فلسفہ ابھرا ہے روح و جسم کی تقسیم کا
پھر بپا ہے معرکہ نمرود و ابراہیم کا
روح تن سے گر الگ ہو جائے کیا باقی رہے
مسئلہ ہے یہ تو ذہن و عقل کی تفہیم کا
جسم ہوتاہے توانا روح کی تحریک سے
پھینک دو باہر اٹھا کر فلسفہ دونیم کا
معرکہ ہے حق و باطل کا ازل سے تا ابد
ہے یہ نسخہ کارگاہِ زیست کی تنظیم کا
معرکہ ہو عشق کا تو کود جا تو بے خطر
دے رہا ہے یہ سبق ایمانِ ابراہیم کا
اہم ہے رب کی رضا تیری رضا کچھ بھی نہیں
مسئلہ ہے یہ تو میرے آپ کے تسلیم کا
اس شہادت گاہِ الفت میں قدم رکھتا ہے جو
پھر وہ پالیتا ہے تحفہ کوثرو تسنیم کا
زیست پر وہ حکمراں ہے موت پر بھی حکمراں
ربط ہے اس ذات سے میرا امید وبیم کا