سانحہ کربلا تاریخِ اسلام کا ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کا ایک دل گداز واقعہ ہے، اس واقعہ نے عالم اسلام پررنج وکرب عزم وہمت کے جوگہرے نقوش چھوڑے ہیں اتنے کسی اورواقعہ نے نہیں چھوڑے ۔ زندگی کی رمق اورجوجوہرانسانیت کی حیات میں نظرآتا ہےتو یہ سب نواسۂ رسولؐ جگرگوشۂ بتول کی شہادت عظمیٰ کا ثمرہے۔سیدنا امام عالی مقام کی ولادت بہ سعادت کے لیےجس قدر اہتمام کیا گیا اور پھر جس قدر نوازا گیا اورپھراس قدر آزمائش بھی لی گئی ، آپ قرآن مجید کی اس آیت کی عملی تفسیر بن گئے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
’’ اورالبتہ ہم تم کوکچھ خوف ،بھوک اورتمہارے مالوں جانوں اور پھلوں کے نقصان میںضرور مبتلا کریں گے اور صبرکرنے والوںکو خوشخبری دے دو‘‘ ( البقرہ155)
اس آزمائش سے توانبیاء بھی مستثنیٰ نہیں رہے کیونکہ اسلام کی اساس رسالت پرہےاوررسالت کا یہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہوکرحضرت محمد ؐ تک مکمل ہوجاتا ہے۔تمام انبیاءالسلام ہی کے مبلغ تھے اوراسلام نام ہے تسلیم ورضا کا ، صبرواستقامت کا قربانی کا، باطل کے مدِ مقابل ڈٹ جانے کا اوراللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دینے کا بقول علامہ اقبال۔
برتراز اندیشہ سودوزیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اورکبھی تسلیم جاں ہے زندگی
حضرت علامہ اقبال کی شاعری میں حضرت امام حسین ؓ اور سانحہ کربلا ایک استعارہ ہےجوظلم وستم کےخلاف استقامت اور اسلام کی حقیقی رہبرکی نشاندہی کرتاہے۔آپ حضرت امام حسین ؓ کوخراج عقیدت اس طرح پیش کرتےہیں۔
غریب وسادہ ورنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا رہے اسمعیل
اقبال رموز بےخودی میں نظم ’’ درمعنی حریت اسلامیہ وسرحادثہ کربلا ‘‘ میں اس عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ وہ مردِ مومن جو’’ ہوالموجود‘‘ سے پیمانِ وفا باندھ لے وہ کبھی بھی باطل کے آگے جھکتے نہیں ان کی گردن ہر معبود کی قید سے آزاد ہوجاتی ہے۔مومن کی حیات عشق الٰہی کی بدولت ہےاور حریت عشق کے ناطے کی مسار بان ہے۔ایک طرف امام عالی مقام عشق کے علمدار تھے دوسری جانب ہوس پرورعقل تھی ۔ خلافت کارشتہ قرآن سے کٹ چکا تھا ، اورحریت مرچکی تھی ، اس لمحۂ نازک میں حضرت امام حسین ؑ اٹھے اورکربلا کی زمین میں حریت کوہمیشہ کے لیے زندہ کردیا ۔زندگی عشقِ الٰہی کی بدولت امر ہوگئی با مقصد ہوگئی۔
صدیقِ خلیل بھی ہےعشق صبرحسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدرو حسنین بھی ہے عشق
(اقبال)
سانحہ کربلا وہ دل گداز واقعہ جوہمیں درس دیتا ہےصبرکا ، استقامت کا، توکل کا ، جہاد حق کا ، عزیمت کا ،توحید کا ،آفاقی حقیقت کا ، اس کرب و بلا نے ثابت کیا ہے کہ شریعت زندہ ہےامام حسین ؑ کی علامت میں آپ عالی مقام نے رزم حق وباطل میں ثابت کیا کہ اگرہوس پرور عقل عشق سے نبرد آزما ہوجائے توجیت نہیں سکتی۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں سلطنتیں قائم ہوئیں عروج پایا زوال مقدرہوا اورصفحہ ہستی سے مٹ گئیں لیکن واقعہ کربلا ابھی بھی زندہ ہے۔
علامہ اقبال کا موقف بھی یہی ہے کہ جب خلافت کاتعلق قرآن سےمنقطع ہوجائے تو نظام امت مسلمہ میں حریت فکر ونظرباقی نہیں رہتی ۔ لمحۂ فکریہ ہے آج امت محمدی میں کردار ِ ہستی کا فقدان ہے اس قافلہ حجاز میں ایک بھی حسین نہیں ۔ آج ہرانسان تنہا ہے غمگین ہے حُر بن یزید جیسی کیفیت میں مبتلا ہےحق وباطل کی پہچان نہیں کر رہا۔
مگریاد رہےجیسے ہی حُر بن یزید اپنی سابقہ کارروائی پرنام ہوکر تائب ہوا تواہل بیت کی محبت کا جذبہ بیدار ہوگیا پس 9 محرم الحرام کی تاریخ یاد دلاتی ہے کہ یزیدیت حسنیت کی پہچان کریں کہ
ہماری نسبت ’’ نسبتِ حسین ‘‘ سے ہے یا ’’لشکر حسین ‘‘ سے
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
٭ ٭ ٭ ۱۔ پروفیسر ڈاکٹر فارحہ جمشید :پی ۔ایچ ۔ڈی اردو ایم فل اقبالیات ایل ایل بی ایم اے اردو ، پنجابی بی ۔ ایڈ ،اقبالیات کے موضوع پر تین کتب اور آرٹیکلز مختلف اخبار اور رسائل کے لئے گورنمنٹ ڈگری کالج ملتان ، نشاط کالج، ایمرسن کالج ، میمونہ پوسٹ گریجویٹ کالج ملتان میں اقبال کا پیپر پڑھانے کا تجربہ رہا آج کل پنجاب گروپ آف کالجز ملتان شعبہ اردو میں بطور صدر شعبہ اور کنوینئر اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہوں ۔