کرونا لاک ڈائون جہاں بہت کچھ لے کر گیا ، وہاں بہت کچھ سیکھا بھی گیا۔ لاک ڈائون کی وجہ سے سب کچھ بند ہو گیا لیکن ایک چیز جو چل رہی تھی وہ NET،اور اس کی وجہ سے سب ایک دوسرے سے وابستہ رہے اور بہت کچھ سیکھنے سکھانے کے ساتھ الحمد للہ قرآن کی تعلیم سے اور زیادہ جڑ گئے اورفراغت کے ان اوقات میں قرآن کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔
مجھے ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ ہم جو کچھ بچوں کو سکھانا چاہتے ہیں وہ باتوں سے نہیں عمل سے سکھانا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہترین موقع دیا کہ اپنے نواسے محمد عالیان کو جوماشاء اللہ بہت ذہین ہے ،( ویسے توسارے بچے ہی ذہین ہوتے ہیں لیکن جب اس سے 24گھنٹے کا ساتھ رہا تو اندازہ ہوا)، کچھ سکھا سکوں۔ جب میں موبائل پرقرآن پڑھا رہی ہوتی سیکھ، اور سیکھا رہی ہوتی تو عالیان بہت دھیان سے سنتا اس نے علم کے اضافے کی اورمجلس کے کفارے کی دعا سن سن کر یاد کرلی ۔ میں بہت محتاط ہو گئی تھی کہ جو میں کہتی ہوں ، میرا عمل بھی اُس کے مطابق ہونا چاہیے ۔لیکن ظاہر ہے انسان ہونے کے ناطے بھولنے کی بیماری تو ہے ہی۔ ایک دن میں نے عالیان کو بلایا کہ قاری صاحب کے آنے سے پہلے مجھے سبق سنا جائیں ۔ عالیان تیسواں پارہ لے کر میرے پاس آگیا ۔ میں سالن بنا رہی تھی اوربس دم پر رکھنے والی تھی ۔ عالیان نے کہا :
’’ نانو! سب سن لیں ۔‘‘میں نے کہا :
’’ آپ سنانا شروع کرو میں سن رہی ہوں۔‘‘ میرا یہ کہنا تھا کہ محمد عالیان صاحب غصہ میں یہ کہتے ہوئے چل دیے کہ ’’ میں نے نہیں سنا نا۔‘‘ میں آواز یں دیتی رہ گئی ۔ لیکن عالیان نے جو بات اپنی ماں سے جا کرکہی ، میں حیران ہونے کے ساتھ ساتھ شرمندہ بھی ہوئی ۔ اس نے کہا:
’’ماما! کیا کسی کے دودل ہوتے ہیں کہ ایک سے سالن بنائے اورایک سے سبق سنے۔‘‘
عالیان کا اشارہ یقینا سورہ احزاب کی اس آیت کی طرف تھا جس پر کچھ دن پہلے کلاس میں بات ہوئی تھی کہ :
’’ کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دودل نہیں رکھے …‘‘(سورۃ احزاب آیت 4)٭
٭…٭…٭