بتول جولائی ۲۰۲۴جنت کدہ مشرقی طرز ِ معاشرت میں سانس لیتی ، چار...

جنت کدہ مشرقی طرز ِ معاشرت میں سانس لیتی ، چار نسلوں میں پروان چڑھتی ، چاندنی میں نہائی کہا – بتول جولائی ۲۰۲۴

چنبیلی اور مولسری کی خوشبو میں بسی ہوئی مہک نے مشام جان کو معطر کر دیا ۔میں نے سیٹ پر سے سر اٹھایا۔ کھڑکی سے جھانکا ۔’’جنت کدہ‘‘ کی عظیم الشان محل نما عمارت اپنے جاہ و جلال کے ساتھ اسی طرح کھڑی تھی۔
جامن ، آم، امرود ، لوکاٹ کے گھنے گھنے درختوں کے درمیان دودھیا پتھر کی اس عمارت میں میری پیدائش بھی ہوئی اوربچپن سے شادی تک سارا وقت یہیں گزارا۔دادا ابا حضور کی یہ حویلی اُن کو ورثے میںملی تھی ۔ چاندنی راتوں میں اُس کا حُسن اور بھی نکھر جاتا جب یہ سفید سفید چاندنی کے نور سے نہا جاتی ۔ سنا تھا دادا ابا حضور کا خاندان اس میں کئی پشتوں سے آباد تھا۔ یہ اتنی وسیع و عریض تھی کہ کئی خاندان آباد ہونے کے باوجود اس میں بے پناہ گنجائش نظر آتی تھی ۔
میں اپنے دادا ابا حضور کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی پوتی تھی ۔ میرے علاوہ اس حویلی میں میری لاڈلی ایرانی بلی چمپا سب کی چہیتی تھی ۔ امی ، ابو ، چچا جان ، چچی جان ، پھوپھیاں ، پھوپھی زاد بہنیں اور چچا زاد بھائی اس حویلی کے مکین تھے۔ فریدی بھیا اور شہباز بھائی میرے چچا زاد بھائی تھے ۔ عامر بھائی میرے اکلوتے بھائی جو ایف آر سی ایس کرنے لندن گئے ہوئے تھے ۔ آصفہ باجی اور شہناز آپا ساجدہ پھوپھی کی بیٹیاں تھی ۔ رخسانہ آپا عامرہ پھوپھی کی اکلوتی اولاد تھیں جو اپنے چچا زاد سے بیاہی ہوئی تھیں اور اسی حویلی میں رہتی تھیں کیونکہ اُن کے شوہر امریکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے گئے ہوئے تھے ۔
طلعت آپی دادا ابا حضور کے بچپن کے دوست ڈاکٹر خورشید مرزا کی بیٹی تھیں ۔ ماں باپ کی اچانک وفات نے اُن کو تنہا کر دیا تھا ۔دادا ابا انہیں بے حد اصرار سے جنت کدہ لے آئے تھے ۔ وہ خود صاحب جائیداد تھیں ۔ اپنی جائیداد اور زمینوں کا حساب کتاب دادا حضور کے مشورے سے خود کرتی تھیں ۔ گھر کے کاموں میں نوکروں کے ہوتے ہوئے بھی بیشتر ذمہ داریاں سنبھال رکھی تھیں ۔ بے حد خاموش ، سنجیدہ ، پر وقار اور حسین تھیں ۔ اُن کے چہرے پر نظر ڈالنے والا بڑی مشکل سے اپنی نظر ہٹا پاتا تھا ۔ یہ شاید اُن کے حسن کی مقناطیسیت تھی ۔ سرخ و سفید رنگ ، ستواں ناک ، گہری سیاہ آنکھیں جن پر لمبی پلکوں کی جھالر ڈھکی رہتی ۔ گھونگر والے سیاہ بال جنہیں وہ کھولتیں تو یوں لگتا تھا کہ گہری گھٹا چھا گئی ۔ رخسانہ آپا تو ہمیشہ انہیں ٹوکتیں ۔
’’ طلعت بالوں کو لپیٹ کو رکھا کرو۔ کوئی جن ، وغیرہ عاشق ہو گیا تو بڑی مشکل ہو جائے گی ۔ یہ ظالم تو ویسے ہی خوبصورت بالوں پر مر مٹتے ہیں ‘‘۔
اور و ہ جھینپ کر گیلے بالوں کو لپیٹ کر جوڑا بنا لیتیں۔
میں نے جب ہوش سنبھالا تو گھر پر ساجدہ پھوپھی کا راج دیکھا ۔ وہ کڑوے مزاج اور اکھڑ طبیعت کی وجہ سے سسرال میں نبھا نہ سکیں اور شادی کے چار سال بعد دو بچیوں کے ساتھ شوہر کو چھوڑ کر میکے میں ایسی آباد ہوئیں کہ پھر سسرال کا منہ نہ دیکھا ۔ اُن کی دلداری دادا ابا حضور نے ایسی کی کہ گھر کا انتظام و انصرام اُن کے سپرد کر دیا ۔ سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے حاکمانہ مزاج تو پہلے ہی تھا ۔ اب وہ ’’ کڑوا کریلا نیم چڑھا‘‘ مزاج کے ساتھ سب پر حکم چلاتیں ۔ دادا ابا حضور ہر وقت ہر لمحہ اُن کی ہر بات کو اہمیت دیتے ۔ میری امی اور چچی شرمندگی اور کم مائیگی کے احساس کو دبائے ادھر سے اُدھر بوکھلائے بوکھلائے رہتیں ۔اسی وجہ سے اُن دونوں بہوئوں نے گھر کے ہر معاملے سے اپنے آپ کو الگ کر لیا تھا ۔ وہ اپنے کمروں میں سلائی میں مصروف رہتیں ۔ چچی جان سینے پر ونے میں بڑی ماہر تھیں ۔ وہ نت نئے فیشن کے کپڑے سی کر مجھے اور رخسانہ آپا کی بچیوں کو پہنایا کرتی تھیں ۔
میرے دادا ابا حضور پھولوں کے بے حد شوقین تھے ۔ حویلی میں عمارت کے چاروں طر ف وسیع و عریض لان اُن کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پھولوں کی خوشبو سے مہکتا رہتا تھا ۔ مولسری ، چنبیلی ، موتیا ، بیلا ، گلاب کی بھینی بھینی مہک جب میرے کمرے کی کھڑکی سے اندرآتی تو میں اس خوشبو سے جھوم اٹھتی ، اپنی چمپا کو لیے کھڑکی سے کود کر لان میں پہنچ جاتی ۔ یہ میری بچپن کی عادت تھی کہ میں دروازہ کا استعمال بحالتِ مجبوری کرتی ورنہ کھڑکی کے راستے سے آنا جانا مجھے آسان اور اچھا لگتا تھا ۔ رخسانہ آپا نے تو میری اس عادت کی وجہ سے ’’ بندریا‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا ۔ اس عادت نے کبھی ہاتھ پائوں میں چونا ہلدی کا لیپ کرایا ۔ کبھی کلائی کی ہڈی میں کوئی بال آیا ۔ مگر چور چوری سے گیا ہیرا پھیری سے نہ گیا۔ گرمیوں میں رات کی رانی کی مہک جب ان دلفریب خوشبوئوں کے ساتھ مل جاتی تو میں بے ساختہ کھڑکی کھول کر کود جاتی ۔ فجر کی نماز عموماً میں گھاس پر پڑھتی ۔ نماز کے بعد ہر ی مخملیں گھاس پر ٹہلتے ہوئے خوشگوار احساس ہوتا۔ چمپا بیلے چمبیلی کے پھول گھاس پر سے سمیٹتی اور سارے پھول دوپٹے کے آنچل میں بھر لیتی۔
طلعت آپا کا کمرہ میرے کمرے کے برابر تھا ۔ میں شرارتاً اُن کی کھڑکی سے کود کر عین اُن کے سامنے جاء نماز پر گرتی جہاں وہ تلاوت ِ قرآن میں مصروف ہوتی تھیں ۔ ان کے صبیح چہرے پر لپٹا ہؤا سفید ململ کا دوپٹہ اور خوش الحانی سے تلاوتِ کلامِ پاک ایسا خوبصورت امتزاج ہوتا کہ دل چاہتا انہیں سنتی رہوں ۔ میرے اچانک سامنے آجانے پر وہ دھیمے سے مسکرا دیتیں ۔ قرآن مجیدکو آنکھوں سے لگا کر بند کر دیتیں اور میرے گال تھپتھپا کر کہتیں ۔
’’ کسی دن ہاتھ پیر ٹوٹیں گے بلی کے تو پتہ چلے گا ‘‘۔
میں ٹھنکتی لاڈ دکھاتی اُن کی گود میں سر رکھ دیتی اور آنچل میں بھرے سارے پھول اُن کے سامنے بکھیر دیتی ۔ بہار کا حُسن اس حویلی پر اتنی خوبصورتی سے چھا جاتا کہ جنت کدہ کے تمام گل بوٹے ایک ساتھ مہک اٹھتے ۔ میں پھولوں کے درختوں پر چڑھی ساری دوپہر کیری امرود توڑتی اور طلعت آپا کی گود میں ڈھیر لگا دیتی ۔ وہ پیار سے کہتیں ۔
’’ یہ چوری کے پھل تم ہی کھائو ‘‘۔
میں خفا ہو جاتی ۔’’ واہ اپنے گھر میں کیسی چوری ، میرے باپ دادا کا مال ہے جو میں نے سخت محنت کر کے توڑا ہے ‘‘۔
وہ سنتی رہتیں اور میں اُن کے دونوں گالوں میں پڑتے ہوئے اُن خوبصورت گڑھوں میں دیکھتی جو ان کے ہنستے گالوں میں پڑ جاتے تھے اور جس سے اُن کے حسُن میں اور اضافہ ہو جاتا تھا ۔
ایک خوبصورت سی صبح عامر بھائی کا ٹیلی فون آیا کہ وہ اگلے ہفتے پہنچ رہے ہیں ۔ اُن کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی ۔ انہوں نے دادا اباحضور کو اپنے امتیازی نمبروں سے پاس ہونے کی خوشخبری سنائی ۔ اس خبر نے جنت کدہ کی رونقوں میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا ۔ دادا ابا حضور نے عامر بھائی کے آنے کی خبر سن کر کئی دعوتوں کا پروگرام بنا ڈالا تھا ۔ عامر بھائی کو جس دن آنا تھا اُسن دن دادا ابا نے کئی بکروں کا صدقہ دیا اور پورا دن غریبوں میں گوشت اور روپے تقسیم ہوتے رہے ۔ امی نے تمام نوکروں کے نئے جوڑے بنوائے ۔ بھیا کے اوپر سےصدقہ اتارا گیا۔
بھیا آتے ہی امی کے سینے سے لگ گئےاوربچوں کی طرح دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔ مجھے معلوم تھا بھیا امی کو اور امی بھیا کو بے حد چاہتے تھے ۔ کئی سال کی جدائی امی نے کیسے برداشت کی یہ میں ہی جانتی ہوں ۔ کیونکہ میں نے اُن کو کئی مرتبہ چھپ چھپ کر روتے دیکھا تھا ۔ دادا ابا بھی امی کی اس والہانہ چاہت سے اچھی طرح واقف تھے اس لیے انہوں نے عامر بھائی سے لندن روانگی سے پہلے وعدہ لے لیا تھا کہ:
’’ تم صرف پڑھائی کی طرف توجہ دو گے ۔ گھر پر ٹیلی فون اس وقت کرنا جب تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائو ‘‘۔
یہ امی اور عامر بھائی دونوں کے لیے سخت سزا تھی ۔مگر بھیا نے دادا ابا کی حکم عدولی نہیں کی اور امی کے دل کاحال جاننے کے باوجود اپنے دل پر بھی اتنے دن پتھر ہی رکھا ۔ شاید اس وقت بزرگوں میں یہ سخت مزاجی اُن کی شان و عظمت کی نشانی سمجھی جاتی تھی ۔ روایات پر سختی سے خود بھی عمل کرتے اور بچوں کو بھی اُس کا پابند بناتے ۔ بہر حال میرے دادا ابا حضور ان تمام سختیوں کے باوجود اپنے پوتا پوتیوں کی جان تھے ۔ اُن کے حکم کے خلاف گھر میں کبھی کوئی کام نہ ہوتا تھا۔
بھیا کے لندن سے آتے ہی حویلی میں دادا ابا حضور کے پروگرام کے مطابق رنگا رنگ تقریبات شروع ہو گئیں ۔ ان تقاریب کے انعقاد کا مقصد عامر بھائی کے لیے دلہن کا انتخاب کرنا تھا ۔ میں نے جب اس مقصد کے لیے حویلی کے اندر باہر نظر ڈالی تو طلعت آپی کے علاوہ کسی پر نظر نہیں ٹھہری ۔ بس میرے لیے تو وہی دوست وہی بھابھی وہی غمگسار تھیں ۔ وہ ہی دادا ابا حضور کو صبح سویرے سبز چائے کے ساتھ بادام کا خمیرہ کھلاتیں ۔ نوکروں کے ساتھ ناشتہ اور کھانا پکانے میں مدد کرتیں ۔ چچی جان سلائی کے بعد ترپائی ، ٹکائی کا سارا کام اُن کے سپرد کر کے بے فکر ہو جاتیں ۔ امی کے چھوٹے موٹے کاموں میں اُن کی مدد کرتیں ۔
عامرہ پھوپھی،امی اور چچی جان کے خیال میں طلعت آپا کسی محل کے شہزادے کے قابل تھیں ۔ مگر گھر کے شہزادے کے لیے وہ تینوں بالکل خاموش تھیں کیونکہ طلعت آپا ہمارے خاندان کی نہ تھیں اور یوں بھی ساجدہ پھوپھی کے علاوہ کسی کو بھی اس معاملے میں بولنے یا رائے دینے کا اختیار نہیں تھا اور ساجدہ پھوپھی طلعت آپاسے اُسی دن سے بغض رکھتی تھیں ۔ جس دن انہوں نے حویلی میں قدم رکھا تھا اور میں نے تو یہاں تک سنا تھا کہ عامر بھائی کو طلعت آپا سے دور کرنے کے لیے ہی ان کو باہر بھیجا گیا تھا ۔ بھیا جب سے واپس آئے تھے ساجدہ پھوپھی ہر بہانے آصفہ باجی اور شہناز آپی کو بھیا کی خدمت کے لیے بھیج دیتیں ۔ موقع بہ موقع اپنی بیٹیوںکی تعریف کرنا ، ان کی سلیقہ مندی کا ڈھندورا پیٹنا ساجدہ پھوپھی کی عادت تھی ۔ بھیا کو بیڈٹی کی قطعی عادت نہیں تھی مگر آصفہ باجی بڑی پابندی سے صبح ہی صبح بن سنور کر اُن کو بیڈ ٹی پلاتیں ۔ طلعت آپا عامر بھائی کے سامنے آنے سے کتراتی تھیں ۔
ایک شام جب خزاں کے بعد بہار کا آغاز ہونے والا تھا ۔ بہار کی نرم اور ٹھنڈی ہوائوں کے ساتھ نئی کلیوں ، نئے پھولوں کی تازہ خوشبو بکھری ہوئی تھی ۔ دادا ابا حضور نے شام کو بہت سے مہمانوں کو مدعو کر ڈالا ۔ طلعت آپا کے کمرے کا دریچہ باغ کے اس حصے میں کھلتا تھا جہاں نرگس کے پھولوں کی کیاریاں تھیں ۔ اور نیم پختہ چبوترے کے پاس گھنے آم کے درخت تھے ۔ طلعت آپا ٹی پنک کاٹن کے خوبصورتی اورنفاست سے سلے ہوئے سوٹ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں ۔ سرخ و سفید رنگت پر خوبصورت بے حد گھنی پلکوں والی سیاہ آنکھیں ، کھڑی ناک ، گلابی ہونٹ ، آنکھوں میں سنجیدگی ، متانت اور معصومیت کا امتزاج لیے ۔ ان کے بال سیاہ چمکیلے گھونگھر والے تھے ۔ شاید نہا کہ آئی تھیں اس لیے کمر پر بالوں کا آبشار سا تھا ۔ درازسیاہ بالوں کے درمیان اُن کا چہرہ بدلیوں میں جھانکتا ہوا چاند لگ رہا تھا ۔ پارٹی میں مہمانوں کے جمع ہونے سے پہلے ہی طلعت آپا اپنے کمرے میں جانے لگیں۔ میں نے اُن کا ہاتھ پکڑ لیا ۔
’’ آپی میرے بھیا سے آپ پردہ کرتی ہیں ؟‘‘
وہ ہنس پڑیں ۔ ’’ چل پگلی‘‘۔
میں خاموشی سے اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُس حصے میں لے آئی جہاں عامر بھائی رخسانہ آپی سے باتوں میں مصروف تھے۔
رخسانہ آپا نے طلعت آپا کو ستائشی نظروں سے دیکھا اور بھیا سے بولیں ۔’’ عامر ، خورشید چچا کی بیٹی کو تو تم جانتے ہونا ؟‘‘
بھیا نے سر سری سی نظر اُن پر ڈالی اور مسکرا کر کہا ’’ دادا ابا حضور کی خدمت کرتے دیکھتا ہوں ان کو ‘‘۔
رخسانہ آپی ہنس کر بولیں ’’ تمہاری خدمت پر تو دو پریاں مامور ہیں نا ‘‘۔
طلعت آپی اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔ اس رات وہ کافی رات تک اپنے کمرے کے دریچے کے پردے ہٹائے چاند کو دیکھتی رہیں۔ اس رات شاید چاند کی چودھویں تاریخ تھی ۔ یوں بھی چاندنی رات اُن کی کمزوری تھی۔ سفید ٹھنڈی چاندنی میں وہ سنگ مر مر کے حوض کے کنارے جا بیٹھتی تھیں اور بہت دیر تک حوض کے پانی میں تیرتے کنول کے درمیان چاند کا عکس دیکھا کرتی تھیں ۔ شبنم میں جب اُن کے کپڑے بھیگ جاتے تب اُٹھ کر اپنے کمرے میں آتیں۔
رمضان کی آمد نے حویلی کی رونق میں اور اضافہ کر دیا ۔ سحر و افطار کا اہتمام ساجدہ پھوپھی ، عامرہ پھوپھی ، امی اور چچی جان کے ذمہ تھا ۔ لڑکیاں لڑکے نمازِتراویح ختمِ قرآن، شب قدر اور اعتکاف میں مصروف تھے ۔ دادا ابا کے حکم سے اس سال تینوں نوجوان لڑکوں کو اعتکاف میں بیٹھنے کا حکم ملا تھا۔ مسجد حویلی کے قریب ہی تھی ۔ سحر اور افطار کا کھانا رحیم بابا مسجد میں پہنچاتے ، دادا ابا کی طرف سے مسجد میں بیٹھنے والے تمام معتکفین کے طعام و قیام کا انتظام کیا گیاتھا ۔ افطار کے وقت سب لڑکیاں باورچی خانے میں مختلف کاموں میں مصروف نظر آتیں ۔ صغراں بوا کو رمضان بھر کی چھٹی دے دی گئی تھی تاکہ وہ سکون سے عبادت کر سکیں ۔
رمضان کی چاند رات پر دادا ابا نے استقبالِ رمضان کے حوالے سے مختصر احادیث اور قرآن کا درس دیتے ہوئے سب کو رمضان کی فضیلت سے آگاہ کیا ۔ یوں تو دادا ابا کی حویلی میں ہمیشہ رمضان اسی شان سے گزرتے کہ نوکر مالک سب ایک دستر خوان پر روزہ کھولتے ۔ پھر مرد تراویح پڑھنے چلے جاتے عورتیں تراویح کے بعد دستر خوان بچھاتیں ، اس وقت ’’ جنت کدہ ‘‘ میں انتہائی پاکیزہ ماحول ہوتا ۔ عید کے لیے نوکروں کے نئے جوڑوں اور عیدی کا خاص اہتمام ہوتا ۔ ہر جوڑے کے ساتھ لفافے میں عیدی کی رقم رکھی ہوتی تھی ۔ یہ سب رمضان کے پہلے ہفتے میں ہوتا تاکہ سب اپنی پسند کے مطابق کپڑے سلوا سکیں ۔
ایک خاص بات جو ’’ جنت کدہ ‘‘ کے مکینوں میں پشت ہا پشت سے چلی آ رہی تھی وہ یہ کہ اس حویلی میں رہنے والی ہر لڑکی گھریلو کام کاج میں طاق تھی ۔ گھر میں درزن ، انا ّبوا ، گھریلو کام کاج کے لیے بے شمار نوکر ہوتے ہوئے بھی ہر لڑکی کو سینا پرونا کھانا پکانا آتا تھا ۔ سب لڑکیاں اپنے کپڑے خود سیتی تھیں ۔ آج کل یہ شاید عجیب سی بات لگتی ہے مگر ’’ جنت کدہ‘‘ کا ماحول روایتی مشرقی تھا ۔ رمضان میں نمازِ فجر کے بعد ہر کمرے سے تلاوتِ کلام کی آواز آتی تھی ۔ پھر تھوڑی دیر کو سناٹا ہو جاتا اور سب سو جاتے تھے ۔ دوپہر ہونے سے پہلے لڑکیاں اپنے اپنے کپڑے کاڑھنے ، سینے اور ٹانکنے بیٹھ جاتیں ۔ ایک دوسرے سے مشورہ بھی کرتی جاتیں ۔ ہنسی مذاق بھی ہوتا، طنز کے تیر بھی چلتے مگر سب تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں ۔
رمضان میں دادا ابا حضور نے خاندان بھر کو روزہ افطار پر مدعو کیا۔ اس دعوت میں ہمارے خاندان کے تقریباً سارے لوگ شامل ہوئے جو حویلی سے پرے کسی اور شہر میں رہتے تھے ان کو بھی خاص طور پر مدعو کیا گیا اور ان کے ٹھہرنے کا انتظام حویلی کے بیرونی حصے میں کیا گیا۔ اس دن بھی ایسی ہی تقریب میں بہت سے مہمان جمع تھے ۔ وہ رمضان المبارک کا چودھواں دن تھا ۔ اس شام موسم بہت خوبصورت ہو گیا تھا ۔ ٹھنڈی خوشگوار ہوا کے ساتھ گہرے گہرے بادل آنکھ مچولی کھیل رہے تھے ۔ سارے درخت اور بیل بوٹے سر خوشی کے عالم میں تھے ۔ طلعت آپا ، شہناز آپی ، آصفہ باجی ، رخسانہ آپا اس دن سب کے سب مصروف تھیں ، افطار کا سامان بنانے ، میزوں پر لگوانے اور کھانے کے انتظام میں خاندان کی ساری لڑکیاں شامل تھیں ۔ ان میں بعض چہرے تو عرصے بعد نظر آئے تھے ۔ طلعت آپا سفید سلک کا سوٹ پہنے ہوئے تھیں۔ میں نے ان کو بیلے کے پھولوں کا گچھا تھما دیا ۔
عصر کی نماز کے بعد سب مہمان لان پر رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ کسی نے جیبوں سے تسبیح نکال کر پڑھنا شروع کی کوئی اپنا چھوٹا سا قرآن مجید پڑھنے میں مصروف ہو گیا ۔ لڑکیاں رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس تھیں ۔ طلعت آپا اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو کر کمرےمیں چلی گئیں ۔ رخسانہ آپا نے انہیں اُن کے کمرےمیںجا لیا۔ ڈانٹ ڈپٹ کرکے انہیں گلابی بنا رسی سوٹ پہنایا ۔ افطار ، تراویح اور کھانے کے بعد دادا ابا حضور نے سب مہمانوں کو گول کمرے میں آنے کی دعوت دی ۔ وہ خود بڑی شان سے اپنی کرسی پر بیٹھ گئے جس پر وہ خاص خاص موقعوں پر بیٹھا کرتے تھے ۔ اُن کے دائیں بائیں ابا جان ، چچا جان ، فریدی بھیا ، شہباز بھائی اور عامر بھائی تھے ۔
انہوں نے سارے مہمانوں کے بیٹھنے کے بعد اپنی اس تقریب کے انعقاد کا مقصد بیان کیا کہ در اصل وہ چاہتے ہیں کہ خاندان کے لڑکوں کے لیے اُن کی دلہن کا انتخاب کیا جائے اور اسی لیے انہوں نے یہ خوبصورت تقریب منعقد کی تھی ۔ سب دم سادھے بیٹھے تھے ۔خاندان کی کئی لڑکیاں مضطرب نظر آ رہی تھیں ۔ دادا با حضورنے سب سے پہلے ابا جان پھر چچا جان پھر تینوں لڑکوں سے آہستہ آہستہ سر گوشی کی ۔ دادا ابا حضور کے سامنے شیشے کی میز پر چاندی کی ٹرے میں نولکھا ہار رکھا تھا ۔ جس کے لیے مشہور تھا کہ یہ خاندانی ہار بڑی بہو کو پہنایا جاتا ہے ۔ اس ہار میں ساٹھ ہیرے اور چھے ہزار سچے موتی لگے ہوئے تھے ۔
دادا ابا نے مخملیں کیس میں سے ہار نکالا ۔ لڑکیوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں ۔ آصفہ باجی نے شرما کر سر پر بنارسی ساڑھی کا پلو ڈال لیا ۔ شہناز آپی کا ر چوبی کا مدار جوڑے میں چھوئی موئی ہوئی جا رہی تھیں ۔ دادا ابا حضور نے ہار ہاتھ میں لیا اور نپے تلے قدموں سے چلتے ہوئے امی کے پاس رُک گئے ۔ پھر انہوں نے جھُک کر امی کے پہلو میں بیٹھی ہوئی طلعت آپا کے گلے میں وہ نولکھا ہار ڈال دیا ۔ طلعت آپا اس غیر متوقع انتخاب پر بوکھلا کر کھڑی ہو گئیں ۔ اُن کا رنگ زرد ہو گیا ۔ دادا ابا نے مسکرا کر انہیں دیکھا اور رخسانہ آپا کو انہیں باہر لے جانے کا اشارہ کیا ۔ رخسانہ آپا طلعت آپا کو لے کر باہر آئیں تو انہیں سینے سے لگا کر چمٹا لیا ۔
’’ طلعت تمہیں بہت مبارک ہو ۔ خدا کا شکر ہے کہ آج دادا ابا حضور نے خورشید چچا سے کیا ہؤا وعدہ پورا کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ تم دونوں کو ہمیشہ شادو آباد رکھے اور حاسدوں کے حسد سے محفوظ رکھے ‘‘۔
چچی جان نے اس تقریب میں اپنے دونوں بیٹوں کے لیے آصفہ باجی اور شہناز آپا کو مانگ لیا۔ اس طرح ساجدہ پھوپھی کے سینے میں بغض وعداوت اور حسد کے شعلے وقتی طور پر سرد پڑ گئے تھے ۔ بظاہر ماحول پرسکون ہوگیا ۔ بات کیوں کہ گھر کے اندر ہی کی تھی اس لیے شادی کی تاریخ بھی اسی دن طے کرلی گئی تھی یعنی عید کے دوسرے دن ۔
طلعت آپا ان دیکھے خوابوں کے اچانک پورا ہو جانے پر حیران تھیں ۔ کبھی کی کوئی بھولی بسری دعا کے پورے ہو جانے پرششدر ۔ یہ اُن کے لیے تقدیر کی کوئی خوبصورت سی سازش تھی یاشاید خوابوں کی تعبیر یا کسی تشنہ آرزو کی تکمیل۔بہر حال جو کچھ بھی تھا بالکل حیران کر دینے والا خوبصورت حادثہ تھا ۔ امی تو اب آتے جاتے اُن کی بلائیں لیتیں ۔ مجھے انہوں نے طلعت آپا کی حفاظت پر مامور کر دیا تھا ۔ نہ جانے کون سے ایسے وہم یا خدشات تھے جس کی بنا پر انہوںنے مجھے طلعت آپا کے کمرے میں رہنے اور سونے پر آمادہ کر لیا تھا ۔حالانکہ میں اس وقت نو عمر ہی تھی۔ شاید دس گیارہ سال کی دبلی کمزور ، منحنی سی ۔ مگر امی کا خیال تھا کہ میں اور میری ایرانی بلی مل کر گیارہ لوگوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ اسی مان کا میں بھرم رکھنے جا رہی تھی۔
عید کے دوسرے دن اس خوبصورت لمحہ کا وقت آن پہنچا جب حویلی کی تین بیٹیاں رخصت ہو کر ایک حصے سے دوسرے حصے میں منتقل ہونے جا رہی تھیں ۔ تینوں لڑکیاں رخسانہ آپا کے کمرے میں مایوں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ میرا اور عامر بھائی کا اس طرف جانا ممنوع تھا مگر میں رخسانہ آپا کی کھڑکی سے کود کر تینوں دلہنوں کی خبر لے آتی تھی ۔ عامر بھیا رخسانہ آپا سے کوئی ضروری بات کرنے کے بہانے اس طرف نکل آتے ۔
طلعت آپا کئی دن سے مسلسل رو رہی تھیں ۔ اپنے والدین کی یاد اُن کو اس خوشی کے موقع پر تڑپا رہی تھی۔ اتنی خوشی اور چہل پہل میں مَیں نہ جانے کیوں بہت اداس تھی ۔ رخسانہ آپا سے میں نے کہا ’’ آپی میرا دل بہت گھبرا رہا ہے ۔ پتہ نہیں کیوں ‘‘۔
وہ میرے گال تھپتھپا کر بولیں ’’ زیادہ خوشی میں ایسا ہی ہوتا ہے‘‘۔
میں اپنی چمپا کو سینے سے لگا کر مہمانوں میں آگئی ۔ چمپا مہمانوں کو دیکھ کر پریشان ہو رہی تھی وہ بار بار میری گود میں گھس جاتی ۔ چند لمحوں بعد پھر پیروں سے اپنا منہ رگڑتی ۔ نکاح کے بعد تینوں دلہنوں کو گول کمرےمیںتیار کر کے لایا گیا ۔طلعت آپا سرخ عروسی جوڑے میں بلا کی حسین لگ رہی تھی۔ سرخ و سفید رنگ ، غلافی آنکھیں اُن پر سیاہ لمبی پلکوں کی جھالر ۔ وہ روتے روتے نڈھال ہو گئی تھیں ۔ رخسانہ آپا اور امی اُن کو دونوں طرف سے سہارا دیے ہوئے تھیں ۔ آپا نے مجھے کچن سے دودھ لانے کے لیے کہا ۔
میں وہاں پہنچی تو ساجدہ پھوپھی دودھ کا گلاس لیے آ رہی تھیں ۔ مجھ سے بولیں ’’ لو بیٹا یہ طلعت کو پلا دو ۔ بچی کئی دن سے رو رو کر ہلکان ہو رہی ہے۔
میں نے حیرت سے اُن کو دیکھا اور دودھ کا گلاس ان کے ہاتھ سے لے لیا۔ دلہن کے پاس پہنچتے پہنچتے دودھ چھلک چھلک کے تلی میں لگا رہ گیا ۔ گلاس طلعت آپا کو پکڑاتے ہوئے نہ جانے چمپا کو کیا ہؤا کہ اُس نے تیزی سے چھلانگ لگائی اور گلاس کا بچا کچھا دودھ بھی گرپڑا۔ اُس نے وہیں زمین پر گرا ہوا دودھ چاٹ لیا ۔ آر سی مصحف کے لیے جب دلہنوں کو لایا گیا تو میری چہیتی بلی بھی لاش کی صورت میں لائی گئی ۔ دودھ کے چند قطرے اس کی جان لے چکے تھے ۔ اتنا سریع الاثر زہر ساجدہ پھوپھی نے طلعت آپا کے لیے کہاں سے حاصل کیا ؟ یہ راز آخر تک نہ کھل سکا ۔
امی جان کے اندیشے یقیناً بالکل درست تھے نہ جانے انہیں کیوں اس بات کا بہت پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ طلعت آپا اور عامر بھائی کا ملن ساجدہ پھوپھی کو کسی نہ کسی انتقام پر آمادہ کرے گا اور اسی لیے انہوں نے مجھے بہت چوکس رہنے کی ہدایت کی تھی ۔ مجھے یاد ہے امی نے مجھ سے کہا تھا ، طلعت کے کھانے کا خاص خیال رکھنا ، کوئی بھی اُس کو کھلانے کے لیے تمہیں دے وہ تم پہلے میرے پاس لانا خواہ وہ کوئی بھی ہو اور اُس ’’کوئی ‘‘ پر انہوں نے کافی زور دیا تھا ۔ جب امی نے مجھے طلعت آپا کے ساتھ رہنے کی ہدایت کی تو میں نے اُن سے کہا تھا ۔
’’ آپ کس بات سے خوفزدہ ہیں ۔ کیا آپا کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتا ہے ؟مجھے بتائیں نا میں دادا ابا سے شکایت کروں گی ‘‘۔
اور امی نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے مگر نہ جانے کیوں مجھے ڈر سا لگ رہا ہے ۔ خدا کرے یہ شادیاں خیرو عافیت سے ہو جائیں ‘‘۔
چمپا نے اس گھر کی خوشیوں کی خاطر اپنی جان دے کر میرا اور میری امی کا مان رکھ لیا تھا ۔ ساجدہ پھوپھی حیران پریشان تھیں ۔ مجھے بلی کے لیے تڑپتا دیکھ کر طلعت آپی نے مجھے سینے سے لگا لیا ۔ رخسانہ آپا تو میرے ساتھ ساتھ رو رہی تھیں۔وہ بار بار یہی کہہ رہی تھیں ۔
’’ اگر یہ دودھ طلعت کے حلق تک پہنچ جاتا تو ؟‘‘
ساجدہ پھوپھی اعترافِ گناہ کے بعد ہلکی پھلکی ہو گئیں ۔ طلعت آپا نے ان کو صدقِ دل سے معاف کر دیا تھا ۔ مگر میں نے جانے کیوں ان کی طرف سے اپنا دل صاف نہ کر سکی ۔ مجھے ان کی شکل دیکھ کر کراہت سی آتی تھی ۔ کوئی انسان اپنی خواہشات کی آسودگی کے لیے اتنی آسانی سے کسی کی جان بھی لے سکتا ہے ؟اور پھر وہ سکون اور چین سے زندہ و خوش بھی رہ سکتا ہے ؟ یہ بڑے حوصلے کی بات ہے بہر حال میں نے اُن کو کبھی معاف نہیں کیا ۔
جرم و سزا و انتقام کا یہ رنگ شاید ’’ جنت کدہ‘‘ میں اب دُور دُور تک نہیں ہے ۔بقول امی کے اب سب کے دل صاف ہو گئے ہیں ۔ آئینے کی طرح بے داغ اور شفاف۔ کیونکہ اب اس حویلی میں تین بہوئیں اپنی اولادوں کے ساتھ مائوں کے چھپر تلے رہتی ہیں ۔ میں شادی کے بعد بہت عرصے دنیا گھومتی رہی ۔ اب عامر بھائی اور طلعت آپا کی بیٹی کی شادی رخسانہ آپا کے بیٹے سے طے ہو گئی ہے جس میں شرکت کے لیے میں جنت کدہ جا رہی ہوں ۔ دل پر عجیب سا بوجھ ہے ۔ مگر سب کی خوشیاں عزیز ہیں ۔ اس لیے میں نے بھی سب بھلا دینے اور ساجدہ پھوپھی کو معاف کر دینے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔
خوشبوئوں کی مہک قریب آچکی ہے ۔ شاید میں جنت کدہ کے بالکل قریب پہنچ گئی ہوں ۔ جی ہاں چنبیلی ، مولسری، بیلا ، گلاب ، رات کی رانی کی مہک کا تیز جھونکا آیاہے ۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here