عربی میں شہد کی مکھی کو نحل کہتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ایک پوری سورت اس کے نام سے موسوم ہے ۔ سورہ النحل کو پڑھتے ہوئے آپ کو اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی بہت سی نعمتوں کا ذکر کیا ہے ۔ انہی میں سے ایک نعمت شہد ہے جسے لوگوں کے لیے’’شفاء للناس‘‘ کہا گیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو آخر اتنی اہمیت کیوںدی کہ اس کے نام پر ایک پوری سورت قرآن مجید میں نازل کی اور اس کے ساتھ ہی انسان کو غور و فکر کی دعوت دی ؟آخر رب تعالیٰ اس چھوٹی سی مکھی سے ہمیں کیا سکھانا چاہتا ہے ؟ آئیے کچھ غورو فکر ہم بھی کریں مل کر ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’ اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں توگھر بنا اور درختوںمیں اوران (چھپروں ) میں جن پر لوگ بیلیں چڑھاتے ہیں ۔ پھر ہرقسم کے پھلوں (اور پھولوں ) سے رس چوس، پھر اپنے رب کی ہموار راہوں پر چل، ان کے پیٹوں سے مختلف رنگوں کا مشروب( شہد) نکلتاہے ۔ اس میں لوگوںکے لیے شفا ہے ۔ بے شک اس میں بھی ایک نشانی ہے ۔ ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں ‘‘(النحل69,68:16)۔
آئیے اس آیت کی روشنی میں شہد کی مکھی کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پرنظر دوڑائیں اور ان آیات پر غورو فکر کر کے ان اسباق کو جاننے کو کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ ہم کو سکھانا چاہتا ہے ۔
شہد کاچھتہ ایک مکمل ریاست ہے
شہد کی مکھیاں تین اقسام کی ہوتی ہیں ۔ سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں ’’ ملکہ مکھی‘‘ کا یعنی Bee Queenجو تمام مکھیوں کی سردار ہوتی ہے ۔ باقی تمام مکھیاںاسی کی تابع اور فرماں برادر ہوتی ہیں اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتی ہیں ۔ اس کی عمر سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ یعنی 2سال سے اڑھائی سال تک ۔ اس کا کام اپنی ریاست کوصحیح طریقے پرچلانا اور بچے پیدا کرنا ہے ۔
دوسری قسم نرمکھی یا Drone beeکی ہوتی ہے جوکہ تعداد میںبہت کم ہوتی ہیں ۔ ان کا واحد کام ملکہ مکھی سے جفتی کرنا ہے۔ یہ اپنی حفاظت اور خوراک کے لیے مزدورمکھی کی محتاج ہوتی ہیں۔تیسری قسم ہے مزدور یا کارکن مکھی، ان کی تعداد 60ہزار سے 80ہزار تک ہوتی ہے اور جیساکہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ بہت سے کام سر انجام دیتی ہے ۔ مثلاً چھتہ (گھر) بنانا ، رس جمع کرنا ، رس سے شہد بنانا، شہد کی اور چھتے کی حفاظت کرنا اور نئی پیداشدہ مکھیوں کی حفاظت اور ان کی خوراک کا انتظام کرنا، ان کی عمر 28سے 35دن تک ہوتی ہے اور یہ اپنی چند روزہ زندگی میں مسلسل کام کرتی رہتی ہے ۔
چھتے کی تیاری
جیسا کہ رب نے اسے حکم دیا کہ پہاڑوں ، درختوں ، چھتوں پر چڑھتی بیلوں میں اپنا گھر بنا یہ بالکل اسی طرح حکم کی تعمیل میں جتی ہوتی ہے۔ شہد کی مکھی کا چھتہ اور اس کی تعمیر قدرت کا ایک شاہکار ہے ۔ جس پرانسانی عقل حیران ہے ۔ چھتے کی تیاری میں 80ہزار تک مزدور مکھیاں مل جل کر انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ کام کرتی ہیں اور اس چھتے میں رہتی ہیں ۔
شہد کی مکھی اپنے لعاب( موم) سے یہ چھتہ بناتی ہے ۔ چھتے کی تیاری کے وقت ایک خاص قسم کے درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ موم کو نرم اور لچکداررکھا جا سکے اور اپنی مرضی کی شکل میںڈھالا جا سکے یہ درجہ حرارت ان مکھیوں کے اکٹھا ہونے پر پیدا ہوتاہے اور قائم رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ اکٹھا کام کرتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگالیتی ہیں کہ وہ مختلف خانوں کو دونوں اطراف سے 13ڈگری بلند کر کے انہیں زمین کے متوازی ہونے سے روک لیتی ہیں جس کی وجہ سے شہد چھتے کے خانوں سےباہر نکل کر بہتا نہیں ہے ۔
چھتہ بنانے کے لیے شہد کی مکھی مسدس یعنی چھ ضلعی شکل کا انتخاب کرتی ہے جو کہ ایک بہتر انتخاب ہے ۔ اس شکل کے بارے میں ریاضی دان بتاتے ہیں کہ ’’ چھ ضلعی ڈھانچہ ایک ایسی موزوں ترین جیومیٹرائی شکل ہے جس میں ایک اکائی کا زیادہ سے زیادہ علاقہ استعمال ہو سکتا ہے ‘‘۔اس مسدس شکل کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہوتے ہیں لہٰذا ان کی دیواریں مشترک ہوتی ہیں ۔اس لیے ان میں موم کی مقدار کم استعمال ہوتی ہے۔ یہ زیادہ مضبوط ہوتی ہیں اور ان کے درمیان جگہ نہیں بچتی ۔ لہٰذا یہ کم جگہ میں زیادہ خانے بنا سکتی ہیں ۔ اس شکل کے خانوں کے اندر بھی جگہ سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس لیے یہ زیادہ شہد ذخیرہ کر سکتی ہیں ۔شہد کی مکھی اپنے چھتے کی تیاری اتنے پرفیکٹ طریقے پر کیسے کر لیتی ہے۔ کیا یہ اس مکھی کا کمال ہے ؟حالانکہ انسان کو اس قسم کی تعمیر کے لیے بہت سی پیمائش کرنی پڑتی ہے ۔ یہ در اصل وہ وحی ہے جو اسے اس کے رب کی طرف سے ملی اور اس مکھی نے اس حکم پر بلاچون و چراعمل کیا ۔ نہ تو اس نے اس حکم میں اپنی مرضی شامل کی اور نہ ہی اسے بدلنے کی کوشش کی ۔
شہد بنانے کے لیے رس جمع کرنا
اللہ تعالیٰ کاحکم ہوتا ہے ۔’’ پھر ہر قسم کے پھلوں سے رس چوس‘‘ ہزاروںمکھیاں اس حکم پر صبح سویرے سورج کی روشنی کے ساتھ اپنے چھتوں سے نکلتی ہیں اور اندھیرا ہونے تک واپس آتی ہیں ….. یہ مکھی پھلوں اور پھولوںسے رس چوسنے کے لیے ڈالی ڈالی منڈلاتی ہیں ۔ جب ایک مکھی کو کسی علاقے میں ایسے پھولوں کا ذخیرہ ملتاہے جس میں مفید رس ہوتا ہے تو وہ واپس آکر چھتے میں موجود اپنی ساتھیوں کو اس کی اطلاع دیتی ہے ۔ وہ یہ اطلاع کیسے دیتی ہے ؟ ایک مخصوص قسم کے ناچ کے ذریعے…. اس ناچ کو ’’ مکھی کا ناچ‘‘ یا Bee danceکہتے ہیں ۔ اس ناچ کے بارے میں سب سے پہلے وان فرش(Von Frisch) نے انکشاف کیا ۔ اس کو ’’ شہد کی مکھیوں کے رویے اور ان کے نظام ابلاغ کے متعلق تحقیق پر 1973ء میں نوبل انعام ملا‘‘۔ اس ناچ میں وہ اپنے مخصوص زاویوں میں ناچ کر اپنے ساتھیوں کواس ذخیرے کی صحیح سمت، فاصلہ اور محل وقوع بتاتی ہے ۔ جس سے اس کی ساتھیوں کےلیے اس ذخیرے تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے ۔
پھول سے رس چوس لینے کے بعد مکھی اس پر ایک خاص قسم کاعطر کا ایک قطرہ گرا لیتی ہے…. لہٰذا بعد میں آنے والی مکھی جب اس پھول کا رس چوسنے کے لیے آتی ہے تو عطر کی خوشبو سونگھتے ہی فوراً اس پھول کو چھوڑ دیتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے ۔ اس طرح اس کا وقت اور محنت ضائع ہونے سے بچ جاتے ہیں۔
جب مکھیاں رس چوس کر واپس آتی ہیں تو ان کا باقاعدہ سکیورٹی چیک ہوتا ہے ۔ نگران مکھیاںصرف انہی مکھیوںکواندرجانے دیتی ہیں جومفید رس لے کر آتی ہیں ۔ لیکن اگر کوئی مکھی کسی زہر آلود پھول کا رس چوس لیتی ہے، یاکسی ایسے پھل کا رس جس پر زہر آلود دوا کا سپرے کیاگیا
ہو تو اس مکھی کواندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ اسے اسی وقت مارکر گرا دیا جاتا ہے۔اگر نگران مکھیاں اس دیانت داری سے اپنا کام نہ کریں ، جان پہچان یا دوستی کی بنا پر اس کو چھوڑ دیں تو شہد میں زہریلے مادے شامل ہو جائیں …. نگران مکھیاں ایسی بد دیانتی کیسے کر سکتی ہیں ، کیونکہ ان کے مالک نے تو اس شہد کو ’’شفا ء للناس‘‘ کہا ہے ۔ کیا ہم بھی اپنے مالک کے احکامات ماننے میں اتنے ہی دیانت دار ہیں یا ہمارے فرائض کی بجا آوری میں ہمارے اہل خانہ ، رشتہ دار اور دوست احباب خلل ڈالتے ہیں ….؟
رس چوسنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو ٹیوب نما زبان دی ہے جس کی وجہ سے یہ با آسانی پھولوں کے اندر سے رس چوس لیتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی بصارت بھی حیرت انگیز ہوتی ہے ۔ اس کی ہر آنکھ میں چھ ہزار عدسے موجود ہوتے ہیں ۔ جو اس کو پھولوںکی پنکھڑی کے اندر موجود چھوٹے چھوٹے دانے ، گرد وغبار کے ذرات تک دیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے رس میں نقصان دہ ذرات شامل نہیں ہو سکتے ۔ اس کے علاوہ یہ شہد کو چھتے میںبھی گردوغبار ،دھوئیں اور کیڑے مکوڑوں سے بچاتی ہیں ۔ اسی وجہ سے تیار شہد خالص ہوتا ہے ۔
جمع شدہ شہد کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ہوا کی آمدو رفت مناسب ہو اوردوسرا اس کا درجہ حرارت 93ڈگری فارن ہائیٹ سے کم یا زیادہ نہ ہو ۔ لہٰذا یہ اپنے پیروں کو پھڑ پھڑاتی ہیں اور چھتے کے اندر کا درجہ حرارت مناسب رکھتی ہیں….کیا ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تمام تر صلاحیتوں کو اسی طرح اور اسی مقصد کے تحت استعمال کرتے ہیں….جیساکہ ان کاحق ہے….؟
شہد بنانا
کارکن مکھیاں رس چوس لیتی ہیں تووہ اپنے منہ سے اس میں اپنا لعاب شامل کرتی ہیں ۔ یہ رس ابتدا میں 50سے80فیصد تک پانی پر مشتمل ہوتا ہے ۔ چھتے میں لے جا کر اسے گاڑھا کیا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کا پانی سوکھتا جاتا ہے اور جب شہد تیار ہو جاتا ہے تو اس میں پانی کی مقدار 16سے 18فیصد کے درمیان ہوتی ہے ۔
شہد کی مکھی جوشہد تیار کرتی ہے وہ اس کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور یہ شہد ہی در اصل انسان حاصل کر پاتا ہے ۔ اگر مکھی شہد صرف اپنی ضرورت کے تحت بنائے اور روزانہ اس کوختم کر دے تو اس کو اس قدر محنت نہ کرنی پڑے گی بلکہ وہ ایک آرام دہ زندگی گزار سکتی ہے مگر انسان ضرور شہد سے محروم ہوجائے گا۔ دوسری طرف انسان شہد حاصل کرنے کے لیے مکھی کو اس کے گھر سے بے گھر کر دیتا ہے ۔ اب اگر یہ اپنے ساتھ جاتے جاتے تھوڑا سا شہد لے جائے تو انسان کے لیے کچھ بھی نہ بچے ۔ مگر وہ انسان کے ساتھ خیر خواہی اور احسان کا معاملہ کرتی ہے ۔ اپنے ہی گھر سے بے دخل کر دینے والے انسان کوجاتے ہوئے شہد کا تحفہ دے جاتی ہے…. کیا ہم ان لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ کر سکتے ہیں جن کے رویے ہمیں بہت زیادہ تکلیف دیتے ہیں ؟
شہد کی مکھی کے مزید فوائد
شہد بنانے کے علاوہ یہ مکھی زراعت کے لیے Pollination کا کام بھی بخوبی انجام دیتی ہے ۔ جب رس چوسنے کے لیے یہ کسی پھول پر بیٹھتی ہے تو نر پھولوں کے تولیدی دانے اس کے جسم کے ساتھ چپک جاتے ہیںاور جب یہ دوسرے پھول پر جاتی ہے تو پھول کے نسوانی حصے ان زرد دانوں کو جنہیں Pollenکہتے ہیں ، اپنی جانب کھینچ کر باروری حاصل کرتے ہیں ۔ اس طرح یہ بہت سے پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کی ترویج میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔جوزر دانے بچ جاتے ہیں یہ ان کو اپنے ساتھ چھتے میں لے جاتی ہیں اور شہد میں شامل کر دیتی ہیں۔
شہد بطور شفا
قرآن نے 1400سال پہلے شہد کو لوگوں کے لیے شفا کہا تھا ۔ آج سائنس بھی اس حقیقت کو مان گئی ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی کتاب’’ قرآن اور جدید سائنس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اب ہمیں معلوم ہے کہ شہد میں شفا ہے اور یہ ہلکا سا جراثیم کش بھی ہے ‘‘۔(ص نمبر63)
اسی حوالے سے وہ ان روسی فوجیوں کا ذکرکرتے ہیں جو جنگ عظیم دوم میں زخمی ہوئے اور اپنے زخموں پر شہد لگایا جس سے ان کے زخموںمیں بیکٹیریا کی افزائش رکی اس لیے ان کے زخم ٹھیک ہوگئے ۔
شہد کی مکھی کے پیٹ میں مختلف رطوبتیں یا Enzymesبھی نکلتے ہیں ۔ ان کو شاہی جیلی یا Royal Jellyکہتے ہیں ۔ یہ جیلی شہد سے الگ کر لی جاتی ہے ۔ یہ ایک قوت بخش مادہ ہوتا ہے اور آج اس کو مختلف امراض میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ چین میں ستمبر 1993ء میں ہونے والی ایک کانفرنس میں امریکی سائنسدانوں نے اعتراف کیا کہ ’’ شہد ، رائل جیلی، زردانہ (Pollen)اور شہد کی مکھی کی رال بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں ‘‘۔ اسی طرح رومانیہ میں ایک ماہر امراض چشم نے بتایا کہ اس نے اپنے 2094مریضوں پر شہد کوآزمایا جو موتیا بند کے مریض تھے ۔ ان میں سے 2002 مریض تندرست ہو گئے ۔ اسی طرح کی بہت سی مثالیں بھی آج اس بات کی گواہ ہیں کہ شہد لوگوں کے لیے شفا ہے ۔
اسی سلسلے میں ایک مشہور حدیث کا ذکر بھی کرتی چلوں ….. ابوسعد خدری ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص آپؐ کے پاس آکر کہنے لگا ۔ ’’میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے ‘‘…. آپ ؐ نے فرمایا ۔’’ اس کوشہد پلائو‘‘ وہ دوبارہ آکر کہنے لگا….’’ یا رسول اللہ ؐ شہد پلانے سے تو اس کا پیٹ اور خراب ہو گیا ،‘‘…. آپؐ نے فرمایا ۔ ’’ اللہ کا قول سچا اورتیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے…. جائو اسے پھر شہد پلائو ‘‘…. وہ تیسری بار آیا اور کہنے لگا….’’میں نے شہد پلایا لیکن تکلیف اور بڑھ گئی ….’’ آپ ؐ نے فرمایا ’’اللہ نے سچ کہا اور تیرے بھائی کا پیٹ نے جھوٹ کہا ‘‘۔ اس پر اس نے پھر شہد پلایا تو وہ تندرست ہو گیا ۔
ڈاکٹر خالد غزنوی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’یہ حدیث علم العلاج اور ماہیت مرض کے بارے میں ایک روشن راہ ہے….کیونکہ اسہال کا سبب آنتوں میں سوزش ہے جوکہ جراثیمی زہر یعنی Toxinیا وائرس سے ہو سکتی ہے ۔ اگر ایسے مریض کی آنتوں میں حرکات کو فوری طور پربند کردیا جائے تو سوزش بدستور رہے گی یا جراثیمی زہر وہیں رہ جائے گا ۔ اس لیے علاج کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے آنتوں کوصاف کیا جائے پھر جراثیم مارے جائیں ۔شہد میں صلاحیت تھی کہ وہ یہ دونوں کام کر سکتا تھا۔
شہد کے فوائد تو بے شمار ہیں اور شہد کی مکھی پر غور و فکر کر کے انسان بہت سے بھولے ہوئے اسباق یاد کرسکتا ہے …. لہٰذا ہمیں چاہیے کہ دوسروں ( غیر مسلموں ) کی طرح ہم بھی ان پر ریسرچ کریں ، اللہ کے احکامات کی پیروی کریں اور سر تسلیم خم کریں صرف تب ہی ہم اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکتے ہیں ۔
حوالہ جات:
1۔http://www.honey.com/kids/index.html
2۔ اللہ کی نشانیاں عقل والوں کے لیے ۔( اسلامک ریسرچ سنٹر لاہور)
3۔ ڈاکٹر ذاکر عبد الکریم نائیک :(1428ھ)قرآن اور جدید سائنس ، دارالسلام: صفحہ نمبر 60اور 63۔
4۔ ڈاکٹر خالد غزنوی ( اکتوبر 1987ء) طب نبوی اور جدید سائنس ….. صفحات157,194,147
5۔ بخاری شریف ، کتاب ا لطب، باب الدواء بالعسل٭