خواتین کی جسمانی و ذہنی صحت اور مضبو ط سماجی حیثیت معاشرے کی بہتری کے لیے کیوں ضروری ہے ، حقائق کی روشنی میں ایک جائزہ
باشعور خواتین اور با شعور مردوں سے ہی ایک صحت مند ،مستحکم خاندان وجود میں آتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرہ مضبوط اور صحت مند ہوتا ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں کئی حوالوں سے خواتین میں شعور اور آگاہی کی کمی رہ جاتی ہے جس کے اثرات خاندان اورمعاشرے پر پڑتے ہیں۔ اگر خواتین کو احساس ہو جائے کہ خالقِ کائنات نے انہیں کن خصوصی صلاحیتوں اور قوتوں سے نوازا ہے اور وہ ان کا مثبت استعمال کر سکیں تو معاشرے میں بہترین انقلاب رونما ہو سکتا ہے ۔ ان کی گود میں ہی وہ لیڈر پرورش پاتے ہیں جن کی ذہن اورکردار سازی میں وہ بنیادی کردار ادا کرتی ہیں ان ہی کی محنتوں اوردعائوں سے دنیا کو عظیم ترین عالم ، محقق، محدث، فیقہہ،منتظم،مجاہد اور رہنما نصیب ہوتے ہیں ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو بحیثیت مجموعی معاشرہ عورت کی اس خصوصی حیثیت کی قدر کر رہا ہے اور نہ خود عورت کو اس کی اہمیت کا احساس ہے ۔
اس ضمن میں خواتین کا اپنا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ خود اور اپنے ارد گرد خواتین کو وہ اعلیٰ مقام دلانے اور اہم کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں ہوں جوخالقِ کائنات ، ان کے بھیجے ہوئے رسولؐ اور شریعت نے متعین کیا ہے اور اپنے زیرِ اثر مردوں کی تربیت بھی اس نہج پر کریں۔
2017 کے سروے کے مطابق پاکستان میں زچگی سے متعلق مراحل میں وفات پانے والی خواتین کی تعداد ایک لاکھ میں 140 ہے جبکہ زچگی ایک نارمل قدرتی عمل ہے ۔ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 5,3,2یا زیادہ سے زیادہ10ہے ۔ یہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ صحت سے مراد صرف جسمانی بیماریوں کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ یہ ایک توازن کی حالت ہے جس میں جسمانی ، ذہنی، سماجی اور روحانی صحت سب شامل ہیں ۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور جسم ، ذہن ، روح کا مرکب ہے ۔ فرد کی صحت سماجی رویوں سے بھی متاثر ہوتی ہے ۔ اس لیے یہ تمام چیزیں جتنا توازن کی حالت میں ہوں گی فرد اتنا ہی صحت مند ہوگا اور معاشرہ بھی ۔ جسم ، ذہن ، روح اور سماج آپس میں مربوط ہیں اور ایک حصہ کی صحت دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے ۔یقینا صحت کا یہ توازن تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب خالق کی ہدایت کے مطابق زندگی گزاری جائے ۔بحیثیت انسان مرد اور عورت برابر ہیں ۔ اللہ کی رضا کا معیار اور آخرت کی کامیابی کا حصول تقویٰ سے ہے جو ایمان اور اعمال صالحہ دونوں کا احاطہ کرتا ہے ۔ روحانی بیماریاں مثلاً حسد ، بغض، تکبر ، بدگمانی وغیرہ دونوں اصناف کو متاثر کرتی ہیں اور معاشرے کو بھی ۔ البتہ خواتین کی مخصوص جسمانی ساخت، جذبات ، احساسات، سماجی حیثیت کے لحاظ سے صحت کے کچھ علیحدہ مسائل اور ضروریات ہیں جن کا جاننا اور سمجھنا ضروری ہے ۔
پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک ، زندگی کے مختلف مراحل میں خواتین کی غذائی ضروریات، جذباتی کیفیات میں بھی تغیر آتا ہے جس کا احساس خود گھر کی دوسری خواتین ہی کر سکتی ہیں۔
بلوغت کے دور میں ، پھر حمل ، رضاعت کے دوران خواتین کی صحت پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ اس دوران جن خصوصی غذائی اجزا کی ضرورت ہے ، ان کا علم ہونا چاہیے مثلاً اس دوران 300-500 اضافی حراروں کی ، پھل سبزی، دودھ، گوشت انڈوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔
جسمانی صحت
خواتین میں جسمانی صحت کے مسائل کی زیادتی کی کئی وجوہات ہیں مثلاً:
۔خود خواتین کی اپنی صحت سے لا پروائی:حالانکہ صحت
کے ساتھ ہی دوسری ذمہ داریاں ادا کی جا سکتی ہیں ۔ اس طرح سالوں بیماری بڑھتی رہتی ہے حالانکہ شروع سے توجہ سے جلد بہتری ہو سکتی ہے ۔
۔دیگر اہلِ خانہ کی عدم توجہی: اس طرح جب بیماری آخری اسٹیج پر ہو یا پیچیدہ ہو جائے ، بیماری کے مضر اثرات جسم میں پھیل جائیں ، گردے یا جگر کام نہ کریں توعلاج ممکن نہیں رہتاجسم کے عضو بہت حد تک بیماری کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر یہ صلاحیت لا محدود نہیں ہوتی اگر ابتدائی علامات سے علاج شروع ہو جائے تو کئی انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے یا معذوری سے بچا جا سکتا ہے اللہ کے اذن سے۔
۔ہسپتال جانے سے جھجھکنا کہ انتظار کرنا پڑے گا یا پیسے خرچ ہوں گے ۔
۔اکیلے جاتے ہوئے گھبرانا۔
۔چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر جانے کا مسئلہ۔
۔ملازمت پیشہ ہونے کی صورت میں وقت نکالنا۔
۔بعض حالات میں گھروں میں کام کرنے والی خواتین اس لیے سرکاری ہسپتال نہیں جا سکتیں کہ خاتون خانہ چھٹی نہیں دیتیں حالانکہ اپنے ملازموں کی صحت کی حفاظت، اخلاقی ذمہ داری ہے ۔
جہاں خاندان کی ، محلے کی ، ساتھیوں کی مدد شامل ہو ووہاں آسانی سے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا کہ بوڑھی مائیں مختلف عارضوں میں مبتلا ہیں ، بیٹے بہو کے پاس فرصت نہیں ، چنانچہ آس پڑوس کی کچھ نیک خواتین اپنے خرچ پر یہ خدمت انجام دے رہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ایسی اولاد کو ہدایت دیں جو نیکی کمانے کا قریبی ذریعہ ضائع کر رہے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق جو کچی آبادی کی خواتین میں کیا گیا 9.5فیصد خواتین کا وزن نارمل سے کم پایا گیا جبکہ غیر متناسب خوراک کی وجہ سے 65فیصد خواتین کا وزن نارمل سے زیادہ تھا ۔ ان خواتین میں شوگر، بلڈ پریشر،گردے ، جگر اور دل کی بیماریوں کی بھی کثرت پائی گئی۔
خواتین کی اکثر بیماریوںکا تعلق غذا سے ہے اور غذا کے مسائل تین قسم کے ہیں :
1۔ مناسب غذا کی عدم فراہمی (Under Nutrition)
2۔بعض غذائی اجزاء کی زیادتی (Over Nutrition)
3۔غیر متوازن غذا (Un-Balanced Diet)
پاکستان میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح بہت زیادہ ہے ۔ بیشتر خواتین غذائی قلت، خصوصاً پروٹین کی کمی اور آئرن کے فقدان کا شکار ہیں ۔ حمل اور رضاعت کے دوران اضافی غذائوںکی ضرورت ہوتی ہے جن کے نہ ملنے سے یہ کمی اور بڑھ جاتی ہے۔ تھکاوٹ ، کمزوری اورپھر کمزور بچوں کی پیدائش پیچیدہ وضع حمل ، چڑ چڑا پن بھی پیدا کر سکتا ہے ۔
ایک اسلامی ملک میں غریب اور امیر کی اس قدر تفریق باعثِ شرم ہے ایک طرف غذا ضائع ہوتی ہے ، غیر ضروری اخراجات ہیں اور دوسری طرف مناسب غذا اور تعلیم بھی میسر نہیں ۔ ملک غریب نہیں، ہمارے دل غریب ہو چکے ہیں کہ ہمیں لوگوں کی بے بسی نظر نہیںآتی یا تھوڑا سا دے کر بہت سمجھ لیتے ہیں ۔ یہ دولت کی غیر مساوی تقسیم معاشرے میں ہی نہیں ، خاندانوں میںبھی نظر آتی ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک گھر کے اندر بھی یہ تفاوت نظر آتا ہے۔ اگر ہمیں یقین ہو کہ حدیث کے مطابق حاملہ عورت سرحدوں پر پہرہ دینے والے مجاہد کی طرح اور دودھ پلانے والی خاتون ، کسی کو زندگی بخشنے والے فرد کی طرح ہے ، تو ہم ان کی قدر کریں اور ان کے لیے اضافی خوراک کی فراہمی کو اجرکا باعث سمجھیںاور پھر یہ تقسیم بھی تو خواتین کے ہاتھ میں ہے۔حمل کی کیفیات بھی ، فرد کی صحت ، حالات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہیں ، جس کا احساس کرکے انہیں مناسب غذا اور آرام دینا ہمارا فرض ہے۔
لوگوں کے روّیوں کو اپنے معنی پہنا کر ہم بد گمان ہو جاتے ہیں جبکہ وہ فرد خود ہماری توجہ اور مدد کا مستحق ہوتا ہے
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ گھر کے بجٹ کے لیے خواتین کی ترجیحات کیا ہیں ۔ کیا صحت ان کی ترجیح ہوتی ہے ؟ خواتین خود بھی غیر ضروری اخراجات سے اجتناب کریںاور گھر کی آمدنی کو اپنی اور گھر والوں کی غذائی ضروریات اور تعلیم پر خرچ کریں۔
خوراک میں چکنائی اوربازاری مصالحوں کی زیادتی بھی ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے ، کھانا پکانے کے تیل اور مصنوعی گھی تیز آنچ پر پکانے کے لیے موزوںنہیں ہیں اورمضر صحت ہیں جبکہ ہمارے مقامی کھانے بھُنائی کے بعد ذائقہ دار تو ہو جاتے ہیں مگر غذائیت سے محروم ہوتے ہیں ۔ پکانے کا برتن بھی مٹی کا یا ایسے ہی کسی غیر عامل (Inert)مادے کا ہونا چاہیے۔
ہمیں کم چکنائی میں کھانا بنانے کے نئے طریقے ڈھونڈنے ہوں گے جن میں غذائیت ہو اور وہ نقصان دہ نہ ہوں ۔خوراک میں پھل ، سبزی ، گندم کا آٹا ، جو کا دلیہ اور ایسی قدرتی غذائیں استعمال کی جائیں اور بازاری کھانوں سے پرہیز کی کوشش ہو۔ موٹاپا، شوگر، بلڈ پریشر، معدے کی تیزابیت ، دل کی اور کینسر جیسی موذی بیماریاں بہت حد تک اسی عدم پرہیز کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
خواتین میں ہڈیوں ، جوڑوںاور پٹھوں کی بیماریاں بہت عام ہیں ۔ کیلشیم، وٹا من ڈی کی کمی بھی اکثر میں پائی جاتی ہے۔
بہت سے لوگ دودھ پینے کے متحمل نہیں ہوتے اور بہت سے پینا پسند نہیں کرتے۔ ایک سروے کے مطابق کم آمدنی کے طبقے میں 18فیصد خواتین بالکل دودھ نہیں پیتیں ۔بڑھتی عمر میں خصوصاً مناسب غذا ، دودھ، انڈے، پھل ، سبزیاں گوشت غذائی ضرورت کے مطابق ہونا چاہیے ۔ وزن اور BMIعمر اور قد کے مطابق ہو۔ مناسب خوراک کے ساتھ جسم کا ہر جوڑ مناسب ورزش کا حق رکھتا ہے ۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر یہ بھی ہے کہ ان کی حفاظت کی جائے تاکہ اللہ کی پسند کے راستے میں ان سے کام لیا جاسکے ۔
ہفتے میں کم از کم 2دفعہ ایسی ورزش جس میں سر سے لے کر پیر تک ہر جوڑ کی ورزش ہو، جس میں ہر جوڑ پر پٹھوں کو کھینچنا (Stretching)اور ڈھیلا کرنا(Relaxation)ایک قاعدے کے مطابق ہو۔اس سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں ۔پٹھوں کی کمزوری بالآخر ہڈیوںپر اثر ڈالتی ہے اور کمر درد ، گردن کے درد ، جوڑوں کے درد کا باعث بنتی ہیں۔
کھڑے ، بیٹھے ، چلتے ہوئے، پڑھتے ہوئے posture کو درست رکھنا بہت چاق و چوبند ہو کر رہنے سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں ورنہ جوڑ درد کرنے لگتے ہیں۔ان کے علاوہ ہفتے میں کم از کم 150منٹ کی سیر بے حد مفید ہے یہ ذہنی ، جسمانی ،روحانی اور سماجی ہر قسم کی صحت کی ضامن ہے۔ وزن زیادہ ہونے کی صورت میں یہ وقت دُگنا کرنا ہوگا ۔ یہ تمام گھر کے کاموں کے علاوہ ہے، جو ورزش تو نہیں مگر بے قاعدہ ورزش ہیں ۔بہر حال اپنے ہاتھ سے گھر کے کاموں کو کرنا بھی بے حد مفید اور ضروری ہے۔
ذہنی صحت:
یہ ایسا پہلو ہے جو عموماً نظر انداز ہو جاتا ہے ۔ایک فرد جو ہمارے درمیان چل پھر رہا ہے ، زندگی کے ضروری امور انجام دے رہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ صحت مند ہے اور اسے کسی اضافی توجہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن جب تک پر سکون ماحول میںبات چیت نہ ہو، جس میں ہم دوسرے کے خیالات اور سوچوں سے آگاہ ہو سکیں ، اس کے بغیر ہم کسی کی ذہنی کیفیت کو نہیں جان سکتے۔
ہمیں دوسرے کے احساسات و جذبات کو سمجھنے کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ میری کوئی بات یا عمل کسی کے لیے ذہنی اُلجھن کاباعث تو نہیں بن رہا ، کسی کا دل تو نہیںٹوٹ رہا ۔بعض دفعہ یہ نا سمجھی بہت بڑے مسائل کا باعث بن جاتی ہے ۔
بے جا تنقید سے پرہیز ، حوصلہ افزائی ، دلوں کو خوش کرنا ، محبت کے اظہار کے مسنون ذرائع ، تحفے کا تبادلہ یہ دلوں کو جوڑنے والی چیزیں ہیں۔
لوگوں کے روّیوں کو اپنے معنی پہنا کر ہم بد گمان ہو جاتے ہیں جبکہ وہ فرد خود ہماری توجہ اور مدد کا مستحق ہوتا ہے ۔ بعض اوقات معمولی
نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں اور بعض دفعہ کوئی حقیقی مسئلہ ہوتا ہے جس کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ اور تھوڑے سے علاج سے بہت سی زندگیاںسنور سکتی ہیں۔
بلوغت کے زمانے میں اور شادی سے پہلے بھی خصوصی (counselling) کی ضرورت ہوتی ہے معاشرے میںلوگوں کے روّیے اور تبصرے ذہنی الجھائو کا باعث بنتے ہیں۔
سماجی صحت
پاکستانی معاشرے میں خواتین کی سماجی حیثیت مختلف صورتحال سے دو چار ہے اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل میںدینی سمجھ بوجھ، علم و فہم ، تعلیم ( خاتون کی اور دیگر افراد خانہ کی )، معاشی حیثیت، ملازمت ، رسم و رواج ، علاقہ ،رہائش کی جگہ سبھی کا حصہ ہے ۔
ایک سروے کے مطابق 15-49سال میںوفات پانے والی خواتین میں 63.3فیصدغیر تعلیم یافتہ تھیں جبکہ 32.9فیصد کے شوہر غیر تعلیم یافتہ تھے۔
اس میں سب سے اہم پہلو دینی علم و فہم اور تقویٰ، آخرت میں جوابدہی کا احساس ہے۔ اگر مردوںکے سامنے رحمتہ اللعالمینؐ کا اسوہِ حسنہ ہو، عورت کی ہر حیثیت میں اس کے ساتھ حسن سلوک میں سنت ِ رسولؐ کی پیروی ہو، اور خواتین امہات المومنین کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریںتو گھر جنت کا نمونہ بن جائیں ۔ نہ مرد گھروں میں آکر اُلجھن اور تنائو کا شکار ہو ، نہ خواتین مردوں کی طرف سے جسمانی ، ذہنی تشدد کا نشانہ بنیں ، اگر ہر فرد ایک دوسرے سے بڑھ کر رب کی رضا کے راستے میں سبقت لے جانے کی کوشش کرے تو وہ مؤدت ، رحمت ، اُلفت کا رنگ گھروں میں نظر آئے کہ پھر جہاں معاشی اور دیگر مسائل بھی مسائل نہیں رہتے ۔بے شک یہ ہستیاں بہت بلند و بالا ہیں مگر ہمیں ان ہی کی تو پیروی کرنی ہے اور یہ باتیں آج کے دور میں قصہ کہانی نہیں حقیقت ہیں ۔ کتنے ہی گھرانے ہمارے سامنے ہیں جہاں ان اصولوں پر عمل کی کوشش ہو رہی ہے اور اللہ کی رحمت و برکت ان گھرانوں کو گھیرے ہوئے ہے الحمد للہ۔
ایک بہترین اصول ہمیں اس حدیث سے ملتا ہے جس میں آپ ؐ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہ کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ یہ سارے انسانی تعلقات کی بہتری کی چابی ہے ، جسے آج کے دور میں Empathyکا نام دیا گیا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمارے ساتھ حسن سلوک کریں تو دیکھیں کہ ہمارا دوسروں کے ساتھ سلوک کیسا ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں ہمیں معافی ملے تو ہم کھلے دل سے لوگوں کو معاف کریں ۔ بچوں اور جوانوں سے معاملہ کرتے ہوئے بزرگ اپنے دور کو یاد رکھیں ، بڑے اپنے تجربے اور سمجھ بوجھ کی بنا پردل بھی بڑا رکھیں ، بچوں کی غلطیوں کی اصلاح ضرور کریں ، محبت اور نرمی کے ساتھ ، بد گمان نہ ہو ں، معاف کردیں۔
اسی طرح جہاں بزرگوں کی خدمت کو سعادت سمجھا جائے وہاں پروان چڑھنے والی نسل بھی اس سعادت کے حصول کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے ۔ بچے اور جوان بزرگوں کے کام کر کے ، ان کے پاس بیٹھ کر سیکھتے ہیں اور دعائیں لیتے ہیں اور یہ ماحول سمجھدار خواتین ہی بناتی ہیں۔
پھر وہ حدیث جس میں صحابیؓ کو دل کی صفائی پر جنت کی بشارت دی گئی (ان صحابی کی وضاحت کے مطابق ) ۔ ایسے دل جو ہر رشتے اور تعلق کے لیے محبت سے بھرے ہوں، خیر خواہی کے جذبات ہی رکھتے ہوں ، وہ خود بھی پر سکون اور ان کا ماحول بھی پر سکون رہتا ہے اور یہ ایسے احساسات ہیں جو ضرور دوسرے کے دل کو بھی بالآخر متاثر کرتے ہیں ۔ ہمیں تو سکھایا گیا کہ برائی کو نیکی سے رفع کرو، اور جو تم سے کٹے اس سے جڑو، جومحروم کرے اسے دو۔
جہاں نیکیوں میں سبقت لے جانے کی فضا ہو وہاں تعلقات کی خرابی شیطان کے لیے مشکل ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی دوڑ نے تعلقات کو کمزور کر دیا ہے ، اپنی ضروریات جہاں حد سے بڑھائی
جائیں وہاں دوسرے کی ضرورت سے نظریں چرائی جاتی ہیں ۔ جبکہ جہاں صلہ رحمی مقصود ہو ، رب کی رضا کی خاطر وہاں اگر ایک پر مشکل آئے تو خاندان ، محلہ ، عزیز و اقربا ، سب آگے بڑھ کر تھام لیتے ہیں اور ایک مضبوط معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔
غیر ضروری اخراجات پر کنٹرول ، غیر ضروری رسوم سے اجتناب ، دکھاوا اور نمائش سے بچنا ، صحت اور تعلیم و تربیت کو ترجیح دینا ، صبر ، شکر اور قناعت یہ سب بھی تو خواتین کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کے ساتھ مثبت روّیوں کو ترویج دینا، بے جا تنقید سے پرہیز ، حوصلہ افزائی ، دلوں کو خوش کرنا ، محبت کے اظہار کے مسنون ذرائع ، تحفے کا تبادلہ خلوص کے ساتھ ، یہ دلوں کو جوڑنے والی چیزیں ہیں ۔ بیمار پرسی کرنا ، محتلف امور میں ایک دوسرے کی مدد ، اچھا مشورہ ، کسی کو شرمندہ نہ کرنا ، اور اس طرح کی چھوٹی چھوٹی نیکیاں معاشرے کے افراد کو سہارا دینے کا باعث بن سکتی ہیں۔
مرد ’قوام‘ ہونے کی ذمہ داری کو سمجھیں اور بیوی کو گھر میں پر سکون ماحول دیا جائے جو اولاد کی تربیت ، بزرگوں کی خدمت اور دیگر امور کی نگرانی کے لیے ضروری ہے ۔ مائیں محنت کی عادت اور ذمہ داریوںکا شعور دینے والی ہوں اور بُری عادتوں کے پروان چڑھانے والے عوامل پر نظر رکھیں۔
اس ضمن میں میڈیا کا مثبت کردار بھی اہم ہے ورنہ دوسرا رُخ یہ ہے کہ غلط ترغیبات بہت سی سماجی برائیو ں کا اور تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنتی ہیں ۔ بہر حال بنیادی کردار گھر کی تربیت کا ہے جہاں ماں کردار سازی کرتی ہے اور نظروں کی حفاظت ، دل کی پاکیزگی کی بنیاد رکھتی ہے ۔ معاشرے میں تشدد کے واقعات کو روکنے میں بھی خواتین کی کی ہوئی تربیت اہمیت رکھتی ہے ۔ ایک سمجھدار ماں اپنی اولاد کو اللہ کی امانت سمجھتی ہے اپنی ملکیت نہیںاور اسے معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے،بحیثیت مسلمان ایک داعی ، ایک لیڈر کی خصوصیات سے آراستہ کرتی ہے ۔ خصوصاً شادی کے بعد اسے اپنے کنبے کے لیے فیصلوں کا موقع دیتی ہے ۔ جہاں اولاد ہر رشتے کا احترام کرے وہ ماں کی تربیت کا نتیجہ ہے جس پر شکر واجب ہے۔ جس گھر ، خاندان اور معاشرے کا مشن ایک ہو، رب کی رضا کے حصول کے لیے سب کوشاں ہوں ، حقیقی علم کی روشنی میں عمل کی راہیں متعین کی جاتی ہوں وہاں فروعی باتیں سر نہیں اٹھاتیں ۔خواتین اپنی بنیادی ذمہ داریوں کے ساتھ معاشرے میں کوئی مثبت کردار ادا کرنا چاہیں تو اس کے لیے بھی انہیں دوسری خواتین کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ ہمیں ہندوانہ اور مغربی تصورات کی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیرت ِطیبہ کی روشنی میں اپنے گھروں کو تعمیر کرنا ہے ۔موجودہ دور میں مرد اور عورت کے درمیان شروع ہونے والی جنگ بھی معاشرے میں بے سکونی کا باعث ہے۔
بحیثیت خاتون ، ہمارا دین ہمیں جو مقام اور جو مراعات دیتا ہے اور گھروں کی پر سکون فضائوں کو جائے قرار ٹھہراتا ہے اس پراللہ کا جتنا شکر بھی ادا کریں کم ہے ورنہ مردوںکی ذمہ داریاں تو گرم و سرد میں محنت ، مشقت ، جدوجہد سے پُر ہیں ۔ دیگر تہذیبوں کے خیالات ، اقدار ، روایات اور نعروں سے متاثر ہو کر ہم اپنا مقام کیوں کھوئیں ۔ خواہ ہم گھریلو خواتین ہوں یا ملازمت پیشہ ، ہمارا گھر ہی ہمارے لیے سکون کی جگہ ہے اور ہونا چاہیے ۔ اس ہونے اور ہونا چاہیے میں جو فاصلہ ہے ، فرد کی زندگی اور معاشرے میں … ہمیں اس کے لیے کوشش کرنی ہے اور بھرپور کرنی ہے تاکہ خواتین ایک اسلامی فلاحی مملکت کی تعمیر میں بھی وہی کردار ادا کر سکیں جو قیام پاکستان کی تحریک کا روحِ رواں تھا اور جو ریاست مدینہ کی پاکیزہ فضائوں میں نظر آتا ہے۔
٭…٭…٭