ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جوگ سہاگن کا -​بتول ستمبر ۲۰۲۱

’’اّماں، امّاں، جلدی آؤ، دیکھو تو بوا رحیم بی بی نے کیسے اپنے سر پر خاک ڈالی ہوئی ہے……مٹی میں بیٹھی ہیں اور انگلیوں سے مٹی میں لکیریں مار رہی ہیں ……ساتھ ساتھ بڑبڑاتی بھی جا رہی ہیں، میری طرف دیکھ ہی نہیں رہیں‘‘۔
چھوٹی بیٹی جو اپنے بچوں کے ساتھ سسرال سے چھٹیاں گزارنے میکہ آئی ہوئی تھی پریشانی سے اپنی ماں کو آوازیں دیےجا رہی تھی۔ امّاں سب کام چھوڑ چھاڑ بھاگی آئیں اور بہت ہی محبت کے ساتھ بُوا کو اٹھایا، سر اور کپڑوں سے خاک جھاڑی، منہ ہاتھ دھلوایا اور اپنے ساتھ کمرہ میں لے گئی۔ چھوٹی بیٹی ثمرہ سوچتی رہ گئی۔
یہ روزانہ کا معمول تھا، بُوا اپنے آپ سے بیگانہ ہو چکی تھیں وہ مٹی میں لکیریں کھینچتی رہتیں خود سے باتیں کرتیں نہ کھانے کا ہوش اور نہ پہننے کا پتہ، وہ ایسی تو نہ تھیں، بہت پرہیزگار، ملنسار، خوبصورت خاتون تھیں ۔اس حال کو کیسے پہنچ گئیں، ثمرہ کا ذہن بہت پیچھے جا چکا تھا۔ اس کے کانوں میں اّماں کی آواز گونج رہی تھی ۔وہ بڑی بہن کو آواز دے رہی تھیں۔
’’شمو!اری شمو!چھوٹی گڈی کو بلانا ‘‘۔
اماّں کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ چھوٹی زقندیں بھرتی اّماں کے سامنے آن کھڑی ہوئی اّماں چولھے کے پاس بیٹھی لال انگارہ ہو رہی تھیں۔
’’میری اماّں کتنی خوبصورت ہیں‘‘ دمکتا ہؤا سرخ و سفید رنگ، وہ یک ٹک دیکھتی رہ گئی۔
’’ کیا دیکھ رہی ہو ‘‘، امّاں نے اسے خلاف معمول سنجیدہ دیکھ کر پکارا ۔
’’ کچھ بھی نہیں، کچھ بھی تو نہیں‘‘ یہ کہتی ہوئی چھوٹی محبت سے اماں کے ساتھ لپٹ گئی۔’’اماں آپ کتنی اچھی ہیں‘‘ اماں بھی چند لمحوں کے لیے اسے بلانے کا مقصد بھول بیٹھیں۔
’’ارے ہاں میری بیٹی‘‘اماں اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولیں’’میری باتیں غور سے سنو چھوٹی! اور اچھی طرح پلّوُ سے باندھ لو‘‘ اس سے پہلے کہ اماں اصل مدعا پر آتیں چھوٹی نے اماں سے پڑھے ہوئے سبق کی گاڑی چلا دی اور فر فر سنانا شروع کر دیا۔
’’ہمارے تایا ابا امریکا سے آرہے ہیں وہ چالیس سال بعد آئیں گے ان کو ہم پہلی دفعہ دیکھیں گے ان کو ہم نے بڑے ابا جی کہنا ہے وہ جب آواز دیں گے تو انہیں’’ جی‘‘ اور’’ ہاں جی‘‘ کہنا ہے‘‘ان کے آنے پر کوئی بدتمیزی نہیں کرنی، اودھم نہیں مچانا، تمیز سے رہنا ہے،ہے نا اماں! یہی باتیں بتانے کے لیے آپ نے مجھے بلایا تھا نا؟‘‘
یہ کہہ کر یہ جا وہ جا، اماں کو خوشگوار حیرت میں چھوڑ کر وہ باہر اپنی ہم جولیوں کے جھرمٹ میں گم ہو گئی تھی۔ اس کھلنڈری کو یہ سبق اماں دن میں دو تین دفعہ تو ضرور پڑھاتی تھیں۔
اماں خوش ہیں کہ چھوٹی کو سب کچھ ازبر ہے اللہ کرے وقت آنے پر عمل بھی کرلے یہ سوچ کر اماں نے نگاہ اٹھائی چھوٹی تو کب کی کد کڑے لگاتی غائب ہو چکی تھی رہ گئی بڑی شمو اسے تو سمجھانے کی ضرورت نہ تھی وہ تو ماں کے پیٹ سے سارا طریقہ سلیقہ اور عقل سمجھ سیکھ کر آئی تھی گویا ۔
اور کھلنڈری چھوٹی جو کہ اب ثمرہ ہے اپنی ہی سوچوں میں گم ہے تائی اماں جن کو سب بوا کہتے ہیں چودہ سال کی عمر میں چوہدریوں کے گھر بیاہ کر آئی تھیں اب بوڑھی ہو چکی ہیں اماں بتاتی تھیں کہ وہ بہت دیندار، کھاتے پیتے گھرانے کی خوبرو نوجوان اور نیک دوشیزہ تھیں نماز روزہ کی پابند، سال بعد اللہ نے بیٹا عطا فرمایا محمد نام رکھا گیا۔ بوا کے والد ولی اللہ تھے، بچہ نو ماہ کا ہؤا تو تایا جان امریکا چلے گئے پڑھے لکھے تھے ضلع جالندھر، تحصیل نکودر کے گاؤں دانیوال کا متمول خاندان تھا۔ گاؤں کی نمبر

اور کھلنڈری چھوٹی جو کہ اب ثمرہ ہے اپنی ہی سوچوں میں گم ہے تائی اماں جن کو سب بوا کہتے ہیں چودہ سال کی عمر میں چوہدریوں کے گھر بیاہ کر آئی تھیں اب بوڑھی ہو چکی ہیں اماں بتاتی تھیں کہ وہ بہت دیندار، کھاتے پیتے گھرانے کی خوبرو نوجوان اور نیک دوشیزہ تھیں نماز روزہ کی پابند، سال بعد اللہ نے بیٹا عطا فرمایا محمد نام رکھا گیا۔ بوا کے والد ولی اللہ تھے، بچہ نو ماہ کا ہؤا تو تایا جان امریکا چلے گئے پڑھے لکھے تھے ضلع جالندھر، تحصیل نکودر کے گاؤں دانیوال کا متمول خاندان تھا۔ گاؤں کی نمبر داری بھی ہمارے خاندان کے پاس تھی۔ ہمارے ابا 3 بھائی اور ایک بہن اسی گاؤں میں آباد تھے بڑے تایا پڑھے لکھے تو نہ تھے لیکن بہت سے فنون کے ماہر تھے روحانی معالج اور بہترین تیراک اور شکاری تھے لوگوں کا ان پر بہت اعتقاد تھا پیروں کی طرح مانتے تھے۔ منجھلے تایا اور ہمارے ابا جان پڑھے لکھے تھے، احمد اور شاہ دین محمد نواز نام تھے۔ منجھلے تایا بہت گورے چٹے تھے وہ گوروں کے دیس سدھار گئے ہمارا تایا زاد بھائی اس وقت چارپائی پکڑ کر کھڑا ہوتا تھا ۔تایا دیارِ غیر سدھارے تو وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ 16 سالہ ر فیقہ حیات جس کو پیچھے چھوڑ کر گئے تھے قصہ پارینہ بن گئی، نئی دنیا کی چکا چوند نے سب کچھ بھلا دیا سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں کے سحر کے اسیر ہوگئے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ کوئی ان کی امانت کو سینے سے لگائے ہوئے امید کے جوت جگائے ان کی راہ تک رہا ہے۔
ثمرہ کے گلے میں آنسوؤں کے گولے اٹکنے لگے سرخ آنکھوں میں دکھ کے سیلاب امڈ آئے، دل کرچی کرچی ہو رہا تھا، اماں نے بوا کے کپڑے بدل دیے تھے کھانا کھلا رہی تھیں، اور بوا وہ گرد و پیش سے بے نیاز مسکرا مسکرا کر اماں کو دیکھ رہی تھیں۔
تایا نے امریکہ میں گھر آباد کر لیا ایک بیٹے کی جگہ اللہ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی دے دی۔یہ سب ان کے پیروں کی بیڑیاں بن گئے ۔اکلوتا بیٹا برصغیر میں اپنی ماں اور چچا اور ننھیال کی سرپرستی میں پرورش تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتا رہا۔بوا انتظار کی ردا اوڑھے دہلیزوں و راستوں کو تکتے رہیں محمد، نانا کی روحانیت چچا کی فہم و فراست و ذہانت اور ماں کے صبر کی چھاؤں میں پروان چڑھا ،زمانے سے الگ ہی اٹھان تھی، نہ جانے کون کون سی دعائیں اور تمنائیں دل میں سجائے بوا اس کو پال رہی تھیں، محمد کو کیا کہانیاں سنائی ہوں گی کوئی نہیں جانتا ۔
ثمرہ نے اماں اور بوا کی طرف دیکھا ۔اماں اپنے کاموں میں جتی ہوئی تھیں اور بوا کھانا کھا کر آرام کی نیند سو رہی تھیں۔ ثمرہ کے ذہن میں پھر ماضی کی فلم چلنے لگی۔
محمد پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن گیا انگریزوں کا راج تھا ۔وہ بچپن سے ہی نماز روزہ کا پابند تھا۔ چچا (ہمارے ابا) کے پانچ بیٹے تھے زمینداروں کی اولاد فکر معاش سے بے نیاز تھی عمریں بھی چھوٹی تھیں۔محمد سب سے بڑے تھے۔ہر وقت سر پر ٹوپی رکھنے کی وجہ سے دوست احباب مولوی کہتے تھے۔ اذان کی پانچ وقتہ آواز محمد کو سب کام چھوڑ کر اپنی طرف کھینچ لیتی اور وہ مسجد کی راہ لیتے جبکہ باقی لڑکے کھیل تماشہ میں مصروف رہتے۔ بوا فخر سے اپنے بیٹے کو دیکھتیں اور محبت سے اپنے ساتھ چمٹا لیتیں، نہ جانے کون کون سے خدشات ساتھ ساتھ ان کے دل میں پل رہے تھے محمد نے تو باپ کو نوماہ ہی دیکھا تھا اب ان کے ذہن میں ابا کی کوئی تصویر بن نہ پاتی تھی سوائے چچا کے۔
ہم جولیوں سے مولوی کا لقب پانے والا محمد قدم بہ قدم ترقی کے زینے چڑھتا رہا ،خاندانوں میں دور نزدیک کوئی اس کا ثانی نہ تھا ۔ ہمارے ابا ان کو اپنا بڑا اور چھٹا بیٹا کہتے تھے عملاً بھی ایسا ہی تھا بوا کا ہر سانس ان کے لیے تھا ابا نے اپنی بڑی بیٹی ان کو دے دی۔ دونوں کی سورج اور چاند سی جوڑی تھی۔ محمد بہت وجہیہ و شکیل بلند قدوقامت کے گھبرو جوان تھے اور ہماری بڑی آپا بھی کسی طرح کم نہ تھیں بوا کے بیٹے کا گھر بس گیا اس خوشی پر وہ نہال تھیں،محمد پاکستان کے کسی بڑے شہر میں تعینات تھا جب تحریک پاکستان شروع ہوگئی پاکستان بن گیا سب ہجرت کر کے پاکستان آ گئے ہمارے ابا اور ان کے دونوں بڑے بھائیوں کی زمین ایک جگہ الاٹ ہوئی بڑے بڑے گھر مل گئے از سر نو زمینوں کی نگرانی شروع ہوگئی ۔
میں اورمیرے چار اور بہن بھائی پاکستان میں پیدا ہوئے ۔ہمارے ابا اور بوا کا گھر اکٹھا تھا درمیان میں دیوار نہیں ڈالی تھی ۔ بو اکیلی رہتی تھیں محمد بھائی بڑے شہروں میں اپنی ملازمت کی ذمہ داریاں ادا کرتے بوا کی اور ہماری اماں کی بہنوں جیسی محبت تھی بیٹا کبھی اپنے پاس لے کر جاتا تو وہاں زیادہ دن نہ رہ پاتیں اور واپس گاؤں پلٹ آتیں اب ان کی محبت اپنے گھر کے در و دیوار سے منسلک ہو گئی تھی ان کا کام دودھ دینے والے جانوروں کی دیکھ بھال اور گھی، مکھن سنبھالنا ہو گیا ،کھانا ماں کے ساتھ کھاتیں،اپنا کبھی کبھار پکاتیں،پچاس کی دہائی میں بیٹے نے بوا کے لیے بہترین حویلی بنا دی، چھ، سات کمرے بنائے گئے بڑا دالان، بڑی بیٹھک ، جدید باورچی خانہ، گودام، سٹور اور ایک کمرہ کا دروازہ الگ تھلگ بنا دیاجہاں کام کرنے والوں کے خاندان کو بسا دیا گیا گویا بیٹے نے بوا کو گھر کی ملکہ بنا دیا ۔

ہر کمرے کا دروازہ دوسرے میں کھلتا اور بوا کونے والے کمرہ میں اکیلی سوتیں،ان کو عادت ہو گئی تھی ۔ثمرہ یاد کر رہی تھی کہ ابا اماں سردیوں کی لمبی راتوں میں بڑی اور چھوٹی بیٹی سے کہتے تھے کہ تم نے بوا کے پاس جا کر سونا ہے۔ وہ بہت مشکل سے آمادہ ہوتیں ان دونوں کو بوا کے گھر کے سناٹے سے وحشت ہوتی تھی،ان دنوں بجلی نہیں تھی لالٹین اور دیے جلائے جاتے تھے چھوٹے بچوں کی وجہ سے ہماری اماں دیے کی لو کو مدھم کر کے ساری رات چلتا رہنے دیتیں بوا دیا بجھا کر سوتی تھیں انہوں نے اندھیروں سے دوستی کر رکھی تھی ہمیں بہت خوف آتا تھا ہم اپنی اماں سے وعدہ لیتیں کہ وہ بوا سے کہیں رات کو دیا نہیں بجھائیں گی۔ وہ ہماری تسلی کراتیں کہ ہاں میں نے کہہ دیا ہے یوں ہم دونوں بہنیں بوا کے کمرے میں سونے چلی جاتیں۔ نیند کی وادیوں میں جانے تک ہم دیے کو دیکھتی رہتیں اور بوا سے کہتی رہتیں کہ اس کو آپ نے بجھانا نہیں ہے جیسے ہی بوا دیکھتیں کہ یہ دونوں سو چکی ہیں بوا اپنا کام کر گزرتیں اسی لمحہ ہم چیخ مارتے ہوئے اٹھ جاتیں رونا دھونا شروع ہو جاتا دیا جلانے اور بجھانے کا معاملہ طول پکڑ جاتا ہم ضد شروع کر دیتیں کہ ہم نے اپنی اماں کے پاس جانا ہے آپ کے پاس نہیں سونا ،بوا بڑبڑاتے ہوئے دروازہ کا کنڈا کھولتی اور غصہ سے ہمیں باہر نکال دیتیں ہم دونوں خوفزدہ بڑا سا صحن بھاگتے ہوئے عبور کرتیں اور اپنے دالان کا دروازہ جا کھٹکھٹاتیں اماں جیسے منتظر ہی ہوتیں بغیر کسی سوال جواب کے ہم اپنی آنکھوں میں نیند کا خمار لیے بستروں پر ڈھیر ہو کر خواب خرگوش کے مزے لینے لگتیں۔
اور بوا….. ان کو تو تنہائی اور اندھیرے سے پیار تھا وہ روشنیوں سے گھبراتی تھیں اب تو ان کے بالوں میں چاندی اتر آئی تھی۔ بیٹے کو اللہ نے تین بیٹے اور تین بیٹیاں دی تھیں ۔ہجر کے ماہ وسال کٹتے جا رہے تھے۔ بوا سہاگن ہو کر بھی بیوگی جیسی زندگی گزار رہی تھیں ،کبھی میکہ، کبھی سسرال اور کبھی بیٹے کے ہاں دن بیتتے جارہے تھے ۔انہوں نے صبر شکر کے ساتھ اپنی زندگی سے شاید سمجھوتہ کر لیا تھا۔خدا جانے ان کے دل میں کیا کیا کہانیاں ہوں گی شوہر کی طرف سے کوئی چٹھی نہیں،کوئی رابطہ نہیں، ابا کو شاید خط آتے ہوں یا بیٹے نے رابطہ کرلیا ہو۔
بوا کا تو ابھی کڑا امتحان باقی تھا۔ ان کا سب سے چھوٹا پوتا پیدا ہؤا۔ ابا اور محمد بھائی کا اپنے ابا سے رابطہ رہا سوتیلے بہن بھائیوں سے رابطہ ہؤا وہ محمد بھائی کو بھی وہاں بلا رہے تھے کہ ہم آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ابا آپ سے ملنا چاہتے ہیں ادھر پاکستان سے گھر والوں نے ان کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ آپ ہمارے ابا کو ملنے کے لیے پاکستان بھیج دیں واپسی کا ٹکٹ دے کر انہوں نے ان کو بھیجا ۔
یہاں سے بوا کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا جو پہلے سے مشکل تر تھا ۔ثمرہ کے ذہن کے پردہ پر وہ منظر نقش تھا جس دن تایا ابا امریکہ سے چالیس سال کے بعد لوٹے تھے۔ پورا گاؤں استقبال کے لیے امڈ پڑا تھا شہر کی طرف جانے والی کچی سڑک پر انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ تایا ابا کو چاروں طرف سے لوگوں نے گھیرا ہؤا تھا ۔ پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر انگریز نما شخص سے لوگ گلے مل رہے تھے ۔عورتیں اور بچیاں گھر پر تھیں اور ہماری بوا وہ تو اس دن بالکل پہلے دن کی دلہن کی طرح شرمائی لجائی اپنے کونے والے کمرے میں سکڑی سمٹی بیٹھی تھیں ۔آنکھوں میں آس کے دیپ چمک رہے تھے ۔لاجونتی کی طرح وہ شرم و حیاء کی پتلی بنی بیٹھی ہوئی تھیں۔کمرہ عورتوں سے بھرا ہؤا تھا ۔
اتنے میں ڈیوڑھی میں شور مچا تایا ابا آگئے بوا کچھ اور سمٹ گئیں۔بھائی، بیٹا اور رشتہ داروں کے جھرمٹ میں وہ بھی باراتیوں کے ساتھ گویا دولھا کی شان سے آرہے تھے ۔ان کو بڑے دالان میں بٹھایا گیا لوازمات سے تواضع کی گئی ،عورتیں، لڑکیاں، بالیاں کبھی بوا کو دیکھنے بھاگتیں اور کبھی بڑے دالان کا رخ کرتیں۔ چہ مگوئیاں بھی جاری تھیں۔بوا کی من چلی سہیلیاں ان کے کان میں کھسر پسر کرتیں،بوا کا چہرہ گلنار ہو جاتا، شام تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔
آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آنے لگی۔ بوا کو پہلے سے بھی زیادہ چپ لگ گئی ۔ عجب بوکھلاہٹ ان پر طاری رہتی،گوروں کے دیس کی

رنگارنگی تایا کو یہاں نظر نہ آتی ۔بوا میں ان کو کوئی دلچسپی محسوس نہ ہوتی۔ امید کا جو محل بوا نے اپنے من میں بسایا تھا وہ مسمار ہو چکا تھا۔ بڑے ابا جی ان پر طعن و تشنع کے تیر برساتے ان کے ہاتھ کا پکا نہ کھاتے اپنے لیے خود گوشت بھونتے اور خود ہی ہنڈیا صاف کر دیتے ۔ بوا مجازی خدا کے ہوتے ہوئے ایک بار پھر تنہا ہوگئیں۔ یہ دکھ ان سے برداشت نہیں ہو رہا تھا وہ نفسیاتی مریضہ بنتی جا رہی تھیں۔ بیٹھے بیٹھے بہک جاتیں، خود سے باتیں کرنے لگتیں،اپنے آپ سے بیگانہ ہوتی چلی گئیں ، بیٹے نے بہت جتن کیے علاج کرایا مگر افاقہ نہ ہؤا ،بیٹا بہت دلداری کرتا رہا مگر’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘ مرض تو کچھ اور تھا جس کے لیے پوری زندگی بتائی تھی وہ اجنبی ٹھہرا تھا، بوا کے دل کا حال کوئی نہیں جان سکتا تھا۔
اور اب یہ حال ہو گیا ہے وہ سوائے اماں اور بیٹے کے کسی کو پہچانتی نہیں ہیں۔اماں سے برسوں کی دوستی ہے بیٹے کو خونِ جگر دے کر پالا ہے۔ وہ خاک میں نہ جانے کیا تلاشتی رہتی ہیں۔ خوش لباس، خوش ذوق خوبصورت بوا کے قوس و قزح کے دن آئے تو چاروں طرف خزاں نے ڈیرے ڈال لیے۔ بوا سہاگن ہوتے ہوئے بیوگی کی نذر ہوگئیں اور آخر اسی طرح ایک دن اپنا جوگ پورا کرکے وہ حقیقی خدا کے حضور پہنچ جائیں گی۔
ثمرہ سوچتی رہ گئی ۔بوا سوتے میں مسکرا رہی تھیں جانے کون سے خواب دیکھ رہی تھیں ۔وہ رنگین خواب جو وہ حقیقت میں نہ دیکھ سکیں،بڑے ابا جی کے شب و روز اب بھی اپنے ان بیوی بچوں کے ساتھ گزرتے ان کے خطوط، فوٹو، ان کو دل و نگاہ میں بسائے ۔ وہ اسی دیس کے گن گاتے اور بوا کے ہر کام پر طنز کے تیر برساتے گزرتے ،وہ خاموشی سے یہ اذیت ناک وار سہتی اور خونِ دل آنکھوں کے رستے بہاتی رہیں۔
ثمرہ یہ سوال کس کے سامنے رکھے، قصوروار کس کو ٹھہرائے،بوا کو یا ان میکہ والوں کو یا سسرال میں چھوٹے، بڑے بھائیوں کو ،یا معاشرہ کے جاہلانہ رسم و رواج کو، جنہوں نے بوا کے ارمانوں کا خون کیا، ان کو فرسودہ بیڑیوں میں جکڑے رکھا ۔کیا کہتے ہیں علماءفقہا اس نازک اور اہم مسئلہ کے بارے میں! عورت ایک نام پر اپنی ساری زندگی جوگ کاٹتی رہے اور مرد اپنے حقوق استعمال کرتے ہوئے عیش کرتا رہے۔ واپس آکر تایا بھی ساری زندگی اپنے دو بیٹوں اور بیٹی کو یاد کرتے رہے ان کی آل اولاد کی تصویریں سینہ سے لگائے بیٹھے رہے، ظالم کون ہے؟ مظلوم کون ہے؟ ارباب حل وعقد کوئی فیصلہ تو ہو آنے والوں کے لیے تاکہ بنت حوا سہاگ کا جوگ اور وچھوڑے کا درد نہ سہے۔
ثمرہ نے ٹھنڈی سانس بھری اور اٹھ کر بوا کی طرف بڑھ گئی ۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x