This Content Is Only For Subscribers
آج کے دور میں اس بڑے خطرے سے کیسے محتاط رہا جائے؟ ایک باہمت خاتون کی کراچی یونیورسٹی
کے پروفیسر کو سائبر ہراسانی کے جرم میں سزا دلوانے کی یہ داستان بہت اہم معلومات دے رہی ہے
کراچی کی ٹرائل کورٹ میں سائبر کرائم کے ایک مقدمے کی سماعت ہو رہی تھی۔
وکیل نے مدعی خاتون سے کہا کیا آپ ننگی تصاویر کی تعریف بیان کریں گی کیونکہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ کی ننگی تصاویر اپ لوڈ کی گئی ہیں۔خاتون جج سے پوچھتی ہیں کیا یہ مہذب سوال ہے، تو جج صاحب کہتے ہیں کہ وکیل کا حق ہے کہ وہ سوال پوچھے جس پر وہ خاتون کہتی ہیں چہرہ ان کا تھا لیکن جسم ان کا نہیں تھا اور اس پر (نامناسب کپڑوں میں) تصاویر ہیں۔اس پر وکیل نے کہا جج صاحب (نامناسب کپڑے) بھی تو کپڑوں میں شمار ہوتے ہیں پھر یہ ننگی تصاویر تو نہ ہوئی ناں، ان خاتون نے غلط بیانی کی ہے۔ اور پھر چیمبر میں موجود مرد حضرات مسکرانے لگے۔
سائبر کرائم کا یہ مقدمہ ریاستِ پاکستان کی جانب سے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے پروفیسر فرحان کامرانی کے خلاف سنہ 2016 میں درج کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ ایک خاتون پروفیسر کا جعلی فیس بک پیج بنی جسے ایک نجی یونیورسٹی کے فیس بک پیج اور ان کی اپنی پروفائل پر شیئر کیا گیا۔
یہ سب معاملہ کیا تھا اسے پتہ لگانے میں تو ایف آئی اے کو تھوڑا ہی وقت لگا لیکن ملزم کو مجرم قرار دینے اور سزا سنانے میں چھ سال کا طویل عرصہ بیت گیا۔موبائل، موڈیم، کمپیوٹر سب کچھ جائے وقوعہ یعنی فرحان کامرانی کے گھر پر چھاپہ مارنے پر ایف آئی اے کی ٹیم کو ملا اور انھوں نے شواہد اکٹھے کیے۔اب چھ برس کے بعد عدالت نے اس کیس میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات سے منسلک رہنے والے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر کامرانی کو مختلف الزامات ثابت ہونے پر آٹھ برس قید کی سزا سنائی ہے۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خالد حسین شاہانی نے اس مقدمے کا فیصلہ سنایا۔
عدالت نے انھیں پرویینشن آف الیکٹرانک کرائم 2016 کے سیکشن 21 ( کسی شخص کی عزت مجروح کرنے) پر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 419 میں دھوکہ دہی کا جرم ثابت ہونے اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 500 میں کسی کی بدنامی کا سبب بننے کا جرم ثابت ہونے پر بالترتیب تین، تین اور دو سال قید کی سزا سنائی ہے۔عدالت کا فیصلہ 29 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مجرم کو 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔
اس کیس میں مدعی کی وکیل سارہ ملکانی نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ وہ عدالتی فیصلے سے مطمئن ہیں۔ ’اگرچہ اس میں وقت زیادہ لگا لیکن مجرم کو سزا ہوئی اس لیے ہمیں اطمینان ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ جج نے کیس کے شواہد کو اچھی طرح جانچا ہے اور اس پر فیصلہ دیا ہے۔کیس کا فیصلہ آنے کے بعد میں نے متاثرہ خاتون سے رابطہ کیا تو انھوں نے نم آواز میں مجھے کہا کہ حمیرا میری کہانی شاید آپ سن ہی نہیں پائیں گی، شاید آپ کے پاس نہ اتنا وقت ہو گا اور نہ تحریر کے لیے آپ کے ادارے کے پاس اتنی جگہ۔
انھوں نے بتایا کہ یہ سنہ 2015 کا آغاز تھا۔ وہ سنہ 2009 سے شہر کی مختلف یونیورسٹیوں اور انسٹیٹیوٹس میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ انھوں نے شادی کے بعد بی اے اور ایم اے کیا اور اب نوکری کے ساتھ ساتھ اپنی پی ایچ ڈی بھی شروع کر چکی تھیں۔
وہ بتاتی ہیں’ ’میرے لیے ضروری تھا کہ دیگر عملے کی طرح میرا بھی ایک آفیشل پیج ہو کیونکہ اب طلبا و طالبات اپنا کورس لینے کے لیے استاد کی سلیکشن کے لیے آن لائن پیج بھی دیکھتے ہیں۔ ایسے ہی معمول کا ایک دن تھا جب مجھے ایک نجی یونیورسٹی کی جانب سے کہا گیا کہ کیا آپ
اپنا پیج دیکھتی ہیں، میں نے کہا جی اور میں نے اپنا اکاؤنٹ چیک کیا، وہاں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ جس سے میں الرٹ ہوتی۔ لیکن یونیورسٹی نے مجھے نیا کورس آفر نہیں کیا جس کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آئی‘‘۔
خاتون پروفیسر نے بتایا کہ ایک دوسرے ادارے میں وہ ایک اور کورس کروا رہی تھیں جب انسٹیٹیوٹ کی جانب سے انھیں بتایا گیا کہ بہت کم طلبا و طالبات نے اس بار اُن کے کورس میں شمولیت اختیار کی ہے، ساتھ ہی انھیں یہ تجویز دی گئی کہ وہ اپنا فیس بک پیج دیکھ لیں۔
’’اس بار پھر میں نے اپنا پیج کھولا اور دیکھا۔ بظاہر سب نارمل تھا لیکن مجھے وہاں ایک لنک دکھائی دیا۔ نازیبا ٹائٹل کے ساتھ میرا نام لکھا گیا تھا اور جب میں نے کلک کیا تو اس میں پورن تصاویر تھیں اور ساتھ میں نازیبا کمنٹس تھے‘‘۔
اس ادارے نے انھیں نوکری سے نکال دیا۔ اس صورتحال میں انھوں نے فیس بک پر اسے رپورٹ کیا اور پھر وہ لنک بند ہو گیا۔وہ بتانے لگیں کہ کچھ وقت گزرا اور فروری 2016 میں نجی یونیورسٹی کے ایک ڈپارٹمنٹ کے سربراہ اور دیگر سینیئر ممبران نے انھیں بلایا اور پوچھا کہ یونیورسٹی کے آفیشل پیج پر ان کے فیس بک پیج (جعلی) کے لِنک کو کھولیں تو نازیبا تصاویر اور کمنٹس کی ’وجہ کیا ہے، یہ سب کیا ہو رہا ہے‘۔
وہ بتاتی ہیں’ ’وہ یونیورسٹی ایونٹ کی تصاویر تھیں لیکن وہاں میری کراپ شدہ/ترمیم شدہ گندی تصاویر اور ان کے نیچے گندی زبان استعمال کی گئی تھی۔ وہ لنک میرے نام سے بنایا گیا ایک جعلی پیج تھا جو میرے یونیورسٹی کے آفیشل پیج پر اور میرے اپنے پیج پر بھی شیئر کیا جا رہا تھا‘‘۔
انھوں نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ اس سب کو دیکھنے کے بعد وہ تین چار رات سوئی نہیں اور وہ’ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ شوہر کو کیسے بتاؤں‘۔
وہ بتاتی ہیں ‘آئی ٹی کے ڈائریکٹر نے مجھے وہ تصویریں دکھائیں اور کہا کہ میں اتنی گندگی نہیں دیکھ سکتا، آپ ہی بتائیں آپ ہماری جگہ ہوتیں تو کیا ہوتا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کے پیچھے کون ہے۔ میں نے ان سے کہا آپ یونیورسٹی کی عزت بچائیں میں چلی جاتی ہوں، میرا استعفیٰ لے لیں۔ وائس چانسلر نے کہا ہمارا ہرگز یہ مطلب نہیں، ہم نہیں چاہتے کہ تم نوکری چھوڑو۔ ہم صرف یہی کہہ رہے ہیں کہ سوچو یہ کون ہے۔ اگر کوئی یہاں ہے تو ہم اس کو ابھی پکڑیں۔
’’لیکن میری کبھی کسی سے نہ لڑائی تھی نہ کچھ رنجش۔ میں چار بچوں کی ماں ہوں، میں وزیٹنگ ٹیچر ہوں، میری یہاں سب سے دوستی تھی‘‘۔وہ بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے انھیں بتایا کہ آن لائن رپورٹ کیسے ہوتی ہے اور یہ کہ وہ سکرین شاٹس لے کر سائبر کرائم والوں کے پاس جائیں۔
’’میں نے سکرین شاٹ لیے۔ پھر میں نے سوچا کہ شوہر سے کب تک چھپاؤں۔ میں سوچ رہی تھی کہ شاید کبھی کسی سٹوڈنٹ نے ایسا کیا ہوگا۔ سب سننے کے بعد شوہر نے مجھ سے جھگڑا نہیں کیا، بس یہ کہا کہ جو یونیورسٹی نے بتایا ہے صبح ہی چلو، ہم درخواست دیں گے‘‘۔
’’میں نے فروری 2016 میں ایف آئی اے کے دفتر میں درخواست دی تھی، پھر مئی اور پھر اگست میں مزید درخواستیں دیں کیونکہ اگر ایک جعلی پیج کو میں میری یونیورسٹی اور سٹوڈنٹس رپورٹ کرتے تھے تو وہ بلاک ہونے کے بعد پھر دوسرا جعلی پیج بن جاتا تھا۔ اب تک چار بار ایسا ہو چکا تھا‘‘۔
وہ بتاتی ہیں کہ’ ’ایک دن میں کلاس لے رہی تھی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو تین سٹوڈنٹس موبائل دیکھنے میں مشغول تھے۔ چونکہ موبائل کی اجازت نہیں تو میں نے ان سے موبائل لینے کی کوشش کی تو ایک سٹوڈنٹ نے موبائل دینے کے بجائے کمرے سے باہر کی راہ لی۔ میں نے پھر آئی ٹی میں جا کر پوچھا تو پتہ چلا کہ پھر ایک فیک آئی ڈی بنی ہوئی تھی۔ اس صورتحال میں میں کلاس لینے کی پوزیشن میں نہیں تھی‘‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے وہ دن بہت تکلیف دہ تھے اور وہ یہ سوچ کر اذیت میں تھیں کہ طلبا ان کے بارے میں کیا سوچ رہے تھے۔
وہ بتاتی ہیں’ ’آئی ٹی والوں نے کہا کہ اس ملک میں بغیر ’سورس‘ کے آپ کی شکایت پر کیا عمل ہوگا۔ انھوں نے یونیورسٹی کے رجسٹرار آفس کو شکایت کی۔ مجھے کال آئی کہ یونیورسٹی آ جائیں۔ یونیورسٹی کی ساکھ کا معاملہ ہے‘‘۔
اس لنک کو ابھی چلنے دیں
وہ ایک بار پھر ایف آئی اے میں گئیں لیکن اس بار انھوں نے وہاں کی انتظامیہ سے کہا کہ ابھی ان لنکس کو کھولیں۔وہاں موجود آئی ٹی کے ایک ماہر نے جب وہ مواد دیکھا تو اُنھیں تجویز دی کہ اس پیج کو ابھی چلنے دیں، یہ چلتا رہے گا تو وہ بندے تک پہنچ سکتے ہیں۔پروفیسر کے مطابق وقت کچھ اور آگے بڑھا ۔
’’اکتوبر کی شام چھ بجے مجھے یونیورسٹی میں ایف آئی اے سے کال آئی کہ آپ کسی فیصل کامرانی کو جانتی ہیں؟انھوں نے کہا کہ آپ کی شکایت پر ہم اس کو گرفتار کر چکے ہیں۔ یہ شخص کہتا ہے کہ میں کمپنی میں کام کرتا ہوں میرا بھائی فرحان کامرانی ہے جو کراچی یونیورسٹی میں کام کرتا ہے، میں ان خاتون کو نہیں جانتا آپ فرحان سے پوچھیں۔ مجھ سے انھوں نے پوچھا تو میں نے کہا کہ میں نہیں جانتی۔ فرحان پکڑے گئے تو انھوں نے بتایا کہ یہ انھوں نے ہی بنائے۔ کیوں بنائے یہ میں نہیں جانتی کیونکہ میرا نہ کبھی ان سے رابطہ ہوا نہ میں انھیں جانتی تھی‘‘۔
ایف آئی اے نے کیا کیا؟
خاتون پروفیسر کی درخواست کے مطابق ان کے نام سے بنے ایک فیس بک کا لنک جس میں ان کی نازیبا تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کی گئی ہیں کو نجی یونیورسٹی کے فیس بک پیج پر شیئر کیا گیا ہے۔ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل کی جانب سے اس ضمن میں انکوائری کا آغاز کیا گیا۔ فیس بک کو ایک درخواست بھجوائی گئی جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ خاتون پروفیسر کے نام سے بنے فیس بک پیجز کے آئی پی ایڈریس فراہم کرے۔ جواب میں جو تفصیلات موصول ہوئیں، ان میں فیصل کامرانی کا نام ان کے گھر کا پتا اور ان کا ای میل ایڈریس موجود تھا۔ اس کے علاوہ ان کے اکاؤنٹ اور اس کمپیوٹر کی تفصیلات بھی فراہم کی گئیں جس پر یہ آئی ڈی چلائی جا رہی تھی۔
حکام بالا سے اجازت کے بعد فیصل کامرانی کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور وہاں فیصل کی گرفتاری کے بعد ان کی نشاندہی پر فرحان کی گرفتاری ہوئی۔فرحان کامرانی نے نہ صرف جرم تسلیم کیا کہ اُنھوں نے جعلی صفحات بنائے ہیں بلکہ انھوں نے ایف آئی اے کو الیکٹرانک آلات بھی فراہم کیے جن میں براڈ بینڈ موڈیم، پی سی ڈیسک ٹاپ اور موبائل فون شامل تھا۔ ان تمام چیزوں کی جانچ کی گئی تو وہ مبینہ فیس بک آئی ڈیز اس میں موجود تھیں۔ مذکورہ اشیا ءکو فورینزک معائنے کے لیے بھجوا دیا گیا۔
لیکن خاتون پروفیسر کہتی ہیں کہ ’میرے لیے اب ایک نیا امتحان شروع ہو چکا تھا‘۔ وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ فرحان کامرانی کی گرفتاری کے بعد سے اُن کا فون بار بار بجنے لگا اور یہ کالز کراچی یونیورسٹی کے پروفیسرز کی تھیں جن کا مطالبہ تھا کہ وہ فرحان کو وہاں سے نکلواؤں۔
’’وہ کہنے لگے کہ بعد میں بات کر لیں گے، مگر تم ایسے کر رہی ہو جیسے اس نے تمھارا ریپ کر دیا ہے۔ اسی دوران مجھے ایف آئی اے کے ہی لینڈ لائن نمبر سے ایک کال موصول ہوئی جس میں ایک شخص نے کہا کہ میں فیصل کامرانی بول رہا ہوں اللہ کے واسطے ان سے کہیں کہ میرے بھائی کو چھوڑ دیں‘‘۔
وہ کہتی ہیں کہ چونکہ میں ’’جوائنٹ فیملی میں رہتی ہوں تو میرے سسرال والوں کو بھی پتہ چل گیا۔ میرے لیے اس سب کا سامنا کرنا، طرح طرح کے سوالات کا جواب دینا بہت مشکل تھا‘‘۔
ایف آئی اے کی جانب سے فرحان کامرانی کے گھر چھاپہ مارنے پر براڈ بینڈ موڈیم، پی سی ڈیسک ٹاپ اور شواہد کو دیکھنے کے بعد یہ سب سیژر میمو (ملزم سے برآمد ہونے والی اشیا کی تفصیلات) میں لکھا گیا اور پھر متعلقہ حکام کی اجازت کے بعد فرحان کامرانی کے خلاف مقدمہ درج ہؤا۔برآمد ہونے والے مواد کے فورینزک معائنے کے بعد 68 صفحات پر مشتمل رپورٹ جمع کروائی گئی۔
کیس واپس لے لو
خاتون پروفیسر کا دعویٰ ہے کہ فرحان کامرانی کی گرفتاری کے بعد انھیں کراچی یونیورسٹی میں بلایا گیا۔
’’شعبہ نفسیات اور میرے ڈپارٹمنٹ کے ایچ او ڈی اور دیگر سینئر پروفیسر اکٹھے ہوئے اور مجھے کہا کہ کیس واپس لو۔ میں ان سب کو دیکھ رہی تھی جو برسوں سے مجھے جانتے ہیں میں ان میں سے چند کی طالبہ
بھی رہی ہوں، یہیں سے میں نے ماسٹرز بھی کیا اور میں حیران تھی کہ یہ سب جانتے ہوئے بھی مجھ سے یہ مطالبہ کیوں کر رہے ہیں‘‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے کہا یہ جو دو سو سکرین شاٹ اور چار پروفائل ہیں۔ آپ یہ دیکھ لیں اور پھر فیصلہ کرنا، اور میں کمرے سے باہر چلی گئی۔ واپس لوٹی تو شعبے کی سربراہ رو رہی تھیں، وہ میرے قریب آئیں اور کہا کہ اگر میری بیٹی کے ساتھ ہوتا تو میں اس شخص کو کبھی نہ چھوڑتی۔ انھوں نے کہا کہ میں باہر جا رہی ہوں اور جو آپ سب نے کہنا ہے کہہ سکتے ہیں۔ دیگر چاروں حضرات چپ تھے لیکن پھر ایک نے بولا کہ روزی دونوں کی ادھر لگی ہوئی ہے۔ معاملے کو رفع دفع کر دو‘‘۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ صورتحال ان کے لیے مشکل تھی اور ہر جانب سے ’’میرے لیے مشکلات تھیں عدالت، یونیورسٹی، معاشرہ۔ ماحول ایسے تھا جیسے مجرم میں ہوں‘‘۔
یونیورسٹی والوں کا مطالبہ اپنی جگہ تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ ایف آئی اے کے جس سیکشن میں شکایت درج کروائی گئی تھی اس کے تحت یہ ریاست کا ملزم تھا کیونکہ خاتون نے اپنی درخواست نامعلوم شخص کے نام درج کروائی تھی۔
عدالت میں جرم تسلیم کرنے سے انکار کیا
فرحان کامرانی نے عدالت میں جرم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے عدالت میں دلائل میں کہا کہ شواہد موجود ہیں اور ملزم نے جعلی آئی ڈی بنانے کا جرم تسلیم کیا تھا۔مدعی کی وکیل نے اپنے دلائل میں یہ بھی کہا کہ گرفتاری کے وقت اپنا جرم ملزم نے تسلیم کیا اور جائے وقوعہ سے شواہد بھی ملے جو قانون شہادت (آرٹیکل 40) کے مطابق کافی ہیں۔فرحان کی پہلی ضمانت تو نامنظور ہوئی لیکن اس نے ضمانت کروانے کے لیے ایک اور درخواست دی۔ خاتون کا دعویٰ ہے کہ اب کی بار عدالت میں ملزم نے اُن پر یہ الزام لگایا کہ وہ فرحان کو اُن سے شادی کرنے پر مجبور کر رہی تھیں۔
’’یہ الزام میرے لیے ذلت میں مزید اضافہ تھا۔ مگر میرا فیصلہ مزید پختہ ہؤا کہ اب جو بھی ہو جائے، میں یہ کیس لڑوں گی۔ اس وقت تذلیل کے احساس سے میری کیا حالت تھی میں آپ کو بتا نہیں سکتی واپسی پر میں سارے راستے اپنے شوہر کو بار بار صرف یہ بول رہی تھی کہ میں نے کچھ نہیں کیا وہ جھوٹ بول رہا ہے‘‘۔
وہ کہتی ہیں کہ سب سے اہم چیز تھی کہ’ ’میرے کیس میں جب سماعت پر جاتے تھے تو سارا دن گزرنے کے بعد کہا جاتا تھا کہ اگلی پیشی، کبھی ایف آئی اے کا بندہ نہیں آیا، کبھی اس وجہ سے بھی سماعت نہیں ہوتی تھی کہ آج تفتیشی افسر نے وردی نہیں پہنی، تین سال یہی چلتا رہا‘‘۔
اس مرحلے پر خاتون پروفیسر نے ایف آئی اے کی کیس میں مبینہ عدم دلچسپی اور سستی دیکھتے ہوئے نجی وکیل سے مدد حاصل کرنے کا سوچا لیکن ان کے پاس بھاری فیس کے پیسے نہیں تھے۔وہ کہتی ہیں کہ اس تمام عرصے میں ایک این جی او کی جانب سے مدد پر کئی وکیل ’’میری مدد کے لیے محدود وقت تک میرے مقدمے کی سماعت میں ساتھ رہے لیکن ایف آئی اے والوں نے میرے پرائیویٹ وکیل کی جانب سے کچھ دستاویزات کے مطالبے پر کہا کہ ہمیں اجازت نہیں آپ عدالت سے لیں‘‘۔
پولیس فائل اورسیژر میمو غائب
لیکن پھر ایک سماعت پر درخواست گزار کو یہ پتا چلا کہ ان کے مقدمے کی تو پولیس فائل ہی غائب ہے۔ تفتیشی افسر غائب تھے اور پھر بہت چیک کرنے پر متعلقہ تفتیشی افسر نے اس کی ذمہ داری عدالت پر عائد کی کہ وہاں سے فائل واپس ہی نہیں ملی۔پھر خاتون پروفیسر نے جسٹس ریٹائرڈ ماجدہ اور انسانی حقوق کے ادارے کی مدد لی۔ اس کے بعد مدعی خاتون نے ملک میں موجود انسانی حقوق کے کمیشن سمیت مختلف اداروں سے رجوع کیا۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو اور سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بھی خط لکھا۔
وہ کہتی ہیں کہ’ ’اتنی خواری تھی کہ دل کرتا تھا مر جاؤں، چھوڑ دوں سب کچھ لیکن میرے اندر یہ امید تھی کہ شاید میری عزت پر جو بات کی گئی ہے میں اسے غلط ثابت کر سکوں‘‘۔
وہ بتاتی ہیں کہ’ ’عدالت میں خواری الگ تھی، میری نوکری، بچے،
پڑھائی اور گھر سب متاثر ہو رہا تھا۔ میرے شوہر مجھے عدالت میں چھوڑ کر بچوں کو سکول سے لینے جاتے پھر واپس آتے، ایسے ہی سالوں سال بیت گئے۔ میں شدید ڈپریشن میں رہنے کے باعث اعصابی تناؤ کی شکار ہو چکی ہوں اور نیند کی گولیاں بھی مجھے چند گھنٹوں کی پرسکون نیند دینے میں ناکام ہو چکی ہیں‘‘۔
وہ بتاتی ہیں ’’ایک روز ایک ٹیچر نے وفاقی محتسب کا نام لیا تو میں وہاں پہنچ گئی۔ وفاقی محتسب نے پہلے تو آس دلائی، لیکن پھر ایک ہفتے بعد جواب ملا کہ آپ کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے اور یہ ریاست کا مقدمہ ہے، ہم اسے نہیں دیکھ سکتے‘‘۔
خاتون کے مطابق اب آخری مرحلہ ایف آئی اے کے خلاف پٹیشن کا تھا کیونکہ پولیس فائل کہاں تھی، ہمیں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔
’’ایک ڈپٹی ڈائریکٹر نے پٹیشن دائر ہونے کے بعد مجھے کال کی کہ میڈم ہم فائل ڈھونڈ رہے ہیں، آپ نے تو جا کر ہمارے خلاف درخواست کر دی ہے۔ اب ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو بلایا تو انھوں نے کہا کہ ہم کاپیاں نکال رہے ہیں مگر ہمارے پاس سیژر میمو نہیں ہے‘‘۔
وہ کہنے لگیں کہ اب ’’میں 2016 میں نہیں 2019 میں کھڑی تھی اور اب پولیس فائل کے بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ سیژر میمو نہیں ہے۔ پھر پٹیشن ہائی کورٹ میں ڈالی گئی اور پھر پولیس فائلز اور سیژر میمو کو پیش کیا گیا‘‘۔
’’فیصلہ نہیں آ رہا تھا، پھر میری وکیل نے ہائی کورٹ میں ایک درخواست ڈالی کہ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں آ رہا۔ پھر ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود کہ فیصلہ دو ماہ میں دیں، ایک اور سال پھر گزر گیا‘‘۔
دوسری جانب وکیلِ دفاع نے کہا کہ ان کے مؤکل سے حراست میں لیا جانے والا بیان قابل قبول نہیں۔ یہ بھی اعتراض تھا کہ فیس بک اور انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر کمپنی سے معلومات لینے کے لیے ارسال کیا گیا لیٹر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔یہ بھی کہا گیا کہ استغاثہ نے فورینزک کے لیے بھجوائی گئی ہارڈ ڈسک کو بھی پیش نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مقدمے میں بہت سی کمزوریاں ہیں۔چوتھی درخواست پر ملزم فرحان کامرانی کو ضمانت ملی لیکن مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد انھیں کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا اور سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔مدعی کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے سکرین شاٹس میں اس فیس بک اکاؤنٹ کا حوالہ بھی دیا گیا جن میں مجرم کے حق میں لکھا جاتا تھا اور خاتون پروفیسر کے خلاف بولا جاتا تھا۔
خاتون پروفیسر کے مطابق فرحان کامرانی نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ ’’میں ایک سائکاٹرسٹ ہوں، میرے مریض گھر آتے ہیں اور اپنی ہسٹری بناتے ہیں۔ میں نے اپنے گھر والوں سے کہہ رکھا ہے کہ اگر کوئی آئے تو اسے میرا لیپ ٹاپ استعمال کرنے کی اجازت دیں۔ کسی نے اس دوران بنائے ہوں گے جعلی پیج، مجھے معلوم نہیں‘‘۔
پھر کسی عورت کے ساتھ کوئی ایسا کرنے کی جرأت نہ کرے
خاتون پروفیسر کہتی ہیں کہ ’’مجھے انصاف کی توقع نہیں تھی اپنے لیے لیکن اس روز فیصلہ میرے حق میں آیا۔ کمرہ عدالت میں جب جج صاحب فیصلہ سنا رہے تھے تو میں کچھ سن نہیں رہی تھی۔ میری آنکھیں بند تھیں اور میں بس خدا سے اپنی عزت کی دعا کر رہی تھی۔ فیصلہ آیا تو وہاں کے عملے میں موجود کچھ لوگوں نے آ کر ہمارے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ جب سے نوکری کر رہے ہیں ہمیں پہلی بار لگا کہ اللہ اوپر ہے، ہمیں امید نہیں تھی کہ تم مقدمہ جیتو گی‘‘۔
وہ کہتی ہیں کہ جج بدلے، وکیل بدلے، لیکن رویے نہیں بدلے۔ ’’میرا فون اب بھی بار بار بجتا ہے۔ میں اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتی، مجھے اس انصاف کے حصول کے لیے ایک لمبی اذیت سے گزرنا پڑا ہے اور میں اب بھی خوف زدہ ہوں کہ میرے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔اللہ میرے شوہر کو اس کا اجر دے جنھوں نے ہر پل میرا ساتھ دیا۔ میرے شوہر نے کہا مجھے تم پر کوئی شک نہیں تھا، میں چاہتا ہوں کہ اس مقدمے کو دیکھ کر اب کسی کی ہمت نہ ہو کسی خاتون، کسی بیٹی کے ساتھ ایسا کرے۔ میں خود اس لیے بھاگی دوڑی ہوں کہ بہت مائیں ہیں جو شاید میری طرح بھاگ دوڑ نہ سکیں‘‘۔
٭ ٭ ٭