جویریہ اور جنید کا ہفتہ اور اتوار کا دن باغ میں گزرتا تھا ۔ آج بھی وہ صبح سے مالی بابا کے ساتھ لگے ہوئے تھے ۔ کبھی کیاریاں صاف کرتے تھے۔ کبھی پودوں پر دوائی چھڑکتے، کبھی پکے ہوئے پھل اتارتے اور کبھی نئے پودے لگانے میںمالی بابا کا ہاتھ بٹاتے ۔ ساتھ ہی ساتھ تینوں باتیں بھی کر رہے تھے ۔ مالی بابا کہہ رہے تھے ۔
’’ ڈاکٹر صاحب کے حادثے کا سن کر بہت افسوس ہوا جنید بابو خدا ان کو شفا دے ۔بڑے نیک آدمی ہیں۔‘‘
’’ جی مالی بابا ۔ آپ کو پتا ہے نا کہ ان کا سیدھا ہاتھ بہت زخمی ہوا ہے ۔‘‘جنید نے پوچھا۔
’’ جی ، مجھے پتا چلا ہے یہ بہت برا ہوا ہے ۔ اب وہ کیسے ہسپتال میں کام کریں گے ؟ ان کی نوکری چلے جائے گی پھر جب آدمی کا م نہ کر پائے تو بہت مایوس ہو جاتا ہے ۔‘‘
’’ بس مالی بابا ! ان کے لیے دعا کریں ۔‘‘جویریہ بولی۔
’’ بیٹی ، میں ہر نماز میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں ۔ خدا ان کو جلد صحت یاب کرے۔ آپ ان سے ملنے جائیں تو میرا سلام اور دعا ضرورد یجیے گا ۔ اچھا اب میں چلتا ہوں ۔آپ دونوں کی مدد سے کام جلدی ہو گیا۔‘‘
مالی بابا گھر چلے گئے اور جویریہ اورجنید اپنی اُگائی ہوئی سبزیاں دیکھنے کیاری کی طرف چل دئیے ۔ ابراہیم کے کمرے کی کھڑی اس کیاری کی طرف کھلتی تھی ۔ وہ اندر بیٹھا اپنے چھوٹے بھائی بہن کی گفتگو صاف سن سکتا تھا۔
’’ جنید ، مالی بابا ٹھیک کہہ رہے تھے ۔ ابا اب آپریشن نہیں کر سکیں گے تو گھر کا خرچہ کیسے چلے گا ؟‘‘ جویریہ کے لہجے میں پریشانی تھی ۔
’’ اس مشکل وقت میں ہم سب کو اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا ۔‘‘جنید نے کہا۔
’’ ہم تو صرف باغ بانی کے بارے میں ہی جانتے ہیں ۔ ہم کیا کریں ؟‘‘
’’ دیکھو، مالی بابا کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ ہم دونوں کسی اچھے مالی سے کم نہیں ہیں ۔ کیوںنہ ہم دونوں اسکول کے بعد لوگوں کے گھروں میں جا کر کام کیا کریں ؟‘‘ جنید نے تجویز دی۔
’’ امی کبھی نہیں مانیں گی ۔ وہ ہمیشہ ہم کو چھوٹا ہی کہتی ہیں حالانکہ اب ہم گیارہ سال کے ہونے والے ہیں۔ ‘‘ جویریہ نے مایوسی سے کہا۔
’’ تو پھر ہم اپنا ہی باغ سنبھال لیتے ہیں ۔ ہم اور بھی زیادہ پھل اور سبزیاں اُگا کر انھیں بیچ سکتے ہیں ۔ مالی بابا کو تو ویسے ہی بہت سے لوگ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ہمارا کام چھوڑ کر کہیں بھی جا سکتے ہیں ۔‘‘
’’ ہاں جنید! یہ تو بہت اچھی تجویز ہے ۔ اسی طرح مالی بابا کی تنخواہ بھی بچ جائے گی اور ہم کچھ کما بھی لیں گے ۔‘‘ جویریہ خوش ہوتے ہوئے بولی۔
ابراہیم یہ ساری گفتگو سن رہا تھا ۔ وہ حیران تھا کہ دس سالہ جویریہ اور جنید کتنی سمجھداری کا ثبوت دے رہے تھے اور وہ چودہ پندرہ سال کا ہٹا کٹا لڑکا کسی کام کے لائق نہ تھا؟
’’ مگر جویریہ ، یہ کام آسان نہ ہوگا ۔ خوب محنت کرنی پڑے گی ۔ اسکول سے آکر پوری شام باغ کی دیکھ بھال میں لگ جائے گی ۔‘‘ جنید ذرا متفکر تھا۔
’’ کوئی بات نہیں جنید ۔ ہم مل کر سارا کام کر لیں گے ۔ہم ابراہیم بھائی سے بھی مدد مانگ سکتے ہیں ۔‘‘ وہ پر جوش ہو رہی تھی۔
’’ ابراہیم بھائی کو تو ہنسی مذاق سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ہم مدد مانگیں گے تو ہمارا مذاق اڑائیں گے اور ویسے بھی کام کی کوئی بات ان کو یاد ہی نہیں رہتی ۔‘‘ جنید نے اس کی بات رد کردی۔
’’ ٹھیک کہہ رہے ہو ۔ ہمیں خود ہی سب کرنا پڑے گا ۔‘‘ جویریہ متفق ہو گئی۔
’’اچھا میں نماز کے لیے مسجد جا رہا ہوں ۔ وہاں بہت سکون ملتا ہے ۔ تم بھی نماز پڑھ لو۔ ‘‘ جنید یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا۔
ابراہیم کو اپنے چھوٹے بہن بھائی کی گفتگو سن کر پہلے تو غصہ آیا مگر پھر اسے احساس ہوا کہ وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں سوچ رہے تھے۔پچھلے ہی مہینے ابراہیم نے دادی جان پر شیخی بگھار نے کے لیے باغ میں کام کیا تو پھاوڑا بغیر صاف کیے یوں ہی باغ میں چھوڑ دیا اور وہ بارش میں زنگ آلود ہو گیا ۔ وہ واقعی اعتماد کے قابل نہ تھا اور اب اسکول سے نکال دیا جانا…! ندامت کے مارے وہ ہر وقت بے سکون اور مضطرب رہتا تھا۔
’’ کیا واقعی مسجد میں سکون ملتا ہے ؟ جا کر دیکھ ہی لینا چاہیے۔‘‘اس نے سوچا۔
٭…٭…٭
ابراہیم مسجد پہنچا تو عصر کی جماعت شروع ہونے والی تھی ۔ اس نے وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گیا ۔ نماز کے بعد وہ وہیں بیٹھ کر دعا مانگنے لگا تو اس کا دل بھر آیا۔
اس نے ماں باپ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ اتنا اچھا ذہن رکھنے کے باوجود اس کی قدر نہ کی اور ساری ذہانت صرف کھیل تماشوںمیںصرف کردی ۔ دوسروںکا مذاق اڑایا اور دل دکھایا ۔ آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے ۔ رفتہ رفتہ مسجد خالی ہو گئی مگر ابراہیم وہیں بیٹھا رو رو کر اللہ سے دعا مانگ رہا تھا کہ کوئی کرشمہ ہوجائے، کچھ ایسا ہو جائے کہ اس کو اسکول سے نہ نکالا جائے۔ اتنی بری رپورٹ کے ساتھ کسی اور اسکول میں داخلہ ہونا بھی مشکل تھا۔ یہ صدمہ تو اس کے والدین کو کھا ہی جائے گا ۔
مولوی صاحب مسجد کا ہال بند کرنے آئے تو ابراہیم کو وہاں بیٹھادیکھ کر چونک اٹھے۔ یہ تو وہ بچہ تھا جو جمعہ کے علاوہ کبھی مسجد کارخ نہ کرتا تھا ۔
’’ ہاں ! اس کے والد کا حادثہ ہوا ہے مگر خدا کا شکر ہے کہ وہ خطرے سے باہر ہیں پھر آخر یہ کیوں اس بری طرح رو رہا ہے ؟‘‘وہ سوچنے لگے ۔ مولوی صاحب دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ نہایت سمجھدار انسان تھے ۔ وہ آگے بڑھے اور ابراہیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اُسے اٹھایا ۔ ابراہیم کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں مولوی صاحب نے ملائمت سے کہا:
’’ بیٹا ، میں آپ کے والد کے حادثے سے باخبر ہوں ۔ وہ میرے بڑے اچھے دوست ہیں ۔ خدا ان کو مکمل شفا عطا کرے، آپ کیوں پریشان ہوتے ہو؟‘‘
ابراہیم کو محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس کا دل پھٹ جائے گا ۔ اس نے مولوی صاحب کے ہمدرد چہرے کی طرف دیکھا ، پھر ان کو ساری داستان سنا ڈالی۔ اپنی شرارتیں ، اسکول سے نکالا جانا، یہاںتک جویریہ اور جنید کے ارادے اور اپنے نکمے پن پر احساسِ بے بسی ، سب کچھ کہہ ڈالا۔
کچھ دیر تو مولوی صاحب خاموش بیٹھے رہے پھر انھوں نے ابراہیم کو سمجھایا:
’’ بیٹے! تمھارا اس رپورٹ کے ساتھ فوراً کسی اور اسکول میں داخلہ ممکن نہیں ہوگا ۔پھر آپ کے والد کچھ عرصہ تک سرجری نہ کر سکیں گے۔ ایسے حالات میں خاندان کے ہر فرد کو اپنی استطاعت کے مطابق اپنی خدمات پیش کرنی چاہئیں ۔‘‘
’’ مگر میں کیا کر سکتا ہوں مولوی صاحب!‘‘ ابراہیم نے بے بسی سے کہا ۔
’’ میں وہی آپ کو بتانے جا رہا ہوں ۔ میرے پاس آپ کے لیے ایک تجویز ہے ۔ میرے دوست حسن صاحب کے باغات ہیں ۔ جب پھل پک کر تیار ہونے والے ہوتے ہیں تو وہ ہر سال چند ماہ کے لیے جوان لڑکوں کو پھل اتارنے، وزن کرنے اور پیک کرنے کے لیے ملازم رکھتے ہیں ۔ یہ کام آپ کے لیے مناسب ہے ۔ آپ جوان بھی ہیں اور طاقتور بھی ۔ تازہ ہوا ، مشقت اور محنت آپ کے لیے نا صرف فائدہ مند ہوگی بلکہ کچھ کمائی بھی ہو جائے گی ۔ تو کیا خیال ہے آپ کا ؟ میں آپ کے لیے حسن صاحب سے بات کروں ؟‘‘ مولوی صاحب نے استفہامیہ نظروں سے ابراہیم کی طرف دیکھا۔
’’ جی مولوی صاحب ، ضرور بات کریں ۔‘‘ اس نے مدھم آواز میں کہا۔
’’ ٹھیک ہے ۔ خدا کرے آگے بھی تمام معاملات صحیح چلتے جائیں ۔ہمیں اچھی ہی امید رکھنی چاہیے ۔ ہرمشکل کے بعد آسانی ہوتی ہے ۔ بس بیٹا ایک بات یاد رکھنا کہ پیارے نبیؐ ہرمشکل میں نماز کی طرف دوڑتے تھے ۔ جس طرح آج آپ مسجد آئے ہیں، آگے بھی آتے رہیے گا۔ نماز اور دعا کو زندگی میں لازم تھام لو ۔ یہ تمام مسائل کے حل کی کنجی ہے ۔‘‘
ابراہیم کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ مولوی صاحب کے ہاتھ چوم لے ۔ اس کے دل میں امید کی کرن جاگ اٹھی تھی ۔ اگر حسن صاحب نے اس کو نوکری دے دی تو کم از کم چند مہینوں کے لیے وہ اپنی فیملی کی کچھ مالی مدد کر سکے گا اور اگر وہ اچھا کام کرے گا تو ہو سکتا ہے کہ حسن صاحب اس کو مستقل ہی رکھ لیں۔
’’ اچھا تو ابراہیم ، اب مغرب کی اذان کاوقت ہونے والا ہے ۔ مجھے تیاری کرنی ہے ۔ آپ نماز پڑھ کر ہی گھر جائیے گا۔‘‘ مولوی صاحب نے شفقت سے اس کا کندھا تھپتھپایا
’’ جی مولوی صاحب ۔ شکریہ ،بہت بہت شکریہ۔‘‘
اس دن سے ابراہیم باقاعدگی سے مسجد جانے لگا ۔ دو ہی دن بعد مولوی صاحب نے اسے بتایا کہ حسن صاحب نے اسے رکھنے کی حامی بھرلی ہے ۔ ابراہیم کی جان میں جان ٓئی اور اس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ اس موقع کو ضائع نہیں جانے دے گا ۔ دل لگا کر پوری ذمے داری سے خوب محنت کرے گا اور اس مشکل وقت میں اپنے خاندان کا سہارا بنے گا ۔
(جاری ہے )
مدیحہ نورانی
٭٭٭