوئے تھے ایک جانب الخدمت کا ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا ، صاحب اور لڑکے وہیں ہینڈ پمپ پہ رکے اور ہم فاطمہ کے ساتھ خواتین کی جانب بڑھے جو اب ایک ہجوم کی صورت میں اکٹھی ہو رہی تھیں۔ اس موقع پہ بات چیت کے لیے زمانہِ طالب علمی میں پڑھی گئی سندھی کام آئی ، ہم نے انہیں اشاروں اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنا تعارف دیا اور ان کا تعارف لیا، سب ایک دوسرے کی رشتہ دار تھیں ، ایک دو دور سے بھی آئی ہوئی تھیں ۔ ہم نے ان کے چونرا میں بھی جھانک کر دیکھا ، جو کہ ایک باورچی خانے کے طور پہ استعمال ہو رہا تھا ، گول سے اس مٹی کے کمرے میں ایک مٹی کا چولھا تھا جس میں ٹھنڈی راکھ پڑی تھی، ایک سرخ ٹین کا صندوق اور ساتھ ہی ایک بڑی سی لوہے کی جالیوں والی ٹوکری جس میں بہت سے برتن تھے ، اوپر جھاڑیوں سے بنائی گئی گنبد نما چھت سے دھوپ چھن چھن کے سلیقے سے لیپے گئے فرش پہ پھسل پھسل جا رہی تھی ،کھانا پکانے کا زیادہ سامان تو اس چونرا کے باہر صحن میں دھرا تھا جہاں ایک اور چولھا بھی بنایا گیا تھا ۔ چھوٹی سی یہ ملاقات بہت پرجوش رہی ۔
کچھ دیر میں وہاں سے بھی واپسی کا قصد کیا گیا۔ اب کچھ دھوپ نکل آئی تھی ، صاحب نے ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ سنبھالی اور ہم بچوں کے ساتھ جیپ کے کھلے حصے میں بیٹھے ۔ جیپ کا یہ سفر ہمیں زندگی بھر یاد رہے گا ، جیپ اور ہوا کی رفتار میں مانو مقابلہ تھا میں اور فاطمہ اپنے نقاب کو سنبھالنے کی تگ و دو میں تھے ، بالآخر اسکارف اور نقاب کو کئی جتن سے قابو کرنے کے بعد دونوں بازو پھیلا کر آنکھیں بند کیں اور خوب لطف اندوز ہوئے ۔صاحب پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے رہے اور بالآخر گاڑی رکوا کے خود بھی ہمارے ساتھ آ بیٹھے ، باتیں کرتے ، قہقہے لگاتے ایک دوسرے کو سہارا دیتے یہ سفر ہم میں سے کوئی بھی شاید کبھی نہ بھولے ، بہرحال اس سفر کا بھی اختتام ہؤا اور ہم گیسٹ ہائوس واپس پہنچے ۔
سامان باندھ ہی رہے تھے کہ صاحب کے دوستوں کی جانب سے ہم سب کو خوبصورت چادروں کے تحائف موصول ہوئے اور ہم جاتے جاتے تھر کی محبت کے مزید مقروض ہو گئے ۔ واپسی کا سفر ہمیشہ ہی اداس کرتا ہے ، ہم بھی کچھ خوش اور کچھ اداس تھر سے کراچی تک سفر کرتے بالآخر اپنے گھر پہنچے اور دل کا ایک گوشہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صحرا کی محبت کے نام کیا۔
(ختم شد)
٭ ٭ ٭