عربی زبان کا مقولہ ہے تُعْرَفُ اْلاَ شْیَآئُ بِاَضْدَ ادِھَا’’ چیزیں اپنے متضاد سے پہچانی جاتی ہیں ‘‘۔اگر اندھیرا نہ ہو تو روشنی کا تصور نا ممکن ہے ۔ برائی کا وجود نہ ہو تو بھلائی کی قدر پہچاننا مشکل ہے ۔ آسمان کی بلندی کا اندازہ زمین کی پستی کو دیکھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح دھوپ چھائوں، امارت و غربت ، دنیا و آخرت ، جنت و دوزخ ۔ یہ سب ایسے الفاظ ہیں جن میں سے ہر ایک ، دوسرے کی وضاحت کرتا ہے ۔ اسلام نے انسان کو جن اخلاق کی تعلیم دی ہے وہ تمام اخلاق حسنہ ہیں ، لیکن خیر ، بھلائی اور حسنات کی صحیح قدر وہی شخص کر سکتا ہے جس نے دنیا میں شر ، برائی اورسیّئات کی قباحتوں کو بھی محسوس کیا ہو۔ اِنّ مَعَ الْعُسِْر یُسْراً۔’’ بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے ‘‘۔صبر کی انتہا کو پانے کے لیے بے صبری پر قابوپانا ہوگا ۔ شکر کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے نا شکری کے رویوں کو خیر باد کہنا ہوگا ۔ تقویٰ حاصل کرنے کے لیے کانٹے دار جھاڑیوں سے دامن بچانا ہوگا ۔
آج ہم سچ ( حق) کی فضیلت اور جھوٹ (باطل) کی قباحت اور بے ثباتی کا جائزہ لیتے ہیں۔صدق، اخلاقِ حسنہ کی فہرست میں اہم ترین ہے اور کذب اخلاق رذیلہ میں بد ترین ۔ آئیے تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں۔
نبی اکرمؐ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما ہیں ۔ ایک شخص آتا ہے اور برملا اعتراف کرتا ہے :’’ یا رسول اللہ ؐ! میرے اندر چار برائیاں پائی جاتی ہیں ۔ جھوٹ بولتا ہوں ، چوری کرتا ہوں ، شراب پیتا ہوں اور بد کار ہوں ۔ آپ ؐ کی خاطر میں ایک برائی چھوڑنے کو تیار ہوں ۔ جو آپ ؐحکم فرمائیں ‘‘۔ نبی اکرم ؐ کے حلم اور متانت کا اندازہ لگائیے ۔ نہ آپ ؐ اُس کو ڈانٹتے ہیں ، نہ برا بھلا کہتے ہیں ، نہ اس پر کفر و فسق کا فتویٰ لگا کر اپنے دربار سے نکالتے ہیں بلکہ اللہ رب ِ عظیم کی عطا کردہ حکمت کو پیشِ نظر رکھ کر نہایت تحمل سے اسے مشورہ دیتے ہیں کہ ۔
’’جھوٹ بولنا چھوڑ دو ‘‘۔ وہ شخص آپ ؐ سے جھوٹ چھوڑنے کا وعدہ کر کے چلا جاتا ہے ۔ رات کو شراب پینے اور بد کاری کی طرف مائل ہوتا ہے تو یکا یک دل میں خیال آتا ہے کہ صبح حضورؐ کو کیا جواب دوں گا ۔ جھوٹ تو بولنا نہیں سچ بولوں گا تو شرمندگی بھی ہوگی اورحد بھی جاری ہو گی ۔ رات کا ایک اورپہر گزرتا ہے ۔ شیطان چوری کی طرف اُکساتا ہے ۔ پھر وہی پاکیزہ خیالات غالب آتے ہیں کہ ’’جھوٹ نہیں بولنا ‘‘۔ اور اللہ کی رحمت سے چوری کا ارادہ بھی ترک کر دیتا ہے ۔ صبح اٹھ کر آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے:
’’ یا رسول اللہ ؐ! صرف ایک جھوٹ چھوڑنے کے وعدے کی بنا پر میں باقی برائیوں سے بھی بچ گیا ‘‘۔یوں وہ شخص نیکی کی شاہراہ پر قدم رکھ دیتا ہے ‘‘۔
تاریخ کا ایک اور ورق پلٹ کر دیکھتے ہیں ۔ ایران کے شہر گیلان سے ہوتا ہؤا ایک قافلہ بغداد کی طرف رواں دواں ہے ۔ علم کے ان شائقین میں ایک دس سالہ بچہ بھی شامل ہے ۔ جواپنے خوابوں کی بنیاد پر علم و عمل پر مبنی اپنی شخصیت کی تعمیر کا عزم لے کر اس قافلے میں شریک ہے۔اچانک قافلے پرڈاکوئوں کا حملہ ہوتا ہے ۔ ڈاکو تلاشی لیتے ہوئے بچے سے پوچھتے ہیں ۔’’ تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟‘‘ لڑکے کو اپنی ماں کی نصیحت یاد آتی ہے ۔
مری جان ! ہر آن سچ بولنا
چلی جائے گو جان ، سچ بولنا
لڑکا پکاراٹھتا ہے،میرے پاس چالیس دینار ہیں … تلاشی لینے
پر اس کی سلی ہوئی جیب سے واقعی چالیس دینار برآمد ہوتے ہیں ڈاکوئوں کا سردار حیرت و استعجاب میں ڈوبا بچے سے سوال کرتا ہے : ’’تمہیں کس چیز نے سچ بولنے پر مجبور کیا ؟‘‘لڑکا مسکرا کرجواب دیتا ہے : ’’میری ماں کا مجھ کو یہی حکم تھا ‘‘۔سردارنادم ہوتا ہے کہ اس بچے کو اپنی ماں کے حکم کا اس قدر پاس ہے اور ایک میں ہوں کہ خدا کے حکم کو بھولا ہؤا ہوں۔سردار ڈاکوئوں کی ٹیم سمیت تو بہ کرتا ہے اور بچہ بڑا ہو کر شیخ عبد القادر جیلانی کے نام سے تاریخ میں اپنا نام ثبت کرواتا ہے۔
سچ کے لیے عربی زبان میں صدق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ صادق کے معنی ہیں ’’ سچ بولنے والا‘‘۔ صدق کا لفظ اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے ۔ صدق کا الٹ کذب ہے جس کے معنی ہیں ’ ’ جھوٹ‘‘ جب صدق کا لفظ ’’ اخلاص‘‘ کے معنی میں بولا جائے تو ’’منافقت ‘‘ کا اُلٹ ہوتا ہے ۔ صدیق اور صدوق کے معنی ہیں بہت سچا ۔’’ تصدیق‘‘ کے معنی ہیں کسی کو سچا ماننا۔ ان وسعتوں کو سمیٹتے ہوئے سید سلیمان ندوی نے’’ سیرۃ النبی‘ ‘ (جلد ششم) میں صدق کی تین اقسام کا ذکر کیا ہے۔
(۱) زبان کی سچائی
اس سے مراد قول کی سچائی ہے یعنی انسان اپنی زبان سے سچ بولے ۔ جھوٹ بولنے سے اجتناب کرے ۔ خلاف صداقت بات زبان پر نہ لائے سچائی کی عادت کواپنانے والا شخص قول وقرار کا پکا ہوتا ہے ۔ وعدہ پورا کرتا ہے ۔ ایفائے عہد بھی اس کی صفت ہوتی ہے ۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنے کیے ہوئے وعدوں کی پروا نہیں کرتے جبکہ نبی کریم ؐ کی حیات طیبہ ایفائے عہد کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ آپ ؐ کی نبوت سے پہلے کا ایک واقعہ کتب سیرت و تاریخ میںدرج ہے کہ ایک شخص آپ ؐ سے تجارتی معاملے میں کوئی بات کرنا چاہتا تھا ۔ اچانک اسے کوئی کام یاد آگیا ۔ اس وقت وہ یہ کہہ کر چلا گیا کہ آپ ؐ یہیں ٹھہریں میں ابھی آتا ہوں ۔ جا کر وہ دوسرے معاملات میں مصروف ہو گیا اوربھول گیا ۔ تین دن بعد اتفاق سے اس کا گزر اس جگہ سے ہؤا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ محمد ؐ اسی جگہ کھڑے اس کا انتظار کر رہے ہیں ۔ سنن ابی دائودکے مطابق اس وقت آپ ؐ کی عمر صرف انیس سال تھی ۔ بھلا آپؐ سے بڑھ کر وعدے کا سچا کون ہوگا ۔ اگر ہم بھی اپنے قول و قرار میں سچائی کو اپنا لیں تو انشاء اللہ یہ عادت ہمارا جزو بدن اور ہماری فطرت ثانیہ بن جائے گی اور سچائی کے یہ پھول جھوٹ کے خاروں کو اپنے اندر داخل نہیں ہونے دیں گے۔
(۲) دل کی سچائی
سچائی کی اس قسم کا تعلق دل سے ہے ۔ مومن کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے ۔ اس کے بالمقابل لفظ’’ نفاق ‘‘ ہے ۔ منافق کی چا ر نشانیاں حدیث میں بیان ہوئی ہیں ۔ ’’ جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔ جب وعدہ کرے توخلاف ورزی کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ پراُتر آئے ‘‘ ۔ اس سے ظاہرہؤا کہ جھوٹ ایسی بیماری ہے جو دوسری برائیوں کا راستہ بھی ہموار کرتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں دل کا سچا انسان آئینے کی طرح صاف شفاف شخصیت کا مالک ہوتا ہے ۔اُس کے ظاہر اورباطن میں کبھی تضاد نہیں ہوتا ۔
(۳) عمل کی سچائی
زبان اور دل کی سچائی انسان کو عمل کی سچائی کی طرف لے جاتی ہے ۔ عمل کی سچائی سے مراد یہ ہے کہ انسان خلوصِ نیت سے عمل کرے۔ اُس کا عمل ریا کاری سے خالی ہو ۔ عمل میں سچے انسان کا ہر عمل اُس کے ضمیر کی آواز کی عکاسی کرتا ہے ۔ ایسا صدق’’ اخلاص‘‘ کہلاتا ہے۔ نبی کریم ؐ کی ایک طویل حدیث ابو ہریرہ ؓ سے روایت کی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن تین اشخاص لائے جائیں گے جن میں سے ایک شہید ، ایک عالم اور ایک دولت مند ہوگا ۔ یہ تینوں اپنے اپنے نیک اعمال کا ذکر کریں گے لیکن اللہ کی ذات ( جو علیم بذات الصدور ،دلوں کے بھید جاننے والی ہے ) کی طرف سے ارشاد ہوگا :
نہیں … بلکہ تم نے تو یہ سب کام اس لیے کیے تھے کہ تم شہید ، عالم یا سخی کہلائو اور پھر انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔
گویا اللہ کی بار گاہ میں وہی عمل قابل قبول ہو گا جو ریا کاری سے پاک ہواور صدق و اخلاص پر مبنی ہو۔ ایسے صدق( عمل کی سچائی) کو
پانے والے اللہ کے ہاں بڑا درجہ پائیں گے ۔ جو شخص اخلاص عمل کی منازل طے کر لیتا ہے وہ صدیق کادرجہ حاصل کر لیتا ہے ۔
سچائی ایسی صفت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف بھی منسوب کیا ہے ، نبیوں کے نمایاں اوصاف میں بھی اس کا ذکر کیا ہے اور مومنین کے لیے بھی اس صفت کوپسند کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے : وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیثاً اور اللہ سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہوگا ( النسا۸۷) ’’ہمارے جدِ امجد حضرت ابراہیم ؑ کی سچائی کی قرآن میں متعدد بار گواہی دی گئی:وَاْذ کُرْفِی اْلِکتٰبِ اِبْراہیم اِنَّہ‘ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیّاًہ( مریم:۴۱)حضرت مریم کے بارے میں فرمایا: وَاُمّْہ‘ صِدِّیْقَۃٌ اور ان کی (عیسیٰؑ کی ) والدہ (مریم ) بہت سچی تھیں۔
غزوہ احزاب میں جب کفار کے ساتھ مل کر بہت سے گروہ مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو پختہ ایمان والوں کو اللہ کا وعدہ یاد آگیا کہ ’’ آخری فتح حق کی ہو گی ‘‘ اور وہ پکا راٹھے : ’’ یہ تو وہی وعدہ ہے ( اس وعدے کا وقت قریب آ پہنچا) جو اللہ نے ہم سے کیا تھا اور رسولوں نے بھی سچ کہا تھا ‘‘۔ (الاحزاب۲۲)
حضرت سلیمان ؑ بھی اللہ تعالیٰ کے سچے نبیوں میں سے تھے ۔ اللہ نے انہیں جانوروں پرندوں کی بولیاں سکھائیں تو انہوں نے بھی ہد ہد کی سچائی کو جانچ کر اس کی لائی ہوئی خبر پراعتماد کیا فرمایا:’’( اے ھد ھد!) ہم عنقریب دیکھ لیں گے کہ تم نے سچ کہا ہے یا تم جھوٹ بولنے والوں میں سے ہو ‘‘۔( النمل :۲۷)
حضور نبی کریم ؐ کی تعریف میں ارشاد ہؤا ۔’’ آپ ؐ سچی تعلیمات لے کر آئے اور آپؐ نے پہلے رسولوں کو بھی تصدیق کی ‘‘۔( الصٰفٰت:۳۷) گویاآپؐ خود بھی صادق ہیں اور آپؐ کا لایاہؤا پیغام بھی برحق ہے ۔
مومنین کی صفات کا جہاں بھی ذکر آتا ہے ان میں صدق کی صفت سب سے اہم ہوتی ہے ۔
۔متقی لوگوں کو جنت کی خوشبخری سنا کر ان کی صفات کا یوں ذکر کیا 🙁 اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ) صبر کرنے والے ، سچ بولنے والے ، فرمانبردار،( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرنے والے اور سحر کے اوقات میں بخشش مانگنے والے ( آل عمران ۱۷)۔
۔سورۃ الاحزاب آیت ۳۵ میں ارشاد ہؤا: بے شک مسلم مرداورمسلم عورتیں ، مومن مرد اورمومن عورتیں ، فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں ، سچ بولنے والے مرد اور سچ بولنے والی عورتیں …ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے ۔
۔’’ مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے کیا ہؤا وعدہ سچا کر دکھایا ( یعنی صدقِ دل سے جہاد میں حصہ لیا)( الا حزاب:۲۳)
سچ اور نیکی لازم و ملزوم ہیں ۔ قرآن مجید میںبِّر( نیکی ) کی پہچان یہ بتائی کہ کوئی شخص اللہ ، یوم ِ آخرت فرشتوں ، کتابوں اور نبیوں پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے ، ایسے لوگ ایفائے عہد کا خیال رکھتے ہیں اورمصیبتوں میں صبر کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ان تمام نیکیوں پرعمل کرنا انسان کو سچوں میں شامل کردیتا ہے ۔اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ ۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں ( البقرۃ:۱۷۷)
رسولِ کریم ؐ کا فرمان ہے :’’ سچ بولنا نیکی کا راستہ بتاتاہے اور نیکی جنت کو لے جاتی ہے ۔ آدمی سچ بولتا جاتا ہے اور سچ بولتے بولتے وہ صدیق ہو جاتا ہے( خدا کے ہاں سچا لکھ لیا جاتا ہے )۔
حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی :
وَاجْعَلْنِیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی اْلاٰ خِرِیْنَ
’’اور بعد میں آنے والوں میں مجھے سچی نا موری عطا فرما‘‘۔(الشعراء۸۴)
ملاحظہ فرمائیے ، اللہ تعالیٰ صدق کی ترغیب کس قدر دلنشین انداز میں دے رہے ہیں ۔
فَاَ مَّا مَنْ اَعطٰی وَ اَّتقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرْہُ لِلْیُسْریٰ
۔پس جس نے ( راہِ خدا میں ) مال دیا اور( خدا کی نا فرمانی سے ) پرہیز کیا اور بھلائی کو سچ مانا ، اس کو ہم آسان راستے کی سہولت دیں
گے ۔ (نیکی کی توفیق دیں گے ( اللیل: ۵تا۷)
۔اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو ۔ روزِ حساب ، ’ ’ صدق‘‘ کے پلڑے کا وزن ملاحظہ فرمائیے ۔
قَالَ اللّٰہُ ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقَھِمْ
۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جب سچ بولنے والوں کو ان کا سچ فائدہ دے گا ( المائدہ:۱۱۹)۔
۔پس اللہ ( عنقریب) سچ بولنے والوں کو بھی ضرورجان لے گا اور جھوٹ بولنے والوں کو بھی ضرورجان لے گا (العنکبوت:۳)۔
اہل جنت کو جب جنت میں داخل کیا جائے گا تو وہ پکار اٹھیں گے۔
اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ ا لَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہ‘
تعریف ہے اللہ کی جس نے ہمارے ساتھ کیا ہؤا اپنا وعدہ سچ کر دکھایا( الزمر:۷۴)
اہل جنت کا مقام اوران کی شان دیکھیے
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَھَرٍ فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ
نا فرمانی سے پرہیز کرنے والے یقینا باغوں اورنہروں میں ہوں گے ۔ سچی عزت کی جگہ ( سچائی کی نشست گاہوں میں ) بڑے ذی اقتدار بادشاہ ( اللہ تعالیٰ) کے قریب ( القمر :۵۴،۵۵) ۔
دنیا کی یہ زندگی نہایت مختصر اورعارضی ہے ۔اگر ہم اس دنیا میں اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو ’’ سچائی‘‘ کی زینت سے آراستہ کر لیں تو انشاء اللہ ہماری آخرت بھی سنورجائے گی۔
استفادہ:سیرت النبی، جلد ششم )سید سلیمان ندوی ؒ(
٭…٭…٭