’’ارے جنید پتہ نہیں کہاں چلاگیا مجھے چھوڑ کے؟ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں موٹر سائیکل پر بیٹھی بھی نہیں اور وہ اسٹارٹ کرکے یہ جا وہ جا۔عجیب لڑکا ہے یہ‘‘۔
نادیہ بیگم شاپنگ مال جانے کے لیے اپنے بیٹے جنید کے ساتھ نکلی تھیں،گھر سے تھوڑے فاصلے پر وہ کچھ لینے کے لیے اتریں۔واپس موٹر سائیکل کی طرف مڑیں تو جنید موٹر سائیکل سمیت غائب تھا۔وہ سڑک کے کنارے پریشان کھڑی سوچ رہی تھیں اب میں کہاں جاؤں؟ گھر کی چابی ان کے پاس تھی نہیں۔کوئی موبائل بھی نہیں تھا۔اب کروں تو کیا کروں؟
اسی سوچ بچار میں تھیں کہ اچانک خیال آیا کہ اپنی سہیلی آصفہ کے گھر چلی جاتی ہوں۔اس کے فون سے بیٹے کو فون بھی کرلوں گی۔یہ سوچ کر وہ قریب میں واقع آصفہ کے گھر کی طرف روانہ ہوگئیں۔وہاں پہنچ کر انہوں جنید کو فون کرکے پوچھا’’بیٹا ! تم کہاں ہو؟‘‘
جنید بھی پریشان ہوکر بولا’’امی! میں تو شاپنگ مال کے سامنے کھڑا ہوں۔میں نے موٹر سائیکل سے اتر کر دیکھا تو آپ تھیں ہی نہیں۔میں تو سمجھا تھا کہ آپ موٹرسائیکل پر بیٹھ چکی ہیں اس لیے میں نے موٹر سائیکل چلادی۔میں تو راستے میں آپ سے باتیں بھی کررہا تھا اور سوچ رہا تھا امی میری کسی بات کا جواب نہیں دے رہیں۔اب بتائیے آپ کہاں ہیں؟‘‘
’’میں قریب میں آصفہ آنٹی کے گھر پر ہوں‘‘۔نادیہ نے جواب دیا۔جنید واپس آکے آصفہ آنٹی کے گھر سے نادیہ بیگم کو شاپنگ مال لے گیا اور سوچ رہا تھا میرے یہ بھول کے تماشے کب تک ہوتے رہیں گےکیونکہ اس کے علاوہ بھی کئی مرتبہ اس طرح کے واقعات ہوچکے تھے۔
نادیہ بیگم کی تین اولادیں تھیں۔ثمرین مقامی اسکول میں معلمہ تھی چھوٹا بیٹا میٹرک میں اور درمیان میں جنید تھا جوبہت ذہانت سے تعلیمی مدارج طے کرتا ہؤا آج سوفٹ انجینئر کی شکل میں ایک بڑی مستحکم کمپنی میں جاب کر رہا تھا۔انٹر نیٹ اس کے لیے دماغ اور انگلیوں کا کھیل تھا ۔ مگر ساتھ اس میں بھولنےکی عادت بھی پنپ رہی تھی تھی ۔ کبھی اس عادت کے سبب بے ساختہ ہنس پڑتے اور کبھی بڑی الجھن والی صورتحال پیش آجاتی۔ لیکن حل سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
صبح کے گیارہ بجے تھے کہ جنید نے شور مچایا۔
’’غضب ہوگیا….امی ثمرین آپی غضب ہوگیا….‘‘۔
دونوں حیران ہوکر بولیں ’’کیا ہؤا بھئی خیر تو ہے؟‘‘
’’ارے میرے دوست کاشف نے مجھ سے کہا تھا کہ اگلے ہفتے میں اپنی فیملی کے ساتھ تمہارے گھر آؤں گا۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ کھانا ہمارے ساتھ کھانا….میں آپ لوگوں کو بتانا بھول گیا تھا۔اب اس نے لوکیشن مانگی ہے ۔وہ آنے کے لیے تیار ہے۔بتائیں میں کیا کروں؟ ‘ ‘ جنید پریشان ہوکر بولا۔
’’اچھا تم فکر مت کرو یہ بتاؤ کہ اس کو آنے میں کتنا وقت لگے گا؟‘‘امی نے استفسار کیا۔
’’ایک ڈیڑھ گھنٹہ تو لگ ہی جائے گا‘‘۔ جنید نے جواب دیا۔ ’’کوئی بات نہیں میں اور ثمرین مل کر ان شاء اللہ کھانا تیار کرلیں گے۔تم پریشان مت ہو‘‘۔
امی کا تسلی بخش جواب سن کر جنید کی جان میں جان آئی ۔
ایک مرتبہ آفس کے ایک ساتھی نے جنید سے کہا ’’یار!تم مجھے گھر ڈراپ کرتے ہوئے چلے جانا‘‘۔جنید نے حامی بھر لی اور شیراز کو ساتھ بٹھالیا۔راستے میں پٹرول پمپ پر رُکے۔موٹر سائیکل میں پٹرول بھرواکے جنید نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔شیراز حیران کھڑا دیکھتا رہا کہ یہ کہاں چلا گیا؟تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد شیراز نے جنید کو کال ملائی۔اتنی دیر میں جنید گھر پہنچ چکا تھا۔اس نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے شیراز کی آواز آئی۔
’’یار تم مجھے چھوڑ کر کہاں چلے گئے؟‘‘
جنید سر پکڑ کربولا ’’ یار میں تو بھول ہی گیا تھا کہ تم بھی میرے ساتھ تھے‘‘۔ ایک بار پھر جنید کو اپنی بھول پر شرمندگی اٹھانی پڑی۔
نادیہ بیگم نے سودے کا پرچہ تیار کیا اور جنید کو دیتے ہوئے بولیں’’ کل چھٹی ہے ،فلاں اسٹور سے یہ ساراسودا لیتے آنا اور ہاں صبح ذرا جلدی چلے جانا رش کم ہوتا ہے‘‘۔
’’جی اچھا امی!‘‘جنید اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔
صبح ناشتے سے فارغ ہوکر جنید فوراً سودا لینے کے لیے نکل پڑا۔واپس آیا تو امی کو خبر سناتے ہوئے بولا۔
’’وہ امی میں سودے کاپرچہ توگھر پر ہی بھول گیا تھا، میں اندازے سے چند چیزیں لے آیا ہوں۔میں نے سوچا گھر میں دال چاول تو پکتے ہی ہیں تو دال اور چاول لے لیے،روٹی پکانے کے لیے آٹا لے لیا ،چینی اور نمک لے لیا‘‘۔
نادیہ بیگم اور ثمرین کا ہنس ہنس کے بُرا حال تھا۔ثمرین چھیڑتے ہوئے بولی’’اب تو تمہاری شادی ہونے والی ہے ۔شادی کے بعد کیا ہوگا۔یہی تماشہ ہوگا کیا؟‘‘ جنید مسکرایا ۔
تھوڑے ہی عرصہ میں شازیہ جنید کی دُلہن بن کر آگئی۔ثمرین نے شازیہ کو ڈراتے ہوئے کہا ”ہمارا بھائی بہت بھلکڑ ہے۔تمہیں ہی کہیں نہ بھول آئے؟‘‘
’’ لو بھلا بیوی کو بھی کوئی بھولتا ہے‘‘شازیہ نے چہکتے ہوئے جواب دیا۔
کچھ ہی دنوں بعد شازیہ کو خریداری کے لیے جاناتھا۔اس نے جنید سے کہا کہ مجھے شاپنگ کرنی ہے ایسا کریں کل آپ کی چھٹی ہے آپ مجھے ذرا لے جائیں۔
’’ٹھیک ہے کل تیار ہوجانا‘‘جنید نے جواب دیا۔
اگلے دن دونوں بازار کی طرف روانہ ہوگئے۔خریداری سے فارغ ہوکر جنید نے شازیہ سے کہا۔
’’تم یہاں کھڑی ہوجاؤ میں پارکنگ سے گاڑی لے آتا ہوں‘‘۔
جنید نے گاڑی پارکنگ سے نکالی اور گھر کی طرف رواں دواں ۔ شازیہ انتظار ہی کرتی رہی ۔جب توقع سے زیادہ دیر ہوگئی تو اس نے سوچا ….ثمرین آپی نے جو کہا تھا کہیں وہی تو نہیں ہوگیا آج میرے ساتھ….
جنید گھر پہنچا تو نادیہ بیگم اور ثمرین نے حیران ہوکر پوچھا ’’ارے شازیہ کہاں ہے؟‘‘
جنید نے ایک بار پھر سر پکڑ لیا۔اُلٹے قدموں مڑا اور تیزی سے گاڑی شاپنگ مال کی طرف دوڑائی۔ وہاں پہنچ کر شازیہ پر نظر پڑی تو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گررہے تھےاور جنید کا شرمندگی سے بُرا حال تھا۔اماں سر پکڑے بیٹھی سوچ رہی تھیں ’’ہائے میرا سوفٹ انجینئر بیٹا‘‘….اتنی بڑی کمپنی کا نظام چلا لیتا ہے اور گھر کا انتظام ہی بھول جاتا ہے !
٭٭٭