بتول جولائی ۲۰۲۴تربیت اولاد اور اس کے راہنما اصول - بتول جولائی ۲۰۲۴

تربیت اولاد اور اس کے راہنما اصول – بتول جولائی ۲۰۲۴

اچھی پرورش اور تربیت کے ذریعے اولاد دنیا کی زندگی کی آرائش اور آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ثابت ہو سکتی ہے اور آخرت کے لیے صدقہ جاریہ بھی۔ اولاد نسل انسانی کی بقا کا ذریعہ ہونے کے ساتھ والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک، رحمت و برکت اور رزق کے نزول کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ اولاد جہاں والدین کے لیے زندگی کا سہارا اور بڑھاپے کی توقعات کا ذریعہ ہوتی ہے وہیں ایک امانت اور ایک آزمائش بھی ہے۔ والدین اور اولاد کا تعلق اس دنیا کی زندگی کے خاتمے کے ساتھ منقطع نہیں ہوتا بلکہ والدین کے انتقال کے بعد بھی اولاد اعمالِ صالح کے ذریعے والدین کے لیے اجر و ثواب کا ذریعہ بنتی ہے۔ اچھی پرورش اور تربیت کے ذریعے اولاد دنیا کی زندگی کی آرائش اور آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ثابت ہو سکتی ہے اور آخرت کے لیے صدقہ جاریہ بھی۔ اس کے برعکس صالح تربیت اور رہنمائی سے غفلت کی بدولت اولاد دنیا کی زندگی میں بھی تنگی، سختی، پریشانی غم اور حزن کا باعث بنتی ہے اور اکثر آخرت کے نقصان کا ذریعہ بھی۔
تربیت اولاد کا عمل درحقیقت آغاز حمل سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور بچپن کے تمام مراحل، جوانی اور شادی تک جاری رہتا ہے۔ اس دور کے بعد بھی والدین کی طرف سے اولاد کی راہنمائی اور محبت و شفقت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تربیت کے تمام مراحل میں اولاد کے حقوق کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔
اولاد کے حقوق
صالح اولاد کی خواہش کرنا اور اس کے لیے دعا کرنا
حمل میں ماں اور بچے کی دیکھ بھال کرنا
پیدائش پر خوشی کا اظہار کرنا اور اس میں لڑکا اور لڑکی کے درمیان کوئی فرق نہ کرنا
نیک شخص سے تحنیک یعنی گھٹی دلوانا
کان میں اذان کہنا
اچھا اور بامعنی نام رکھنا
عقیقہ کرنا (جو کہ سنت ہے واجب یا فرض نہیں)
سر مونڈنا (حلق کرانا سنت ہے)
لڑکوں کا ختنہ کروانا
رضاعت
کفالت
محبت اور شفقت کرنا اور اس کا اظہار کرنا
تعلیم دینا
اچھی تربیت کرنا
مناسب وقت پر رشتہ کرنا
ازدواجی زندگی اور بعد کی زندگی کے لیے تمام رہنمائی فراہم کرنا
تربیت اولاد کے اہم اصول
مندرجہ بالا تمام حقوق کی رعایت رکھتے ہوئے والدین کی طرف سے پرورش اور تربیت کا فریضہ درحقیقت اولاد کا ایک حق ہے نہ کہ بوجھ یا ان پر کوئی احسان۔ اولاد کی تربیت ہمہ جہتی ذمہ داری ہے جس میں ایک ایک بچے کی جسمانی، عقلی، اخلاقی، معاشرتی، نفسیاتی اور جنسی تربیت شامل ہے۔ بچوں کی زندگی میں نشوونما کے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے بنیادی اصول تو وہی رہیں گے البتہ طریقہ کار میں تبدیلی آتی رہے گی۔ تربیت اولاد کا مدعا اور منتہی ایک بہترین فرد کی تیاری ہے جو انفرادی طور پر اللہ کے احکام کی اطاعت کرنے والا اور تمام خلق خدا کے حقوق ادا کرنے والا ہو۔ اجتماعی طور پر ایک مثالی معاشرے کے قیام میں ممد و معاون ہو اور والدین کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے لیے صدقہ جاریہ ثابت ہو۔
تربیت اولاد کی ذمہ دار ہستیاں
اولاد کی پرورش اور تربیت کے لیے بنیادی طور پر والدین کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، البتہ اسلام کے خاندانی نظام کے تحت گھروں میں موجود بزرگ والدین (دادا، دادی،، نانا نانی) اور دیگر رشتہ داروں کو بھی اس عمل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ گھر کے ابتدائی ماحول سے باہر نکلنے کے بعد تعلیمی اداروں اور ان میں موجود اساتذہ کرام کا بھی بچوں کی تربیت میں اہم کردار ہوتا ہے، جس کا احساس رسول اللہؐ نے اساتذہ کو روحانی والدین کی حیثیت دے کر دلایا ہے۔ ان تمام مربی حضرات و خواتین کے لیے اس اہم فریضے سے عہدہ براٰ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ہستیاں چند بنیادی صفات سے متصف ہوں، جن میں علم، اخلاص، تقویٰ، حلم و بردباری، احساس مسؤلیت اور عملی نمونہ فراہم کرنا سر فہرست ہیں۔ تربیت اولاد کا فریضہ اور اس کی مسؤلیت درج ذیل آیت اور احادیث سے واضح ہوتی ہے۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘( سورہ التحریم:۴)
’’انسان کا اپنے بچے کو تربیت دینا اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک صاع صدقہ کرے‘‘۔ (جامع ترمذی ابواب البرو صلہ حدیث 2017)
’’باپ اپنے اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہترعطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے‘‘۔ (جامع ترمذی) ’’اللہ تعالیٰ ہر شخص سے اس کے ماتحتوں اور زیر کفالت افراد کے بارے میں سوال کرے گا کہ ان کے حقوق کو ادا کیا یا ضائع کر دیا حتیٰ کہ ہر انسان سے اس کے گھر والوں اور اہل و عیال کے بارے میں بھی سوال ہوگا‘‘۔ (ابن حبان)
تربیت کے مختلف پہلو
1۔ ایمانی پہلو کی تربیت
ایمانی پہلو کے دائرے میں سب سے پہلے کلمہ سکھاتے ہوئے بچے کو اللہ کی ذات مبارکہ سے متعارف کروانا اور بتدریج اسلامی عقائد کے بارے میں تفصیلی آگاہی فراہم کرنا ہے۔ بنیادی عقائد میں اللہ پر ایمان، رسالت پر ایمان، الہامی کتابوں پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، تقدیر پر ایمان اور آخرت پر ایمان شامل ہیں۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ کے وجود کے احساس اور اس کی صفات کے بارے میں آگاہی مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے محبت کو پروان چڑھایا جائے۔ نیز نبی کریم ﷺ کی محبت دل میں اس طرح پیدا کی جائے کہ بچہ انہیں رہبر و رہنما تسلیم کر کے اپنی زندگی سنت کے مطابق گزارنے پر آمادہ ہو جائے۔ بچے کو عمر کے ہر حصے میں گمراہ کن عقائد و نظریات سے بچانا بھی نہایت ضروری ہے۔ گاہے بگاہے بچے کے ایمانی پہلو کی نگرانی اور جانچ پڑتال بھی کی جانی چاہیے۔ بچپن میں ایمان کی بنیادی باتیں اور اصول سکھانے کے بعد بڑھتی عمر اور شعور کے ساتھ ایمان کے عملی زندگی میں مظاہر کی طرف توجہ دلائی جانی چاہیے۔
2۔ دینی پہلو کی تربیت
عمر کے مختلف مراحل کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کو بتدریج نماز، روزہ اور دیگر احکام کی ادائیگی کا عادی بنانا چاہیے۔ بچوں کو ہدایت کے سرچشمے سے جوڑنے کے لیے ناظرہ قرآن کی تعلیم کے علاوہ تلاوت قران کا عادی بنانا، سورتیں حفظ کروانا، قرآن ترجمے سے سکھانا اور سیرت رسولؐ سے تعلق جوڑنا، گھریلو اور سماجی زندگی کے آداب سکھانا، حقوق العباد کی آگاہی دینا، شادی سے قبل اور بعد نکاح و طلاق زوجین کے حقوق و فرائض اور میراث کے احکامات کا علم دینا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح بچے میں داعی دین بننے کا جذبہ پیدا کرنا، کام کرنے کے طریقے سکھانا، کسی دینی اجتماعیت سے جوڑنا اور اس جذبے کو وقتا فوقتا مہمیز عطا کرنا اور اس کے لیے اللہ سے دعا کرنا بھی تربیت کے ضمن میں اہم تقاضے ہیں۔
3۔ جسمانی پرورش و تربیت
غذائی ضروریات اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ کھانے پینے، سونے جاگنے، کھیلنے کودنے میں صحت مند رویوں کو فروغ دینا، بیماریوں سے بچاؤ کی ممکنہ تدابیر اختیار کرنا، بچوں کو ورزش اور جسمانی مشقت کا عادی بنانا، جسمانی کھیلوں کے مواقع فراہم کرنا، سستی اور کاہلی سے بچانا،ا جسمانی اور ماحول کی صفائی کے اصولوں کا عادی بنانا، سگرٹ نوشی، شیشہ یا دیگر نشہ آور اشیاء کے استعمال سے بچانا اور ان کے برے اثرات سے آگاہی فراہم کیا جانا ضروری ہے۔ بچے میں کسی قسم کی معذوری کی صورت میں والدین کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں ان کی مخصوص ضرورتوں کا خیال رکھنا، باقاعدہ طبی معائنہ، تھیراپیزاور بہتری کے لیے دیگر تدابیر اختیار کرتے ہوئے بچوں کو ممکنہ حد تک خود انحصاری تک پہنچانا والدین کی ذمہ داری ہے۔
4۔ اخلاقی تربیت
اخلاقی تربیت کی بنیاد اچھے اخلاق کو پروان چڑھانا اور برے اخلاق سے بچانا ہے ۔ اچھے اخلاق میں سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا، امانتوں کو پہچاننا اور انہیں ادا کرنا، حیا، قناعت، سخاوت، ایثار و ہمدردی، عاجزی، رواداری،، حلم و بردباری، صبر اور شجاعت وغیرہ شامل ہیں۔ برے اخلاق میں جھوٹ بولنا ،گالم گلوچ، وعدہ خلافی، تکبر، بے حیائی، حسد، بخل، غیبت، بدگمانی، چغل خوری، غصہ اور لڑائی جھگڑا وغیرہ شامل ہیں۔ اخلاقی پہلو کی تربیت کے مراحل طویل ترین ہیں اور اس میں عملی مشکلات بھی بہت پیش آتی ہیں۔ مربی خواتین و حضرات کو اس حوالے سے عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے۔
5۔ عقلی و ذہنی تربیت
عقلی تربیت سے مراد بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو جِلا بخشنا، اس کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات پر اطمینان بخش جواب دینا اور مطمئن کرنا، فکر میں پختگی پیدا کرنا، معاشرتی مسائل اور ذمہ داریوں کا شعور بیدار کرنا، سیاسی شعور دینا، بین الاقوامی معاملات کا شعور دینا، اپنے نظریے کی حفاظت اور اس پر استقلال سکھانا شامل ہیں۔
6۔ نفسیاتی تربیت
نفسیاتی اصولوں کی روشنی میں بچے کی ضروریات کا فہم حاصل کرنا اور اس کے مطابق سلوک کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے اس حوالے سے والدین اور اولاد کے درمیان ذہنی ہم آہنگی اور موثر ابلاغ کا پایا جانا بہت ضروری ہے جو بہت سے مسائل کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا ۔اپنے بچے کو جاننا، اس کی مخصوص صلاحیتوں اور ضروریات کا ادراک کرنا ،بچوں میں مجموعی طور پر مثبت انداز فکر پیدا کرنا اور منفی اندازِ فکر کی حوصلہ شکنی کرنا ،منفی عادات مثلاًاحساس کمتری یا برتری کا تدارک، خوف و ڈر، بغض و حسد ، غصہ اور شرمیلہ پن ،جھجک اور دیگر کو مناسب تدابیر کے ذریعے بچے کی شخصیت سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
7 ۔ معاشرتی تربیت
خاندان کے باہر تمام سماجی تعلقات (یعنی رشتہ دار، دوست احباب، ہمسائے، وغیرہ) کو قائم کرنا اور نبھانا، اپنے اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرنا، والدین، نانا، نانی، دادا، دادی، بہن، بھائی و دیگر رشتہ دار، معاشرے کے بڑوں اور چھوٹوں، استاد اور محروم طبقات (ملازمین، سائل، معذور، یتیم، بیوہ وغیرہ) سے متعلق اپنے فرائض کی ادائیگی کا احساس دلانا اور آداب معاشرت سکھانا بھی والدین کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔
8۔ جنسی تربیت
مختلف معاملات میں بچوں کے فطری تجسس کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب رہنمائی فراہم کرنا، حیا کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوالوں کے جوابات کے ذریعے معلومات فراہم کرنا، بڑھتی عمر کے ساتھ جسمانی تقاضوں سے آگاہی اور مناسب رہنمائی دینا، 10 سال کے بعد بچوں کا بستر علیحدہ کر دینا، ساتر لباس کی ترغیب دینا اور عادت ڈالنا، استیذان (یعنی گھروں یا کمروں میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کرنا) کےاصول سمجھانا، محرم اور غیر محرم رشتوں کا فرق بتلانا، بلوغت سے قریب اور بعد از بلوغت فقہی احکامات سے متعارف کروانا، شادی شدہ زندگی کے احکامات مناسب موقع پر بتانا، یہ تمام والدین کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو جسمانی تحفظ کی تعلیم دینا، اختلاط مرد و زن سے بچانا، بری صحبت سے بچانا، جنسی جذبات کو انگیز کرنے والی سرگرمیوں یعنی ایسی کتب اور فلموں سے دور رکھنا، جنسی طور پر سراسیمگی سے بچانے کے لیے حتی المقدور چوکنا رہنا ازاحد ضروری ہے۔ اس حوالے سے لڑکوں کی بھی حفاظت و نگرانی ہونی چاہیے لیکن لڑکیوں کے معاملے میں یہ بہت زیادہ اہم ہے۔ دور حاضر میں جینڈر کے حوالے سے مختلف پراگندہ خیالات اور طور طریقوں کے بارے والدین کو خود بھی آگاہی حاصل کرتے ہوئے اپنے بچوں کو اسلامی نقطۂ نظرسے دلائل کے ساتھ واقف کروانا نہایت اہم ہے۔٭
٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here