رفاہی کاموں کی ابتدا
رفاہی کاموں کی ابتدا تو در حقیت اُسی دن سے ہوئی ہے جس دن حضرت انسان (آدم علیہ السلام)نے دنیا میں زمین پر پہلا قدم رکھا اور اسے متعدد اشیاء کی ضرورت ہوئی ۔ چونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ، لہٰذا اسے ضروریات زندگی کی تلاش ہوئی ۔ اس کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اشیاء کا علم اور اس کے نام بتا دیے تھے ۔ لہٰذا اس نے وہ بتائی ہوئی چیزیں تلاش کرنی اور جمع کرنی شروع کردیں ۔
اس عمل میں اسے تعاون اور امداد کی ضرورت ہوئی اور اس نے کسی سے امداد لی اور کسی نے امداد دی تو اس طرح باہمی تعاون کی ابتدا ہو گئی ۔ سماجی مسائل کی ابتدا کے بارے میں ایک اقتباس پیش ہے ۔
’’سماجی مسائل ہر سماج ( معاشرے)میں پائے جاتے ہیں ۔ اس کے بغیر سماج کا تصور نہیں کیاجا سکتا اور یہ سلسلہ زمانہ دراز سے جاری و ساری ہے ۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے انسان اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کے لحاظ سے مسلسل جدوجہد کرتا رہا ہے جو وقت اور حالات کے لحاظ سے بدلتی رہیں ہیں اس طرح سماجی خدمات زمانۂ قدیم سے ہر سماج کا جز لازم رہی ہیں گو کہ ابتدا میں اس کا محرک مذہبی اور اخلاقی جذبہ تھا ‘‘۔(سماجی بہبود ۔ ڈاکٹر محمد خالد)
یعنی رفاہی و سماجی مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مذہب نے توجہ دی ہے ۔ پھر ان سماجی خدمات کو انفرادی و اجتماعی لحاظ سے دین اسلام نے آکر کامل کیا ۔ اگرچہ تمام انبیاء اور آسمانی کتب نے مختلف پیرایوں سے اس پر توجہ دی ہے ۔ کوئی آسمانی مذہب ایسا نہیں ہے جس نے مخلوق پر اخوت و شفقت اور باہمی تعاون و تساہم پر زور نہ دیا ہو۔
دین اسلام چونکہ انسانیت کا تکمیلی دین ہے اس کے دور میں انسانیت اپنی جوانی کے دور میں داخل ہو رہی تھی لہٰذا دیگر انسانی ، معاشرتی اور معاشی علوم کے ساتھ سماجیات کے علم کو بھی کامل کیا ۔ نبی اکرمؐ کے آخری مدنی دور میں معاشرتی کام مکمل ہوئے تھے ۔ لہٰذاآپ ؐ نے زکوٰۃ کے محکمے کو باقاعدہ منظم کیا اور اس کے تمام پہلوئوں جیسے وصولی کے اصول و ضوابط بنائے ، وصول کرنے والے ، ان کے کام کے علاقے اس کا نصاب ، اس کی تقسیم کے قاعدے( مصارف) اور مقدار مقرر کی ۔ آپؐ کے قائم کردہ محکموں میں سے سب سے زیادہ منضبط اور مربوط محکمہ زکوٰۃ ہے ۔ پھر مال کے متعلق قوانین ہیں جن کی اصولی باتیں تمام کی تمام بیان کردیں۔
آپ ؐ نے مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے بعد جو دوسرا اہم کارنامہ سر انجام دیا وہ امن و امان کا قیام ، لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہے ۔ لہٰذا میثاق مدینہ تحریر کر کے آپ ؐنے مدینہ کے تمام باشندوں کو امن کی زندگی عطا کی۔
اسلام جو اسٹیٹ(ریاست) قائم کرتا ہے وہ فلاحی و رفاہی ریاست ہوتی ہے ۔ لہٰذا اس ریاست کے بنیادی اصولوں میں شہریوں کی فلاح و اصلاح کے تمام ضروری پہلو رکھے جاتے ہیں ۔ چنانچہ آپ ؐ نے مدینہ شریف میں جس ریاست کی بنیاد رکھی وہ فلاحی ریاست تھی اس کے تمام قواعدو ضوابط عوام کی فلاح و بہبود کے گرد گھومتے تھے ، لوگوں کی ضروریات زندگی کا بندو بست کیا گیا ۔ انہیں امن و امان سے زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں دی گئیں ۔ ان کے جان و مال کی حفاظت سخت قوانین کے ذریعے کی گئی ۔ انھیں کاروبار کرنے ، آزادی سے آمدو رفت کی سہولت دی گئی ۔ تمام شہریوں کے لیے حتیٰ کہ ذمیوں ( غیر مسلموں)کو بھی وہ تمام مراعات دی گئیں جو مسلموں کے لیے تھیں۔
ان ہی بنیادوں پر خلفائے راشدین کے دور میں قائم ہونے والی حکومتیں بنیں اور آپؐ کے اصولوں کو آگے بڑھایا گیا بلکہ ان اصولوں پر قاعدے و قانون بنائے گئے۔ لہٰذا یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی ریاست رفاہی و فلاحی ریاست تھی۔
حضرت عمر فاروق ؓ کا دور
اسلامی حکومت کی ابتدائی تاریخ میں جن صحابہ کرام ؓ نے خدمت خلق اور رفاہِ عامہ کے انفرادی و اجتماعی کام کی بنیادیں رکھیں ، ان میں حضرت عمر ؓ کا نام سرفہرست ہے ۔ آپ نے انفرادی طور پر خدمت خلق کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر رفاہِ عامہ کے بڑے کارنامے سرانجام دیے۔ آپ کے انفرادی کاموں کی تفصیل اگرچہ کم ملتی ہے ، تاہم نمونہ کے طور پر کچھ واقعات دیے جا رہے ہیں :
پیدائش و وفات
حضرت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ کی پیدائش ۵۸۳ء ہے ۔ ان کا سلسلہ نسب نبیؐ سے عدی بن کعب پر ملتا ہے ۔ آپ کی والدہ کا نام ختم تھا۔ آپ نسب دانی ، شہسواری ، سپہ گری ، پہلوانی اور مقرری ( تقریر کرنا) میں ماہر تھے ۔ آپ نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا ۔ آپ نے قریش کی سفارت کاری بھی کی ہے۔
آپؐ نے جب نبوت کا اعلان کیا تو اس وقت ان کی عمر ۲۷ برس تھی ۔ قبول اسلام کا سال چھ نبوی تھا ۔ سردار عتبان بن مالک انصاری سے مواخات ہوئی ۔۲۳ ہجری ۲۷ ذوالحج کو مسجدِ نبوی میں فجر کی نماز کے وقت ابن ملجم مجوسی کے ہاتھوں زخمی ہوئے ۔ یکم محرم ۲۴ھ مطابق ۶۴۴ء کو انتقال کیا اور نبیؐ کے ساتھ روضۂ اطہر میں دفن ہوئے۔ آپ کی عمر ۶۳ سال تھی ۔ (الفاروق شبلیؒ)
مدینہ منور ہ میں ایک نابینا عورت
مدینہ منورہ میں ایک نابینا عورت رہتی تھی جس کا کام کاج حضرت عمر ؓ آکر کر دیتے تھے۔ لیکن چند روز کے بعد انھیں معلوم ہوأ کہ ان سے پہلے کوئی اور شخص آکر اس عورت کے تمام کام کاج کر جاتا ہے ۔ ان کو اب یہ معلوم کرنے کا شوق پیدا ہؤاکہ یہ کون شخص ہے ۔ ایک شب وہ اس کی نگرانی کے لیے چھپ کربیٹھے رہے تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ شخص حضرت ابو بکرؓ تھے جو خلیفہ ہونے کے باوجود پوشیدہ طور پر اس نابینا عورت کے گھر آتے اور اس کے تمام گھریلو کام کر جاتے تھے ۔
غلاموں کو اہمیت دینا
غلاموں کے ساتھ انفرادی برتائو میں اکثر غلاموں کو بلا کر ساتھ کھانا کھلایا کرتے اور حاضرین کو سنا کر کہتے تھے کہ اللہ ان لوگوں پر لعنت کرے جن کو غلاموں کے ساتھ کھانے سے عار ہے ۔ سر دار ان فوج کو لکھ بھیجا کہ تمھارا کوئی غلام کسی قوم کو امان دے تو وہ امان تمام مسلمانوں کی طرف سے سمجھی جائیں گی اور فوج کو اس کا پابند ہونا ہوگا ۔ ( الفاروق مولانا شبلیؒ)
غلامی کا رواج کم کرنا
حضرت عمر ؓ نے اگرچہ غلامی کو معدوم ( بالکل ختم ) نہیں کیا اور اگر کرنا بھی چاہتے تو نہیں کر سکتے تھے ۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ انھوں نے مختلف طریقوں سے اس کے رواج کو کم کر دیا اور جس قدر قائم رکھا اس خوبی سے رکھا کہ غلامی نہیں بلکہ برادری اور ہم سری رہ گئی ۔ عرب میں تو انھوں نے سرے سے اس کا استحصال کر دیا ۔ چنانچہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ہی پہلا کام یہ تھا کہ حضرت ابو بکر ؓ کے زمانے میں جو عربی قبائل مرتد لونڈی اور غلام بنائے گئے تھے ، سب آزاد کر دیے اور اس کے ساتھ یہ اصول قائم کر دیا کہ اہل عرب کسی کے غلام نہیں ہو سکتے ۔ ان کا یہ قول منقول ہے لا یسترق عربی(عربی کو غلام نہیںبنایا جا سکتا)۔
پھر انھوں نے یہ حکم دیا کہ غلاموں کو اپنے قریبی عزیز و اقارب سے جدا نہ کیا جائے جیسے باپ بیٹا ، ماں بیٹی اور بیٹا اور سگے بھائی بہنیں ایک ساتھ خرید و فروخت ہوتے تھے ۔ حضرت عمرؓ کا غلاموں کے ساتھ مساوات،ا حترام اور عزت و برتائو کا نتیجہ تھا کہ غلاموں میں بڑے ائمہ حدیث ، فقیہہ اور عالم بنے ۔
اجتماعی و ملی سوچ
حضرت عمرو بن العاصؓ نے جب مصر میں فسطاط شہر آباد کیا تو سرکاری عمارتوں کے ساتھ ایک مکان خاص حضرت عمرؓ کے لیے تعمیر کرایا لیکن حضرت عمر ؓ نے اس کے بارے میں لکھ بھیجا کہ یہ میرے کس کام کا
ہے، اسے کسی اجتماعی کام میں لگایا جائے، تو وہاں بازار آباد کرایا گیا ۔ یہ ان کی اجتماعی سوچ کی ایک جھلک ہے ۔
حضرت عمر ؓ کے دور ِ خلافت کی جو امتیازی خصوصیات ہیں ، ان میں ایک رفاہِ عامہ کے وہ کام ہیں جو آپ نے بڑے وسیع پیمانے پر کرائے اور ایسے کام کرائے جو لمبا عرصہ تک لوگوں کو نفع دیتے رہے ہیں ۔ پھر یہی کام آنے والے خلفاء، سربراہانِ مملکت اور بادشاہوں کے لیے نمونہ بنے ، اُن میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔
نہر ابی موسیٰ
بصرہ میں ان دنوں میٹھے پانی کی سخت کمی تھی اور چھ میل سے پانی لایا جاتا تھا ۔ حضرت عمرؓ نے کوفہ کے لوگوں کی شکایت پر ابو موسیٰ اشعریؓ کو دجلہ سے نہر کھود کر پانی لانے کا حکم دیا ۔ چنانچہ دجلہ سے ۹ میل لمبی نہر کھود کر بصرہ لائی گئی اور گھر گھر میٹھا پانی پہنچایا گیا۔
نہر معقل
یہ نہر دجلہ سے کاٹ کر لائی گئی ۔ اس کی تیاری کا کام معقل بن یساز کے ذمہ تھا ، اس لیے ان کے نام سے یہ مشہور ہو گئی۔
نہر سعد
یہ نہر انبار والوں کے مطالبے پر نکالی گئی اور سعد بن ابی وقاص (وفات ۵۵ھ) نے اپنی گورنری کے زمانے میں حضرت عمر ؓ کو مامور کرکے بنوائی۔ یہ سعد کے نام سے مشہور ہو گئی۔
نہر امیر المومنین ( نہر سوئز)
مصر میں سب سے بڑی فائدہ رساں نہر جو حضرت عمر ؓ کے خاص حکم سے بنی ، یہ وہ نہر تھی جو نہر امیر المومنین کے نام سے مشہور ہوئی ۔ اس نہر کے ذریعہ دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملایا گیا ۔ یہ نہر ۶۹ میل لمبی تھی اور چھ ماہ میں تیار ہو گئی ۔ یہ تجارتی اور سواری کے جہازوں کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے ۔ دریائے نیل سے بحر قلزم میں جہاز آکر جدہ اور عرب کے دیگر حصوں میں پہنچتے ۔ اس سے مصر اور عرب کے لوگوں کو بہت فائدہ ہؤا ۔ تجارت بڑھی اورقحط کے دنوں میں اناج پہنچتا رہا ۔
عمارتیں تعمیر کرانا
حضرت عمرؓ نے مختلف نوعیت کی عمارتیں بنوائیں ، مساجد تعمیر کرائیں جن کی تعداد چار ہزار ہے ۔ فوجی چھائونیاں ، دفاتر ، دارالامارہ، قید خانے وغیرہ ۔ ان میں سے صرف اُن عمارتوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جورفاہِ عام اور سماجی خدمات سے متعلق ہیں ۔
مہمان خانے
مہمان خانوں کی عمارتیں اس لیے تعمیر کی گئیں کہ باہر سے آنے والے جو دو چار دن کے لیے شہر میں آتے جاتے تھے ، وہ ان مکانات میں ٹھہر ائے جاتے تھے ۔ کوفہ میں جو مہمان خانہ بنا ، اس کی نسبت علامہ احمد بلاذری ( وفات۸۹۲) نے لکھا ہے : انھوں ( حضرت عمر ؓ) نے حکم دیا کہ جولوگ دور دراز علاقوں سے آتے ہیں ، ان کے قیام کے لیے مکان بنایا جائے (فتوح البلدان) ۔ مدینہ منورہ میں مہمان خانہ ۱۷ ہجری میں تعمیر ہؤا۔ ابن حبان نے کتاب الشقاہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے ۔ یہ علم میں رہے کہ اس وقت تک سادگی کا زمانہ تھا لہٰذا یہ عمارتیں کچی تھیں۔
سڑکوں اور پلوں کا انتظام
حضرت عمر ؓ نے رفاہِ عام کے لیے سڑکیں اور پل بنانے کاخاص اہتمام کیا ۔ یہ دو طریقوں سے کیا گیا ۔ ایک حکومت کی طرف سے بیت المال سے تعمیر کا کام ہوتا تھا، دوسرا مفتوحہ علاقوں اور مفتوحہ قوموں کی طرف سے ہوتا تھا ۔ ان سے باقاعدہ معاہدہ ہوتا تھا کہ وہ سڑک ، پل وغیرہ اپنے اہتمام سے اور اپنے صرف سے بنوائیں گے ۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے شام فتح کیا تو شرائط میں یہ کام بھی شامل تھا ۔ کتاب الخراج میں ہے:
’’ ان شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بھولے بھٹکے لوگوں کی رہنمائی کریں گے اور نہروں پر اپنے خرچ سے پل بنائیں گے‘‘۔
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک چوکیاں اورسرائیں
مکہ مکرمہ اگرچہ مدتوں سے قبلہ گاہ خلائق تھا لیکن اس کے راستے بالکل ویران اور بے آب و گیاہ تھے ۔ حضرت عمرؓ نے ۱۷ ہجری میں جب مکہ مکرمہ گئے تو یہ حالت محسوس کی تو ہر منزل پر چوکیاں ، سرائیں اور چشمے تیار کرنے کا حکم صادر کیا ۔ شاہ ولی اللہ نے ازالۃ الخفاء میں لکھا ہے ’’ جس سال انھوں نے عمر کی غرض سے مکہ مکرمہ کا سفر کیا تو واپسی پر حکم دیا کہ
ہ سفری منزلیں جو حرمین کے درمیان ہیں ، ان میں سایہ کا اورآرام کرنے کے لیے جگہ کا بندو بست کیا جائے ۔ وہ کنویں جو مٹی سے اٹ گئے ہیں ، انھیں صاف کیا جائے اور جہاں پانی کے کنویں نہیں ہیں ، وہاں کنویں کھودے جائیں تاکہ حجاج کو سفر میں سہولتیں حاصل ہوں ۔
غریبوں اور مسکینوں کے لیے وظیفے
حضرت عمر ؓ نے اہتمام کیا تھا کہ ان کے زیر انتظام مسکینوں میں جس قدر اپاہج ، بوڑھے اورمفلوج وغیرہ ہوں گے ، ان کے لیے تنخواہیں بیت المال سے مقرر کر دی جائیں ۔ لاکھوں آدمی ، فوجی دفتر میں داخل تھے جن کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی ۔ یہ وظیفہ ان کی غذائی ضرورت کے لیے کافی تھا ۔ اس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا غلام کے لیے بھی ؟ فرمایا ’’ ہاں غلام کے لیے بھی ۔‘‘
غرباء اور مساکین کے لیے بلا تخصیص مذہب حکم تھا کہ بیت المال سے ان کے روز ینے ( وظیفے) مقرر کر دیے جائیں ۔ انھوں نے بیت المال کے عامل کو لکھ کر بھیجا کہ خدا کے اس قول سے کہ انما الصدقات لفقراء ولمساکین۔
لنگر خانے
اکثر شہروں میں مہمانوں کے لیے مہمان خانے تعمیر کرائے جہاں مسافروں کو بیت المال کی طرف سے کھانا ملتا تھا ۔ چنانچہ کوفہ کے مہمان خانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مدینہ منورہ میں جو لنگر خانہ تھا ، اکثر وہاں خود جا کر اپنے اہتمام سے کھانا کھلواتے تھے۔
لا وارث بچے
اولاد لقطہ یعنی گمنام بچے جن کو مائیں شاہ راہ وغیرہ پر ڈال جاتی تھیں ، ان کے لیے ۱۸ ہجری میں یہ انتظام کیا گیا کہ جہاں اس قسم کا کوئی بچہ ملے ، اس کے دودھ پلانے اور دیگر مصارف کا انتظام بیت المال سے کیا جائے ۔ چنانچہ ان مصارف کے لیے اول سو درہم سالانہ مقرر ہوئے تھے ۔ پھر سال بہ سال ان میں اضافہ ہوتا تھا ۔ پاکستان میں یہ طریقہ عبدالستار ایدھی نے اختیار کیا ہؤا ہے ۔
یتیموں کی خبر گیری
یتیموں کی پرورش اگر ان کی جائیداد سے ہوتی تھی تو اس کی حفاظت کا نہایت اچھا اہتمام کرتے تھے اور اکثر تجارت کے ذریعے اسے ترقی دیتے رہتے تھے ۔ ایک دفعہ حکم بن ابی العاص سے کہا کہ میرے پاس یتیموں کو جو مال جمع ہے ، وہ زکوٰۃ نکالنے کی وجہ سے گھٹتا جا رہا ہے ۔ تم اس کو تجارت میں لگائو اور جو نفع ہو واپس کر دو ۔ چنانچہ دس ہزار کی رقم حوالہ کی اور وہ بڑھتے بڑھتے لاکھ تک پہنچ گئی۔
قحط کا انتظام
۱۸ ہجری میں جب عرب میں قحط پڑا تو عجب سر گرمی ظاہر کی ۔ اول بیت المال کا تمام نقد و غلہ صرف کیا ۔ پھر تمام صوبوں کے افسروں کو لکھا کہ ہر جگہ سے غلہ روانہ کیا جائے ۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ نے چار ہزار اونٹ غلہ سے لدے ہوئے بھیجے ، عمر و بن العاص نے بحرِقلزم کی راہ سے بیس جہاز روانہ کیے جن میں ایک ایک میں تین تین ہزار اردب غلہ تھا ۔ حضرت عمر ؓ ان جہازوں کو ملاحظے کے لیے خود بندر گاہ تک گئے جس کا نام جار تھا اور مدینہ منورہ سے تین منزل ہے ۔ بندر گاہ میں دوبڑے بڑے مکان بنوائے اور زید بن ثابت کو حکم دیا کہ قحط زدوں کا نقشہ بنائیں ۔ چنانچہ بقید نام اور مقدار غلہ رجسٹر تیار ہؤا۔ہر شخص کوچک (پرچہ) تقسیم کی گئی جس کے مطابق اس کو روزانہ غلہ ملتا تھا ۔ چک پر حضرت عمر ؓکی مہر ثبت ہوتی تھی ۔ اس کے علاوہ ہر روز ۱۲۰ اونٹ خود اپنے اہتمام سے ذبح کراتے تھے اور قحط زدوں کو کھانا پکوا کر کھلاتے تھے ، اس موقع پر یہ بات خاص طور پر جتا دینے کے قابل ہے کہ حضر عمرؓ کو اگرچہ ملک کی پرورش اور پرداخت کا اتنا کچھ اہتمام تھا لیکن ان کی فیاضی ایشیائی قسم کی فیاضی نہ تھی جس کا نتیجہ کاہلی اور مفت خوری کا رواج دنیا میں ہوتا ہے ۔
رفاہِ عامہ
رفاہِ عام کے متعلق حضرت عمرؓ کی نکتہ سنجی:
ایشیائی سلاطین وامراء کی فیاضیوں کا ذکر عموماً بڑے ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے ۔ لیکن لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ اس سے جہاں ایک بادشاہ کی مدح نکلتی ہے ، دوسری طرف قوم کا دریوزہ گر ( بھکاری ) ہونا اور انعام و بخشش پر لو لگائے بیٹھے رہنا بھی ثابت ہوتا ہے
۔یہی ایشیائی فیاضیاں تھیں جس نے آج ہماری قوم میں لاکھوں آدمی ایسے پیدا کردیے ہیں جو خود ہاتھ پائوں ہلانا نہیں چاہتے اور نذر و نیاز وغیرہ پر اوقات بسر کرتے ہیں۔
لیکن حضرت عمرؓ اس سے بے خبر نہ تھے ، وہ اس بات کی سخت کوشش کرتے تھے کہ لوگوں میں کاہلی اور مفت خوری کا مادہ نہ پیدا ہونے پائے ۔ جن لوگوں کی تنخواہیں اور خوراک مقرر کی تھیں، وہ صرف وہ لوگ تھے جن سے کبھی نہ کبھی فوجی خدمت کی توقع ہو سکتی تھی ۔یاجنہوں نے پہلے کوئی نمایاں خدمت کی ہوئی تھی اور وہ بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے خود کسب معاش نہیں کر سکتے تھے ۔ ان اقسام کے علاوہ وہ کبھی اور قسم کی فیاضی کو روا نہیں رکھ سکتے تھے ۔ علامہ ماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں لکھا ہے کہ محتسب کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کوجو کھانے کمانے کے قابل ہوں اور باوجود اس کے صدقہ اور خیرات لیتے ہوں ، تنبیہہ و تادیب کرے۔ اس کے بعد علامہ موصوف نے اس کی سند میں حضرت عمر ؓ کے اس فعل سے استد لال کیا ہے اور لکھا ہے کہ وقد فعل عمر مثل ذلک بقوم من اہل الصدقۃ( الاحکام السلطانیہ مطبوعہ مصر صفحہ۲۳۵)
ان کا معمول تھا کہ جب کسی شخص کو ظاہر میں خوشحال دیکھتے تو دریافت فرماتے کہ یہ کوئی پیشہ بھی کرتا ہے ! اور جب لوگ کہتے کہ نہیں توفرماتے کہ یہ شخص میری آنکھ سے گرگیا ۔ ان کا مقولہ تھا کہ مکسبہ قیھا دنائۃ خیر من مبسالۃ الناس یعنی ذلیل پیسہ بھی لوگوں سے سوال کرنے کے بہ نسبت اچھا ہے ، مفت خوری کا موقع تو زیادہ تر علماء صوفیاء کو ملتا ہے ، ان کے زمانے تک صوفیاء تو پیدا نہیں ہوئے تھے لیکن علماء کو انھوں نے اعلانیہ مخاطب کر کے کہا لا تکونو عیالا علی المسلمین یعنی مسلمانوں پر اپنا بار نہ ڈالو۔( سیرۃ العمر ین لا بن الجوزی)
جزئیات پر توجہ
حضرت عمر ؓ کی تاریخ زندگی میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ اگرچہ ان کو ہمیشہ بڑے اہم امور سے سابقہ رہتا تھا ۔ تاہم نہایت چھوٹے چھوٹے کام بھی وہ خود انجام دے لیتے تھے اور اس کے لیے ان کو وقت اور فرصت کی تنگی محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ ان میں ایسے کام بھی ہوتے تھے جن کا اختیار کرنا بظاہر شان خلافت کے خلاف تھا لیکن ان کو کسی کام سے عارنہ تھا۔
روزینہ داروں کو جو روز ینے مقرر تھے اکثر خود جا کر تقسیم کرتے تھے ۔ قدیہ اور عسفان مدینہ سے کئی منزل کے فاصلے پر دو قصبے ہیں جہاں قبیلہ خزاعہ کے لوگ آباد تھے ۔ ان دونوں مقاموں میں خود تشریف لے جاتے تھے ۔ روزینہ داروں کا دفتر ہاتھ میں ہوتا تھا۔ ان کو دیکھ کر چھوٹے بڑے سب کے سب گھروں سے نکل آتے تھے اور حضرت عمرؓ خود اپنے ہاتھ سے تقسیم کرتے جاتے تھے ۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ دارالصدقہ میں جاتے اور ایک ایک اونٹ کے پاس کھڑے ہو کر ان کے دانت گنتے اور ان کا حلیہ قلم بند کرتے۔
محب طبری نے ابو حذیفہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کا معمول تھا کہ مجاہدین کے گھروں پر جاتے اور عورتوں سے کہتے کہ تم کو کچھ بازار سے منگوانا ہو تو میں لادوں ، وہ لونڈیاں ساتھ کر دیتیں ۔ حضرت عمر ؓ خود چیزیں خرید تے اور ان کے حوالہ کرتے ۔ مقام ِ جنگ سے قاصد آتا اوراہل فوج کے خطوط لاتا تو خود ان کے گھروں پر پہنچا آتے تھے اور کہتے کہ فلاح تاریخ تک قاصد واپس جائے گا جواب لکھوا رکھو کہ اس وقت تک روانہ ہو جائے ۔کاغذ ، قلم اوردوات خود مہیا کر دیتے اور جس گھر میں کوئی حرف شناس نہ ہوتا خود چوکھٹ کے پاس بیٹھ جاتے اور گھروالے جو لکھواتے، لکھتے جاتے۔
حضرت عمرؓ نے انسانی فطرت، ضرورت اور جنسی خواہش کا لحاظ کرتے ہوئے فوجیوں ، مجاہدوں اور سرکاری کاموں میں گھروں سے دور رہنے والوں کے چار ماہ بعد گھر آنے اور اپنے گھر والوں کی خیروعافیت معلوم کرنے کے لیے چھٹی دینے کا رواج ڈالا۔
رعایا کی شکایتوں سے واقفیت کے وسائل
ان کی سب سے زیادہ توجہ اس بات پر مبذول رہتی تھی کہ رعایاکی کوئی شکایت ان تک پہنچنے سے نہ رہ جائے ۔ یہ معمول بنا رکھا کہ ہر
نماز کے بعد صحن مسجد میں بیٹھ جاتے اور جس کو جوان سے کہنا سننا ہوتا کہتا ۔ کوئی نہ ہو تا تو تھوڑی دیر انتظار کر کے اٹھ جاتے ( کنز العمال جلد دوم صفحہ ۲۳۰)۔ راتوں کو دورہ کیا کرتے ۔ سفر میں راہ چلتوں سے حالات پوچھتے ۔ بیرونی اضلاع سے جو سرکاری قاصد آتے ان سے ہر قسم کی پرسش خود کرتے ۔
سفارت
ایک عمدہ طریقہ دریافت حالات کا یہ تھا کہ تمام اضلاع سے ہر سال سفارتیں آتیں اور وہ ان مقامات کے متعلق ہر قسم کی ضروری باتیں پیش کرتے ، اس سفارت کو وفد کہتے تھے اوریہ عرب کا قدیم دستور تھا ۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے اپنے زمانے میں اس سے وہ کام لیا جو آج کل جمہوری سلطنتوں میں رعایا کے قائم مقام ممبر انجام دیتے ہیں۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں مختلف اضلاع سے جوسفارتیں آئیں اور جس طرح انھوں نے اپنی مقامی ضرورتیں پیش کیں ، اس کا حال عقدہ الفرید وغیرہ میں بہ تفصیل ملتا ہے ۔
شام کا سفر اور رعایا کی خبر گیری
ان تمام باتوں پر بھی ان کو تسلی نہ ہوئی تھی ، فرماتے کہ عمال رعایا کی پروا نہیں کرتے اور ہر شخص مجھ تک پہنچ نہیں سکتا ۔ ان بنا پر ارادہ کیا تھا کہ شام ، جزیرہ ، کوفہ اوربصرہ کا دورہ کریں اور ہر جگہ دو دو مہینے ٹھہریں ، لیکن موت نے فرصت نہ دی ۔ تاہم اخیر دفعہ جب شام کا سفر کیا تو ایک ایک ضلع میں ٹھہر کر لوگوں کی شکایتیں سنیں اور داد رسی کی ۔ اس سفر میں ایک پر عبرت واقعہ پیش آیا ۔ دارالخلافہ کوواپس آ رہے تھے کہ راہ میں ایک خیمہ دیکھا ، سواری سے اتر کر خیمہ کے قریب گئے ایک بوڑھی عورت نظر آئی ۔ اس سے پوچھا عمر کا کچھ حال معلوم ہؤا؟
اس نے کہا ہاں شام سے روانہ ہو چکا لیکن اللہ اس کو غارت کرے، آج تک مجھ کواس کے ہاں سے ایک حبہ بھی نہیں ملا۔
حضرت عمرؓ نے کہا، اتنی دور کا حال عمر کو کیوں کر معلوم ہو سکتا ہے ۔
بولی کہ ’’ اس کو رعایا کا حال معلوم نہیں توخلافت کیوں کرتا ہے ‘‘۔ حضرت عمر ؓ کو سخت رِقت ہوئی اور بے اختیار رو پڑے ۔ ہم اس موقع پر متعدد حکایتیں نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ رعایا کے آرام و آسائش اور خبر گیری میں ان کو کس قدر سر گرمی اور ہمدردی تھی۔
دیگر واقعات
ایک دفعہ ایک قافلہ مدینہ منورہ میں آیا اور شہر کے باہر اترا ، اس کی خبر گیری اور حفاظت کے لیے خود تشریف لے گئے ۔ پہرہ دیتے پھرتے تھے کہ ایک طرف سے رونے کی آواز آئی ۔ ادھر متوجہ ہوئے دیکھا توایک شیر خوار بچہ ماں کی گود میں رو رہاتھا۔ ماں کو تاکید کی کہ بچہ کو بہلائے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھرادھر سے گزر ہؤا تو بچے کو روتا پایا ۔ غیظ میں آکر فرمایا کہ تو بڑی بے رحم ماں ہے۔
اس نے کہا کہ تم کو اصل حقیقت معلوم نہیں خواہ مخواہ مجھ کو دق کرتے ہو ۔ بات یہ ہے کہ عمر ؓ نے حکم دیا ہے کہ بچے جب تک ماں کا دودھ نہ چھوڑیں ، بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر نہ کیا جائے ۔ میں اس غرض سے اس کا دودھ چھڑاتی ہوں اور یہ اس وجہ سے روتا ہے ۔ حضرت عمرؓ کو رقت ہوئی اور کہا کہ ہائے عمر ! تو نے کتنے بچوں کا خون کیا ہوگا ؟ اسی دن سے منادی کرادی کہ بچے جس دن سے پیدا ہوں ، اسی تاریخ سے ان کے روزینے مقرر کر دیے جائیں۔
اسلم ( حضرت عمرؓ کا غلام)کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ رات کو گشت کے لیے نکلے ۔مدینہ سے تین میل پر اصرار نامی ایک مقام ہے ۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں۔ پاس جا کر حقیقت حال دریافت کی۔ اس نے کہا کہ کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا ۔ ان کے بہلانے کے لیے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھا دی ہے ۔ حضرت عمرؓ اسی وقت اٹھے مدینہ میں آکر بیت المال سے آٹا ، گوشت ، گھی اورکھجوریں لیں اور اسلم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دو ، اسلم نے کہا کہ میں لیے چلتا ہوں ، فرمایا ہاں ! لیکن قیامت کے روز میرا بار تم نہیں اٹھائو گے ، غرض سب چیزیں خود اٹھا کر لائے اور عورت کے آگے رکھ دیں ، اس نے آٹا گوندھا ، ہانڈی چڑھائی ، حضرت عمرؓ خود چولہا پھونکتے جاتے تھے ۔ کھانا تیار ہؤا تو بچوں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور
چھلنے کو دنے لگے ، حضرت عمر ؓ بچوں کو دیکھتے تھے اورخوش ہوتے تھے ۔عورت نے کہا ، خدا تم کو جزائے خیر دے ۔ سچ یہ ہے کہ امیر المومنین ہونے کے قابل تم ہو نہ کہ عمر ؓ۔
ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک بدو اپنے خیمہ سے باہر زمین پر بیٹھا ہؤا تھا ۔ پاس جاکر بیٹھے اور ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں ۔ دفعۃ ً خیمہ سے رونے کی آواز آئی ۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا کہ کون روتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میری بیوی در دِ زہ میں مبتلا ہے ۔ حضرت عمر ؓ گھر پر آئے اور ام کلثوم ؓ( حضرت عمر ؓ کی زوجہ ) کو ساتھ لیا ۔ بدو سے اجازت لے کر ام کلثوم ؓ کو خیمہ میں بھیجا ۔ تھوڑی دیر بعد بچہ پیدا ہؤا۔ ام کلثوم نے حضرت عمر ؓ کو پکارا کہ امیر المومنین اپنے دوست کو مبارکباد دیجیے ۔ امیر المومنین کا لفظ سن کر بدو چونک پڑا اور مودب ہو کر بیٹھا ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ نہیں کچھ خیال نہ کرو۔ کل میرے پاس آنا میں اس بچے کا وظیفہ مقرر کر دوں گا ۔
عبد الرحمن ؓ بن عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ رات کو میرے مکان پر آئے میں نے کہا آپ نے کیوں تکلیف کی ، مجھ کو بلا لیا ہوتا ۔ فرمایا کہ ابھی مجھے معلوم ہؤا ہے کہ شہر سے باہر ایک قافلہ اترا ہے ، لوگ تھکے ماندے ہوئے ہوں گے ، آئو ہم تم چل کر پہرہ دیں ۔ چنانچہ دنوں اصحاب گئے اور رات بھر پہرہ دیتے رہے ۔
جس سال عرب میں قحط پڑا ، ان کی عجیب حالت ہوئی ، جب تک قحط رہا گوشت، گھی ، مچھلی غرض کوئی لذیذ چیز نہ کھائی ۔ نہایت خضوع سے دعائیں مانگتے تھے’’ اے خدا ! محمدؐ کی امت کو میری شامتِ اعمال سے تباہ نہ کرنا ‘‘۔ان کے غلام اسلم کا بیان ہے کہ قحط کے زمانے میں حضرت عمرؓ کو جو فکر و ترددرہتا تھا اور اس سے قیاس کیا جاتا تھا کہ اگر قحط ختم نہ ہؤا تو وہ اسی غم میںتباہ ہو جائیں گے ( کنز العمال جلد ۶، صفحہ۲۴۳) ۔قحط کا جو انتظام حضرت عمر ؓ نے کیا تھا ، اس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیں ۔
ایک دفعہ ایک بدو ان کے پاس آیا اور یہ اشعار پڑھے:
ترجمہ: ’’ اے عمر ! لطف اگر ہے تو جنت کا ہے ۔ میری لڑکیوں کو کپڑے پہنا ۔ خدا کی قسم تجھ کو یہ کرنا ہوگا ‘‘۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا اور میں تمھارا کہنا نہ کروں تو کیا ہوگا، بدو نے کہا :
’’ تجھ سے قیامت کے روز میری نسبت سوال ہوگا اور تو ہکا بکا رہ جائے گا ، پھر یا دوزخ کی طرف یا بہشت کی طرف جانا ہوگا ‘‘۔
حضرت عمر ؓاس قدر روئے کہ داڑھی تر ہو گئی ، غلام سے کہا کہ میرا یہ کرتا اس کو دے ۔ اس وقت اس کے سوا اور کوئی چیز میرے پاس نہیں ۔ (سیرۃ العمرین وازالۃ الخفاء)
سعید بن یر بوع ایک صحابی تھے جن کی آنکھیں جاتی رہی تھیں ۔ حضرت عمر ؓ نے ان سے کہا کہ آپ جمعہ میں کیوں نہیں آتے ، انھوں نے کہا کہ میرے پاس آدمی نہیں کہ مجھ کو راستہ بتائے ، حضرت عمر ؓ نے ایک آدمی مقرر کیا جو ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہتا تھا ۔ ( اسد الغابہ تذکرہ سعد بن یربوع)
ایک دفعہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے ، ایک شخص کو دیکھا کہ بائیں ہاتھ سے کھا رہا ہے ۔ پاس جا کر کہا داہنے ہاتھ سے کھائو ۔ اس نے کہا کہ جنگ موتہ میں میرا دایاں ہاتھ جا تا رہا ۔ حضرت عمرؓ کو رقت ہوئی ، اس کے برابر بیٹھ گئے اور رو کر کہنے لگے کہ افسوس تم کو وضو کون کراتا ہوگا ؟ سر کون دھوتا ہوگا ؟ کپڑے کون دھوتا ہوگا ؟ پھر ایک خادم مقرر کردیا اور اس کے لیے تمام ضروری چیزیں خود مہیا کردیں ۔
یہ واقعہ اور اس قسم کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جوحضرت عمرؓ کے ان واقعات سے جہاں ان کی شخصیت اور کردار واضح ہوتا ہے ، وہاں اسلامی حکومت کا فلاحی ، اصلاحی اور عوامی ہونا واضح ہوتا ہے ۔( یہ تمام واقعات ’’ الفاروق ‘‘ شبلی سے ماخوذ ہیں )
ذوالنورین حضرت عثمانؓ بن عفان کے رفاہی کام
حضرت عثمان ؓ بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد الشمس بن عبد مناف قرشی چھٹی پشت میں نبی اکرمؐ کے نسب سے مل جاتے ہیں ۔ آپ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی ۔ یہ عبد اللہ سیدہ رقیہ کے بطن سے ان کے فرزند تھے جو چھ سال کی عمر میں ۴ ہجری میں فوت ہو گئے ۔
حضرت عثمان عام الفیل کے چھ سال بعد تولد ہوئے ۔ ہجرت نبوی کے وقت وہ عمر کے چھیالیس منزلیں گزار چکے تھے ۔ آپ کا قد
درمیانہ ، داڑھی مبارک گھنی اور لمبی اور خوبصورت دانت تھے ۔ کبھی سیاہ قمیص اور کبھی کرتا زیب تن کرتے تھے ۔
حضرت عثمان دانشمندی کے مالک اور ذہین تھے ۔ جوانی میں ہی اپنے آبائی پیشے یعنی کاروبار میں لگ گئے تھے۔ اپنی پاکبازی ، امانت و دیانت اور محنت کی وجہ سے جلد ہی مالدار بن گئے تھے ۔
ہجرت
انھوں نے نبوت کے اعلان عام کے دوسرے سال اور نبوت کے پانچویں سال ماہ رجب میں قریش کے بعض مسلمان معززین کے ساتھ حبشہ کی پہلی ہجرت کی ۔ اس میں حضرت رقیہ ؓ ان کے ساتھ تھیں ۔ یہ لوگ ہجرت میں تین ماہ حبشہ میں رہنے کے بعد ایک افواہ کی وجہ سے شوال کے مہینے میں واپس مکہ مکرمہ لوٹ آئے ۔جب حبشہ کی دوسری ہجرت ہوئی تو اس میں اپنی اہلیہ کے ساتھ پھر حبشہ گئے اور وہاں پر ہی بس گئے ۔ مدینے میں ان کے مواخات اوس بن ثابت سے کرائی گئی اور اپنے بھائی کے گھر ایک عرصہ مقیم رہے مسلمان جب ہجرت کر کے مدینے آئے تو میٹھے پانی کی قلت تھی۔ پانی کا ایک بڑا کنواں اور بقول بعض کے چشمہ تھا جوایک یہودی کی ملکیت تھی ۔ یہ یہودی اس کا پانی مہنگے داموں فروخت کرتا تھا جوہر ایک کی قوت خرید سے باہر تھا ۔ نبی اکرمؐ نے اسے خرید کر وقف کرنے کی اپیل کی اور اس کے عوض جنت کا وعدہ فرمایا ۔ چنانچہ حضرت عثمان ؓنے آدھا کنواں بارہ ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا ۔ کچھ عرصے کے بعد یہودی نے دوسرا نصف بھی آٹھ ہزار درہم میں فروخت کر دیا اور انھوں نے یہ بھی وقف کر دیا ۔ مدینہ منورہ میں یہ پہلا وقف ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ دوسرا ہے اور پہلا وقف مسجد نبوی کی زمین ہے ۔
مسجد نبوی کی متعدد مرتبہ تعمیر و توسیع
حضرت عثمان کے سرمائے ، کوشش اوردلچسپی سے ان کے ہاتھوں مسجد نبوی کی دو مرتبہ توسیع اور تعمیر ہوئی ہے۔ نبی اکرم ؐنے ۷ ہجری میںفتح خیبر کے بعد مسجد میں نمازیوں کے لیے تنگی محسوس کی ۔ اس پر آپ نے توسیع کا ارادہ کیا اور مسجد کے پاس ایک شخص کا گھر تھا ، صاحب نے گھر بیچنے پر آمادگی ظاہر کی ، اس پر آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ کوئی ہے جو اس شخص کا مکان خرید کر مسجد میں شامل کرے تو اللہ اسے جنت میں اس سے بہتر گھر عطا کرے گا ۔چنانچہ حضرت عثمان ؓ اس شخص کے پاس پہنچے اور اس کا وہ مکان خرید کر آپ ؐ کی خدمت میں پیش کیا اس پر آپ ؐ بہت خوش ہوئے اور حضرت عثمان ؓ کو جنت کی بشارت دی۔
حضرت عثمان ؓ کے عہد میں مسجد نبوی کی توسیع اور تعمیر
سات ہجری میں بنی ہوئی مسجد عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں اس ہیئت اورحال پر قائم رہی جب عہد عثمانی کا وقت آیا اور فتوحات بڑھیں اور مسجد میں نمازیوں کی کثرت ہوئی اور مسجد تنگ ہونے لگی تو حضرت عثمانؓ نے اس کی توسیع اور تعمیر کا عزم کیا اور ارد گرد سے مکانات خرید کر مسجدمیں شامل کرنے کا ارادہ کیا ۔ لیکن بعض حضرات نے اپنے مکان بیچنے سے انکار کر دیا ۔ خلیفہ وقت نے زبردستی یا دین کے نام پر کسی سے مکان نہیں لیا بلکہ ان کو آمادہ کرتے رہے ، آخر یہ لوگ مکان فروخت کرنے پرتیار ہوئے توآپ نے پرانی مسجد شہید کر کے نہایت مضبوط اور بہترین مسجد تعمیر کرائی ۔اس کی دیواریں منقش پتھروں اورچھت ساگو ان کی عمدہ لکڑی کی بنوائی ۔ یہ تعمیر دس ماہ تک جاری رہی اور ۳۰ ھ میں تیار ہوگئی۔ تعمیر کے دوران حضرت عثمانؓ گھوڑے پر سوار ہو کر مسجد کے ارد گرد چکر لگاتے ، کاریگروں کی ہمت افزائی کرتے اور انعام بھی دیتے ۔ حضرت عمر ؓکے دنوں میں مسجد کے چھ دروازے تھے ۔ انہوں نے وہ چھ کے چھ برقرار رکھے اور یہ دروازے مضبوط ، خوبصورت اور پائیدار بنوائے۔
حضرت عمرؓ کی مسجد لمبائی میں ایک سو چالیس ہاتھ اور چوڑائی ایک سو بیس ہاتھ تھی۔ حضرت عثمان ؓ کی مسجد کی لمبائی ایک سو ساٹھ ہاتھ اور چوڑائی ایک سو پچاس ہاتھ ہو گئی۔
مسجد حرام کی توسیع
۲۶ ہجری میںحضرت عثمان غنیؓ عمرے کے لیے مکے شریف لائے تو مسجد حرام کے ارد گرد کے مکانات بھاری قیمت پر خرید کر مسجد حرام میںشامل کر دیے ۔ اس طرح مسجد حرام کی توسیع ان کے ہاتھوں سے
ہوئی۔
اس توسیع کا پس منظر یہ تھا کہ رات کو عمرے سے فارغ ہو کر انہوں نے سوچا اسلام اور اسلامی سلطنت کی توسیع ہو رہی ہے اور آگے چل کر مسجد حرام آنے والے حجاج اور زائرین کے لیے تنگ ہو جائے گی ۔ چنانچہ انھوں نے مسجد حرام کے اطراف میں رہنے والوں سے ان کے مکانات خرید کر کے مسجد میں شامل کر دیے ۔ اس طرح مسجد کشادہ ہو گئی۔
غزوۂ تبوک کی تیاری میں امداد
تبوک دمشق اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک مقام ہے ۔ ۹ ہجری کا واقعہ ہے کہ نبی ؐ کو اطلاع ملی کہ روم کا عیسائی حاکم ہر قل مسلمانوں سے لڑنے کے لیے ایک بڑا لشکر تیار کر رہا ہے تاکہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روک دے۔ چنانچہ اس نے ایک طرف اپنی فوج کے سپاہیوں کو ایک سال کی تنخواہیں دیں اور دوسری طرف علاقے کے بڑے قبائلی کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
نبی ؐ اکرم نے اس کے مقابلے کی تیاری کی ۔ یہ تیاری ایسے وقت ہو رہی تھی کہ ایک طرف سخت گرمی کا موسم تھا دوسری طرف باغات کے پھل پک رہے تھے ۔ اس لیے یہ بڑی آزمائش بھی تھی ۔ لیکن آپؐ کے صحابہ سب تیار ہو گئے اور تیس ہزار کا لشکر ترتیب دیا گیا اس لیے اس غزوے اور لشکر کو جیش العسرۃ بھی کہا جاتا ہے ۔
اس موقع پر سیدنا عثمان غنیؓ نے لشکر کی تیاری میں جو مدد کی وہ بے مثال اور اسلامی تاریخ میں یاد گار اور انفاق فی سبیل اللہ کا عظیم نمونہ ہے ۔ عثمان غنی ؓ نے جہاں تیس ہزار کی لشکر کی تیاری میں بڑا حصہ ادا کیا وہاں ایک ہزار اونٹ ، ستر گھوڑے اورایک ہزار سونے کے دینار دیے ۔ نبی اکرمؐ نے یہ دینار اپنے دامن میں لے کر فرمایا : آج کے بعد عثمان کو کوئی عمل نقصان نہیںدے گا ( احمد و ترمذی) بعض راویوں نے ایک ہزار کے بجائے دس ہزار دینار لکھے ہیں۔
تبوک پہنچنے کے بعد ایک دن ایساآیا کہ لشکر کی خوراک ختم ہو گئی اور لوگ بھوک سے نڈھال ہونے لگے ۔ حضرت عثمان غنی نے یہ حال دیکھا تو ارد گرد کی بستیوں میں اپنے ساتھ رقم لے کر گئے اورکھانے پینے کا بہت سامان لے کر آئے اور آپ کو پیش کیا ۔ اس پر آپ ؐ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا : یا اللہ میں عثمان ؓ سے راضی ہوں، آپ بھی راضی ہوجائیں ۔ آپ ؐ نے یہ دعا تین مرتبہ کی اور صحابہ ؓ سے بھی فرمایا کہ آپ لوگ بھی عثمانؓ کے لیے دعا کریں ۔ چنانچہ سب نے مل کر دعا کی۔
اہل بیت کی خدمت
حضرت عائشہؓ نے روایت کی کہ ایک مرتبہ آپ ؐ اور آپ ؐ کے اہل خانہ پر ایسا وقت آیا کہ چار دن تک چولہا نہیں جلا اور بچے بھوک کی وجہ سے رونے لگے ۔ آپؐ میرے گھر میں تشریف لائے اور پوچھا کہ کھانے پینے کی کوئی چیز ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے ذریعہ کوئی چیز دلا دے تو ہو سکتا ہے ورنہ اور کہاں سے ملے گی ۔ آپ ؐ وضو فرما کر اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہوئے گھر سے نکلے اور نماز پڑھی اور دعا مانگی ۔
عصر کے وقت حضرت عثمان ؓ نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ میںنے اجازت دی ۔ انہوں نے آپ ؐ کے بارے میں معلوم کیا ۔ میں نے بتایا کہ آپ ؐ کے اہل بیت نے چار دن سے کچھ بھی نہیں کھایا اور آپؐ بھی کھانے کی کسی چیز کی موجودگی کا پوچھ کر اور نہ ہونے کا جواب سن کر باہر نکل گئے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عثمان ؓ کی آنکھوں میں آنسوبھر آئے اور مجھے فرمایا کہ ام المومنین جب کھانے پینے کی تنگی تھی تو میری طرف یا عبد الرحمن ؓ بن عوف یا دوسرے مالدار صحابہ کی طرف پیغام کیوں نہیں بھیجا۔یہ کہہ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد اونٹ پر لاد کر آٹا ، گندم کھجوریںاور دوسری چیزیں لا کر فرش پر رکھ دیں ۔ اس کے ساتھ ایک کھال اترا ہوا بکرا اور تین سو درہم تھیلی بھی پیش کی اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے مجھے قسم دے کر کہا کہ آئندہ آپ لوگوں کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے ضرور بتائیں ۔
پھر جب نبیؐ گھر تشریف لائے اور کھانے پینے کی اشیاء کے بارے میں معلوم کیا تو میں نے حضرت عثمان ؓ کی طرف سے لائی ہوئی اشیاء کی تفصیل سے اطلاع دی اور ان کی باتیں بھی بتائیں ۔ یہ سن کر آپ ؐ اُلٹے پائوں مسجد میں لوٹ گئے اور ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا
للہ میں عثمان ؓ سے راضی ہو ں آپ بھی راضی ہوجائیں۔
غلام آزاد کرنا
اسلام میں غلام کو غلامی سے آزاد کرنا بہت بڑا ثواب اور اجر ہے ۔ لہٰذا تمام صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین او رصلحاء امت نے بہت سے غلام آزاد کیے ۔ چنانچہ حضرت عثمان غنیؓ اس میدان میں بھی پیش پیش رہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مالدار ہونے کے بعدمیں نے ہر ہفتے ایک غلام آزاد کیا اور اگر کسی ہفتے غلام نہ ملا تو دوسرے ہفتے دو غلام آزاد کیے (الریاض العضرۃ) ۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے ہزاروں غلام غلامی سے آزاد کیے اور آزاد کرائے۔
قحط سالی میں امداد
حجاز میں عام طور پر بارشیں نہ ہوتیں تو قحط سالی ہو جاتی تھی ۔ اس لیے اناج اور کھانے کی اشیاء شام عراق اور دیگر علاقوں سے آتی تھیں۔ چنانچہ ایسی ہی ایک قحط سالی حضرت ابو بکر ؓ کے دور میں ہوئی ۔ حضرت ابو بکر ؓ نے بھو کے اور ضرورت مندلوگوں کو خوشخبری دی تھی کہ کل صبح تک آپ کے لیے غذائی اشیاء آجائیں گی ۔ دوسرے دن صبح حضرت عثمانؓ کا ایک ہزار اونٹوں کا قافلہ اناج اور دیگر کھانے کی اشیاء لے کر مدینہ منورہ آ پہنچا ۔ کچھ تاجر حضرت عثمانؓ کے پاس سودا کرنے کے لیے پہنچ گئے ۔ انہوں نے آپ کو بٹھاکر سودے کی بات چیت کی حضرت عثمان غنیؓنے کہا کہ ’’ آپ خرید کی اصل رقم پر کتنا نفع دیں گے‘‘ انہوں نے کہا کہ’’ بیس فی صدزیادہ دیں گے ‘‘۔ حضرت عثمان ؓ نے کہا کہ ’’ مجھے اس سے زیادہ مل رہے ہیں ‘‘۔ اس پر بیوپاری چالیس فیصد اور آخر کار پچاس فیصد پر آگئے ۔ لیکن انہوں نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ مل رہے ہیں اس پر وہ حیران ہو کر بولے کہ مدینہ کے بڑے تاجر تو ہم ہیں ۔ یہ کون ہے جو اتنا نفع دے گا ۔ انہوں نے کہا مجھے سو فیصد بلکہ اس سے زیادہ مل رہا ہے ، سو تم دو گے ؟ انہوں نے اس کا انکار کر دیا ۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ گواہ رہیں میں اعلان کرتا ہوں کہ تمام سامان مدینے کے غریبوں اور ضرورت مندوں کو صدقہ میں دیتا ہوں ‘‘۔
عوامی ضرورتوں کا بندو بست
حضرت عثمان ؓ نے عام لوگوں ، مسافروں تاجروں اور دیگر ضروریات کے لیے سفر کرنے والوں کی سہولت آرام اور ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے سفر کے متعدد بندو بست کیے۔
راستوں کا بندو بست
مدینہ منورہ کے راستے کو کشادہ کر دیا اور ہر چوبیس میل پر ایک عالی شان سرائے تعمیر کروائی اس کے ساتھ ایک چھوٹا بازار بنایا گیا اور ایک میٹھے پانی کا کنواں بنوایا جوبئر السائب کے نام سے مشہور ہے ۔ سڑکوں پر پلیں بنوائیں اور چوکیاں قائم کیں۔
مسافر خانے
مسافروں کے لیے بڑے راستوں پرمسافر خانے تعمیر کرائے ۔ کوفے میں کوئی مسافر خانہ نہیں تھا اور باہر سے آنے والے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی ۔ لہٰذا ایک شاندار مسافر خانہ تعمیر کرایا اور دوسرے بڑے راستوں پر مسافر خانے بنوائے ۔
راستوں پر پانی کی سبیل
حضرت عثمان ؓ نے راستہ پر جا بجا پانی کی سبیلیں بنوائیں اور ان میں میٹھے پانی کا بندو بست کیا ۔
مساجد کی تعمیر
حضرت عثمان ؓ نے بڑے راستوں پر اور اپنے مفتوحہ علاقوں میں مسجدیں تعمیر کرائیں ۔ مسجد نبوی اور مسجد حرام میں ان کے کام کا تذکرہ گزر چکا ہے ۔
چراگاہیں قائم کرنا
چراگاہیں جانوروں کے چارے کے لیے مختص کی ہوئی زمینیں ہوتی ہیں جو ہر بادشاہ ، نواب اور امیر لوگ قائم کرتے ہیں۔
اگرچہ چراگاہیں عرب میں اور اس وقت کی دنیا میں قائم تھیں لیکن حضرت عثمان ؓ نے ان کو ترقی دی ، ان کے ارد گرد چشمے تیار کروائے ، کنویں کھدوائے اور اس کی نگہبانی کرنے والوں کے لیے گھر بنوائے۔ حضرت عثمان ؓ نے جن چراگاہوں کو ترقی دی ان میں ربدہ ہے جو دس میل چورس تھی نیز نقیع اور ضربہ تھیں ۔
صحابہ رضوان اللہ علیھم کی خدمت
عام طور پر مدینے میں موجود صحابہ کو روزانہ دعوت کرتے تھے اور انھیں عمدہ طعام کھلاتے تھے اسی طرح وقتاً فوقتاً مدینے کے لوگوں کو تحائف دیتے تھے ۔ کبھی کپڑے ، چادریں ،کبھی گھی اور کبھی دوسری اشیاء تقسیم ہوتیں ۔ بلا ذری نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے عباس بن ربیع کو ان کی ضرورت کی بنا پر ایک لاکھ درہم دینے کے ساتھ ان کے اخلاق اور مروت کے بدلے میں بصرہ میں ایک مکان بھی دیا ۔اسی طرح ابن سعد مخزومی کو مسجد ِ نبوی میں ایک ہزار درہم اور چادر عنایت کی۔
مقروضوں سے قرض معاف کرنا
حضرت عثمانؓ سے دوست و احباب اور کبار صحابہ قرض لیتے تھے اور وہ خوشدلی سے انہیں ادا کرتے تھے پھر جب قرض ادائیگی کا وقت آتا تو انہیں معاف کر دیتے تھے ۔ ایسی کئی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں کہ انہوں نے قرض معاف کر دیا۔
حضرت طلحہ ؓ نے ان سے پچاس ہزار درہم قرض لیا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے حضرت عثمانؓ سے کہا آپ کے قرض کی ادائیگی کا بندو بست ہو گیا ہے ۔ سو چلیے آپ کو ادا کر دوں ۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے وہ قرض آپ کو معاف کر دیا ہے۔
ویران زمینوں کی آباد کاری
انہوں نے لوگوں کو روز گار مہیا کرنے ، ملکی آمدنی بڑھانے اور بے کارلوگوں کو کام سے لگانے کے لیے ایک ویران ، غیر آباد اور ریگستانی زمینوں پر اپنے غلاموں ، آزاد کردہ غلاموں اور بے روز گار لوگوں کو زرعی آلات اور سامان دے کر ان زمینوں پر آباد کرایا۔ یہ لوگ زمینوں میں اناج سبزیاں اور باغ لگاتے ، اس طرح ایک طرف ان کو روز گار ملتا تو دوسری طرف ملک کی آمدنی میں اضافہ ہوتا اور لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوتیں ۔ بے روز گاروں کو کام سے لگانے کا یہ بہترین طریقہ ہے ۔
انفرادی عطیات
یہ چند کام ہیں جواجتماعی اصطلاح و بھلائی کے حضرت عثمان ؓ نے کیے البتہ انفرادی عطیات دینے ، لوگوں کی خفیہ مدد کرنے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے میں بھی وہ نمایاں ہیں۔ ان کی تفصیل بڑی کتابوں میں ان کے حالات ِ زندگی میں بیان کی گئی ہے ۔ حضرت عثمانؓ کو ۱۸ ذی الحج ۳۵ ہجری کو مدینہ منورہ میں بلوائیوں نے شہید کر دیا۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔ ( سیرۃ ذی النورین۔ ابو القاسم دلاوری)
٭٭٭