سکپ کا ایک دوست سٹریٹ پریسٹ تھا۔ یعنی سڑک کا پادری۔ وہ ایک بہت بڑی صلیب اٹھائے گلیوں میں پھرتا، جب کوئی اس کی طرف متوجہ ہوتا یا بات چیت کرتا تو موقع پاتے ہی اسے ایک چھوٹی سی بائبل پڑھنے کے لیے دے دیتا۔ ایک دن سکپ محمد المصری کو عیسائیت کی دعوت دینے کے سلسلے میں مشورہ لینے کے لیے اس سے ملنے چلا گیا۔
”میرا ایک مصری مسلم دوست ہے۔“ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ دوست نے غصےسے گھورتے ہوئے پوچھا: ”مسلم؟ تم اس سے کیوں ملے،اس سے دور رہو۔“
سکپ نے جواب دیا: ”وہ بہت اچھا اور نفیس آدمی ہے۔“
دوست بھاری آواز میں بولا: ”اس کی کتاب ہرگز نہ پڑھنا۔“
”کون سی کتاب؟“ سکپ نے تعجب سے پوچھا۔
”کووران۔“ دوست نے انگریزی لہجے میں قرآن مجید کا نام لیا۔
سکپ نے ابھی تک ایسی کوئی کتاب احمد کے پاس نہ دیکھی تھی، نا ہی اس کا ذکر سنا تھا۔ خیر مجھے اس سے کیا۔ یہ سوچ کر وہ دوسری باتوں میں مشغول ہوگیا۔
٭ ٭ ٭
ایک دن محمد المصری معمول سے کچھ وزنی کتاب اٹھائے سٹور میں داخل ہوا اور سکپ سے پوچھا: ”یہ ہماری مقدس کتاب قرآن مجید ہے۔ کیا میں اسے پڑھنے کے لیے سٹور میں ایک طرف رکھ سکتا ہوں؟“
”ہاں ہاں کیوں نہیں!“ اس نے کتاب کو غور سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
اس کے ذہن میں اپنے دوست کی باتیں گونج رہی تھیں۔
”اس کتاب کو کھول کر مت دیکھنا۔“ اس نے اپنے آپ سے کہا۔
احمد کتاب کو میز پر رکھ کر دوسری منزل پر جا چکا تھا۔
سکپ اپنےکام کےدوران کبھی کبھی نظراٹھاکرکتاب کودیکھ لیتاتھا۔آخر وہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوگیا۔ اس نے دل میں دعا کی: ”اے خدا اگر اس کتاب میں مجھے نقصان پہنچانے والی کوئی بات ہو تو مجھے بچا لینا۔“ اور کتاب کو کھول لیا۔ ایک سفید صفحہ سامنے آ گیا، اسے الٹا تو وہ کتاب کا آخری صفحہ تھا۔ “او میرے خدا!“ یہ کتاب تو الٹ چھاپ دی گئی ہے۔ کس قدر بےوقوف لوگ ہیں اس نے قرآن مجید کو پلٹا اور دوسری طرف سے کھول لیا۔
’’بسم الله الرحمن الرحیم ۔‘‘
عربی کو چھوڑ کر اس نے نیچے لکھا انگلش ترجمہ پڑھنا شروع کیا۔
’’الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان ، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک لکھا ہے۔ “اس نے سوچا۔
اگلی سطر پر نظر دوڑائی ۔’’ تمام تعریفیں اسی الله کی ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ ‘‘
”یہ بھی ٹھیک ہے۔ “اس کے دل نے کہا۔
’’جو بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے ‘‘….. اسی طرح اس نے سورہ فاتحہ کا مکمل ترجمہ پڑھ لیا۔ا” اس میں ایسا کچھ بھی نہیں لکھا جو غلط ہو ۔ “
اس کا ہاتھ اگلا صفحہ کھولنے کے لیے بڑھا لیکن اس نے اسے روک لیا اور جلدی سے کتاب کو بند کر دیا۔
٭ ٭ ٭
دن گزرتے رہے، سکپ اپنی عبادت گاہ میں جاتا، معمول کے مطابق مذہبی کام سرانجام دیتا اور اپنے پیروکاروں سے بھی ملتا رہتا۔ محمد کے ساتھ کاروبار بھی نہایت عمدگی سے چل رہا تھا۔ ایک دن اس کا دوست جو کہ سٹریٹ پریسٹ تھا، بیمار ہو گیا۔ اسے ہارٹ اٹیک ہوا تھا؛ چنانچہ اسے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا اور کافی عرصہ اسے ہسپتال میں رہنا پڑا۔ سکپ ہر دوسرے تیسرے دن سٹور سے واپسی پر، اس کی خبر گیری کے لیے ہسپتال جاتا۔ اکثر محمد بھی اس کے ہمراہ ہوتا۔ دورانِ گفتگو سکپ کی کوشش ہوتی کہ مذہب اور عقائد کے موضوع پر بات کی جائے لیکن اس کا دوست اس موضوع کو پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ اسلام یا اس کی تعلیمات کے متعلق گفتگو میں بالکل دلچسپی نہیں لیتا تھا۔
ایک دن سکپ اس سے ملاقات کے لیے گیا تو کمرے کا دوسرا مریض اپنی وہیل چئیر گھسیٹتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔ سکپ اس کے پاس چلا گیا اور اس سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے انتہائی بے رُخی سے جواب دیا: ”میرا نام کچھ بھی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“
سکپ نے پھر سوال کیا:” آپ کہاں سے آئے ہیں؟“
اس نے تلخی سے جواب دیا: ”مریخ سے۔“
وہ اس کا جواب سن کر حیران ہوا اور سوچنے لگا یہ دل کا وارڈ ہے یا دماغ کا، پھرمنفی خیالات جھٹکتے ہوئے اس نے مریض کی تنہائی اور افسردگی کو شدت سے محسوس کیا؛ چنانچہ ایک مذہبی رہنما ہونے کی حیثیت سے اسے خدا کی طرف متوجہ کرنے اور مایوسی سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ سکپ نے اسے یوناہ یعنی یونس علیہ السلام کا قصہ سنانا شروع کیا کہ کس طرح خدا نے انہیں ایک گمراہ قوم کی ہدایت کے لیے بھیجا اور کیسے وہ لوگوں کی مخالفت اور دشمنی کی وجہ سے انہیں چھوڑ کر ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ سمندر میں طوفان آ جانے کی وجہ سے کشتی میں سوار لوگوں نے یوناہ (یونس علیہ السلام ) کو سمندر میں پھینک دیا اور ایک بڑی وہیل انہیں نگل کر سمندر کی تہہ میں چلی گئی۔ یوناہ( یونس علیہ السلام ) تین دن اور تین راتیں اس مچھلی کے پیٹ میں رہے پھر خدا کی رحمت سے مچھلی نے انہیں بحفاظت نینوا کے ساحل پر اگل دیا۔ اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم کبھی بھی اپنی زندگی کی مشکلات سے بھاگ نہیں سکتے اور ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، البتہ ہمارے تمام حالات و مشکلات کو خدا جانتا ہے۔
وہیل چیئر پر بیٹھا شخص سکون سے اسکپ کی کہانی سنتا رہا پھر کہنے لگا: ’’بالکل ایسا ہی ہے۔‘‘
اگلی چند ملاقاتوں میں سکپ مسلسل اس کی دلجوئی کرتا رہا۔ آخر کار اس نے اپنے تلخ رویے کی معذرت کرتے ہوئے اسے بتایا کہ آج کل وہ ذہنی طور پر بہت پریشان ہے۔ وہ عیسائیت کے اعتراف کرنے والے عقیدے کے مطابق اس کے سامنے کچھ قبول کرنا چاہتا ہے۔
عیسائیت کا ایک فرقہ جسے کتھولک کہتے ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ پادری کے سامنے گناہ کا اعتراف کر لینے سےوہ گناہ سے پاک اور بری ہوجاتے ہیں۔
سکپ نے کہا: ’’سوری! تم میرے سامنے اعتراف نہیں کر سکتے کیونکہ میں کیتھولک نہیں ہوں۔‘‘
اس شخص نے جواب دیا: ’’ہاں! میں جانتا ہوں کیونکہ میں خود کیتھولک پادری ہوں۔‘‘
سکپ یہ سن کر متعجب ہوا، اور دل میں کہا: ’’او میرے خدا! اس دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے، کیا میں اتنے دنوں تک ایک پادری کو عیسائیت کی دعوت دیتا رہا ہوں؟‘‘
اس پادری کا تعلق لاطینی امریکہ سے تھا اور اس کا نام پیٹر جیکب تھا، اس نے بتایا کہ وہ شمالی امریکہ، سنٹرل امریکہ، میکسکو اور نیو یارک میں بارہ سال تک چرچ کی مذہبی خدمات سر انجام دیتا رہا ہے۔ بیماری کے بعد وہ کئی سال سے اس ہسپتال میں ہے۔ وہ ہسپتال کی زندگی اور تنہائی سے سخت بیزار تھا اور اپنی باقی ماندہ زندگی کسی خاندان کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ (کیتھولک پادری شادی نہیں کرسکتے، اس لیے ان کا خاندان نہیں ہوتا)
نرم مزاج سکپ اس کے حالات سن کر بہت متاثر ہوا۔ گھر واپس آکر اپنے والد سے اس کے متعلق بات چیت کی اور انہیں آمادہ کیا کہ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر میں رہنے کی دعوت دیں۔
چنانچہ گھر والوں کی رضامندی سے وہ پادری ان کے گھر رہنے کے لیے آ گیا۔
سکپ نے اس سے بھی اسلام کے عقائد کے متعلق بات چیت کی اور اس کا جواب سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ پیٹر نے نہ صرف اس کی باتوں کی تصدیق کی بلکہ مزید بہت سی باتیں بتائیں۔ اس نے بتایا کہ کیتھولک پادری اسلامی تعلیمات باقاعدہ طور پر سیکھتے ہیں، بلکہ کچھ تو اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی ڈاکٹرز بھی ہوتے ہیں۔ سکپ یہ سن کر انتہائی متعجب ہوا لیکن ابھی اس حیرت کدے میں بہت کچھ باقی تھا۔
گھر کے معمولات میں شامل تھا کہ رات کے کھانے کے بعد تمام افراد تھوڑی دیر بائبل سنتے اور مذہبی امور پر گفتگو کرتے۔ سکپ کے ہاتھ میں بائبل کا نیو ایڈیشن ہوتا، اس کے والد اپنی بائبل جو کنگ جیمز کا ایڈیشن تھا، وہ لے آتے، اس کی بیوی کے پاس اس کی بائبل ( گُڈ نیوز فار ماڈرن مین ) ہوتی، اور پادری کے پاس اپنی قدیم بائبل ہوتی جو پروٹسٹنٹ یعنی اسکپ کے فرقے کی بائبل سے زائد ابواب پر مشتمل تھی۔ یہ ساری کتابیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں۔ ان کا زیادہ تر وقت اس بحث میں گزرتا کہ کون سی بائبل میں کیا بات بیان ہوئی ہے اور کس بائبل کی کون سی بات دوسری بائبل سے زیادہ صحیح ہے۔ گھر کے تمام افراد کے ساتھ محمد المصری بھی وہاں موجود ہوتا۔ اسی دوران سکپ اسے بھی عیسائیت کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا۔ محمد المصری اس کی ہر بات بظاہر بڑے غور سے سنتا، دھیمے سے مسکراتا مگر خاموش رہتا۔
قرآن مجید دیکھ لینے کے بعد، ایک دن سکپ نے محمد المصری سے اس کی مذہبی کتاب کے متعلق سوال کیا: ’’محمد! تمہاری کتاب کے کون کون سے اور کتنے ایڈیشن ہیں ؟ “
محمد نے جواب دیا: ”صرف ایک !“
سکپ نے تعجب سے پوچھا:” کیا اتنے عرصے میں اس کا دوسرا کوئی ایڈیشن نہیں چھپا؟ “
محمد نے بتایا: ”قرآن مجید عربی زبان میں ہے اور چودہ سو سال سے اپنی اصل حالت میں ہے۔“
پھر خلاف عادت بات کو بڑھاتے ہوئے کہنے لگا: ”دنیا کے تمام ممالک میں جہاں جہاں مسلمان موجود ہیں ہزاروں لوگ قرآن مجید کو زبانی یاد کرتے ہیں، خاص طور پر بچے، جب سے یہ کتاب نازل ہوئی، بے شمار لوگوں نے اس پوری کتاب کو حفظ کیا اور دوسروں کو سکھایا ، لفظ بہ لفظ بغیر زیر زبر کی تبدیلی کے، آج بھی دنیا میں نوے لاکھ سے زیادہ حافظِ قرآن موجود ہیں۔“
سکپ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا: ”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟“
سوالات اس کے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح ضربیں لگانے لگے۔ اس نے سوچا: بائبل کی کوئی زبان نہیں۔ ہزاروں سال سے ہر زبان میں بائبل کے کئی ایڈیشن چھپتے ہیں لیکن ایک ایڈیشن دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتا؛ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب کو اس کی اصل زبان میں، لفظ بہ لفظ، کئی سو سال سے یاد کرکے سینوں میں محفوظ رکھا گیا ہو، اوراس میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی ہو؟
(جاری ہے)
٭ ٭ ٭