لک تیرے غلام ہیں سر کو- جھکائے ہم
در پہ ترے کھڑے ہوئے نظریں اٹھائے ہم
مانا کہ زندگی کے ستم بےشمار ہیں
اور بندگی میں راہ کے پتھر ہزار ہیں
لیکن تیری عطا کے ہی امیدوار ہیں
آنکھوں سے آنسوؤں کے ہیں موتی لٹائے ہم
مشکل بڑی ہے یارب اس عہدِ جدید میں
ہم جی رہے ہیں جس طرح یاس ووعید میں
لیکن تیرا نشان ہے حبلِ ورید میں
بےشک اسی یقین پہ گرنے نہ پائے ہم
یارب یہ ارتقاہے کوئی یا جمود ہے
انساں کے آستاں پہ خدائی نمود ہے
جلتے ہوئے زمانے میں گویا وجود ہے
کب تک جئیں گے اس طرح دہشت کے سائے ہم