رسول اللہﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔اور آپؐ کی بعثت کا مقصد بھی وہی ہے جو دیگر انبیاء علیھم السلام کا تھا۔آپؐ کو بھی اللہ تعالیٰٰ نے وہی ابدی پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا تھا کہ : ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے پرہیز کرو‘‘۔ (النحل،۳۶)
گویا کہ آپؐ کوئی نئی چیز نہیں لائے تھے بلکہ اسی پیغام کی تکرار تھی جو پہلے انبیاء لائے تھے، ارشاد الٰہی ہے:
’’یہ ایک ڈرانے والا ہے اگلے ڈرانے والوں میں سے‘‘۔ (النجم،۵۶)
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو دین کی دعوت پیش کرنے کے لیے بھیجا تو آپؐ کوئی نیا دین نہیں لائے تھے، یہ وہی صاف ستھرا اور واضح پیغام تھا جو حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت عیسیؑ نے پیش کیا تھا۔ اور آپؐ کے ساتھ بھی وہی پیش آیا جو گزشتہ انبیاء کے ساتھ پیش آیا تھا۔ حق کے بیان کے ساتھ ہی آپؐ نے گویا انگاروں پر قدم رکھ دیا تھا۔ اس دعوت کا اقرار کرنے والے کم اور انکار کرنے والے زیادہ تھے۔مکہ کے مترفین نے آگے بڑھ کر اس کا انکار کردیا تو رب تعالی آپؐ کو تسلی دی اورفرمایا:
’’ان جھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو، اور انہیں کچھ دیر اسی حالت پر رہنے دو‘‘۔ (المزمل، ۱۱)
یعنی یہ دعوت تو میری دعوت ہے، تمہارے ذمہ تو صرف تبلیغ ہے۔ انہیں جھٹلانے دو اور تم ان کو شریفانہ انداز میں چھوڑ دو۔ ان کے ساتھ میں خود جنگ کروں گا۔ تم اس بارے میں پریشان نہ ہو۔(فی ظلال القرآن)
رسول اللہ ؐ کی حیثیت
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں آپؐ کی حیثیت بیان فرماتا ہے:
’’اے نبیؐ! ہم نے تمھیں گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے‘‘۔ (الاحزاب، ۴۶)
آپؐ انسانوں کے درمیان اللہ کے فرستادے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فرامین کو جوں کا توں آگے پہنچا دیتے۔ اس کی داخلی شہادت قرآن کے الفاظ میں بھی ملتی ہے جہاں متعدد مقامات پر ’’قل‘‘ کہہ کر حکم دیا جاتا ہے، یعنی (اے نبیؐ) کہہ دیجیے۔ معجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم کے مطابق قل کا لفظ قرآن کریم میں ۳۳۲ مرتبہ وارد ہو&ٔا ہے۔ جس میں سے ۳۲۸ مرتبہ رسول اللہ ؐ کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ ’’آپؐ کہہ دیجیے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ؐ کو جو کچھ بیان کرنے کو کہا جاتا، آپؐ اسی طرح بیان کر دیتے اور نہ اس کے الفاظ بدلتے اور نہ معانی۔قرآن کریم اس کی تصدیق یوں کرتا ہے:
’’وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتا، یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔ (النجم،۳۔۴)
یعنی رسول کریم ؐ قرآن کریم کے مخاطب ہیں، متکلم نہیں۔ جو آپؐ سے کہا جاتا ہے اسے بیان کرتے ہیں، اور اپنے نفس سے اس میں کچھ شامل نہیں کرتے۔
رسول اللہ ؐ کو پکار
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ؐ کو ’’یا ایھا النبی / الرسول ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔’’یا ایھا النبی‘‘ کہہ کر ۱۴ مرتبہ آپؐ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ ان میں سے پانچ مرتبہ صرف سورۃ الاحزاب میں مخاطب کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں محمد ؐ کو صرف ایک مرتبہ ’’یا ایھا الرسول‘‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے، ارشاد ہے:
’’اے پیغمبر ؐ، جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمھارے مقابلے میں)کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا‘‘۔ (المائدۃ،۶۷)
اس میں رسول اللہ ؐ کے لیے قطعی حکم ہے کہ اللہ نے جو پیغام آپ کو دیا ہے آپؐ اس کی پوری پوری تبلیغ کریں، دنیا میں پائے جانے والے حالت میں سے کسی حال کو بھی اہمیت نہ دیں اور اپنی دعوت کو کھل کر بیان کر دیں۔یہ آپؐ کا فریضہء رسالت ہے اور اگر آپؐ نے ایسا نہ کیا تو گویا رسالت کا حق ادا نہ کیا اور اپنے فرائض پوری طرح انجام نہ دیے۔رہی بات دشمن تمھارا کچھ بگاڑ لیں گے تو یقین رکھو اللہ آپؐ کو لوگوں سے بچائے گا۔ اور جس کو بچانے کا ذمہ اللہ لے لے تو لوگ اللہ کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتے ہیں کہ اس کو کوئی نقصان پہنچا سکیں گے۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الْیۃ)
رسول اللہ ؐ نے حرم میں اسلامی طریقے پر نماز پڑھنی شروع کی تو ابو جہل نے آپؐ کو ڈرا دھمکا کر اس سے روکنا چاہا۔ اس کی رگِ جاہلیت پھڑک اٹھی اور اس نے لات و عزی کی قسم کھا کر کہا : ’’اگر میں نے محمدؐکو زمین پر اپنا منہ ٹکا کرنماز پڑھتے دیکھ لیاتو ان کی گردن پر پاؤں رکھ دوں گا۔اور ان کا منہ زمین میں رگڑ دوں گا (معاذ اللہ)‘‘۔اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا: ’’تم نے دیکھا اس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو؟ ۔۔ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟ ہرگز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے، اس پیشانی کو جو جھوٹی اور خطا کار ہے‘‘۔ (العلق، ۸۔۱۰، ۱۳۔۱۶)
ابوجہل نے جب اپنی دھمکی کی تکمیل کرنا چاہی اور وہ آپؐ کو نماز پڑھتے دیکھ کرآگے بڑھا، تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ اچانک پیچھے ہٹنے لگا ہے، اور اپنا منہ کسی چیز سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور پوچھنے پر اس نے بتایا : ’’میرے اور ان کے درمیان آگ کی ایک خندق اور ایک ہولناک چیز تھی اور کچھ پر تھے‘‘۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اگر وہ میرے قریب پھٹکتا تو فرشتے اس کے چیتھڑے اڑا دیتے۔ (احمد، مسلم، ترمذی، نسانی)
آپؐ مذکِّر ہیں
اللہ تعالیٰ رسول کریم سے فرماتا ہے:
’’اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جاؤ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘۔ (الغاشیۃ، ۲۱)
دعوتِ اسلامی کے معاملے میں آپؐ کا کردار بس اسی قدر ہے کہ آپؐ دعوت پہنچا دیں۔ اگر معقول دلیل سے کوئی بات نہیں مانتا تو نہ مانے۔ تمھارے سپرد یہ کام تو نہیں کیا گیا ہے کہ نہ ماننے والوں کو زبردستی منواؤ۔ تمھارا کام بس یہ ہے کہ لوگوں کو صحیح اور غلط کا فرق بتا دواور غلط راہ پر چلنے کے انجام سے خبردار کر دو۔ سو یہ کام سرانجام دیتے رہو۔(تفہیم القرآن، ج۶، ص۳۲۲)
طالبِ حق کو ترجیح
جس شخص کی ظاہری حالت بتا رہی ہو کہ وہ طالبِ حق ہے، داعیء حق کی نگاہ میں اسے زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے، رسول اللہ ؐ نے نابینا صحابی ابنِ امِّ مکتوم کے مجلس میں آنے پر ناگواری محسوس کی، جس وقت آپؐ سردارانِ قریش کو حق کی نصیحت فرما رہے تھے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپؐ کو متوجہ کیا گیا ، ارشادِ الٰہی ہے:
’’جو شخص بے پروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا چلا آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے، اس سے تم بے رخی برتتے ہو‘‘۔ (عبس،۵۔۱۰)
حضرت محمدؐ کی شخصیت ان ہدایات اور اس عتاب سے بے حد متاثر ہوئی۔ آپؐ نے پورے جوش و خروش سے ان ہدایات کو قبول کیا۔اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو متوجہ فرمایا کہ یہ دعوت جس کو پھیلانے کے لیے آپؐ کو منصبِ رسالت پر فائز کیا گیا، یہ ایک قابلِ قدر دعوت ہے۔اس کے صحیفے بھی مکرم ہیں۔ بلند مرتبہ اور پاکیزہ ہیں اور عالمِ بالا میں ان کا انتظام اور ان کی تبلیغ ایسے ہاتھوں میں دی گئی ہے جو نیک اور معزز ہیں۔ اس دعوت سے جڑنے والے
دور سے ہوں یا قریب سے وہ بھی مکرم اور نیک ہیں۔ اور اس دعوت کو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں، جو اس سے منہ موڑتے ہوں اور بے پروائی برتتے ہوں۔ یہ ان کے لیے ہے جو اس کی برتری اور پاکیزگی کے قائل ہیں اور جو آگے بڑھ کر اس پاکیزگی کو اختیار کرنا چاہتے ہیں۔یہ ہے معیار! اللہ کا مقرر کردہ معیار۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر عبس)
اتمامِ حجت
رسول اللہ ؐ کی ذمہ داری حق کو پہنچا دینا ہے، ارشاد ہے:
’’اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ لیکن اگر تم اطاعت سے منہ موڑتے ہو، تو ہمارے رسولؐ پر صاف صاف حق پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیںہے‘‘۔ (التغابن، ۱۲)
یعنی اطاعتِ رسول سے منہ موڑا تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔ ہمارے رسولؐ پر فقط یہ ذمہ داری تھی کہ راہِ راست تم کو ٹھیک ٹھیک بتا دے۔اور اس حق کے پہنچ جانے کے بعد امت کی ذمہ داری کو یوں بیان کیا گیا:
’’جو کچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو، اور جس چیز سے تمہیں روک دیں اس سے رک جاؤ‘‘۔ (الحشر، ۷)
رسول اللہ ؐ نے اس حکم کے مقصود کو یوں سمجھایا: ’’جب میں تمھیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرو۔ اور جس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو‘‘۔ (بخاری، مسلم)
اہل ِ ایمان کے سامنے اس اطاعت کی اہمیت بھی بیان کر دی، فرمایا:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد نہ کر لو‘‘۔ (محمد،۳۳) یعنی اعمال کے نافع اور نتیجہ خیز ہونے کا سارا انحصار اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہے۔ اطاعت سے منحرف ہونے کے بعد کوئی عمل بھی عملِ خیر نہیں رہتا کہ آدمی اس پر کوئی اجر پانے کا مستحق ہو سکے۔(تفہیم القرآن، ج۵،ص۳۰)
آپؐ کا ادب
اہلِ ایمان کو آپؐ کا ادب قرآن نے سکھایا، فرمایا:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا سب کیا کرایا غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو‘‘۔ (الحجرات۲) یہ ادب حضورؐ کی زندگی میں آپؐ کی مجلس کا ادب تھا کہ کسی شخص کی آواز آپؐ کی آواز سے بلندتر نہ ہو۔ اور بعد کے زمانے میں ایسے تمام مواقع پر یہ ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپؐ کا ذکر ہو ہا ہو، یا آپؐ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپؐ کی احادیث بیان کی جائیں۔
نبیؐ کی بارگاہ میں ذرا سی بے احتیاطی سے سارے اعمال ضائع ہو سکتے ہیں جس طرح ہٹا کٹا جانور زہریلی گھاس سے آناً فاناً ختم ہو جاتا ہے۔
آپؐ کی چار صفات
قرآن کریم میں چار مقامات پر رسول کریم ؐ کی چار بنیادی صفات بیان کی گئی ہیں، فرمایا:
’’وہی ہے جس نے امیّوں کے اندر ایک رسول خود انہیں میں سے اٹھایاجو انہیں اس کی تعلیمات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے‘‘۔ (الجمعہ،۲)
انہیں اصولوں پر آپؐ نے اس امت کو اٹھایا۔ وہ قرآن و سنت لے کر اٹھی، اس نے اپنی اصلاح کی اور پھر پوری دنیا کی تقدیر بدل ڈالی۔ اللہ نے ایک بدوی قوم کو رسول دیا، کتاب دی۔ رسول اور کتاب نے انہیں پاک کر دیا، اور ان کو حکمت اور دانائی دی، اگرچہ اس سے پہلے وہ گمراہ تھے‘‘۔ (فی ظلال القرآن)
انسانوں پر احسان
رسول اللہ ؐ کی بعثت انسانوں پر اللہ کا احسان ہے، فرمایا:
درحقیقت اہل ِ ایمان پر تو اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور انھیں کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے
تھے‘‘۔ (آل عمران،۱۶۴)
اللہ تعالیٰ احساس دلا رہا ہے کہ نبوت کے ذریعے سے تم پر جو احسانات ہوئے ان پر ذرا غور کرو۔ یہ وہ احسانِ عظیم ہے جسے دنیا کے تمام امور پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا پہلا احسان یہ کہ ایک رسول مبعوث کیا، دوسرا یہ کہ وہ رسول عربی ہے، اور خود ان میں سے ہے، ان پر آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرتا ہے، اور انہیں اللہ کے کلمات سکھاتا ہے۔ اس کرمِ عظیم کے لیے ان کا کوئی استحقاق نہیں تھا۔ یہ سراسر اللہ کا احسان ہے۔ ان کی زندگیاں سنوارتا ہے، وہ انہیں پاک کرتا ہے، ان کے دلوں، تصورات اور ان کے شعور کو پاک کرتا ہے، وہ ان کے گھرانوں کو پاک کرتا ہے، ان کی عزتوں کو پاک کرتا ہے اور ان کے روابط کو پاک کرتا ہے۔ وہ ان کی انفرادی زندگیوں اور ان کے معاشرے کو پاک کرتا ہے۔ وہ انہیں شرک کی گندگی اور خرافات و اوہام سے پاک کرتا ہے۔ اور شرفِ انسانیت سے فروتر اور گھٹیا جتنی حرکات ہو سکتی ہیں وہ ان سب سے انہیں پاک کرتا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا اس امت پر عظیم احسان تھا، اس پیغمبر کی وجہ سے، اس کتاب کی وجہ سے اور اس رسالت کی وجہ سے۔غلط راستوں سے بچنے کے لیے یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شیطان کو دھتکار دیں۔اور اللہ کے احسان کو یاد کر لیں۔(فی ظلال القرآن)
تمام انسانوں کے لیے
رسول اللہ ؐتمام انسانوں کی جانب بھیجے گئے، ارشادِ الٰہی ہے:
’’اور( اے نبیؐ!)ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔ (سبا،۲۸)
نبی کریم ؐ صرف اپنے ملک یا زمانے کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے پوری نوعِ بشری کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میں کالے اور گورے سب کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘۔ (مسند احمد،۲۱۴۷۲)
مزید فرمایا: ’’پہلے ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوا ہوں‘‘۔ (رواہ البخاری ومسلم)
آپؐ نے فرمایا: ’’میں ساری خلقت کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ختم کر دیے گئے میری آمد پر انبیاء‘‘۔ (رواہ مسلم)
آپؐ رحمت للعالمین ہیں
آپؐ کی رسالت کا خلاصہ یہ ہے کہ :
’’اے محمدؐ! ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے‘‘۔(الانبیاء، ۱۰۷)
دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: ’’ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے‘‘۔
یعنی آپؐ کی بعثت دراصل نوعِ انسانی کے لیے اللہ کی رحمت اور مہربانی ہے، کیونکہ آپؐ نے آکر غفلت میں پڑی ہوئی دنیا کو چونکایا ہے، اور اسے وہ علم دیا ہے جو حق اور باطل کا فرق واضح کرتا ہے۔ کفارِ مکہ حضورؐ کی بعثت کو اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھتے تھے، اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے، ناخن سے گوشت جدا کر کے رکھ دیا ہے۔ اس پر فرمایا گیا: نادانو! تم جسے زحمت سمجھ رہے ہو وہی درحقیقت تمہارے لیے خدا کی رحمت ہے۔ (تفہیم القرآن، نفس الآیۃ)
اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت عمومی اور خصوصی طور پر بندوں کے حق میں رحمت ہے۔آپؐ تمام انسانوں کے حق میں رحمت تھے، بلکہ تمام مخلوقات کے لیے بھی رحمت! ابن ِ عباس کہتے ہیں کہ: جس نے آپؐ کا اتباع کیا اس کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں رحمت ہے۔
نرم روی بھی رحمت
رسول اللہ ؐ کی نرمی اللہ کی جانب سے خاص رحمت ہے، فرمایا:
’’(اے پیغمبر!ؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے‘‘۔ (آل عمران، ۱۵۹)
یہ اللہ ہی کی رحمت تھی جو رسول اللہ ؐ کے شاملِ حال تھی اور آپؐ کو ان کے لیے رحیم و شفیق اور نرم خو بنا دیا۔ اگر آپؐ سنگ دل ہوتے سخت مزاج ہوتے تو یہ (صحابہ کی) جمعیت منتشر ہو جاتی، لوگوں کے خیالات آپؐ کے ہم آہنگ نہ ہوتے۔ عوام الناس کو ایک پر شفقت بارگاہ درکار ہوتی ہے، جہاں ان کے ساتھ نہایت رعایتی برتاؤ کیا جاتا ہو، جہاں خندہ
پیشانی سے ان کا استقبال کیا جاتا ہو، جہاں سے انہیں محبت ملتی ہو، جہاں ان کی غلطیوں کمزوریوں اور نقائص سے درگزر کیا جاتا ہو۔ جہاں قائد اتنے بڑے دل کا مالک ہو کہ وہ انہیں سب کچھ دے رہا ہو، جہاں قائد اپنے پیروکاروں کی مشکلات اپنے سر لے لیتا ہو لیکن ان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالتا ہو۔ اور جہاں پیروکاروں کو ہمیشہ رعایت، اہمیت، خندہ پیشانی ، نرمی ، محبت اور رضا مندی ملتی ہو۔رسول اللہ ؐ کا دل ایسا ہی دل تھااور آپؐ کا برتاؤ لوگوں کے ساتھ بعینہ ایسا ہی تھا۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی اس صفت کی جانب اہلِ ایمان کو متوجہ کیا کہ ان کا رسول کیسا رحیم وشفیق ہے:
’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے‘‘۔ (التوبۃ، ۱۲۸)
آپؐ شفقت و رافت اور محبت کا پیکر تھے اور اپنے پیروکاروں کی بھلائی اور فلاح کے خواہاں تھے۔ ان کی تکلیف، ان کا نقصان اور ان کی پریشانی اور مشقت دیکھ کر آپؐ سخت پریشان ہو جاتے تھے، آپؐ نہیں چاہتے کہ آپؐ کے بدترین دشمن بھی انجامِ بد سے دوچار ہوں۔جب آپؐ کو مشرکوں کے لیے بددعا کرنے کا کہا گیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے لعنت کرنے والا نہیں بنا کر بھیجا گیا۔ مجھے صورتِ رحمت مبعوث کیا گیا ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
قوم کا غم
رسول اللہ ؐ کی دعوت کے راستے میں جس قدر مشکلات کھڑی کی جا رہی تھیں اور کفار کی ہٹ دھرمی بڑھتی چلی جا رہی تھی، یہاں تک کہ انہوں نے چیلنج کرنا شروع کر دیا کہ لے آؤ وہ عذاب جس کی تم ہمیں دھمکیاں دے رہے ہو۔ تو آپؐ انہیں نرمی اور دلیل سے سمجھاتے رہے۔ اور جب قرآن میں بار بار عذاب پانے والی قوموں کا تذکرہ کیا جانے لگا تو آپ ؐ کو یہ اندیشہ اندر ہی اندر گھلانے لگا کہ کہیں اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم نہ ہو جائے اور ان کی قوم عذاب کا شکار نہ ہو جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ ؐ سے عرض کیا: ’’میں دیکھتا ہوں کہ آپؐ بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب میں آپؐ نے فرمایا: ’’مجھ کو ھود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے‘‘۔ (رواہ الترمذی، ۳۲۹۷)
آپؐ کے غم اور پریشانی کو قرآن کریم میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا:
’’اے محمدؐ! شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘۔ (الشعراء،۲)
’’ان لوگوں کی حالت پر رنج و افسوس میں تمہاری جان نہ گھلے‘‘۔ (فاطر،۸) ان آیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی قوم کی ضلالت اور گمراہی اور اخلاقی پستی ، اس کی ہٹ دھرمی اور اصلاح کی ہر کوشش کے مقابلے میں مزاحمت دیکھ کر آپؐ برسوں کس دل گداز اور جاں گسل کیفیت میں شب وروز گزارتے رہے ہیں، گویا آپؐ اپنے آپ کو مارے ڈال رہے ہوں۔
اور جب کفار بار بار آپؐ سے کہتے کہ لے آؤ وہ عذاب، تو اللہ نے اس کا جواب دیا:
’’اور اے نبیؐ ! جس برے انجام کی دھمکی ہم برے لوگوں کو دے رہے ہیں ، اس کا کوئی حصّہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھا لیں، بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے، اور حساب لینا ہمارا کام ہے‘‘۔ (الرعد،۴۰)
بے غرض نبیؐ
رسول کا کام نہ کسی ایمان لانے والے کو جزا دینا ہے نہ انکار کرنے والے کو سزا، نبی تو بس بشارت دینے والا اور برے اعمال سے ڈرانے والا ہے، فرمایا:
’’(اے محمدؐ) تم کو تو ہم نے بس ایک مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ ان سے کہہ دو کہ ’’میں کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے‘‘۔(الفرقان،۵۶۔۵۷)
رسول اللہ ؐ نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی روشنی میں ایک آگ روشن
کی، جس نے سارے ماحول کو روشن کر دیا۔ اتنی روشنی کے بعد اندھیروں میں وہی لوگ بھٹکتے رہے جنھوں نے اپنے لیے تاریکی کا انتخاب کیا اور حق کے نور کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ جو جو شخص اس روشنی سے فیض پاتا گیا، اس کا اندر بھی روشن ہو گیا، اور اس روشنی کے اثرات جہاں تک پہنچے وہ سرزمین اور وہ معاشرے بھی حق کی روشنی سے جگمگا اٹھے۔ رسول کریم ؐ نے یہ تمام سفر اللہ کی حفاظت، نگرانی اور اس کی ہدایات کی روشنی میں کیا۔ اس میں انکار، کے مراحل بھی آئے اور مشکلات کے پہاڑ بھی سامنے آئے،شعب ابی طالب میں محصور بھی ہونا پڑا اور کفار کی آنکھوں میں خاک ڈال کر ہجرت بھی کرنا پڑی، کبھی قریش کی جمعیت سے میدان میں مقابلہ ہؤا تو کبھی احزاب کے مقابلے کے لیے خندق کھود کر ان سے مدافعت کی جنگ لڑی، کبھی اندر کے منافقین کے خلاف حکمتِ عملی اپنائی اور کبھی یہود کی ریشہ دوانیوں اور عہد شکنی کی سزا نافذ کی، کبھی روم کی فوجوں کو ان کے دروازے پر پہنچ کر للکارا اور کبھی مکہ کو فتح ہی نہیں کیا وہاں سے شرک کا خاتمہ بھی کیا۔ جس خدا نے آپ سے حفاظت کا وعدہ کیا تھا وہ ہر مرحلے پر آپؐ کو دشمنوں کے نرغے میں بھی بچاتا رہا، اور ہر مشکل میں آپؐ کو تدبیر بھی سجھاتا رہا۔آپؐ نے اپنے رب کے پیغام کو تمام دنیا کے سامنے پورے اخلاص اور للھیت کے ساتھ پیش کر دیا۔اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے ذریعے اپنے دین کو مکمل کیا، اورفرمایا: ’’آج کافروں کو تمھارے دین سے پوری مایوسی ہو چکی ہے، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘۔ (المائدۃ،۳)
قرآنِ کریم ان مراحل کی ایک زندہ تاریخ ہے، جن میں رسولِ کریم نے حق کو پھیلانے کی جدو جہد کی۔ ہر مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی ڈھارس کس طرح بندھائی، آپؐ کو کیا تسلی دی، اور آپؐ کی کس طرح رہنمائی کی، اور مختلف مقامات پر آپؐ کی کس طرح اصلاح فرمائی، یہ سب قرآن کریم کی آیات میں موجود ہے۔اور ہر دور اور زمانے کے داعیین الی اللہ کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔
٭٭٭