عصر کا وقت تھا ۔میں گھر کے کام میں مصروف تھی کہ حمزہ نے آکر بتایا دادا ابو فوت ہو گئے ہیں ۔ ایک دم ایسے لگا جیسے میرا اپنا سانس رک رہا ہے ۔ آنکھوں سے یک دم آنسو شروع ہوئے ۔ انا للّٰہ وانا الیہ رجعون پڑھنے لگی اور دل بہت غمگین ہوگیا ۔
آج 13اکتوبر ہے اور میں سوچ رہی تھی کہ چاچاجی (اعظم ہاشمی میرے سسر محترم جن کو دنیا سے رخصت ہوئے 14سال ہو چکے ہیں ) کے لیے میری گواہیاں ادھار ہیں جو میں نے چکانی ہیں ۔
جب میں رخصت ہوکر سسرال آئی تومغرب کی نماز پڑھ کر آئی تھی ،اب عشا کا وقت تھا۔میں نے نمازپڑھنے کے لیے کہا تو سب حیران ہوگئے کہ دلہن نماز پڑھنے کو کہہ رہی ہے۔ اور جب میں نے عشا کی نماز پڑھی سب مہمان میرے گرد بیٹھے دیکھ رہے تھے کہ دلہن نماز پڑھ رہی ہے۔ چاچاجی کو جب میرے نماز پڑھنے کا پتہ چلا تو وہ بہت خوش ہوئے ۔ اگلے دن ولیمے پر جب میں نے ظہرکی نماز پڑھی اور دوپہر کو ولیمہ کی گھر میں دعوت تھی ،حال یہ ہوا کہ دلہن نماز پڑھ رہی ہے اور سب لوگ گرد کھڑے دیکھ رہے ہیں، تو چاچاجی کے علاوہ سسرال کے بزرگ حضرات بہت خوش ہوئے اور مجھے بہت دعائیں ملیں ۔
ساری زندگی میرے سے راضی اور خوش رہے ۔میں نےبھی کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی اور ہمیشہ ان کا کہنا مانا ۔ میری اکثر تعریف کرتے کہ ثمینہ کا دوپٹہ کبھی سر سےہٹتے نہیں دیکھا ۔اس بات کو اتنی اہمیت دی کہ جہاں میں بیٹھی ہوتی کسی مرد مہمان کو آنے کی اجازت نہیں تھی کہ میری بیٹی بیٹھی ہے وہاں کوئی نہ جائے ۔ میری بہت عزت کرتے ،جب خالہ جی سے کوئی ان بن ہو جاتی اور کھانا نہ کھاتے پھر میں کھانا لے کر جاتی تو آرام سے کھا لیتے ۔
جب پاکستان بنا اس وقت ان کی والدہ بی آر بی نہر کے کنارے جہاں قافلہ ٹھہرا تھا وہاں پردے میں اوٹ کرکے نہائیں،اپنی جگہ آکر بیٹھیں اور لیٹ کر اللّٰہ کے پاس چلی گئیں۔ پھر ان کو نہلائے بغیر نماز جنازہ پڑھا اور دفنا دیا ۔ والد شدید بیمار، ہیضہ ہوگیا تھا اور وہ انڈیا میں ہی تھے ٹرین میں رستے میں کوئی اسٹیشن آیا کہ وہ ٹرین سےاتر گئے ان کا پتہ ہی نہ چلا وہ کہاں گئے ۔ یہ دلفگار واقعات میری ساس خالہ جی بتایا کرتی تھیں کیونکہ میرے ساس سسر دونوں آپس میں رشتے دار تھے ۔ سسر کی امی ساس کی پھپھو تھیں ۔
بچوں سے بہت شفقت کرتے تھے ۔چاچاجی کے ایک بھائی جن کے چھوٹے چھوٹے چھ بچے تھے فوت ہوگئے، ان کا ذریعہ معاش کچھ نہیں تھا۔ کھاتے پیتے لوگ تھے کہ ناگہانی آفت ان پر ٹوٹی لیکن چاچا جی نے اپنی یتیم بھتیجیوں اور بھتیجوں کو ایسے پالا کہ اپنے گھر میں کسی کو نہیں بتایا، اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ کسی کو بتائے بغیر کفالت کی ۔ یہ بات بعد میں پتہ چلی ۔ صدقہ خیرات کرنا ان کو بہت پسند تھا ۔اکثر زکوٰۃ کے پیسے مجھے دیکر کہتے جو کوئی مستحقِ ہے چپ کرکے اس کو دےدو ۔
میری شادی پر رخصتی کے وقت میرے ابو محترم نے میرے سسر محترم کو کہا میری بیٹی چائے بہت شوق سے پیتی ہے آپ ذرا اس کا خیال رکھیں ۔اور میرے سسر محترم نے جن کو میں چاچا جی کہتی تھی میری چائے کا اتنا خیال رکھا کہ میرے ابو سے کیے وعدے کو آخری دم تک نبھایا ۔ گھر میں دودھ ختم ہوتا جاکر ڈبے کا دودھ لاتے اور کہتے ثمینہ بیٹی چائے بناؤ ہم مل کر پیتے ہیں۔ میری ساس محترمہ جن کو میں خالہ جی کہتی تھی زیادہ چائے پینے سے ناراض ہوتی تھیں ۔ وہ کہتی تھیں دودھ پیو چائے بیماری ہے زیادہ پینا ۔ بہر حال میری چائے چلتی رہی ۔ جب میں نے سسرال والے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کر گھر بنایا تو بھی دودھ چاچاجی نے اپنے ذمہ لیا تھا ۔ ایک دن شدید بارش ہورہی تھی فجر کے بعد بارش میں دودھ لے آئے بھیگتے ہوئے ،میں نےکہا چاچاجی اندر آجائیں کہنے لگے کپڑے گیلے ہیں ۔ اور اس وقت سردی بھی بہت تھی ۔ بعد میں خالہ جی نے بتایا ہم نے منع کیا بارش میں نہ جائیں تو کہنے لگے پتہ نہیں کڑی نے چائے پی ہوگی یا نہیں ، میں نے اس کے والد سے وعدہ کیا ہوا ہے اس لیے میں دودھ ضرور لے کر جاؤں گا ۔اللّٰہ ان کی یہ نیکی ان کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنائے آمین ثم آمین ۔
تہجد گذار تھے ۔ مسجد سے شدید شغف تھا ۔ اذان ہوتے ہی مسجد جاتے چاہے کوئی بھی مہمان ہو بلکہ مہمان کو بھی مسجد لے جاتے ۔گھر کی ہر ضرورت کو اپنی محدود آمدنی میں پورا کرتے۔ دو دو گھروں کو چلانا آسان نہیں ہوتا لیکن اللّٰہ نے ان کی کمائی میں بہت برکت ڈالی ہوئی تھی جو نظر بھی آتی تھی ۔
ان کی عادت تھی جب تنخواہ ملتی گھر سب بچوں کو جیب خرچ دیتے تھے ۔
میری چھوٹی بیٹی حفصہ سے کھیلتے تھے ۔ اپنے ہاتھ میں پیسے رکھتے اور مٹھی بند کرکے کہتے اس کو کھول لو اور پیسے لے لو وہ ہاتھ کھولنے کی کوشش کرتی تو ہاتھ کو گھما دیتے ۔ حفصہ اکثر جھنجھلا جاتی بہت کہتی کہ دادا ابو آپ سب کو آرام سے پیسے دیتے ہیں اور مجھے بہت تنگ کرتے ہیں ۔ چاچاجی اس کی اس بات پرخوب ہنستے تھے ۔
چاچاجی کی نیکیاں بہت ہیں ۔ کچھ بشری کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ ان کی ایک عادت بن گئی تھی شایدان کو پتہ نہیں چلتا تھا یا کسی نے توجہ نہیں دلائی تھی ۔ وہ غصے میں ایک آدھ گالی دیتے تھے ۔ ایک دن میں نے بچوں کو جو ہمارا اجتماع اہل خانہ ہؤا کرتا تھااس میں منافق کی نشانیاں بتائیں اور گالی کے متعلق بھی کہ یہ منافق کی نشانی ہے ۔
اسی شام چاچاجی ہمارے گھر آئے اور حفصہ سے کھیل رہے تھے۔ حفصہ نے پتہ نہیں کیا سوچا اس وقت اس کی عمر چھ سال تھی ۔ اس نے کہا دادا ابو آپ آگ کے سب سے نیچے والے درجے میں جائیں گے ۔ انہوں نے گھبرا کر کہا کیوں میں کیوں آگ میں جاؤں گا ؟میں نے کیا کیا ہے ؟ مجھے آواز دےکر کہا ثمینہ تیری بیٹی مجھے کیا کہہ رہی ہے ؟میں نے وجہ پتہ کرنے پر کہا دادا پوتی کا معاملہ ہے خود ہی سنبھالیں ۔حفصہ نے حدیث سنائی اور کہا آپ گالی دیتے ہیں جو منافق کی نشانی ہے ۔چاچا جی نے فوراً کہا میں اللّٰہ سے معافی مانگتا ہوں اور آج کے بعد میں کبھی گالی نہیں دوں گا ۔ میں اس بات کی گواہ ہوں اس بات کے پورے چار ماہ بعد چاچاجی اللّٰہ کے پاس چلے گئے اور پھر گالی نہیں دی ۔جب تک بیمار رہے بے ہوشی میں بھی مسجد جانے کی بات کرتے ۔ مسجد جانے کے لیے اٹھ اٹھ کر بھاگتے بڑی مشکل سے ان کو کنٹرول کرتے ۔
آخری کھانا ڈبل روٹی اور انڈا میں نے ان کو کھلایا۔ کھانا کھلا کر میں ان کے پاس بیٹھی تو کہنے لگے میرے پاس میرے ارد گرد جو عورتیں بیٹھی ہیں ان سے کہو وہ اٹھ جائیں ،ساتھ انہوں نے حیا سے آنکھیں نیچے کرلیں۔ میں نے کہا چاچاجی یہاں تو میں بیٹھی ہوں کوئی اور عورت نہیں ہے ۔ اتنے میں خالہ جی اندر کمرے میں داخل ہوئیں جب میں نے ان کو یہ بات بتائی تو کہنے لگیں ،ان کو پتہ نہیں کیا نظر آرہا ہے صبح سے ایسے ہی کہہ رہے ہیں ۔کہتے ہیں میں نے اپنے گھر جانا ہے ۔ ہم لوگوں نے کہا یہی آپ کا گھر ہے ۔ کہتے ہیں نہیں یہ میرا گھر نہیں ہے ۔ پھر طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ہسپتال لے گئے ۔ اور ایک دن بعد اللّٰہ نے اپنے بندے کو اپنے پاس بلالیا ۔
اللّٰہ اپنے رحمتوں کے سائے میں رکھے۔ اور اللّٰہ کا وعدہ ہے کہ جو اللّٰہ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرئے گا میں اس کو بخش دوں گا ۔ چاچا جی نے اللّٰہ کے لیے گھر چھوڑا اللّٰہ ان کی ضرور مغفرت کرے گا۔ اللہ سے دعا ہے اللّٰہ ان کے درجات بلند فرمائے اور اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
٭٭٭