پیارے بچو! یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ علامہ اقبال صرف ایک عظیم شاعرہی نہیں بلکہ ہمارے قومی شاعر بھی ہیں۔انھوں نے شاعری کے ذریعے اپنی قوم میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دینے اور بلند کردار کی تعمیر کرنے کے لیے جو کوششیں کیں ، وہ قابلِ تعریف ہیں۔ اقبال نے جہاں بڑوں کے لیے لکھا، وہاں بچوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا،حالانکہ عموماً دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بڑے شاعر،اور وہ بھی علامہ اقبال کے پائے کے ، بچوں کے لیے نہیں لکھتے، اور اگر لکھیں بھی تو انھیں اپنے باقی کلام سے الگ رکھتے ہیں۔لیکن اقبال نے ناصرف بچوں کے لیے لکھا، بلکہ بہت خوب لکھا اور اس کو اپنے بڑوں کی شاعری والے مجموعہ ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل کیا۔
اقبال نے بعض نظمیں تو بچوں ہی کے لیے لکھی تھیں جن میں ’’ایک مکڑا اور مکھی‘‘ ’’ ایک پہاڑ اور گلہری ‘‘ ’’ ایک گائے اور بکری ‘‘ ’’ بچے کی دعا‘‘ ’’ہمدردی‘‘ ’’ ماں کا خواب ‘‘ اور ’’پرندے کی فریاد‘‘ ایسی نظمیں ہیں جن پر’’بچوں کے لیے‘‘لکھا ہوا ہے، لیکن بعض نظمیں ایسی ہیں جن پر’’ بچوں کے لیے‘‘ لکھا تو نہیں ہوا،لیکن انھیں بھی اقبال کی بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں میں شمار کیا جاتا ہے۔مثلاً ’’ترانۂ ہندی‘‘ ’’ جگنو‘‘ ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ ’’ طفلِ شیر خوار‘‘ اور ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘ ۔
بچوں کے لیے اقبال کی لکھی گئی یہ تمام نظمیں اپنے اندر کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق لیے ہوئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال بچوں کی اخلاقی تربیت کو کتناضروری سمجھتے تھے۔ نظم’’ ایک مکڑا اور مکھی‘‘ ہمیں بتاتی ہے کہ’’ خوشامد بری بلا ہے‘‘۔ اسی طرح ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ غرور اور تکبر سے باز کرتی ہے،اور ہمیں سمجھاتی ہے کہ
۔؎ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
ہمدردی‘‘ سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ’’
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے؎
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
’’ایک گائے اور بکری‘‘ ناشکری سے منع کرتی ہے، ’’پرندے کی فریاد‘‘ آزادی کی قدر سکھاتی ہے ،اور ’’بچے کی دعا ‘‘ توشاید سب سے مقبول نظم ہے او ر ہم میں سے ہر کسی نے اپنے سکول میں خوب زور و شور سے پڑھی ہوئی ہے، یقیناً آپ سب بچے بھی پڑھتے ہوں گے۔جی ہاں وہی نظم:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری؎
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
’’جگنو‘‘ اور ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘ دونوں نظمیںپہاڑ اور گلہری کی نظم کی طرح اس بات کا درس دیتی ہیں کہ اللہ نے ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خاص بات رکھی ہے، اس لیے کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اور پھرہر کسی کی مختلف خوبیوں کی وجہ سے ہی تو دنیا کی رنگا رنگی قائم ہے۔
’’ہندی ترانہ‘‘ اور ’’ہندوستانی بچوں کا گیت‘‘ بچوں کو وطن سے محبت سکھاتے ہیں۔ آپ حیران تو نہیں ہو رہے کہ اقبال نے پاکستانی بچوں کا گیت لکھنے کے بجائے ہندوستانی بچوں کا گیت کیوں لکھا؟ توبچو، بات یہ ہے کہ پاکستان اقبال کی زندگی میں نہیں بنا تھا بلکہ ان کی وفات کے نو سال کے بعد بنا تھا۔لہٰذا اس وقت تک سارے لوگ ہندوستانی ہی کہلاتے تھے اور اسی لیے اقبال نے بھی اپنی نظم کا نام’ ’ہندوستانی بچوں کا ترانہ‘‘رکھا تھا۔
بچو! امید ہے کہ آپ اقبال کی ان نظموں کو ناصرف پڑھیں گے بلکہ زبانی یاد بھی کریں گے ؛اور ان میں دیے گئے اخلاقی سبق کو اپنی زندگی کا حصہ بھی بنائیں گے؛تاکہ اقبال کی خواہش کے مطابق آپ اعلیٰ اخلاق اوربلند کردار والے بنیں،جن پر آپ کا ملک ہی نہیں بلکہ ملتِ اسلامیہ بھی فخر کرے۔
٭…٭…٭